پھر تو تم آزاد ہو جاؤ گے نا؟
یہ بیس بائیس سال پہلے کی بات ہے۔ خوش بختی جدہ لے گئی کہ عمرہ کی سعادت حاصل ہو سکے۔ جدہ میں واقع پاکستانی قونصل خانہ میں تعینات ایک افسر اپنے برخوردار تھے۔ دن کا کچھ حصہ ان کیساتھ گزرا۔ انہوں نے تین چشم دید واقعات سنائے۔ پہلا یہ کہ جدہ میں ان کے قریب ایک عرب خاتون رہتی تھی‘ میاں اس کا چل بسا! دولت بہت سی چھوڑ گیا۔ رشتہ دار‘ ثروت مند بیوہ کے گرد منڈلانے لگے! شادی کی پیشکشیں آنا شروع ہو گئیں! خاتون نے ساری پیشکشوں کا جواب اس طرح دیا کہ ایک دن اپنے بنگالی ملازم کو کہا تیار ہو جاؤ! میں تم سے نکاح کرنے لگی ہوں! اور پھر بنگالی ملازم سے اس نے شادی کر لی! (یہ واقعہ آج کے موضوع سے تعلق نہیں رکھتا)۔ دوسرا واقعہ یہ تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم کو بتایا گیا کہ احرام پاکستان سے باندھ کر آنا ہے کیونکہ میقات راستے میں پڑتا ہے۔ مگر انہوں نے احرام جدہ آ کر باندھا! کیوں؟ تاکہ احرام کا مالی بوجھ قونصل خانے پر یعنی قومی بجٹ پر پڑے۔ اور وہ پڑا!! تیسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دلدوز اور دلخراش تھا۔ مطاف میں طواف کرتے وقت بعض لوگ پیروں کی حفاظت کیلئے نفیس چمڑے کی جرابیں پہن لیتے ہیں! ایک وزیر صاحب نے جرابوں کا...