ایک بدبختی جس کے خاتمے کا بظاہر کوئی امکان نہیں
قبیلے کا یہ لڑکا کسی طرح کراچی پہنچ گیا۔ جوں توں کر کے دس بارہ جماعتیں پاس کر لیں! واپس قبیلے میں پہنچا۔ قبائلی لڑکے کا اتنا پڑھ لکھ جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ باپ نے اظہارِ مسرت کیلئے بیٹے کو ساتھ لیا اور سردار سے ملاقات کرانے لے گیا۔ سردار نے نوٹ کیا کہ لڑکے نے اُجلا لباس پہنا ہوا ہے۔ پگڑی نہیں باندھی ہوئی۔ بالوں میں کنگھی کی ہو ئی ہے۔ خطرے کی گھنٹی سردار کے کانوں میں بجی۔لڑکے کو ایک دو دن بعد پکڑ لیا گیا۔ اس کے جسم پر گڑ کی مالش کی گئی۔ پھر اسے چیونٹیوں سے بھری غار میں پھینک دیا گیا۔ بلوچستان کا یہ سچا واقعہ‘عرصہ ہوا‘ ایک بلوچی ادیب نے سنایا تھا۔ سردار نے نئی بندوق کو ٹیسٹ کرنا ہو تو کسی پر بھی گولی چلا کر ٹیسٹ کر سکتا ہے۔سردار چور کو پکڑنے کیلئے مشکوک افراد کو جلتے انگاروں پر چلواتا ہے۔ سردار خود انگاروں پر کبھی نہیں چلتا۔ کچھ سال پہلے لاہور میں ایک بلوچی سردار سے‘ پریس کانفرنس کے دوران‘ جلتے کوئلوں پر چلانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس کا جواب تھا کہ یہ ہماری روایت ہے۔ اس پس منظر میں حالیہ واقعے کو دیکھیے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے! نجی جیل میں بے گناہ‘ غریب افراد کو بند ک...