اشاعتیں

اپریل, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

میری تدفین

''اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اُٹھ پڑو اور اگر کھڑے ہو تو چل پڑو‘‘ یہ وہ پیغام تھا جو دادی جان نے قاصدوں کے ذریعے بھیجا! بی اے کا طالب علم تھا جب گاؤں میں دادا جان کی وفات ہوئی۔ چار سمتوں میں پیام رساں دوڑائے گئے۔ بسی بستی‘ قریہ قریہ! قصبہ قصبہ! ان کو ہدایت تھی کہ راستے میں رکنا نہیں اور حرف بہ حرف یہی پیغام پہنچانا ہے۔ مگر یہ ستاون سال پہلے کی بات ہے۔ اب جب میرا انتقال ہوا ہے تو یہ قاصدوں‘ ایلچیوں اور پیام رسانوں کا زمانہ نہیں تھا۔ یہ ٹیلیفون‘ ای میل اور ایس ایم ایس سے بھی آگے کی دنیا تھی۔ یہ وٹس ایپ کا زمانہ تھا۔ ایک پیغام تیار کیا گیا۔ اسے وٹس ایپ پر چڑھا دیا گیا۔ آناً فاناً خبر ہر طرف پھیل گئی۔ اس پیغام کا اہم ترین حصہ نمازِ جنازہ کا وقت تھا جو عصر کی نماز کے فوراً بعد پونے چھ بجے فکس کیا گیا۔ یہ اطلاع میرے پرانے دوست رشید خان کو ملی تو فرطِ غم سے اس کی حالت غیر ہو گئی۔ دیر تک اپنے اہلِ خانہ کو میرے محاسن بتاتا رہا۔ سرکاری نوکری میں وہ ایک طویل عرصہ میرا رفیقِ کار رہا تھا۔ اس دور میں اس پر میں نے کچھ احسانات کیے تھے۔ ان احسانات کی تفصیل گھر والوں کو بتاتا رہا۔ دو بار اس کی آوا...

چوڑیاں اور لپ سٹک بازار میں دستیاب ہے!

کیا آپ نے خلیل حامدی کا نام سنا ہے؟ بہت بڑے سکالر تھے۔ عربی کے بہت بڑے عالم تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف!ہمعصر مسلم ہسٹری پر اتھارٹی تھے۔ ''عالم اسلام اور اس کے افکار و مسائل‘‘ اور '' ترکی قدیم و جدید'' ان کی ایسی تصانیف تھیں کہ مقابلے کے امتحانوں میں حصہ لینے والے اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ استفادہ کرتے تھے۔ مشرقِ وسطیٰ کے سکالرز سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ کیا آپ جانتے ہیں ان کی وفات کیسے ہوئی؟ وہ سفر میں تھے۔ لاہور واپس آرہے تھے۔ گنّے ڈھونے والی ایک ٹرالی نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری اور وہ جاں بحق ہو گئے۔ وحشی ڈرائیور کے نزدیک یہ کوئی خاص بات نہ تھی۔ٹرالی کے ذریعے انسان کو قتل کرنا اس کے لیے معمول تھا۔ جس موسم میں گنّے کھیتوں سے اٹھا کر شوگر ملوں میں پہنچائے جاتے ہیں‘اس موسم میں علاقے کی شاہراہوں پر ان وحشی ڈرائیوروں کا راج ہوتا ہے۔ ایک ایک ٹرالی پر پانچ پانچ ٹرالیوں کا وزن لادا جاتا ہے۔گنے ٹرالی کے اوپر یوں لادے جاتے ہیں کہ دائیں بائیں اور پیچھے کئی کئی فٹ تک باہر لٹک رہے ہوتے ہیں۔ کراس کرنے والی گاڑیوں کے پاس کچے پر اترنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔پولیس ان...

