اشاعتیں

فروری, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کیا جہالت اور انتہا پسندی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں؟؟

پوری دنیا میں ہم تماشا بنے ہوئے ہیں!!   ایک طرف عملی طور پر ہم بطور مسلمان ہی نہیں‘ بطور انسان بھی بدترین ہیں! ہماری تجارت بددیانتی سے عبارت ہے۔ ہم میں سے بھاری اکثریت‘ بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو جھوٹ کو جھوٹ نہیں سمجھتے! آپ کسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہاں ہو؟ وہ گھر بیٹھا ہے مگر کہے گا کہ بس جی شیر پاؤ پُل سے گزر رہا ہوں۔ غور کیجیے! کیا اکثر ایسا نہیں ہوتا؟ وعدہ خلافی ہمارا معمول ہے۔ ملاوٹ‘ ناروا منافع خوری‘ ٹیکس چوری‘ پڑوسیوں اور اقربا کے حقوق سے غفلت‘ یہ سب برائیاں ہماری پہچان بن چکی ہیں۔ ہماری ٹریفک قانون اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ وقت کی پابندی حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک عنقا ہے۔ ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جس کی ہمارے مذہب نے ممانعت کی ہے اور وعید سنائی ہے۔  دوسری انتہا یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی مدارس کی تعداد کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ ہے۔ تبلیغی جماعت کا عالمی مرکز ہمارے ملک میں واقع ہے۔ ہر مسلک کی تبلیغی جماعتیں شہر شہر‘ گاؤں گاؤں‘ محلہ محلہ‘ گلی گلی رات دن پھر رہی ہیں۔ مسجدوں میں صبح شام قرآن پاک اور حدیث کے درس دیے اور سنے جاتے ہیں۔ جمعہ کی...

تشدد کا ایشو اور اس کا حل

بجلی کے پنکھوں سے پہلے کپڑے کے مستطیل پنکھے ہوتے تھے جو کمرے کے درمیان‘ چھت سے لٹکائے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ رسی بندھی ہوتی تھی۔ ایک آدمی اس رسی کو کھینچنے پر مامور ہوتا تھا۔ رسی کھینچنے سے پنکھا ہلتا تھا اور کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد کو ہوا لگتی تھی۔ انگریز دور میں یہی پنکھا استعمال ہوتا تھا جسے مقامی ( یعنی ہندوستانی ) خدام کھینچتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے' شہاب نامہ‘ میں لکھا ہے کہ سخت گرمی اور تھکاوٹ کی وجہ سے نوکر کبھی سو بھی جاتا تھا۔ ایسے میں انگریز افسر اسے جگانے کے لیے پاؤں سے ٹھوکر مارتا تھا۔کبھی کبھی بوٹ کی ٹھوکراس طرح لگتی تھی اور ایسی جگہ لگتی تھی کہ نوکر کی موت واقع ہو جاتی تھی۔قتل کے اس جرم میں سفید فام قاتل کو سزا دی جاتی تھی جو دو روپیہ جرمانے کی صورت میں ہوتی تھی! آپ کا کیا خیال ہے کہ سفید چمڑی کے جانے کے بعد صورت حال بدل گئی ہو گی؟ نہیں! پولیس تشدد سے جن شہریوں کی موت واقع ہوتی ہے اس کے بدلے میں کتنے قاتلوں کو پھانسی دی گئی ہے؟ کتنوں کو عمر قید کی سزا ملی ہے؟ اگر کسی پارلیمنٹ کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو اس حوالے سے اعداد و شمار پوچھتی اور قوم کو بھی بتاتی! اب ت...

