اشاعتیں

فروری, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ایک بدبختی جس کے خاتمے کا بظاہر کوئی امکان نہیں

قبیلے کا یہ لڑکا کسی طرح کراچی پہنچ گیا۔ جوں توں کر کے دس بارہ جماعتیں پاس کر لیں! واپس قبیلے میں پہنچا۔ قبائلی لڑکے کا اتنا پڑھ لکھ جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ باپ نے اظہارِ مسرت کیلئے بیٹے کو ساتھ لیا اور سردار سے ملاقات کرانے لے گیا۔ سردار نے نوٹ کیا کہ لڑکے نے اُجلا لباس پہنا ہوا ہے۔ پگڑی نہیں باندھی ہوئی۔ بالوں میں کنگھی کی ہو ئی ہے۔ خطرے کی گھنٹی سردار کے کانوں میں بجی۔لڑکے کو ایک دو دن بعد پکڑ لیا گیا۔ اس کے جسم پر گڑ کی مالش کی گئی۔ پھر اسے چیونٹیوں سے بھری غار میں پھینک دیا گیا۔ بلوچستان کا یہ سچا واقعہ‘عرصہ ہوا‘ ایک بلوچی ادیب نے سنایا تھا۔ سردار نے نئی بندوق کو ٹیسٹ کرنا ہو تو کسی پر بھی گولی چلا کر ٹیسٹ کر سکتا ہے۔سردار چور کو پکڑنے کیلئے مشکوک افراد کو جلتے انگاروں پر چلواتا ہے۔ سردار خود انگاروں پر کبھی نہیں چلتا۔ کچھ سال پہلے لاہور میں ایک بلوچی سردار سے‘ پریس کانفرنس کے دوران‘ جلتے کوئلوں پر چلانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس کا جواب تھا کہ یہ ہماری روایت ہے۔ اس پس منظر میں حالیہ واقعے کو دیکھیے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے! نجی جیل میں بے گناہ‘ غریب افراد کو بند ک...

سمندر‘ جزیرے اور جدائیاں

'' آپ   تایا   کے   گھر   نہ   جائیں۔   وہ   سب   بھی   یہیں   آجایا   کریں ‘‘ ۔تیمور   نے   میرے   گلے   میں   بانہیں   ڈال   کر   کہا۔   اس   کا   چھوٹا   بھائی   سالار میری   گود   میں   لیٹ   گیا۔ ''  آپ   نے   مجھے   کہانی   بھی   تو   سنانا   ہوتی   ہے ‘‘ ۔ بہت   دن   ان   لوگوں   کے   گھر   رہنے   کے   بعد   اب   ہمیں   اتنے   ہی   دنوں   کے   لیے   حمزہ   اور   زہرہ   کے   ہاں   جانا   تھا۔   وہاں   پہنچے   تو   حمزہ   کہنے   لگا ''  آپ   چاچا   جی   کے   گھر   زیادہ   دن   رہتے   ہیں   اور   ہمارے   ہاں   کم !‘‘  اسے   یقین   دلایا   کہ   ایسی   بات   نہیں۔...

جتنا جلد سمجھ لیں‘ بہتر ہے

! مراعات یافتہ طبقے اور عوام کے درمیان ہمیشہ فاصلے رہے ہیں!�یہ فاصلے کئی حوالوں سے قائم و دائم ہیں! آپ کسی جگہ چائے پینا چاہتے ہیں۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ نہیں پی سکتے! آپ بچے کو کسی تعلیمی ادارے میں داخل کرانا چاہتے ہیں مگر نہیں کرا سکتے۔ اور اگر کرانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو آپ کو فیس‘ مراعات یافتہ طبقے کی نسبت‘ زیادہ ادا کرنا پڑے گی! آپ ہوائی جہاز میں سفر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا ٹکٹ پورا ہو گا جبکہ مراعات یافتہ طبقے کے لیے اس پر ڈسکاؤنٹ ہو گا! آپ کی گاڑی پر عام نمبر پلیٹ ہو گی مگر آگے جانے والی گاڑی کی نمبر پلیٹ پر ''ایم این اے‘‘ لکھا ہو گا یا کوئی اور مخصوص نشان بنا ہو گا۔ وہ گاڑی ٹول پلازا سے زُوں کر کے گزر جائے گی۔ آپ کو رُک کر ٹول ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔آپ جہاز سے اُتر کر‘ پاسپورٹ ہاتھ میں لیے قطار میں کھڑے ہوں گے مگر ایک صاحب آئیں گے‘ ان کے ساتھ ایک چست سمارٹ جوان ہو گا۔ ان کے پاسپورٹ پر فوراًٹھپہ لگ جائے گا۔ جتنی دیر میں آپ قطار سے فارغ ہوں گے وہ صاحب گھر پہنچ چکے ہوں گے۔آپ کچن کی عام چھری لے کر گھر سے باہر نکلیں گے تو پچاس بار پوچھ گچھ ہو گی مگر کچھ لوگوں کی گاڑیوں کے آ...

