اشاعتیں

اپریل, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

حیراں سرِ بازار

نیامت اللہ سعید بنگش، سلامت ماشکی، رشیدہ ڈومنی، ایشور کمار، خمیسو، عثمان مسیح کی آخری سانس، موچھے کی پٹائی، ٹنڈو محمد خان، ...... یہ کسی ناول کے ابواب ہیں نہ خاکے، یہ حارث خلیق کی نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ یہ ہماری مروّجہ شاعری میں فِٹ نہیں ہوتیں! آج کل اردو شاعری پر عجیب دَورِ فتن آیا ہوا ہے۔ ایک بچی کو، جس میں شاعری کے صحت مند جراثیم واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے، بزرگانہ مشورہ دیا کہ بیٹی! ادبی جرائد میں شائع ہونا ضروری ہے! اس نے خود اعتمادی کے ٹیلے پر چڑھ کر جواب دیا کہ سر! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میری شاعری فیس بک پر بہت پڑھی جا رہی ہے۔ اس کا جواب ما شاء اللہ کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ اب شاعری وٹس ایپ اور فیس بک پر آ چکی ہے۔ اب اسے قارئین کی ضرورت نہیں، بس ناظرین درکار ہیں۔ دوسری افتاد مشاعرہ بازی کا نیا چلن ہے۔ ویسے ہر عشرے میں کچھ مقبول شاعر ابھرتے ہیں۔ پہلے ان کے بیس بیس تیس تیس مجموعے ظاہر ہوتے تھے۔ اب وہ کالجوں یونیورسٹیوں کے مشاعروں میں Entertainers کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انجام دونوں کا ایک جیسا ہوتا ہے۔ سکندر اعظم کے مانند! یعنی آندھی کی طرح آنا اور طوفا...

دو کشتیوں میں پاؤں نہ رکھو‘ ڈوب جاؤ گے

ایک معروف کالم نگار نے لکھا تھا کہ ایک جلوس امریکہ کے خلاف نکلا ہوا تھا۔ مقررین دھواں دھار تقریریں کرتے اور جلوس میں شامل عوام'' امریکہ مردہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے تھے۔ اچانک سٹیج سے اعلان ہوا کہ جو لوگ گرین کارڈ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ جلوس سے نکل کر دوسری طرف کھڑے ہو جائیں۔ سب لوگ جلوس سے نکل کر دوسری طرف کھڑے ہو گئے۔ حقیقتِ حال کی غمازی کرنے کے باوجود‘ یہ ایک لطیفہ ہی ہے ! اب اصل واقعہ بھی سن لیجیے۔ جمیل کاظمی میرے کالج کے زمانے کے دوست ہیں۔ میں اپنے قصبے سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن کالج میں داخل ہوا۔ جمیل علی گڑھ سے میٹرک کر کے آئے اور اسی کالج میں آن وارد ہوئے۔ کہاں علی گڑھ اور کہاں مغربی پنجاب کا ایک دورافتادہ قصبہ مگر دوستی ہوئی اور ایسی کہ آج اُنسٹھ سال ہو گئے ‘ زمانے کے ہزار پیچ و خم کے باوجود دوستی قائم ہے۔ جمیل اپنے صاحبزادے سے ملنے امریکہ گئے تو کچھ دن کے لیے اپنے ایک عزیز کے ہاں نیو جرسی بھی رہے جو کافی عرصہ سے وہاں مقیم ہیں اور امریکی شہری ہیں۔ یہ عزیز رات دن امریکہ کو کوستے تھے۔ جتنے دن جمیل ان کے ہاں رہے‘ یہ عزیز صبح ہوتے ہی کہانی شروع کر ...

