اشاعتیں

اپریل, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

افضل خان کی غلطی نہ دہرائیے گا!

بھارتی حکومت کی ذہنیت کو سمجھنے کے لیے شیوا جی کے مطالعہ سے بہتر کوئی سبق نہیں! 1627ء میں پیدا ہونے والا شیوا جی ان پڑھ تھا مگر بھیس بدلنے، جنگل میں چھپنے اور نشانہ بازی میں طاق تھا۔ عملی زندگی کا آغاز چوریاں کرنے اور ڈاکے ڈالنے سے کیا۔ پھر پونا کے نواح میں چھوٹے موٹے قلعوں پر قبضہ کرنے لگا۔ بیجا پور (جنوبی ہند) کی سلطنت پر اس وقت عادل شاہ حکمران تھا۔ شروع شروع میں اس نے شیوا جی کو کوئی اہمیت نہ دی‘ اس لیے بھی کہ مکار شیوا جی نے اسے لکھ بھیجا تھا کہ حضور! میں فتوحات آپ کے غلام کی حیثیت سے کر رہا ہوں اور ٹیکس بھی زیادہ وصول کر کے پیش کروں گا۔ پونا کے جنوب میں جاولی کا علاقہ تھا۔ یہاں کے مضبوط حکمران شیوا جی کے توسیعی عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ اس نے شادی کی تقریب کا ڈھونگ رچایا اور دھوکے سے انہیں قتل کرا دیا۔ اس کے بعد زندگی بھر دھوکہ اور فریب ہی اس کا سب سے بڑا ہتھیار رہا۔ اورنگ زیب عالم گیر اسے موشِ کوہستانی یعنی پہاڑی چوہا کہتا تھا۔ جب شیوا جی نے مغربی گھاٹ کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تو عادل شاہ کو خطرے کا احساس ہوا۔ اس نے اپنے نامور جرنیل افضل خان کو اس کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔...

آنکھوں والا اور کنواں

سب سے پہلے تو حکومت سے یہ پوچھا جائے کہ بیرونی ممالک سے آنے والوں کی سکریننگ کیوں نہ کی گئی؟ برطانیہ میں پھوٹنے والے خاص قسم کے کورونا کی خبر آنے کے بعد بھی لاپروائی برتی گئی۔ شدید مجرمانہ لاپروائی! یہاں تک سن رہے ہیں کہ جن مسافروں نے خود پیشکش کی کہ ان کا ٹیسٹ کیا جائے‘ ان کا بھی نہ کرایا گیا۔ یہی رویہ جنوبی افریقہ سے آنے والوں کے ساتھ برتا گیا۔پھر یہ پوچھا جائے کہ ویکسین خریدنے کے لیے کتنی رقم مختص کی گئی؟ کورونا ریلیف فنڈ کہاں گیا؟ خیراتی ویکسین ہی پر کیوں انحصار کیا گیا ؟ سڑکیں اور پُل تو بن نہیں رہے تو پھر قومی خزانے کا کیا مصرف ہے ؟ سبق یہ پڑھایا گیا تھا کہ شاہراہیں اور پُل بنانے سے ترقی نہیں ہوتی بلکہ انسانی سرمایہ کاری سے اصل ترقی ہوتی ہے۔تو صحت پر پیسہ لگانے سے بڑھ کر کون سی انسانی ترقی ہو گی ؟ پچاس سے زیادہ وزرا ء اور مشیر رکھنے کے بجائے اتنے ہی رکھے جاتے جن کا بہت اونچی آواز میں وعدہ کیا گیا تھا یعنی سترہ! اور اس بھوکی ننگی ‘قلّاش‘ مفلس قوم کی خون پسینے کی کمائی جو اس فوج ظفرموج پر خرچ ہو رہی ہے‘ ویکسین خریدنے پر صرف کی جاتی۔ معاملہ صرف تنخواہوں کا نہیں‘ یہاں داڑھی سے مونچھی...

