اشاعتیں

جون, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

پھر تو تم آزاد ہو جاؤ گے نا؟

یہ بیس بائیس سال پہلے کی بات ہے۔ خوش بختی جدہ لے گئی کہ عمرہ کی سعادت حاصل ہو سکے۔ جدہ میں واقع پاکستانی قونصل خانہ میں تعینات ایک افسر اپنے برخوردار تھے۔ دن کا کچھ حصہ ان کیساتھ گزرا۔ انہوں نے تین چشم دید واقعات سنائے۔ پہلا یہ کہ جدہ میں ان کے قریب ایک عرب خاتون رہتی تھی‘ میاں اس کا چل بسا! دولت بہت سی چھوڑ گیا۔ رشتہ دار‘ ثروت مند بیوہ کے گرد منڈلانے لگے! شادی کی پیشکشیں آنا شروع ہو گئیں! خاتون نے ساری پیشکشوں کا جواب اس طرح دیا کہ ایک دن اپنے بنگالی ملازم کو کہا تیار ہو جاؤ! میں تم سے نکاح کرنے لگی ہوں! اور پھر بنگالی ملازم سے اس نے شادی کر لی! (یہ واقعہ آج کے موضوع سے تعلق نہیں رکھتا)۔ دوسرا واقعہ یہ تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم کو بتایا گیا کہ احرام پاکستان سے باندھ کر آنا ہے کیونکہ میقات راستے میں پڑتا ہے۔ مگر انہوں نے احرام جدہ آ کر باندھا! کیوں؟ تاکہ احرام کا مالی بوجھ قونصل خانے پر یعنی قومی بجٹ پر پڑے۔ اور وہ پڑا!! تیسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دلدوز اور دلخراش تھا۔ مطاف میں طواف کرتے وقت بعض لوگ پیروں کی حفاظت کیلئے نفیس چمڑے کی جرابیں پہن لیتے ہیں! ایک وزیر صاحب نے جرابوں کا...

ایک چپت نہرِ سویز کے اُس پار سے !!

وزارتِ خارجہ کو لَکھ لَکھ مبارکاں اور کروڑوں بار تہنیت! خارجہ امور کے میدان میں پاکستان نے ایک اور معرکہ سر کر لیا ہے!بھارت‘ افغانستان‘ ایران کے ساتھ ہمارے گہرے اور گُوڑھے تعلقات تو ہیں ہی! ایک گلدستہ‘ اور ساتھ مٹھائی کا ڈبہ‘ مصر سے بھی موصول ہوا ہے!   مصر کے مفتیِ اعظم نے بھارتی وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات مصر میں ہوئی ہے! اس ملاقات کے بعد مصر کے مفتیِ اعظم نے اس امر پر ‘ ماشاء اللہ‘ اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ'' مودی بھارت میں مختلف مذہبی طبقات میں بقائے باہمی اور ہم آہنگی بڑھانے کے لیے قابلِ قدر کام کر رہے ہیں۔ '' مفتی صاحب نے کہا ہے کہ اس سے پہلے نئی دہلی میں بھی صوفی کانفرنس کے موقع پر مودی سے ان کی ملاقات ہو ئی تھی۔ مفتیِ اعظم نے مودی کی دانشمندانہ قیادت کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں اس میں تعاون کو مزید فروغ دیا جائے گا۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق مفتیِ اعظم مصر نے بھارتی جھنڈے کے سامنے کھڑے ہو کر بھارتی وزیر اعظم کے تدبر کو خراجِ تحسین پیش کیا‘‘۔ مجبوری یہ ہے کہ...