اگر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آئے

اگر عمران خان کے سر پر اقتدار کا ہما ایک بار پھر بیٹھتا ہے تو جن سوراخوں سے وہ پہلے ڈسے گئے‘ کیا ان سے بچنے کی کوشش کریں گے؟ یہ تو طے ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دوبارہ نہیں بھیجیں گے مگر جن غلطیوں کا ابھی انہوں نے اعتراف نہیں کیا‘ کیا ان سے بھی احتراز کریں گے؟ ان کے حامی جس الزام پر سب سے زیادہ بے بسی کا سامنا کرتے ہیں وہ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ان کا اتحاد تھا۔ اپنے مخالفین کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے کو چور کہتے تھے‘ مگر وہ خود بھی تو کہتے تھے کہ فلاں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو ہے۔ پھر اس سے اتحاد کر لیا۔ کیا دوبارہ اقتدار میں آ کر وہ ایسا ہی کریں گے؟ کیا شیخ رشید ہی کو وہ اپنا وزیر داخلہ مقرر کریں گے؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عثمان بزدار ہی کو دوبارہ وزیر اعلیٰ تعینات کریں گے؟ کیا آئی جی اور چیف سیکرٹری کو ہر چند ہفتوں بعد تبدیل کر دیا جائے گا؟ کیا عثمان بزدار سرکاری بجٹ سے بنی ہوئی کسی عمارت پر دوبارہ اپنے والد صاحب کا نام کَندہ کرائیں گے؟ سابق وزیر اعظم‘ دوبارہ وزیر اعظم بنے تو دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر آنے جانے کے لیے کیا سرکاری خرچ پر ہیلی کاپٹ...

ایک بزرگ کے حضور

کمرہ کیا تھا، کٹیا تھی۔ دیواریں مٹی کی تھیں۔ فرش سیمنٹ کا جیسے ہمارے بچپن میں اکثر گھروں کا ہوتا تھا۔ فرش پر چٹائیاں بچھی تھیں۔ ایک طرف پانی کا پرانا سا کولر رکھا تھا جس پر مٹی کا ایک پیالہ اوندھا پڑا تھا۔ چٹائیوں کے ایک طرف دری بچھی تھی۔ اس کے ساتھ ایک عمر رسیدہ گاؤ تکیہ رکھا تھا ۔ یہیں وہ بزرگ تشریف فرما تھے جن کی زیارت کے لیے ایک دوست زبردستی لایا تھا۔ اس دوست کا ہمیشہ سے گلہ تھا کہ تم لوگ بزرگوں کو نہیں مانتے۔ میں ہر بار وضاحت کرتا کہ ایک تو میں وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو! نہ ہی کسی فرقے سے تعلق ہے۔ دوسرا بزرگوں کی بزرگی سے انکار کون کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ بزرگ ہوں، مستقبل کی پیشگوئیاں کرنے والے نہ ہوں۔ بد قسمتی سے آج کل بزرگی اور روحانیت کا مطلب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل کا حال بتایا جائے گا۔ میں اپنے مستقبل کا حال معلوم کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر مستقبل کا حال جاننا میرے لیے مفید ہوتا تو قدرت دوسرے علوم کی طرح یہ علم بھی عطا کرتی۔ دوست نے بتایا کہ یہ بزرگ مستقبل کی پیشگوئیاں بالکل نہیں کرتے نہ انہیں دعویٰ ہے۔ وہ تو علم و حکمت بانٹتے ہیں اور دانش کے موتی بکھیرتے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہی...

کچھ’’ سائبان تحریک ‘‘ کے بارے میں

آپ نے جنات کے بارے میں کئی ناقابلِ یقین واقعات سنے ہوں گے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی انسان‘ انسانی شکل ہی میں‘ جن کی طرح کام کرتا ہے! ناقابلِ یقین کام ! حسین مجروح ایک ایسا ہی انسان ہے۔ دیکھنے میں ہمارے جیسا! مگر جب کام کرتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ انسان ہے یا جن! اکبر الہ آبادی نے سرسید احمد خان کے بارے میں کہا تھا ؎ ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سیّد کام کرتا ہے نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں ہم بھی باتیں کرتے رہے۔حسین مجروح نے ہمیشہ کچھ کر کے دکھا یا۔ ادبی دنیا پر اس کے بہت سے احسانات ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس نے یہ احسانات کبھی جتائے نہ ان کے بدلے میں کچھ چاہا۔ پیشے کے لحاظ سے بینکار اور بینکار بھی اعلیٰ مناصب والا۔ادب پر گفتگو کرنے پر آئے تو سننے والوں کو پتا چلتا ہے کہ اس کے پاس صرف فنِ گفتگونہیں‘ علم بھی ہے۔ نثر کمال کی لکھتا ہے اور شاعری ؟ شاعری تو اس کا اصل میدان ہے۔ کیسے کیسے اشعار کہے ہیں مجروح نے ؎ وہ ماشکی ہوں کہ میلے سے ایک شب پہلے کتر دیا ہو گلہری نے جس کا مشکیزہ وہ قحطِ مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم سے غیبت نکال دیں تو فقط خامشی بچے میں سینت سینت کے رکھتا ہوں...