بائیکاٹ

یہ1985ء تھا۔ دنیا کا مشہورترین مشروب( سافٹ ڈرنک) بنانے والی امریکی کمپنی نے مشروب بنانے کا فارمولا بدل ڈالا۔ مشروب کا ذائقہ تبدیل ہو گیا۔ لوگ پہلے والے ذائقے کے شوقین تھے۔ امریکی صارفین نے نئے مشروب کا بائیکاٹ کردیا۔ ہزاروں کے حساب سے کمپنی کو فون آنا شروع ہو گئے۔ ریستورانوں نے باقاعدہ بورڈ لگا لیے کہ '' یہاں اصلی یعنی پہلے والا مشروب پیش کیا جاتا ہے‘‘۔چند ماہ میں کمپنی کا دماغ درست ہو گیا اور اسے پہلے والا مشروب دوبارہ بازار میں لانا پڑا۔ اس سے پہلے‘1973ء میں امریکہ میں گوشت مہنگا ہو گیا۔ صارفین کی انجمنیں حرکت میں آگئیں۔ تحریک چلی کہ گوشت کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس تحریک میں عورتوں‘ بالخصوص خواتینِ خانہ نے نمایاں کردار ادا کیا کیونکہ گھر کے سودا سلف کی ذمہ داری ان کی تھی۔ ایک ہفتے میں گوشت سپلائی کرنے والوں اور فروخت کرنے والوں کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ یہ بائیکاٹ اس قدر کامیاب تھا کہ اُس وقت کے صدر ‘نکسن‘ کو مرغی اور چھوٹے بڑے گوشت کی قیمتیں فکس کرنا پڑیں۔ یہ صرف امریکہ یا یورپ کی بات نہیں‘ اپریل2018ء میں مراکش کے سوشل میڈیا پر تحریک شروع ہو گئی کہ تین بڑی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائی...

انوکھا مکتبِ فکر

ہم سب جانتے ہیں کہ فقہ کے بڑے اور معروف مکاتب پانچ ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ؒکے پیروکار فقہ جعفریہ پر عمل پیرا ہیں۔ فقہ حنفی کی اتباع کرنے والے احناف کہلاتے ہیں۔ شوافع ‘ امام شافعیؒ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ فقہ کا مالکی مکتب فکر امام مالکؒ سے منسوب ہے۔ حنبلی یا حنابلہ ‘ امام احمد بن حنبلؒ کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ آئمہ ایک دوسرے سے محبت اور احترام کا رشتہ رکھتے تھے۔انہوں نے ایک دوسرے سے علم بھی حاصل کیا۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ دونوں نے حضرت امام جعفر صادقؒ سے فیض حاصل کیا؛تاہم اصل بات جو ہم بتانا چاہتے ہیں اور ہے۔ ہم اہلِ پاکستان کی اکثریت جس مکتب فکر کی عملاً پیروکار ہے اس کا ان ثقہ مکاتب سے کوئی تعلق نہیں! سچ پوچھیے اور کہنے کی اجازت دیں تو یہ ایک اور ہی مکتب فکر ہے۔ ہم حنفی ہیں یا جعفری‘ یا کچھ اور ‘ اس نئے مکتب فکر کے حوالے سے سب یکجان ہیں۔ سب ایک دوسرے سے متفق ہیں۔ سب سے پہلے رمضان کو لے لیجیے۔پانچوں آئمہ کرام اس امر پر اتفاق فرماتے ہیں کہ روزہ رکھ کر کھانا پینا حرام ہے۔ مگر ہم پاکستانی ‘ منہ سے کہیں یا نہ کہیں‘ بکرے‘ دنبے‘ گائے‘ بھینس ‘ مرغی‘تیتر‘ بٹیر اوراونٹ کا گوشت تو چ...

اے جو بائیڈن ! اے صدرِ ریاستہائے متحدہ امریکہ

حکومت کیسے کی جائے ؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب حاصل کرنے کے لیے فلسفیوں‘ دانشوروں اور پنڈتوں نے عمریں صرف کیں۔ حکمرانوں نے فاضل اور عالم لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا تاکہ ان سے کامیاب حکومت کے گُر سیکھیں۔ یونان کے ارسطو اور ٹیکسلا کے چانکیہ کوٹلیا سے لے کر فلارنس کے میکیاولی تک ہر مفکر نے اپنی طرف سے نصیحتیں کیں اور بتایا کہ حکومت کیسے کی جائے۔ عروضی ثمرقندی نے اپنا شہرہ آفاق '' چہار مقالہ‘‘ تصنیف کیا جس میں بادشاہوں کو سکھایا کہ دربار میں دبیر‘ منجم ‘ شاعر اور طبیب کون کون سے رکھے جائیں۔ سعدی نے گلستان اور جامی نے بہارستان میں بادشاہوں کو مشورے دیے اور الگ باب باندھے۔ کیکاؤس بن سکندر نے جو خود بادشاہ تھا ‘ اپنے فرزند کے لیے قابوس نامہ تحریر کیا۔اس میں جہاں بانی کے اصول بتائے۔وزیر کیسے چُنے جائیں؟ سپہ سالار کیسا ہونا چاہیے؟ تجارت کو کیسے فروغ دیا جائے ؟ غلام خریدتے وقت کون کون سے پہلو پیشِ نظر ہونے چاہئیں ؟ ان سب سولات کے جواب قابوس نامہ میں موجود ہیں۔ پھر نظام الملک طوسی نے سیاست نامہ لکھا اور کمال کردیا۔ مخبروں کے فرائض‘ عمال کا حساب‘ لشکریوں کے اثاثے‘ عجلت پسندی سے گریز‘ سرکاری خز...