عصا اور فرعون

…… پہلی بار عصا پکڑنے کی ضرورت اُس وقت محسوس ہوئی جب میں ابھی ، نسبتا” ، جوان تھا۔  { طبیعت خراب ہوئی تو وفاقی دار الحکومت کے سب سے بڑے ہسپتال میں لے جایا گیا ۔ وہاں ایک بہت بڑے ڈاکٹر صاحب  تھے۔ ان کے نام کے ساتھ ڈگریوں کی قطار لگی تھی۔ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ  مشرق وسطیٰ کے  فلاں بادشاہ کے ذاتی معالج ( پرسنل فزیشن) رہے ہیں!  ان کے علاج سے فائدہ تو کیا ہوتا، کئی مزید عارضے لاحق ہو گئے۔ یہاں تک کہ چلنے میں دقت ہونے لگی! بالآخر عصا کا سہارا لینا پڑا!  ان بہت بڑے ڈاکٹر صاحب کی تشخیص ہی غلط تھی۔ چونکہ تشخیص غلط تھی اس لیے علاج بھی غلط تھا۔ وہ ایک ایسی بیماری کا علاج کرتے رہے جو دور دور تک نہیں تھی!  { دوسری بار عصا کا سہارا تب لینا پڑا جب ایک فٹ پاتھ پر چلتے چلتے معلوم ہی نہ ہؤا اور فٹ پاتھ ختم ہو گیا۔ پاؤں مُڑ گیا۔ دوسرے دن صبح اٹھا تو درد بے پناہ تھا! ایکس رے سے معلوم ہؤا کہ ہئیر لائن ( Hairline)    فریکچر  ہو گیا ہے۔ تھا تو ہئیر لائن مگر چلنا ممکن نہ رہا۔ پلستر کئی ہفتے لگا رہا۔ یہ   1998-99  کے دن تھے۔ فروری  1999 میں، میر...

وزیراعظم مودی کے دو چہرے

وزیراعظم مودی کے دو چہرے ہیں۔ ایک چہرہ اس دنیا کے لیے ہے جو بھارت سے باہر ہے۔ یہ چہرہ متین‘ نرم اور متبسّم ہے! بھارت کے روزنامہ ''ہندو‘‘ نے تازہ ترین اشاعت میں لکھا ہے کہ بھارت اور متحدہ عرب امارات دونوں ''برداشت اور اجتماعیت‘‘ جیسی اقدار کے مشترکہ مالک ہیں! بھارت کی اس سفارتی کامیابی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے دنیا کے سامنے جو چہرہ رکھا ہوا ہے‘ دنیا سمجھ رہی ہے کہ وہی اصل چہرہ ہے! مشرقِ وسطیٰ کی کچھ ریاستیں بھارت کے اس دوغلے پن کی خاص طور پر شکار ہو رہی ہیں! سفارتی محاذ پر اسے پاکستان کی ناکامی بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ 2014ء سے لے کر آج تک مودی سات مرتبہ یو اے ای کا دورہ کر چکے ہیں۔ جی ہاں! نو سال میں سات بار!! ابھی ابھی دبئی میں جو ورلڈ گورنمنٹ سمٹ  (World Government Summit)  منعقد ہوئی ہے‘ اس میں بھی مودی نے شرکت کی ہے۔ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے‘ پاکستان کی نمائندگی نہیں تھی۔ بھارت اور یو اے ای کے درمیان دس دو طرفہ معاہدے بھی ہوئے ہیں۔ باہمی سرمایہ کاری کے معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔ یو اے ای دنیا کا واحد ملک ہے جس کے سات...

