حیراں سرِ بازار
نیامت اللہ سعید بنگش، سلامت ماشکی، رشیدہ ڈومنی، ایشور کمار، خمیسو، عثمان مسیح کی آخری سانس، موچھے کی پٹائی، ٹنڈو محمد خان، ...... یہ کسی ناول کے ابواب ہیں نہ خاکے، یہ حارث خلیق کی نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ یہ ہماری مروّجہ شاعری میں فِٹ نہیں ہوتیں! آج کل اردو شاعری پر عجیب دَورِ فتن آیا ہوا ہے۔ ایک بچی کو، جس میں شاعری کے صحت مند جراثیم واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے، بزرگانہ مشورہ دیا کہ بیٹی! ادبی جرائد میں شائع ہونا ضروری ہے! اس نے خود اعتمادی کے ٹیلے پر چڑھ کر جواب دیا کہ سر! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میری شاعری فیس بک پر بہت پڑھی جا رہی ہے۔ اس کا جواب ما شاء اللہ کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ اب شاعری وٹس ایپ اور فیس بک پر آ چکی ہے۔ اب اسے قارئین کی ضرورت نہیں، بس ناظرین درکار ہیں۔ دوسری افتاد مشاعرہ بازی کا نیا چلن ہے۔ ویسے ہر عشرے میں کچھ مقبول شاعر ابھرتے ہیں۔ پہلے ان کے بیس بیس تیس تیس مجموعے ظاہر ہوتے تھے۔ اب وہ کالجوں یونیورسٹیوں کے مشاعروں میں Entertainers کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انجام دونوں کا ایک جیسا ہوتا ہے۔ سکندر اعظم کے مانند! یعنی آندھی کی طرح آنا اور طوفا...