اپنی درخشاں روایات کا کچھ تو خیال کرنا چاہیے

رِک پیری ریاستِ ٹیکساس کا گورنر تھا۔ اس دن وہ بہت جلدی میں تھا۔ ایک سرکاری اجلاس میں شرکت کرنا تھی اور تاخیر ہو رہی تھی۔ اس نے دو بار راستہ بدلا اور شارٹ کٹ کا سہارا لیا۔ ہائی وے پر اس کا ڈرائیور حدِ رفتار عبور کر کے گاڑی بہت زیادہ تیز چلا رہا تھا کہ ٹریفک پولیس نے گاڑی روک لی۔ ڈرائیور باہر نکلا اور خاتون انسپکٹر کو قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اتنے میں گورنر خود گاڑی سے باہر نکل آیا اور انسپکٹر کو اپنا منصب بتا کر صورت حال کی وضاحت کرنے لگا۔انسپکٹر قائل نہ ہوئی اس لیے کہ اوور سپیڈنگ، بہر حال جرم تھا۔ آخر کار گورنر نے انسپکٹر سے کہا کہ جو کچھ کرنا ہے جلد کرو کہ میں لیٹ ہو رہا ہوں۔ انسپکٹر کا جواب تھا کہ میں ہر حال میں اپنا کام مکمل کروں گی۔ مگر معاملہ یہاں ختم نہ ہوا۔ بات میڈیا تک پہنچ گئی۔ میڈیا نے گورنر پر الزام لگایا کہ اس نے انسپکٹر پر اپنے منصب کے حوالے سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ آخر کار گورنر کو میڈیا کے سامنے معذرت کرنا پڑی ۔ اس نے تسلیم کیا کہ اسے گاڑی سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا۔ دوسرا واقعہ سنیے۔ ڈیوڈ کیمرون جب برطانیہ کا وزیر اعظم تھا، ایک مریض کو دیکھنے ہسپتال گیا۔ جب وہ...

اس کے بازو کٹ گئے پھر بھی وہ موجود تھا۔ پھر اس کی ٹانگیں کٹ گئیں‘ پھر بھی وہ وجود رکھتا تھا۔ پھر اس نے اپنے جسم کو چھوڑا اور کہیں اور جا بسا۔معلوم ہوا جسم محض ایک فریم تھا۔یہ فریم رہے نہ رہے‘ اس کے وجود کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ ایک بچے کو دیکھتے ہیں۔ پانچ یا آٹھ دس سالہ بچے کو! سرسبز و شاداب ! سرخ رخسار‘ گھنے سیاہ بال۔پیاری پیاری موٹی آنکھیں۔پھر اس بچے کو آپ ساٹھ سال بعد دیکھتے ہیں۔ رنگت سیاہ ہو چکی ہے۔ آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک ہے جس میں سے اندر دھنسی ہوئی آنکھیں جھانکتی ہیں۔سر چٹیل میدان بنا ہے۔ سفید لمبی داڑھی ہے۔ آپ پہچان نہیں پا رہے۔تعارف ہوا تو آپ کو یقین نہیں آرہا کہ یہ وہی بچہ ہے۔حالانکہ صرف فریم تبدیل ہوا ہے۔ فریم کے اندر وہ بچہ اب بھی اپنا الگ وجود رکھتا ہے۔اس کے وجود کا اس جسم سے تعلق عارضی ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ وہ اس بوسیدہ جسم کو بھی چھوڑ دے گا اور کسی اور فریم میں فِٹ کر دیا جائے گا۔ کچھ اس سے ملتی جلتی صورتحال کتاب کی بھی ہے۔ کتابوں کو پسند کرنے والے لوگ گھبرائے ہوئے ہیں۔ ''کتاب کلچر ختم ہو رہا ہے۔کمپیوٹر کتابوں کو کھا گیا۔ اب کتابیں کون پڑھے گا۔ وغیرہ‘‘۔ خطر...