بوٹی‘ شوربا اور دیگچی

وسط ایشیا کے کسی شہر کے لوگ کنجوسی میں اپنی مثال آپ تھے۔ اس ضمن میں ایک حکایت ہے کہ اُس شہر سے تعلق رکھنے والے چار دوست سفر کر رہے تھے۔ کھانے کے لیے انہوں نے دکان سے گوشت خریدا۔ یہ گوشت صرف چار بوٹیوں پر مشتمل تھا۔ پکانے کے لیے دیگچی چولہے پر چڑھائی گئی۔ ہر شخص نے بوٹی کو دھاگے سے باندھا۔ بوٹی کو دیگچی میں ڈالا اور دھاگے کا دوسرا سرا ہاتھ میں پکڑ لیا۔ آخر وقت تک سب نے اپنی اپنی بوٹیوں کے دھاگے پکڑے رکھے۔ رہا شوربہ‘ تو وہ برابر برابر تقسیم کر لیا۔ ہمارے اہلِ سیاست کا یہی حال ہے۔ دیگچی میں گوشت پک رہا ہے۔ سب نے اپنی اپنی بوٹیاں نشان زد کی ہوئی ہیں۔ مگر جھگڑا پڑا ہوا ہے۔ جن کے پاس بوٹی نہیں‘ وہ بھی حصہ مانگ رہے ہیں۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ اگر انہیں کچھ نہیں ملتا تو دیگچی ہی اُلٹا دی جائے! دستبردار ہونے کو کوئی تیار نہیں! دھاگہ چھوڑنا تو دور کی بات ہے‘ گرفت ڈھیلی بھی کوئی نہیں کر رہا!! دعا کیجیے دیگچی سلامت رہے! ہماری تاریخ عجیب و غریب ہے۔ آج تک کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی اور سوائے یحییٰ خان کے جتنے آمر آئے‘ دس سال سے کم کسی کا تسلط نہیں رہا! لیاقت علی خان چار سال 63دن وز...

اپنے کالج میں

میں پھر رہا تھا برآمدوں میں اور راہداریوں میں! کمروں میں جھانک رہا تھا۔ گراؤنڈ کا چکر لگارہا تھا مگر کوئی  بھی تو دکھائی نہیں دے رہا تھا ! لوگ تو موجود تھے! مگر جنہیں میں تلاش کر رہا تھا‘ ان میں سے کوئی نہیں نظر آ رہا تھا! میرے استاد کہاں تھے؟ پروفیسر اقبال بخت کیوں نہیں نظر آ رہے تھے؟ پڑھانے میں ان کا جواب نہ تھا اور خوش لباس اُن جیسا کوئی نہ تھا! پروفیسر سجاد حیدر ملک کہاں تھے جو انگریزی شاعری اور ڈراما پڑھاتے تھے۔ جنہیں معلوم تھا کہ لٹریچر کا ذوق طلبہ میں کیسے پیدا کیا جاتا ہے! جو خود سراپا لٹریچر تھے! پروفیسر اختر شیخ کلاس میں تھے نہ سٹاف روم میں! انہوں نے ہمیں برٹرنڈ رسل کے مشکل  Sceptical Essays  اس طرح پڑھائے تھے جیسے ان سے زیادہ سہل کوئی مضمون نہ ہو! پروفیسر اشفاق علی خان‘ جو ہمارے پرنسپل تھے‘ کہاں تھے؟ میرے ہم جماعت کہاں تھے؟ مسکراتا دانیال ہمیں کیوں نہیں ڈھونڈ رہا تھا؟ حسن زیدی کے گھر جا کر کھانا کہاں تھا! وہ کیوں غائب تھا؟ ٹی ایس ایلیٹ کی بلّی پر نظم‘ جس کا عنوان  Macavity  تھا‘ پڑھنے کے بعد ہم نے طاہر اکرام کا نام مکیویٹی رکھ دیا تھا‘ وہ بھی کہیں نہی...

اگر عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بنے

عوام نے فیصلہ کر دیا ہے! یہ فیصلہ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو‘ اس فیصلے کا احترام ہونا چاہیے! اس فیصلے پر عمل ہونا چاہیے! تمام رکاوٹوں اور نامساعد حالات کے باوجود تحریک انصاف نے میدان مار لیا ہے۔ اس کامیابی کا بڑا سبب وہ وابستگی ہے جو لوگوں کو عمران خان کے ساتھ ہے اور جنون کی حد تک ہے! وہ عمران خان کو ایک دیومالائی‘ ایک مافوق الفطرت شخصیت سمجھتے ہیں! وہ ان کا لیڈر نہیں ہیرو ہے! اس کی غلطیاں بھی انہیں اس کے کارناموں کی طرح لگتی ہیں! وہ اس کے پرستار ہیں! اور پرستش دل کا معاملہ ہے۔ اس میں دماغ کا کچھ عمل دخل نہیں! اس وابستگی اور اس جنون کے علاوہ‘ کامیابی کا دوسرا سبب وہ مار دھاڑ ہے جو تحریک انصاف کے حامیوں کے ساتھ روا رکھی گئی! ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔ بہت سے ووٹ ہمدردی کے بھی پڑے!  آخر میاں صاحبان‘ زرداری صاحب اور بلاول میں اتنی سیاسی دور اندیشی اور اخلاقی جرأت کیوں نہیں کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھیں! ایک مضبوط اپوزیشن ملک کی اتنی ہی خدمت کر سکتی ہے جتنی کہ حکومتی پارٹی! اگر تحریک انصاف ملک کے لیے اچھی کارکردگی دکھائے گی تو اپوزیشن کا بھی اس میں کردار ہو گا۔ اگر تحریک انصاف کی پرفارمن...