طالبان؟؟؟

27 سالہ نور مقدم 20جولائی 2021ء کو اسلام آباد کے ایک مہنگے سیکٹر کے مہنگے گھر میں قتل ہوئی۔ ظاہر جعفر نامی شخص کو اس سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔ طویل اور صبر آزما مراحل کے بعد 24فروری 2022ء کو اسلام آباد سیشن کورٹ نے مجرم کو سزائے موت سنائی۔ یعنی قتل کے آٹھ ماہ کے بعد! مجرم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سزا کو چیلنج کر دیا۔ ایک برس اور ایک مہینہ مزید گزر گیا۔ گزشہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا جس میں سیشن کورٹ کے سزائے موت کے فیصلے کو بر قرار رکھا گیا ہے۔ ایک ہفتہ پہلے مجرم نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے اور مختلف دلائل کی بنیاد پر اس فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ یہ دلائل کیا ہیں؟ سوال یہ ہے کہ یہ نظام کیسا ہے جس میں انصاف کا انتظار کرتے کرتے مظلوم کبھی قبر میں جا لیٹتے ہیں‘ کبھی زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ قابلِ احترام عدلیہ سیاسی تنازعوں کو فوقیت دے رہی ہے۔ عوام کے کتنے مقدمے نگاہِ عدل کے منتظر ہیں اور کب سے منتظر ہیں؟ کتنے ملزم‘ جن کو ابھی مجرم ثابت نہیں کیا گیا‘ زندانوں میں محبوس ہیں؟ ان کے لواحقین کن حالات سے گ...

غور کرنے کے کچھ مقامات

آپ شام کو گھر سے باہر ٹہل رہے ہیں۔ ایک صاحب‘ جو جاننے والے ہیں‘ مخالف سمت سے چہل قدمی کرتے آرہے ہیں۔ اب آپ لاکھ کوشش کریں‘ ان سے بچ نہیں سکتے! یہاں آپ کو اُس انتہائی تنگ پُل کی یاد آگئی جس کی کہانی آپ نے بچپن میں سنی تھی۔ ایک بکری اس طرف سے تو دوسری مخالف سمت سے آرہی تھی۔ دونوں آمنے سامنے ہوئیں تو راستہ بند پایا۔ دونوں نے سینگوں کو آزمایا۔ کمزور بکری پل سے نیچے گر گئی۔ دوسری کو راستہ صاف مل گیا مگر آپ کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ انہوں نے حال احوال پوچھا اور پھر ٹھک سے وہ سوال کیا ''کیا آپ روزے رکھ رہے ہیں؟‘‘۔ یہ بالکل اسی طرح کا سوال ہے جیسے کیا آپ نے نماز پڑھ لی؟ کیا آپ نے زکوٰۃ ادا کی ہے؟ آپ نے روزہ رکھا ہے یا نہیں‘ جان بوجھ کر چھوڑا ہے یا معقول عذر ہے‘ یہ آپ کے اور آپ کے پروردگار کے درمیان ہے! مگر ہمارا جو کلچر ہے‘ اس میں اس جیسے بیشمار سوال پوچھے جاتے ہیں۔ بقول اقبالؔ آپ بھی شرمسار ہو‘ مجھ کو بھی شرمسار کر۔ کبھی پوچھا جائے گا آپ کے بچے نہیں ہیں؟ اوہ! شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے؟ کوئی پوچھے گا مکان اپنا ہے یا کرائے کا ہے؟ اور تو اور یہ بھی پوچھیں گے کہ تنخواہ ک...

حساب سب کا ہو گا مگر باری باری !