ایک اور عظیم دریافت

یہ سولہویں صدی عیسوی تھی۔ جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں ایک کسان کو بخار تھا۔ تیز بخار! کسی کھیت کے کنارے‘ جنگلی‘ خود رو پودوں کے درمیان پڑا کراہ رہا تھا۔ نیم خوابیدہ! کبھی غنودگی چھا جاتی‘ کبھی آنکھیں کھول لیتا! بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ اسے قریب کے ایک پودے کے ساتھ کچھ لگا ہوا نظر آیا۔ پتا نہیں کون سا پھل تھا؟ کیا نام تھا؟ بھوک اور نیند کے سامنے انسان بے بس ہو جاتا ہے۔ تپتے‘ سلگتے بدن کو اس نے گھسیٹا اور جھاڑی سے پھل توڑ توڑ کر کھانے لگا۔ بد ذائقہ ! تلخ ! پھر غنودگی کی ایک اور لہر آئی۔ کتنے ہی پہر گزرے۔ اسے ہوش آیا تو بدن ہلکا محسوس ہوا۔ اس نے ہاتھ لگایا تو پیشانی جو پہلے تپ رہی تھی‘ اب نارمل لگ رہی تھی۔ وہ حیران ہوا اور پھر ایک خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوندا۔ ہو نہ ہو یہ اسی جنگلی پودے کے بے نام پھل کا اثر ہے! یہ تھا وہ حادثہ جس کے نتیجے میں کونین دریافت ہوئی اور سینکڑوں برس سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ملیریا کو کنٹرول کیا جانے لگا۔ اب ہم جنوبی امریکہ کو وہیں چھوڑ کر بحر اوقیانوس پار کرتے ہیں اور برطانیہ کے ساحل پر اترتے ہیں۔ 1666ء کا زمانہ تھا۔ طاعون نے برطانیہ کو اپن...

خوشحال گھرانوں کے بچوں پر بھی رحم کھائیے

میں نے تیرہ سالہ خوش لباس بچے کو دیکھا اور مجھے اس پر ترس آیا! مزدوری کرنے والے، کُوڑے کے ڈھیر سے پرانے کاغذ چننے والے، بھیک مانگنے والے اور گاڑی کا شیشہ صاف کرنے والے بچوں پر تو سب کو ترس آتا ہے مگر خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کا کیا ہو گا؟ وہ بھی تو رحم کے مستحق ہیں! اسے سامنے بٹھایا اور اس سے پوچھا: کیا آپ نے رات کو ستاروں بھرا آسمان دیکھا ہے؟ آپ کے گھر کے ارد گرد کون کون سے درخت ہیں؟ کبھی غور سے دیکھا ہے کہ بادل شکلیں کیا کیا بناتے ہیں؟ آخری بار دھنک کب دیکھی تھی؟ ہر روز پیدل کتنا چلتے ہیں؟ کبھی برستی بارش میں نہائے؟ سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا؟غروب سے پہلے شفق میں کون کون سے رنگ ہوتے ہیں؟ موٹر وے پر سفر کرتے ہیں تو کیا باہر، مالٹے کے باغوں، کھیتوں میں اُگی فصلوں، جوہڑوں میں نہاتی بھینسوں اور آسمان پر اڑتے پرندوں کو غور سے دیکھتے ہیں؟ کیا فاختہ کو پہچان لیں گے؟ سچ مچ کے زندہ، جیتے جاگتے خرگوش کو کبھی دیکھا ہے؟ شاید ہی کسی سوال کا جواب اس نے اثبات میں دیا ہو! اور یہ تو وہ سوال ہیں جو شہر میں رہنے والے بچوں کے لیے بہت زیادہ مشکل نہیں۔ میں نے اسے دوبارہ غور سے دیکھا۔ مجھے...