نصف آبادی کب تک اپاہج رہے گی ؟

چھ دن پہلے جو واقعہ وفاقی دارالحکومت کے ایک تھانے میں پیش آیا وہ بظاہر بہت معمولی ہے۔ یہ کوئی بریکنگ نیوز تھی نہ پرنٹ میڈیا کی سرخی۔ دو تین اخباروں نے چھوٹی سی خبر شائع کی لیکن اس کے باوجود اس واقعہ میں ہمارے لیے سبق ہے اور نشانیاں۔ اس کے ساتھ ہی ماضی کے دو واقعات یاد آرہے ہیں۔ ایک کا کالم نگار خود شاہد ہے۔دوسرا سنا ہے اور راوی ثقہ ہیں۔ اب صحیح یاد نہیں یہ سفر غرناطہ سے بارسلونا تک کا تھا یا بارسلونا سے روم تک کا۔ ٹرین کے ڈبے میں آمنے سامنے دو لمبی سیٹیں تھیں۔ ایک پر کالم نگار بیٹھا تھا۔ سامنے والی سیٹ پر تین لڑکے اور ایک لڑکی براجمان تھی۔ عمر اور وضع قطع سے یہ کسی کالج یا یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ لگ رہے تھے۔ گاڑی چلی۔ یہ آپس میں ہنسی مذاق، ٹھٹھا مخول کر رہے تھے۔ ایک لڑکا لڑکی کے ایک طرف بیٹھا ہوا تھا اور دو دوسری طرف۔ لڑکی کے پاس چاکلیٹ تھی یا کھانے کی کوئی اسی قبیل کی شے۔ اس نے نکالی اور کھانا شروع کردی۔ ایک لڑکے نے کہا کہ مجھے بھی دو۔ لڑکی نے انکار کر دیا۔ اب یہ لڑکی کی چھیڑ بن گئی اور لڑکوں کی ضد۔ لڑکوں نے اس سے چاکلیٹ چھیننا چاہی مگر اس نے نہ چھیننے دی۔ وہ کھاتی بھی رہی اور ایک ہات...

۔میں نے عمران خان کی حمایت کیوں چھوڑی؟۔( ۲ )

آگے بڑھنے سے پہلے دو وضاحتیں۔ عمران خان پر تنقید کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ تنقید کرنے والا زرداری یا مولانا یا شریف برادران کا حامی ہے۔ یہ ایک بے تکی بات ہے۔ ارے بھائی! ہم نے ان حضرات سے جان چھڑانے کے لیے ہی تو عمران خان کا ساتھ دیا تھا۔ دوسرے یہ کہ کالم کے عنوان سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ کالم نگار اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے‘ اور اس زعم میں ہے کہ اس نے حمایت چھوڑی تو عمران خان یا اس کی پارٹی یا حکومت کو نقصان ہوا۔ نہیں! ایسا ہرگز نہیں! ہم تو ان بے بضاعت افراد میں سے ہیں جو کسی مجلس میں موجود ہوں تو ان کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اور اگر نہ ہوں تو ان کی عدم موجودگی کو کوئی نوٹ نہیں کرتا۔ ہماری حمایت سے خان صاحب کو کیا فائدہ ہونا تھا‘ اور حمایت ترک کرنے سے ان کا کیا بگڑنا تھا۔ یہ کالم اس لیے لکھنا پڑا کہ جو قارئین سالہا سال سے کالم نگار کو پڑھ رہے ہیں، وہ پوچھتے ہیں کہ مایوسی کی وجوہ کیا ہیں۔ یہ عمران خان صاحب کی مخالفت ہے نہ ان پر تنقید۔ یہ تو امیدوں اور خوابوں کا نوحہ ہے۔ کابینہ بنی تو تبدیلی کا منہ چڑا رہی تھی۔ وہی عمر ایوب، وہی فہمیدہ مرزا، وہی شیخ صاحب، وہی فردوس عاش...