مفتی صاحب کچھ عرصہ خاموش رہے! مگر دیندار آدمی تھے۔ ضمیر کو زیادہ دیر نظر انداز نہ کر سکے! بالآخر عدالت میں آئے اور سب کچھ بتا دیا۔ ابھی تک متعلقہ صاحب نے تردید کی نہ ان کی طرف سے کسی اور نے ! تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس عدالتی کارروائی کی تفصیلات ظاہر ہوئی ہیں۔مفتی صاحب نے اپنے بیان میں کہا کہ ''باسٹھ سال عمر ہے۔مدرسے میں پرنسپل ہوں۔عمران خان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ان کی کور کمیٹی کا ممبر تھا۔یکم جنوری2018ء کو عمران خان نے مجھ سے کال پر رابطہ کر کے کہا میرا نکاح بشریٰ بی بی سے پڑھوا دو۔نکاح پڑھانے لاہور جانا ہے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لاہور کے علاقے ڈیفنس کی کوٹھی میں لے گئے۔ بشریٰ بی بی کے ساتھ ایک خاتون نے خود کو بشریٰ بی بی کی بہن ظاہر کیا۔ خاتون سے میں نے پوچھا کہ کیا بشریٰ بی بی کا نکاح شرعی طور پر ہو سکتا ہے؟ خاتون نے بتایا کہ بشریٰ بی بی کے نکاح کی تمام شرعی شرائط مکمل ہیں اور دونوں کا نکاح پڑھایا جا سکتا ہے۔یکم جنوری2018ء کو خاتون کی یقین دہانی پر عمران خان اور بشریٰ بی بی کا نکاح پڑھا دیا۔ نکاح کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی اسلام آباد میں ساتھ رہنے لگے۔عمرا...

آئین کی گولڈن جوبلی

مشکل سے بارہ تیرہ سال کا ہو گا یہ لڑکا! بوسیدہ سی شلوار قمیض پہنے‘ پیروں میں ہوائی چپل اڑسے‘ بائیسکل پکڑے میرے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتفاق تھا یاتقدیر کا اہتمام! عین اُس وقت میں اپنے دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ وہ میری طرف آیا اور پوچھا سر ! ردّی ہے آپ کے ہاں بیچنے کے لیے ؟ یا لوہے یا ایلومینیم کے پرانے برتن ؟ میں نے کہا ‘تم انتظار کرو میں گھر والوں سے پوچھتا ہوں! کچھ ردی تھی جو اس نے ہمارے ہاں سے خریدی کچھ لوہے کی پرانی چیزیں! میں نے اسے کھانے کے لیے بٹھایا۔اس دن ماش کی دال پکی تھی۔اس نے رغبت سے کھانا کھایا۔ ٹھنڈا پانی پیا۔ اس دوران میں اس سے باتیں کرتا رہا۔باپ ڈرائیور تھا۔ پچیس ہزار ماہانہ اس کی تنخواہ تھی۔ لڑکے کے دو بھائی اور تھے جو اس سے چھوٹے تھے اور ایک بہن۔ گھر اپنا نہ تھا۔ بری امام کے علاقے میں ایک کمرہ تھا جس میں یہ پورا کنبہ رہائش پذیر تھا۔ ایک بلب اور ایک پنکھا تھا۔ گیس نہیں تھی۔ بچے کی ماں مختلف گھروں میں کام کرتی تھی۔ بچے کے عزم صمیم پر حیرت ہوئی۔ کہنے لگا :میں تو سکول نہیں گیا۔ اپنے چھوٹے بھائیوں کو پڑھاؤں گا۔ یہ وہی دن تھا جس دن آئین کی گولڈن جوبلی کا جشن منایا ج...

گناہوں کو ہنسی آرہی ہے !

