اشاعتیں

اکتوبر, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

بڑا شکاری، چھوٹے شکاری اور شکارگاہیں! ……………

………… ………………………… مغربی ایشیا کی ایک بادشاہت کے سربراہ اور ان کے ولی عہد ہم غریبوں کے ہاں   تشریف لارہے ہیں ! وفاقی کابینہ نے پانچ اضلاع کو ، عملا ” ، ان کی خاطر شکار گاہ قرار   دے دیا ہے۔ یہ خوش قسمت اضلاع راجن پور، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور،   بہاولنگر اور رحیم یار خان ہیں۔ ان کے مبارک اور پُر مسرت قیام کے دوران   رینجرز کی تین کمپنیاں بھی ان اضلاع میں تعینات رہیں گی۔   رینجرز کی یہ تین کمپنیاں   انسداد دہشت گردی ایکٹ کے   تحت تعینات کی جا رہی ہیں۔   بادشاہوں کی اس خدمت پر آخر کیا اعتراض ہو سکتا ہے !  ہماری تو ساری تاریخ بادشاہ پرستی سے اَٹی پڑی   ہے ! ہمارے دلوں میں شاہ پرستی اس قدر کوٹ کوٹ کر   بھری ہے کہ بابر سے لے کر احمد شاہ ابدالی   اور   نادر شاہ درانی تک ہم نے سب کو جھُک جھُک کر سلام کیا۔ بابر سے پہلے بھی یہی کچھ ہؤا۔ ملک آزاد ہؤا تو بادشاہت سے محبت بھی ورثے میں سا...

وہ جو دوبارہ نہیں ملتے

یہ ایک چھوٹا سا پارک ہے۔ چھوٹا سا مگر خوبصورت ! علاقہ لاہور کا ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا ہے! فیز چار ہے اور سیکٹر ڈبل ای ہے۔ یہاں کا مشہور لینڈ مارک واپڈا کا( یعنی لیسکو کا) دفتر ہے۔ اس وقت لاہور میں کتابوں کی جو معروف ترین دکان ہے اس کی ایک شاخ بھی اس علاقے میں ہے۔ بس! یہ چھوٹا سا‘ من موہنا سا‘ پارک اسی علاقے میں ہے۔  یہ کوئی تین سال پہلے کی بات ہے۔ اسی علاقے میں میرے ایک بہت قریبی عزیز رہتے تھے۔ لاہور آتا تو انہی کے ہاں قیام کرتا۔ اُس دن بھی وہیں تھا۔ یہ جاتی سردیوں کے دن تھے۔ لاہور میں پنڈی اسلام آباد کی نسبت سرما کی رخصتی جلد ہوتی ہے اور گرمیاں ذرا زیادہ بے تکلفی کے ساتھ دروازہ کھول کر اندر آجاتی ہیں۔ عصر کے بعد کا وقت تھا۔ میں نے جاگرز پہنے اور پیدل چلتا ہوا‘ چند گلیاں پار کرتا‘ پارک میں پہنچ گیا۔ چاروں طرف سیر کرنے کے لیے بہت اچھا ٹریک بنا ہوا تھا۔  واک شروع کردی۔ کچھ سوچتا‘ کچھ گنگناتا‘ چکر مکمل کرتا رہا۔ اب گرمی زیادہ محسوس ہونے لگی تھی۔ میں نے بغیر آستینوں کا سویٹر اتار کر کاندھے پر ڈال لیا۔ دفعتاً یاد آیا کہ گاؤں میں مرد کاندھے پر چادر ضرور رکھتے تھے۔ چونکہ ہمار...

ایوارڈ اور کمالِ فن

ظفر اقبال کو اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے کمالِ فن  (Lifetime achievement) ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا ہے ! یہ اور بات کہ ظفر اقبال کو کمالِ فن ایوارڈ مدتوں پہلے مل چکا۔ یہ ایوارڈ اس کے پڑھنے والوں‘ اس کے چاہنے والوں اور اس کے نہ چاہنے والوں نے دیا ہے۔ یہ لطیفہ ہے نہ مبالغہ‘ نہ محض عبارت آرائی کہ جہاں جہاں اُردو شاعری پڑھنے والے‘ اور اُردو شاعری کا ذوق رکھنے والے موجود ہیں‘ وہاں ظفر اقبال کے حامی اور مخالف دونوں پائے جاتے ہیں! ایک مرحوم ادیب کے بارے میں سنا کہ وہ دوسروں کی منت سماجت کر کے اپنے خلاف مضامین لکھواتے تھے کہ متنازع ٹھہریں اور یوں شہرت کے گھوڑے کو مہمیز لگے۔ ظفر اقبال کو یہ مقام بغیر کہے مل گیا۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا؎  شورشؔ ترے خلاف زمانہ ہوا تو کیا  کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں ظفر اقبال کی خوش بختی ہے کہ اس کے حق میں تو بہت سوں نے لکھا مگر اس کے قد کو چھوٹا کرنے کیلئے اور اس کی تخفیف اور تقلیل کیلئے بھی بہت زور لگایا گیا یہاں تک کہ خود ظفر اقبال کو کہنا پڑا ؎ دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے  شور کر اور بہت‘ خاک اُڑا اور بہت بہت شور مچ...

بیورو کریسی…تب اور اب

کالم نگاری کے 32سالہ عرصہ میں پوری کوشش کی کہ سول سروس کے جن مناصب پر کام کرنے کا موقع ملا اُن کا حوالہ نہ دینا پڑے کہ اسے خود ستائی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ یوں بھی سول سروس ہو یا کوئی اور پیشہ‘ بنیادی مقصد دو ہیں: ترقی کی اجتماعی کوشش میں اپنا حصہ ڈالنا اور رزقِ حلال کا حصول! اس میں کلرک‘ نائب قاصد‘ افسر سب برابر ہیں۔ تاہم آج کی بیورو کریسی کا جو رویّہ ہے اور مائنڈ سیٹ ہے ‘ اسے دیکھتے ہوئے ذاتی تجربوں کی بھری بھرائی زنبیل میں سے ایک تجربہ شیئر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قبیل کی کچھ تفصیلات زیر تعمیر خود نوشت میں لانے کا پروگرام ہے جس کی جلد تکمیل کے لیے دعاؤں کی ضرورت ہے!  یہ سترہ اٹھارہ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ بڑی بیٹی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں زیر تعلیم تھی۔ ''اصول الدین‘‘ میں ایم اے کر رہی تھی۔ اُن دنوں یونیورسٹی میں تعطیلات تھیں۔ اُس کا سکالر شپ کا چیک یونیورسٹی کے دفترِ مالیات میں پڑا تھا۔ یونیورسٹی کے حصۂ طالبات کا محل وقوع عجیب و غریب تھا۔ اسلام آباد سے کوسوں دور ‘ پشاور روڈ کے اُس پار‘ مدینۃ الحجاج سے کہیں آگے‘ واقع تھا۔ درمیان میں محلے اور گنجان ...