میں نے عمران خان کی حمایت کیوں چھوڑی ؟

یہ کالم نگار عمران خان صاحب کا سخت حمایتی تھا۔ یہ حمایت 2013ء سے لے کر ان کے حکومت میں آنے کے بعد‘ چند ماہ تک‘ شد و مد سے جاری رہی۔ سالہا سال کالم ان کی حمایت میں لکھے۔2017ء میں مارچ سے لے کر نومبر تک ایک ٹیلی وژن چینل میں ایک مستقل پروگرام میں شریک رہا جو ہفتے میں پانچ دن ہوتا تھا۔ دنیا نیوز کے موجودہ اسلام آباد بیورو چیف عزیزم خاور گھمن بھی اس پروگرام میں مستقل طور پر ساتھ تھے۔تیسرے صاحب عارف نظامی مرحوم تھے۔ ایک دن میں اسی چینل میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیٹر تشریف لائے۔ ہنس کر فرمانے لگے ''آپ تو ہمیں کُند چھری سے ذبح کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ ایک اور چینل میں مسلم لیگ کے ایک معروف رہنما نے کالم نگار کے حوالے سے کہا کہ ''اسے کیوں بلا لیتے ہیں ؟ وہ تو ہمارے خلاف بہت ہارڈ لائن لیتا ہے‘‘۔ یہ کالم نگار عمران خان کا شدید حامی کیوں تھا ؟ کرکٹ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ آج تک کوئی میچ نہیں دیکھا۔ ذاتی ملاقات بھی نہیں! صرف ایک بار قریب سے انہیں دیکھا۔ یہ ان کے حکومت میں آنے سے پہلے کی بات ہے۔ اسلام آباد پریس کلب میں ایک کھانا تھا جس میں خان صاحب نے ...

دھاندلی

ہم چار دوست تھے جن میں سے دو اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور ہم دو ‘تا دمِ تحریر‘ اپنی سفید داڑھیوں اور گنجے سروں کے ساتھ ‘ زندہ ہیں۔ ہم میں سے دو شہر میں رہتے تھے اور دو گاؤں میں۔ جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوتیں اور سکول کالج دو اڑھائی مہینوں کے لیے بند ہو جاتے تو ہم میں سے وہ دو بھی ‘ جو شہر میں رہتے تھے‘ گاؤں آجاتے۔ یہ دو اڑھائی ماہ ہمارے لیے پکنک کی طرح ہوتے۔ صبح سے لے کر شام ڈھلے تک ‘ پورا دن کھیل کود میں گزرتا۔ دو پہر کو دھوپ تیز ہوتی تو کمروں میں یا گھنے درختوں کی چھاؤں میںبیٹھ کر چار کانیاں کھیلتے۔ صبح شام ‘ دور ‘ کھیتوں‘ ڈھوکوں ‘ گوٹھوں میں نکل جاتے۔ گھڑ سواری ہوتی۔مویشیوں کو پانی پلانے لے جاتے۔ تالابوں میں تیرتے۔مگر اصل مزا گلی ڈنڈا کھیلنے میں تھا۔گاؤں کے جنوب میں‘ کھیتوں کے پار‘ ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر ایک میدان تھا۔ کبھی ہم وہاں میچ کھیلتے۔ اس سے آگے پہاڑ تھا۔ پہاڑ کے اوپر ایک اور میدان تھا جو پہلے میدان سے وسیع تر تھا۔ کبھی وہاں کا رُخ کرتے۔ پہاڑ کے اوپر واقع میدان میں کھیل کر ہمیں زیادہ خوشی حاصل ہوتی۔ ایک تو اونچائی کی وجہ سے وہاں ہر وقت ہوا چلتی رہتی۔دوسرے‘ پہاڑ کے ایک طرف ...

کاش یہ ایک کام نہ کیا ہوتا

!  بس ایک کام غلط ہوا‘ اور اس ایک غلط کام نے ہر کام کو غلط کر دیا۔ یہ پاکستان ہے۔ یہ جنوبی ایشیا ہے۔ یہاں آپ نے وہی کچھ کرنا تھا جو آپ کے پیش رو کرتے آئے ہیں۔ یہاں ریاستِ مدینہ کا سہارا نہیں لینا چاہیے تھا۔ یہاں صادق اور امین ہونے کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر کوئی اور آپ کو صادق اور امین کہہ رہا تھا تو آپ منع کر دیتے۔ یہ دعویٰ تو خلفائے راشدین نے بھی نہیں کیا تھا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ صادق اور امین ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد آپ کچھ بھی کرتے رہیں گے اور آسمانوں سے کچھ نہیں برسے گا؟ آپ ریاستِ مدینہ کے نام پر ہر وہ کام کریں گے جو آپ کے پیش رو کرتے رہے اور پردۂ غیب سے کچھ نہیں برآمد ہو گا؟ بس یہیں آپ مار کھا گئے۔ یہ آپ کے ساتھی، جو دس دس سال آپ کے ساتھ رہے، آج سب کچھ اگل رہے ہیں، یہ پردۂ غیب ہے جو آہستہ آہستہ اُٹھ رہا ہے۔ ابھی بہت کچھ ظاہر ہو گا۔ قدرت سب کچھ معاف کر دیتی ہے مگر اپنے محبوب رسولﷺ کے نام پر کی ہوئی دنیا داری کبھی نہیں معاف کرتی۔ آپ بھول گئے کہ ریاستِ مدینہ کا والی کئی سال تک کون رہا؟ ادب گاہیست زیر آسمان از عرش نازُک تر نفس گُم کردہ می آید جنید و با یزید اینجا ریاست...

