اشاعتیں

مارچ, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

جب مجھے او ایل ایکس پر لگایا گیا

ایک صوفہ کافی عرصے سے گھر والوں کو ناپسند تھا۔ وہ اسے فروخت کرنا چاہتے تھے۔ میں آڑے آرہا تھا۔ مجھے یہ صوفہ اس لیے عزیز تھا کہ یہ مدتوں سے ہمارے گھر کا مکین تھا۔ یہ ایک وسیع و عریض تھری سیٹر  (three seater)  تھا۔ اسے میرے مرحوم والدین نے استعمال کیا تھا۔ میرے مرحوم ماموں جب بھی تشریف لاتے‘ اسی پر بیٹھتے۔ میری پالتو بلی بھی برسوں سے رات اسی پر گزار رہی تھی۔ میں نے کتنی ہی کتابیں اس صوفے پر بیٹھ کر پڑھیں! کتنے ہی کالم اس پر بیٹھ کر لکھے۔ سونے کے لیے بھی آرام دہ تھا۔ کتنی ہی بار اس کی پوشش بدل کر اس کے بڑھاپے کو شباب میں ڈھالا۔ افسوس! میری اہلیہ اور چھوٹی بیٹی جب بھی اسے دیکھتیں‘ ناپسند کرتیں۔ کئی بار انہیں آپس میں کھسر پھسر کرتے ہوئے پکڑا۔ وہ اسے بیچنا چاہتی تھیں۔ میں نے صاف صاف بتا دیا کہ جب تک میرے دم میں دم ہے‘ یہ صوفہ اس گھر سے کہیں نہیں جا سکتا۔ اس موقع پر میں نے وہ فرنگی محاورہ بھی استعمال کیا جو میں نے ایک ایسے شخص سے سنا تھا جو انگریزی جانتا تھا۔  over my dead  body ۔ اس دن کے بعد ماں بیٹی نے میرے سامنے صوفے کی فروخت کا تذکرہ تو کبھی نہ کیا مگر مجھے یقین تھا...

جناب اعجازالحق کی تحریک انصاف میں شمولیت

تصویر
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جنرل ایوب خان کے پوتے جناب عمر ایوب خان‘ جنرل ضیا الحق کے فرزند جناب اعجاز الحق ‘ جنرل اختر عبد الرحمان کے فرزند جناب ہمایوں اختر خان ‘ جنرل پرویز مشرف کو وردی میں دس بار منتخب کرانے والے چوہدری پرویز الٰہی اور جنرل پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار میں ان کی توصیف میں ہمہ وقت رطب اللسان رہنے والے شیخ رشید احمد‘ سب عمران خان کے دائرۂ اطاعت میں آچکے! یہ ان کا حق ہے۔ ہر شہری اپنی مرضی کی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے آزاد ہے۔ اس اکٹھ کے اسباب و علل پر تو سیاسی حرکیات کے ماہرین ہی روشنی ڈالیں گے۔ ہم ‘بہر طور‘ ایک عامی کی حیثیت سے اپنا خیال ظاہر کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف میں جناب اعجاز الحق کی انٹری ‘ دوسرے حضرات کی نسبت‘ نمایاں تر نظر آتی ہے۔ عمر ایوب خان اور ہمایوں اختر صاحبان نے اپنی الگ کوئی پارٹی نہیں بنائی۔ اس کے بر عکس اعجازالحق نے اپنی پارٹی بنائی۔ وہ اس عزم کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں کہ ضیا الحق کے مشن کو مکمل کریں گے۔ ضیا الحق کا مشن کیا تھا؟ اپنے دس سالہ دورِ حکومت میں جنرل صاحب نے اس مشن کا کتنا حصہ مکمل کیا؟ کتنا رہتا ہے؟ جو رہتا ہے اس کی تفصیل یا بریک اَپ ...

