کیا جہالت اور انتہا پسندی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں؟؟
پوری دنیا میں ہم تماشا بنے ہوئے ہیں!! ایک طرف عملی طور پر ہم بطور مسلمان ہی نہیں‘ بطور انسان بھی بدترین ہیں! ہماری تجارت بددیانتی سے عبارت ہے۔ ہم میں سے بھاری اکثریت‘ بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو جھوٹ کو جھوٹ نہیں سمجھتے! آپ کسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہاں ہو؟ وہ گھر بیٹھا ہے مگر کہے گا کہ بس جی شیر پاؤ پُل سے گزر رہا ہوں۔ غور کیجیے! کیا اکثر ایسا نہیں ہوتا؟ وعدہ خلافی ہمارا معمول ہے۔ ملاوٹ‘ ناروا منافع خوری‘ ٹیکس چوری‘ پڑوسیوں اور اقربا کے حقوق سے غفلت‘ یہ سب برائیاں ہماری پہچان بن چکی ہیں۔ ہماری ٹریفک قانون اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ وقت کی پابندی حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک عنقا ہے۔ ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جس کی ہمارے مذہب نے ممانعت کی ہے اور وعید سنائی ہے۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی مدارس کی تعداد کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ ہے۔ تبلیغی جماعت کا عالمی مرکز ہمارے ملک میں واقع ہے۔ ہر مسلک کی تبلیغی جماعتیں شہر شہر‘ گاؤں گاؤں‘ محلہ محلہ‘ گلی گلی رات دن پھر رہی ہیں۔ مسجدوں میں صبح شام قرآن پاک اور حدیث کے درس دیے اور سنے جاتے ہیں۔ جمعہ کی...