گلے میں آویزاں بورڈ

وہ یہیں پیدا ہوا۔ اس کا باپ بھی اسی دھرتی کا بیٹا تھا۔ ماں بھی اسی مٹی سے اٹھی تھی! سینکڑوں ہزاروں برس سے یہ لوگ اسی زمین کی اولاد تھے۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ فاتر العقل تھے یا ان کے خاندان میں کوئی ذہنی یا جسمانی نقص نسل در نسل چلا آرہا تھا۔ یہ ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند‘ چست‘ فِٹ اور ذہین لوگ تھے۔ یہ اَن پڑھ بھی نہیں تھے۔ پشت در پشت پڑھے لکھے چلے آرہے تھے۔ خوش لباس تھے۔ خوش وضع تھے۔ سوشل تھے۔ ملنسار تھے۔ علاقے  ۰میں ان کی عزت ان کے باپ دادا کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔ دیانت دار تھے۔ لین دین میں ‘ داد و ستد میں‘ کھرے اور قابل ِاعتبار تھے۔ اچھی شہرت کے مالک تھے۔ ملک کے بھی وفادار تھے۔ان کی جبیں پر بے وفائی کا کوئی داغ نہیں تھا! سب کچھ ٹھیک تھا! مگر ایک مسئلہ تھا۔وہ یہ کہ ان میں سے ہر ایک کے گلے میں ایک بورڈ آویزاں تھا۔ وہ جہاں جاتے یہ بورڈ ساتھ ہوتا۔ گھر میں‘ بستر پر ‘ باتھ روم میں ‘ کلاس روم میں ‘ بازار میں‘ دفتر میں ‘ گلی محلے میں‘ سفر میں‘ قیام میں ‘ عدالت میں‘ کابینہ میں ‘ عساکر میں‘ سول سروسز میں‘ یہاں تک کہ اسمبلی میں بھی یہ بورڈ ان کے سینے پر لہرا رہا ہوتا۔ یہ اسے اتار نہ...

میں اور میرے حاسد

میں تو مجید امجد سے بھی زیادہ قسمت کا دھنی نکلا۔ مجید امجد کی '' شبِ رفتہ‘‘ میں ایک نظم ہے ''آٹو گراف‘‘! بہت بڑی نظم ہے! ان کی اکثر و بیشتر نظمیں اردو ادب کے حوالے سے تاریخ ساز نظمیں ہیں! یہ اور بات کہ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی نصابی کتابوں میں انہیں نظر انداز کیا گیا! بلکہ بلیک آؤٹ کیا گیا!اور کیا جا رہا ہے! اس لیے کہ کورس کی کتابیں ترتیب دینے والے بالشتیے ہیں! بونوں سے بھی قامت میں چھوٹے!! آنکھوں پر چربی کی موٹی تہیں ہیں! یہ چربی‘ تعصب کی چربی ہے! دماغ منجمد ہیں! علم سے ان مرتّبین کا اتنا ہی تعلق ہے جتنا قطبین میں جمی برف کا گرمی سے! نظم کی طرف واپس آتے ہیں۔ نظم میں مجید امجد اپنا موازنہ اُن کھلاڑیوں سے کرتے ہیں جن کی ایک نگاہ کے لیے حسیناؤں کے جھرمٹ منتظر ہیں! منظر یہ ہے کہ خوبصورت لڑکیاں‘ ہاتھوں میں‘ آٹو گراف کاپیاں لیے‘ انتظار کر رہی ہیں! کوئی کھلاڑی جب آٹو گراف دیتے وقت کسی لڑکی کی کاپی پر لکھتا ہے تو ہونٹوں پر کھیلتی ہوئی شریر مسکراہٹیں جیسے رُک جاتی ہیں۔ مہندی لگے ہاتھوں کی نازک انگلیاں لرزنے لگتی ہیں! زر نگار دوپٹوں میں چھپی کلائیوں کی نبضیں جیس...