سب سے بڑا مجرم

ان میں سے کچھ عمران خان کے مخالف ہیں۔ الزام بلکہ الزامات‘ عمران خان پر یہ ہیں کہ وہ یوٹرن لیتا ہے۔ دروغ گو ہے۔ سازشی تھیوریاں پھیلاتا ہے۔ گجر اور بزدار جیسے افراد اس کی چھتری تلے تھے! کچھ زرداری اور شریفوں کے مخالف ہیں۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ناجائز مال اکٹھا کیا ہے۔ پارٹیوں کو خاندانوں کے اندر قید کیا ہوا ہے۔ ٹیکس نہیں دیتے! یہ سب کون ہیں؟ یہ جو عمران خان کو جھوٹا اور شریفوں اور زرداریوں کو چور کہہ رہے ہیں‘ یہ کون ہیں؟ یہ ہم عوام ہیں! ہم عوام کون ہیں؟ ہم عوام عمران خان سے زیادہ جھوٹے ہیں! ہم عوام شریفوں اور زرداریوں سے زیادہ چور ہیں! کیا آپ اسے مذاق سمجھ رہے ہیں؟ نہیں! یہ ایک انتہائی سنجیدہ بات ہے! صرف غور کرنے کی ضرورت ہے! رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے۔ اشیائے خور و نوش کے نرخ کئی گنا بڑھ گئے ہیں! جو اشیا دکانوں اور گوداموں میں رمضان سے پہلے کی پڑی ہیں‘ ان کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں! کیا اس حرام خوری کی تلقین عمران خان نے کی ہے؟ کیا نواز شریف اور آصف زرداری نے اپیل کی ہے کہ قیمتیں راتوں رات چڑھا دو؟ کیا اسٹیبلشمنٹ اس کی ذمہ دار ہے؟ عید آنے والی ہے۔ بچوں کے کپڑے‘ جوتے‘ ہر شے پہلے س...

پاکستان تب اور اب۔ آخری قسط

یکم اکتوبر 1947ء ڈیلی گزٹ کراچی: ملیر کراچی میں ایک ڈیری فارم پر رات دو بجے 25 افراد نے لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے حملہ کرکے دو ہندوؤں کو قتل کر دیا۔دو اکتوبر 1947ء ویسٹ بنگال: انڈیا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آج سے صوبے کی سرکاری زبان بنگالی ہو گی۔7اکتوبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: جبل پور انڈیا‘ صوبائی مسلم لیگ کے صدر مولانا برہان الحق نے کہا ہے کہ ان کے شہر والوں نے فیصلہ کیا ہے کہ عید کے موقع پر گائے کی قربانی نہیں دیں گے اور نہ ہی مسجد کے سامنے گائے ذبیحہ برائے کفارہ کیا کریں گے۔7اکتوبر 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: انجمنِ احمدیہ سری نگر نے حکومتِ کشمیر سے کہا کہ وہ پاکستان سے الحاق کرے۔ 8اکتوبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: پاکستان کے مرکزی وزیر خزانہ غلام محمد نے اقلیتی تاجروں کے وفد سے ملاقات میں واضح طور پر یقین دلایا کہ پاکستان ایک سیکولر‘ جمہوری‘ نہ کہ مذہبی ریاست ہے اور آپ میں سے ہر ایک کے وہی حقوق ہیں جو قائداعظم کے ہیں۔ 8اکتوبر 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: انگلینڈ کے اخبار مانچسٹر گارڈین نے لکھا ہے کہ طاقتور افغانستان پاکستان کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہوگا۔ ہاں‘ البتہ کمزور افغانستان ہمیش...

پاکستان … تب اور اب

! ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایم اے کرنے کے لیے پہنچے ہی تھے کہ مغربی پاکستان سے انٹر ونگ (بین الصوبائی) طلبہ کا ایک اور گروپ آگیا۔ یہ حضرات بی اے ( آنرز) کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ان میں محمد سعید بھی تھے۔ تعلق بھِریا روڈ سندھ سے تھا۔ لباس لکھنوی سٹائل کا تھا۔ چوڑی دار پاجامہ زیبِ تن کرتے تھے۔ مطالعہ کے شوقین تھے اور خوش گفتار! یہ اتفاق تھا کہ مغربی پاکستان سے جتنے طلبہ‘ بین الصوبائی سکالرشپ سکیم پر ڈھاکہ یونیورسٹی اور مشرقی پاکستان کی دیگر یونیورسٹیوں میں گئے‘ سب مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے تھے۔ یہ فیوڈل پس منظر رکھتے تھے نہ جرنیلوں اور سیاست دانوں کے خاندانوں سے تھے۔ سفارش کی بیساکھیاں کسی کے پاس نہیں تھیں۔ بس ایک بات مشترک تھی کہ سب پڑھاکو تھے اور پڑھے لکھے خاندانوں کے چشم و چراغ! چنانچہ تقریباً سبھی کے کیریئر شاندار بنے۔ کچھ سول سروس میں گئے‘ کچھ مسلح افواج میں! جو نجی شعبے میں گئے وہ بھی کامیاب ٹھہرے! محمد سعید نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور سول سروس کے لیے منتخب ہوئے۔ اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کام کیا لیکن ایک کام عجیب اور مختلف کیا جس کا ذکر آج مطلوب ہے! م...
یہ لطیفہ نما واقعہ تو اب پامال ہو چکا ہے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے کسی ریاست کے راجہ یا نواب نے چیف جسٹس کی جگہ چیف انجینئر کو لگا دیا۔ چیف جسٹس چھٹی سے واپس آئے تو انہیں چیف میڈیکل افسر تعینات کر دیا۔ یعنی ہر شخص وہ کام کر رہا تھا جو اُس کا نہیں تھا۔ ہم اس سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں۔اب ادارے وہ کام کر رہے ہیں جس کا ان سے کوئی واسطہ‘ کوئی لینا دینا نہیں! وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کا یہی احوال ہے۔اس نے ادبی میلوں کے انعقاد کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ یعنی شہر کی صفائی کا کام اب اکادمی ادبیات کرے گی اور خستہ شکستہ شاہراہوں کی درستگی ادارۂ فروغِ اردو کے ذمے ہو گی! حضور! جو آپ کے فرائض ہیں وہ تو ادا کر لیجیے۔ تو کارِ زمین را نکو ساختی؟ کہ با آسمان نیز پرداختی! زمین کے کام مکمل کیے نہیں اور آسمان کی کارسازی کو چل پڑے! صرف میلوڈی مارکیٹ کو دیکھ لیجیے۔ لگتا ہے اس ادارے کے کسی سربراہ نے اسے بنفسِ نفیس دیکھنے کی آج تک زحمت نہیں کی۔ یہ شہر کا دل ہے۔ اور بلا مبالغہ گندگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ یہاں شہر کا معروف فوڈ پارک بھی ہے۔ اس فوڈ پارک سے اگر سنیما ( جو کبھی تھا) کی طرف آئیں تو ...