امریکہ کے تو بھاگ جاگ اُٹھے !!

اٹھانوے سالہ ہنری کسنجر نے دوا کھائی۔ پانی پیا۔ بیوی کو کافی کے لیے کہا اور ایک بار پھر گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ ہنری کسنجر ایک چٹان تھا۔ ایک پہاڑ تھا۔ امریکہ کے خارجہ امور کو وہ سالہا سال چلاتا رہا۔ خارجہ پالیسی تعمیر کرتا رہا۔ پوری دنیا کے امور پر اس کی نظر تھی۔ ان امور کو وہ امریکی عینک سے دیکھتا۔ سوچتا۔ ماہرین سے بحث کرتا۔ پھر اپنی رائے بناتا۔ اس کی رائے کو نہ صرف امریکہ میں بلکہ پوری دنیامیں اہمیت دی جاتی۔ اس پر مضامین لکھے جاتے۔ اسے تحقیقاتی مقالوں اور کتابوں کا موضوع بنایا جاتا۔ کئی کتابوں کا مصنف تھا۔ سب سے بڑا کارنامہ اس کا چین کے حوالے سے تھا۔ چین اور امریکہ کے تعلقات صفر کی سطح پر تھے۔ کسنجر نے خفیہ طور پر چین کا دورہ کیا اور چواین لائی سے ملاقات کی۔1972ء میں جو میٹنگ صدر نکسن‘ ماؤزے تنگ اور چو این لائی میں ہوئی اور جس کے بعد امریکہ اور چین کے درمیان معاشی اور ثقافتی تعلقات قائم ہوئے وہ کسنجر ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ مشرق وسطیٰ کے تمام معاملات کسنجر ہی طے کرتا تھا۔ اسرائیل‘ مصر‘ سعودی عرب‘ سب ملکوں کے سربراہوں اور وزرائے خارجہ سے کسنجر ہی مذاکرات کرتا تھا۔ بہت سی کامیابیا...

رمضان سر آنکھوں پر!!

حمد و ثنا اور لاکھوں کروڑوں درود و سلام کے بعد، ملک کے مختلف حصوں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں رہنے والے قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ پروردگارِ عالم کا بے پناہ احسان ہے جس نے ہمیں ایک بار پھر رمضان کے مقدس مہینے کو دیکھنے اور اس کا استقبال کرنے کا موقع بخشا۔ گزشتہ رمضان میں بہت سے احباب اور اعزّہ موجود تھے جو آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ دنیا کی یہی بے ثباتی ہے جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔ میں اپنے قارئین پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ رمضان المبارک کے مقدس ایام کے ساتھ میرا سلوک نہایت ادب و احترام والا ہو گا۔ میں ہر روزے کو جھک کر اور سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کروں گا۔ رمضان کی راتیں بہت قیمتی ہیں۔ پوری کوشش ہو گی کہ یہ راتیں عبادت میں اور تلاوت میں اور تفکر میں گزاری جائیں۔ جیسا کہ حکم دیا گیا ہے، کا ئنات کے وجود پر اور رات دن کے آنے جانے پر اور چاند سورج کے طلوع و غروب پر خوب غور کرنا چاہیے۔ قارئین کو یہ یقین دلانا بھی از حد لازم ہے کہ میں عبادات کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھوں گا۔ پانچ نمازیں با جماعت ادا کرنے کا ارادہ بفضلہٖ تعالیٰ بہت پختہ ہے۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد مسجد ہی میں بیٹ...