کیا بنگلہ دیش ماڈل یہاں چل سکتا ہے؟؟

اروَند سہارن نوجوان صحافی ہیں۔ تعلق بھارت سے ہے۔ نیوزی لینڈ میں رہتے ہیں۔ اُردو لکھ پڑھ لیتے ہیں۔ یوٹیوب پر ان کا ایک مستقل فیچر ''سرحد کے اُس پار‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں وہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں سے انٹرویو کرتے ہیں۔ تقریباً دو سال پہلے انہوں نے میرا بھی انٹرویو لیا جو دو نشستوں میں مکمل ہوا۔ اچھی بات یہ تھی کہ میرے جوابات کو انہوں نے ایڈٹ نہیں کیا اور بلا کم و کاست نشر کیا۔ بھارتی ناظرین اور سامعین نے مجھے جی بھر کر بُرا بھلا کہا‘ یہاں تک کہ اروند سہارن کو کہنا پڑا کہ ان کے مہمان کے ساتھ ایسا نہ کیا جائے۔ اصل بات جو بتانی ہے‘ یہ ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی ترقی اور بہتر اقتصادی اشاریوں کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر بنگلہ دیش پاکستان سے آگے کیوں نکل گیا؟ اس کا فوری جواب میں نے یہ دیا کہ بنگلہ دیش کی خوش بختی ہے کہ اس کے پڑوس میں کوئی افغانستان آباد نہیں ہے! یہ بات اس لیے یاد آئی کہ آج کل بنگلہ دیش ماڈل کا‘ پاکستان کے حوالے سے‘ بہت چرچا ہے! تاریخ بھی کیسے کیسے مذاق کرتی ہے۔ جنوبی کوریا کے بارے میں روایت ہے کہ پاکستان کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کو اس ن...

کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد

ایک حالیہ سروے کے مطابق چوبیس فیصد لوگوں نے اسلام آباد کو ملک کا خوبصورت ترین شہر قرار دیا ہے۔ پندرہ فیصد نے یہ اعزاز لاہور کو دیا ہے اور نو فیصد نے کراچی کو! باقی شہروں کا بھی ذکر ہے۔ نہیں معلوم یہ سروے کیوں کیا گیا اور کتنا قابلِ اعتبار ہے مگر‘ بہرطور‘ یہ سروے آواز دے رہا ہے کہ اپنے شہروں کی خبر لو! ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کراچی اس خطے کا مقبول ترین شہر تھا۔ تب دبئی منظرپر تھا نہ سنگاپور! یورپی ملکوں کے سفیر ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں مقیم ہونا پسند کرتے تھے۔ دنیا بھر کے جہاز کراچی اترتے تھے! غیر ملکی سیاحوں کے ہجوم ہوا کرتے تھے۔ یہ جو علاقہ ہے‘ ریجنٹ پلازا ( پرانا نام تاج محل) سے لے کر میٹرو پول ہوٹل تک‘ اور اس سے آگے میریٹ تک‘ یہ سارا علاقہ سیاحوں کے لیے جنت تھا۔ زینب مارکیٹ غیر ملکی خریداروں سے چھلک رہی ہوتی تھی۔ ریگل کراچی کا مرکز تھا۔ امن و امان اس قدر مثالی تھا کہ رات رات بھر دکانیں کھلی رہتی تھیں! اس کالم نگار نے ملازمت کا آغاز کراچی سے کیا۔ ستر کی دہائی تھی! ہم چند دوست رات کے دو بجے‘ پیدل چلتے ہوئے‘ بندو خان کے ریستوران میں جایا کرتے تھے۔ واپسی پر ایرانی ریستوران سے‘ جو اس...