حقانی صاحب اور کچھ دیگر مشاہیر

یہ ایک ابر آلود شام تھی۔میں وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر آئی ایٹ سے نکلا اور گاڑی چلاتا ہوا سیکٹر آئی نائن کی طرف بڑھنے لگا۔ اتنے میں بوندا باندی شروع ہو گئی۔ دائیں طرف دیکھا تو یقین نہ آیا۔ گاڑی روک کر پھر غور سے دیکھا۔ یہ حقانی صاحب تھے ! ارشاد احمد حقانی صاحب۔ فٹ پاتھ پر کھڑے تھے۔ ساتھ ایک گاڑی کھڑی تھی۔ میں گاڑی سے نکل کر ان کے پاس آیا اور سلام کر کے اپنا نام بتایا۔ انہوں نے پوچھا '' اظہارالحق جو کالم لکھتے ہیں؟‘‘۔ میں نے عرض کیا جناب وہی! کہنے لگے: آپ بہت تیکھے انداز میں لکھتے ہیں! پھر انہوں نے بتایا کہ گاڑی خراب ہو گئی ہے۔ میں نے تجویز پیش کی کہ بارش تیز ہونے کا امکان ہے۔ وہ میرے ساتھ میرے افلاس کدے پر تشریف لائیں۔میں اپنے ڈرائیور کو بھیجتا ہوں۔ وہ ان کے ڈرائیور کے ساتھ مل کر گاڑی کو ٹھیک کر دے گا یا کرا دے گا! انہوں نے میری تجویز کو شرفِ قبولیت بخشا اور یوں میرے ساتھ گھر تشریف لے آئے! یہ پچیس سال پہلے کی بات ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کے ساتھ ان کی بیگم یا صاحبزادی بھی تھیں۔ باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ میں ان کے اخبار میں کیوں نہیں لکھتا؟میں نے عرض کیا کہ سر...

ڈوبتے جہاز کے امیر مسافر

جہاز ہچکولے کھا رہا ہے !  نیچے والی منزل میں غدر برپا ہے! قیامت کا سماں ہے! پیندے میں سوراخ ہو گیا ہے! چھوٹا سا ‘ بے بضاعت سا سوراخ! پانی ذرا ذرا سا آنا شروع ہوا ہے مگر آئے جا رہا ہے! سوراخ بند کرنے کی کسی کو فکر نہیں! سب شور مچا رہے ہیں! نوشتۂ دیوار نظر آ رہا ہے۔ کوئی بچوں کو بچانے کی فکر میں ہے۔کسی کو خواتین کا خیال ہے۔ جہاز کے ڈوبنے میں کتنا وقت لگے گا؟ کچھ معلوم نہیں! اگر معجزہ برپا ہو جائے تو کوئی مددگار جہاز غیب سے نمودار ہو! جان بچانے والی کشتیاں  (lifeboats )  نہ جانے میسر ہیں کہ نہیں!  جہاز کی اوپر والی منزل میں اور ہی صورت حال ہے! یہ اپر کلاس کے مسافر ہیں۔ ان کے پاس بڑے بڑے کیبن ہیں! یعنی لگژری خوابگاہیں ! کھانے پینے کے بہترین انتظامات ہیں! ایک ایک مسافر کے لیے کئی کئی دست بستہ خدمت گار ہیں۔ آواز دیں تو تیرتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں !ان مسافروں کو تنکا بھی خود نہیں توڑنا پڑتا۔ انہیں ذرہ بھر بھی پروا نہیں کہ پیندے میں سوراخ ہو چکا ہے۔ ان کے خیال میں یہ مسئلہ نیچے والوں کا ہے! ان کے لیے تو لائف بوٹس بھی میسر ہیں!ہماری سینیٹ اور اسمبلی کے معزز و محترم نمائندے ...