ہم بھی کیا لوگ ہیں !!

ارے پاکستان کے حکمرانو! تم سے تو وہ موروثی بادشاہ‘ وہ آمر‘ سلطان محمود غزنوی ہی بہتر تھا جس نے فردوسی کو اس کا طے شدہ معاوضہ دیر سے بھیجا مگر اتنی دیر سے بھی نہیں! ادھر اونٹوں پر لدا معاوضہ شہر میں داخل ہوا‘ اُدھر فردوسی کا جنازہ اٹھا۔ مگر تم نے تو حد کر دی۔ قاضی عبد الرحمان امرتسری کو اُن کی زندگی میں اُن کا طے شدہ انعام کیا دیتے‘ تم نے اُن کا جنازہ اٹھنے کے بعد بھی تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزار دیا اور حقدار کو اس کا حق نہ دیا۔غلام محمد قاصر کا مشہور شعر ہے ؎ کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا قاصر مرحوم کو کم از کم محبت کرنا تو آتی تھی۔ ہمیں‘ یعنی ہمارے حکمرانوں کو تو کوئی ایک کام بھی نہیں آتا۔ سٹیل مل ہمارے حکمرانوں سے نہ چلی۔ گردن کا جؤا بنی ہوئی ہے۔ قومی ایئر لائن کی نعش نہیں سنبھالی جا رہی۔ سفید ہاتھی‘ مست سفید ہاتھی‘ پالے جا رہے ہیں۔ انہیں کھلا کھلا کر بیچارے عوام کی حالت قحط زدہ افریقیوں کی طرح ہو گئی ہے۔ پسلیاں دور سے گنی جا سکتی ہیں۔ بازو اور ٹانگیں سوکھ کر ماچس کی تیلیوں کی طرح ہو گئی ہیں۔ آنکھیں باہر نکل آئی ہیں۔ رخسار اندر کی طرف...

لٹریچر سے مہنگائی تک

ڈھول   پر   تھاپ   پڑ   رہی   تھی۔   ہر   تھاپ   کے   ساتھ ‘ سننے   اور   دیکھنے   والوں   کا   دل   باہر   آجاتا   تھا۔   پھر ‘  اگلی   تھاپ   پر   واپس   چلا   جاتا   تھا !  عجیب ‘  کَیف   کا   عالم   تھا۔   سب   ڈھول   بجانے   والے   کو ‘  اور   شہنائی   بجانے   والے   کو ‘  پلک   جھپکائے   بغیر ‘  دیکھ   رہے   تھے۔   نگاہیں   ہٹتی   نہیں تھیں۔   پھر   نوجوان   آئے   اور   لڈی   کھیلنے   لگے۔   ان   نوجوانوں   کے   سا   تھ   ادھیڑ   عمر   اور   بوڑھے   بھی   شامل   ہو   گئے۔زمین   سے   اٹھتا   قدم پیچھے   پڑتا ‘  پھر   آگے ‘  اس   دوران   بازو   ہوا   میں   لہرا   کر   تالی...