تقریباً دو تہائی رمضان المبارک گزر چکا ! کیا مناسب نہ ہو گا کہ ہم میں سے ہر شخص‘ کچھ دیر کے لیے‘ عمران خان‘ شہبازشریف اور ججوں سے توجہ ہٹا کر اپنے اوپر مرکوز کرے۔ عمران خان‘ شہباز شریف اور ججوں نے اپنے کیے کا یقینا حساب دینا ہے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ حساب ہم میں سے ہر ایک کو دینا ہے۔ یہ جو ریاضت ہم کر رہے ہیں‘ یہ جو پندرہ گھنٹوں کی بھوک پیاس برداشت کر رہے ہیں‘کیا اس کا کچھ حاصل حصول بھی ہے؟ یا یہ محض ہمارا زعم ہے کہ ہم روزہ دار ہیں! کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سوت کات کر اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں! یہ جو افطار پر انواع و اقسام کے مشروبات اور ماکولات کے ڈھیر ہمارے سامنے لگ جاتے ہیں ‘ کیا روزے کا حاصل یہی کچھ ہے؟ یہ جو چار چار‘ پانچ پانچ ہزار فی کس کے افطار ڈنرکلبوں اور ہوٹلوں میں کھائے جا رہے ہیں‘ کیا دن بھر کی برداشت اسی کے لیے تھی؟ درست کہ یہ سب حلال طعام ہے مگر کیا یہ روا بھی ہے ؟ کیا یہ مبنی بر انصاف بھی ہے؟ کہیں یہ اسراف تو نہیں؟ اور ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ ایک بھرپور افطار کے بعد کیا ڈنر کی ضرورت ہے؟ کیا آپ نے اپنے گھر برتن مانجھنے والی کے بچوں کو عید کی تیاری کے لیے ...

اصل طاقت تک رسائی

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مزدوری کے سلسلے میں اسلام آباد سے لاہور آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایک بار لاہور گیا تو یارِ دیرینہ ملک فرخ یار سے بھی‘ جو وہیں تعینات تھے‘ ملاقات طے ہوئی۔ ملک فرخ یار بلند منصب بینکار ہیں۔ جدید نظم میں منفرد مقام رکھتے ہیں اور پنجاب کی ثقافتی تاریخ‘ خاص طور پر‘ ذاتوں اور برادریوں پر اتھارٹی ہیں۔ طے یہ ہوا کہ میں ایک دوست کے دفتر میں‘ جو بڑے افسر تھے‘ ملک صاحب کا انتظار کروں گا۔ملک صاحب آئے تو میرے دوست نے‘ آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ ان کے سامنے ہاتھ رکھ دیا۔ معلوم نہیں اسے یہ تاثر کیسے ملا کہ ملک صاحب پامسٹ ہیں۔ملک صاحب بھی فوراً پامسٹ بن گئے اور ایسی ایسی باتیں نکالیں اور پیشگوئیاں کیں کہ بڑے صاحب مرعوب بھی ہوئے اور خوش بھی! جس طرح میرے دوست کو غلط فہمی ہوئی کہ ملک فرخ یار پامسٹ ہیں‘ ٹھیک اسی طرح بزدار صاحب کو بھی میرے بارے میں غلط فہمی ہوئی کہ میں عقل مند آدمی ہوں اور لوگوں کو ان کے کیریئر اور مستقبل کے بارے میں مشورے دیتا ہوں؛چنانچہ جب ایک مشرکہ دوست کی وساطت سے نعمان بزدار صاحب نے رابطہ کیا تو ملک فرخ یار صاحب ہی کی طرح میں بھی فوراً عقلمند آدمی بن گیا۔میں نے اپ...