جب اعلیٰ تعلیم بھی کچھ نہ بگاڑ سکے

کرشن کمار پروفیسر ہے۔ سائنس کی ایک برانچ میں اس نے یورپ سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ ایک بڑی یونیورسٹی میں گریجوایشن اور ایم اے کی کلاسوں کو پڑھاتا ہے۔ اس کی نگرانی میں کئی طلبہ و طالبات ایم فل اور پی ایچ ڈی کر چکے ہیں! بین الاقوامی شہرت رکھنے والے معتبر جریدوں میں اس کے تحقیقی مضامین شائع ہوتے ہیں! اس نے اپنے گھر کے ایک گوشے میں پتھر کے بنے ہوئے بت رکھے ہوئے ہیں۔ صبح یونیورسٹی جانے سے پہلے وہ ان کی پو جا کرتا ہے۔ وہ گائے کو گؤ ماتا کہتا ہے۔ گائے کا پیشاب اس کی روزانہ خوراک کا حصہ ہے! نجم خان ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد ہے۔ وہ ایک بینک میں برانچ منیجر ہے۔ اس کی اپنے پیر صاحب سے اندھی عقیدت ہے۔ یہ پیر صاحب ''لوٹا ‘‘ پیر صاحب ہیں۔ لوٹا گھماتے ہیں اور چوری کا سراغ لگا لیتے ہیں! بدقسمتی سے نجم کے گھر کچھ عرصہ پہلے چوری کی واردات ہوئی۔اس کے احباب نے اسے بہت سمجھایا کہ پولیس سٹیشن جا کر رپورٹ درج کرائے مگر اس کا کہنا تھا کہ پیر صاحب لوٹا گھمائیں گے تو چور پکڑا جائے گا۔ معلوم نہیں چور پکڑا گیا یا نہیں‘ مگر اس کی عقیدت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ دو افراد‘ اور انہی جیسے اور لوگ...

…سرائے عالمگیر سے دینہ تک

صبح چھ بجے سیالکوٹ سے چلے تو حد درجہ اطمینان تھا کہ صحیح وقت پرنکلے ہیں‘ شاہراہوں پر ٹریفک کم ہے۔ اس لیے جلداسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ آٹھ یا شاید ساڑھے آٹھ تھے جب ہم سرائے عالمگیر پہنچے۔ارادہ تھا کہ جہلم کے چائے خانہ میں ناشتہ کریں گے!  مگر آگے راستہ مسدود تھا۔ سینکڑوں ہزاروں کاریں‘ بسیں‘ ٹرک‘ ویگنیں‘ موٹر سائیکل کھڑے تھے۔معلوم ہوا کہ انتظامیہ نے کھدائیاں کر کے‘ آگے جانا ناممکن بنایا ہوا ہے تا کہ تحریک لبیک والوں کاجلوس جہلم کا دریا عبور نہ کر سکے اور اسلام آباد نہ پہنچ سکے! تحریک لبیک والے تو رُک گئے مگر ساتھ ہی دوسرے مسافر بھی ! گندم کے ساتھ گھُن بھی پِس رہا تھا۔ ان مسافروں کا کیا بنے گا؟ اس کی ذمہ دار انتظامیہ ( حکومت) نہیں تھی۔ حالانکہ حکومت کا اولین فریضہ عوام کے لیے آسانیوں کی فراہمی ہے۔ اس محصور ہجوم میں شیر خوار بچے تھے۔ بوڑھے تھے۔ مریض تھے۔عورتیں تھیں! ان کے کھانے پینے کا کیا انتظام ہو گا؟ ادویات کا کیا انتظام ہو گا؟ بچوں کا دودھ کون لائے گا؟ بیت الخلا کہاں سے آئیں گے؟ جوعورتیں ماں بننے والی تھیں اور ہسپتال جا رہی تھیں ان کا کیا بنے گا؟ حکومت کو ان میں سے کسی بات کی فکر نہ...

اوقاتِ کار

آپ   کا   کیا   خیال   ہے   کون   سا   طبقہ   سب   سے   زیادہ   محب   وطن   ہے؟ عساکر؟   جو   وطن   کی   خاطر   شہید   ہو   تے   ہیں؟   پولیس؟   جو   ہر   وقت   جان   ہتھیلی   پر   رکھے   ہے !  سیاستدان؟   جو   پھانسیاں   پاتے   ہیں۔   گولیاں کھاتے   ہیں۔   جیلوں   میں   جاتے   ہیں۔   جلا   وطن   کر   دیے   جاتے   ہیں !  کسان؟   جو   خون   پسینہ   ایک   کر   کے   غلہ   اُگاتے   ہیں۔   مزدور؟   جو   فیکٹریوں میں   لوہے   کے   ساتھ   بھِڑتے   ہیں !  اساتذہ؟   جونئی   پود   کی   نگہداشت   کرتے   ہیں۔ نہیں !  جناب   نہیں !  سب   سے   زیادہ   محب   وطن   طبقہ   تاجروں   کا   ہے۔ ...