More of the same

بس کر دو! خدا کے لیے بس کر دو! کب تک منافقت کے پیچھے اصل چہرا چھپاتے رہو گے؟ کوئی کہتا ہے بوتل میں پانی تھا جو پیر صاحب نے دم کیا تھا؟ کوئی کہتا ہے گاڑی میں جو بوتلیں تھیں ان میں شہد تھا۔ کوئی کہتا ہے ہسپتال‘ اس کے کمرے میں جو بوتلیں پڑی تھیں ان میں کوکنگ آئل تھا! تم منافقوں سے تو وہ رند اچھے ہیں جن کے چہروں پر نیکوکاری کی تہہ نہیں ہوتی! منافقت کے علاوہ یہ تمہاری بزدلی بھی ہے! وہ کام کرتے کیوں ہو جس کا اعتراف نہیں کر سکتے؟ کرتے ہو تو اعتراف بھی کرو! تم چاہتے ہو کہ اندر خانے موج مستی بھی کرو‘ عیش و عشرت کے تقاضے بھی پو رے کرو اور اوپر سے لبادہ بھی نہ اُترے! لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پیر کے دم کیے ہوئے پانی سے کیا مراد ہے‘ شہد کا کیا مطلب ہے اور خوردنی تیل کیسا تھا! تم جو چاہو کرو! کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تمہیں روکے! جو معاملات بندے اور خدا کے درمیان ہیں‘ ان میں انسانوں کو دخل نہیں دینا چاہیے! مگر ڈرامے کرنا‘ ملمع سازیاں کرنا‘ جھوٹ بولنا‘ پاکبازی کی جعلی قبائیں پہننا‘ ان سب حرکتوں سے ذلت میں اضافے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا! اور یہ ہم کس زمانے میں پہنچ گئے...

وصال اور فراق کا کھیل

''میں پاکستان کو آسٹریلیا سے کہیں زیادہ چاہتا ہوں! اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے مال اور بازار میں زیادہ مزہ آتا ہے۔ آپ کے پاس اگر ویک اینڈ کے لیے کوئی اور ایجنڈا نہیں تو مال میں چلے جائیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آپ خاندان کے افراد کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں! مجھے تارکِ وطن  (Expat)  کہلانا بالکل پسند نہیں۔ میرے ابو کو بھی نہیں پسند! ہم چاہتے ہیں کہ اپنے شہروں میں اپنے رشتہ داروں کے پاس رہیں!‘‘ گیارہ سالہ تیمور رو رہا تھا۔ پوچھا کیا ہوا! کہنے لگا: میں آسٹریلیا نہیں جانا چاہتا۔ یہیں پاکستان میں رہنا چاہتا ہوں! اس کا دل بہلانے کے لیے کہا کہ لکھ کر بتائیے آپ کیوں نہیں جانا چاہتے! اس پر اس نے دو پیرا گراف لکھ کر دکھائے جن کا ترجمہ اوپر دیا ہے۔ اس کا باپ بھی غم زدہ تھا مگر بیٹے کے آنسو کام آئے نہ باپ کی اداسی! تین دن پہلے ایک طاقتور‘ قوی ہیکل فولادی پرندے نے انہیں اپنے بازوؤں میں جکڑا اور گیارہ ہزار کلومیٹر دور جا کر بحر الکاہل کے کنارے اُگل دیا! کئی برسوں بعد اب کے سب بچوں کو تعطیلات ایک ہی وقت ملیں! دسمبر میں سب اکٹھے تھے۔ خوب ہنگامے رہے! جس گھر میں دو عمر رسیدہ میاں بیو...