—مجذوب کی بڑ

 — کل کی بات ہے۔ میں سبزی والے کی دکان سے باہر نکلا تو ایک بزرگ سامنے کھڑی ایک گاڑی میں بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چھوٹا موٹا بزرگ اب میں بھی ہوں لیکن جن صاحب کی بات ہو رہی ہے وہ زیادہ بزرگ تھے اور ضُعف بھی ان پر غالب آرہا تھا۔ یہ جو کہا ہے کہ گاڑی میں بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے مشکل سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ پھر وہ کافی جدوجہد سے‘ بہت تکلیف سے‘ بہت دیر لگا کر‘ سیٹ پر بیٹھنے میں کامیاب ہوئے! میں یہ منظر دیکھتا آرہا تھا۔ جب وہ بزرگ بیٹھ چکے تو میں گاڑی کے پاس آچکا تھا۔ مجھے اُسی سمت جانا تھا۔ میں گاڑی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ جو نوجوان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا‘ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ ان بزرگ کے صاحبزادے ہیں؟ مجھے کسی سے بات کرنے یا کچھ پوچھنے میں کبھی کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوئی۔ گھر والے شاکی ہیں کہ میں جاتے جاتے پنگا لے لیتا ہوں۔ حالانکہ میں بات ہی تو کرتا ہوں اور اعوان ہونے کے باوجود کوشش کرتا ہوں کہ از حد نرمی سے بات کروں۔ یوں بھی حکم ہے کہ برائی کو ہاتھ سے نہیں تو زبان ہی سے روکنے کی کوشش کرو۔ جب آنکھوں کے سامنے ایک ناروا عمل صادر ہو رہا ہو تو کم از ...

دل کے پھپھولے اور سینے کے داغ

ہائی کورٹ کے جج صاحب نے حکام بالا کو درخواست دی کہ ان کا تبادلہ کہیں اور کر دیا جائے۔ وجہ انہوں نے یہ پیش کی کہ ان کی بیٹی وکالت شروع کر رہی ہے اور بطور وکیل اسی عدالت میں پیش ہوا کرے گی۔ یہ مناسب نہیں کہ باپ جہاں جج ہو بیٹی وہیں وکیل ہو۔ یہ مفادات کا ٹکراؤ ہوگا!  آپ کا کیا خیال ہے یہ واقعہ کہاں کا ہے؟ ہمارے کسی صوبے کی ہائی کورٹ کا؟ نہیں! یہ واقعہ آپ کے شریکوں کا ہے۔  مدھیہ پردیش وسطی بھارت کی ریاست ہے۔ بھوپال اس کا دارالحکومت ہے اور اِندور اس ریاست کا سب سے بڑا شہر! مشہور شاعر‘ راحت اندوری مرحوم‘ جو مشاعرے لُوٹ لیتے تھے‘ اسی اِندور کے تھے۔ یہ شعر انہی کا ہے ؛ جو آج صاحبِ مسند ہیں‘ کل نہیں ہوں گے  کرایہ دار ہیں‘ اپنا مکان تھوڑی ہے گوالیار کا مشہورِ عالم شہر بھی مدھیہ پردیش ہی میں ہے۔ یہ وہی شہر ہے جس کے بدنام زمانہ قلعہ میں ہمارے مغل بادشاہ اپنے بھائیوں‘ بیٹوں‘ بھتیجوں اور دیگر مخالفین کو قید کرتے تھے۔ اٹل سری دھرن‘ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جج تھے۔ حال ہی میں وہ مجاز حکام کی خدمت میں درخواست گزار ہوئے کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے ان کا تبادلہ کر دیا جائے۔ ان کی بڑی بیٹی ب...

میں جن کے کام آ نہ سکا ان سے معذرت

شکل   سے   شریف   لگ   رہا   تھا !  ہاتھ   میں   مہنگے   برانڈ   کا   بریف   کیس   تھا۔   سوٹ   کے   فیبرک   کی   بُنت   بتا   رہی   تھی   کہ   ٹاپ   کلاس   ہے۔   قمیض کا   کالر   ماڈرن   تھا۔   ٹائی   سلکی   تھی۔   جوتے   چمکدار !  مجھے   روکا   تو   میں   ٹھٹھک   گیا !  یا   اللہ !  اب   اتنے   خوش   لباس   افراد   بھی   گدا   گری   پر اتر   آئے   ہیں !  یا   گداگروں   نے   نیا   بھیس   بدلا   ہے۔   مگر   جب   اس   نے   وہ   بات   کی   جس   کے   لیے   مجھے   روکا   تھا   تو   اپنی   بدگمانی   پر   رنج   ہوا۔   یہ تو   قصہ   ہی   اور   نکلا ! یہ   شریف ‘  کھاتا ...