ایک اور مافیا

گزشتہ دو اڑھائی برسوں کے درمیان آپ نے مافیا کا لفظ بار بار سنا ہو گا۔ موجودہ حکومت‘ غالباً دنیا کی پہلی اور شاید آخری حکومت ہے جو مافیاز کا قلع قمع کرنے کے بجائے اپنے عوام کے سامنے ہر آئے دن مافیا کا ذکر بے بسی کے ساتھ کرتی ہے اور اپنی شکست خوردگی کا احساس دلاتی ہے۔اس سے وہی لطیفہ نما واقعہ یاد آگیا جو ہو سکتا ہے آپ نے پہلے بھی سنا ہو۔ مغلوں کے عہدِ زوال میں ایک شہزادے کی پرورش حرم سرا میں ہو ئی تھی۔کنیزوں‘ شہزادیوں‘ خادماؤں اور بیگمات کے سوا کسی سے سابقہ ہی نہیں پڑا تھا۔ اسی ماحول میں عنفوانِ شباب کا مرحلہ آگیا۔ایک دن حرم سرا میں کہیں سے سانپ آگیا۔ سب عورتوں نے شور مچایا کہ '' کسی مرد کو بلاؤ‘‘۔ ان میں سب سے بلند آواز اسی شہزادے کی تھی!!عوام مافیا مافیا کا شور مچاتے ہیں تو حکومت ان سے بھی زیادہ مافیا مافیا کا شور کرتی ہے۔ مگر اب تک کسی مافیا کا انسداد نہیں کر سکی۔ چینی مافیا‘ آٹا مافیا‘ پٹرول مافیا‘پانی کا ٹینکر مافیا‘ دل میں ڈالے جانے والے سٹنٹس کا مافیا۔ زمین پر ناجائز قبضہ کرنے اور کرانے والوں کا مافیا‘ گاڑیوں کی چوری کا مافیا‘ اغوا برائے تاوان کا مافیا۔ٹمبر (جنگلات کی چوری...

ایک سابق سفیر کی یادداشتیں

واجد شمس الحسن انگریزی زبان کے صحافی ہیں۔ بھٹو خاندان سے ان کا قریبی تعلق رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں انہیں برطانیہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا۔ حال ہی میں ان کی تصنیف ''بھٹو خاندان میری یادوں میں‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس میں سے کچھ اقتباسات قارئین سے شیئر کیے جا رہے ہیں۔ شملہ روانگی سے پہلے لاہور ایئر پورٹ سے جب جہاز انڈیا کے شہر چندی گڑھ جانے کے لیے اُڑا تو کچھ دیر بعد بھٹو صاحب جہاز میں موجود صحافیوں اور دیگر سرکاری افسران کے پاس آئے۔ انہوں نے سب کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم ہندوستان جا رہے ہیں۔ ہمارے نوّے ہزار فوجی وہاں قید ہیں۔ پاکستان ٹوٹ گیا ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ہے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ جانے والے وفد میں زیادہ تر صحافیوں اور آفیشلز کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ آپ کا تعلق زندہ دلان پنجاب سے ہے۔ آپ جہاز سے اترنے کے بعد وہاں لوگوں سے جپھیاں نہیں مارو گے‘ میں نہیں چاہتا کہ آپ کے چہروں سے یہ ظاہر ہو کہ آپ بڑے خوش ہیں یا آپ کو کوئی شرمندگی ہے۔ آپ کے ملنے کے انداز اور گفتگو سے یہ تاثر پیدا ہونا چاہیے کہ آپ ان سے ناراض ہیں۔ آپ انڈیا کے لوگوں سے ملتے...

شارٹ کٹ

“ میری اپنی زمین ہے، میری اپنی گاڑی ہے اور (گاڑی چلانے والا بچہ) میرا اپنا  بیٹا ہے…………… تنقید کرنے والے …………اپنے کام سےکام رکھیں  پیپلز پارٹی یانون لیگ کا نہیں، یہ بیان ایک ایسی جماعت کی ایک اہم  شخصیت کا  ہے   جس نے اقتدار میں آنے سے پہلے وعدہ کیا تھا اور دعویٰ بھی کہ  وہ قانون کی  رِٹ قائم کرے گی۔  اس جماعت کے سربراہ  ، جو اب حکومت کے بھی سربراہ ہیں، مغربی ممالک کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ وہاں کس طرح  بڑے سے بڑا شخص قانون کے سامنے  دوسروں کے برابر ہے۔  { نہیں معلوم  اس عبرت ناک بیان پر اس پارٹی کا یا  اربابِ اختیار کا کیا ردّ عمل ہو گا ؟ ہوگا بھی  یا نہیں ؟  کوئی نوٹس لے گا بھی یا نہیں ؟ مگر اصل مسئلہ حکومت یا سیاسی جماعتوں کی سطح سے اوپر کا ہے ! بہت اوپر کا !  کوئی لیڈر مغربی ملکوں میں رائج قانون پر عملداری کی لاکھ مثالیں دے، محض مثالیں دینے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ مسئلے کی جڑیں گہری ہیں۔ یہ جڑیں ہماری معاشرت ، ہمارے کلچر  اور ہماری ذہنیت میں پیوست ہیں۔ہم نے ظاہر میں نظر آنے والی، مادّی ، ...