اشاعتیں

دسمبر, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہم چاہیں یا نہ چاہیں

!  مشہور شاعر جناب انور مسعود کی ایک نظم ہے: سوچی پئے آں ہُن کی کریے۔ یعنی سوچ رہے ہیں کہ اب کیا کریں! اس نظم میں ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ جی چاہتا تھا مارشل لا سے جان چھڑائیں اور حکومت کی بنیاد ووٹوں پر رکھیں‘ مگر افسوس! ووٹوں کا مزا بھی چکھ لیا!! ہم نے بھی سب کچھ کر کے دیکھ لیا۔ مڈل کلاس کے اوپر آنے کی حسرت تھی۔ سو، مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعت کا مزہ بھی چکھ بیٹھے ہیں۔ ہمیں وہ سیاسی پارٹیاں بُری لگتی تھیں جن پر خاندانوں کے موروثی قبضے ہیں۔ سو ایک ایسی پارٹی بھی بھگتا بیٹھے ہیں جس پر موروثی قبضہ نہیں ہے۔ یہ اور بات کہ بائیس چوبیس سال سے اس کا سربراہ تبدیل نہیں ہوا۔ ہمیں مغربی ممالک کی مثالیں دی گئی تھیں اور یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ویسی ہی جمہوریت رائج کی جائے گی‘ مگر وہاں تو سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہر چند برس بعد تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تھریسا مے صرف تین سال کنزرویٹو پارٹی کی لیڈر رہیں۔ ڈگلس ہوم دو سال سے بھی کم عرصے کے لیے سربراہ رہے۔ بعض اوقات تو پارٹی ارکان ووٹ کی طاقت سے چند ماہ بعد ہی لیڈر کو چلتا کر دیتے ہیں۔ تو کیا ہم تحریک انصاف پر اب اعتراض کریں کہ چوبیس برس سے ایک ہی لیڈر پارٹ...

دو قہقہے خطرناک ہوتے ہیں

ایسا اس سے پہلے نہ کبھی دیکھا‘ نہ سنا۔ وزیر اعظم کہہ رہے تھے کہ ہمیں تو تین مہینے صرف سمجھنے پہ لگ گئے‘ڈیڑھ سال تک ہمیں Actual Figuresیعنی اصل اعدادوشمار کا ہی نہیں پتہ چل رہا تھا۔ ان کے سامنے جو لوگ بیٹھے تھے ان میں کچھ ایسے تھے جو گزشتہ ادوار میں کئی کئی بار حکومتوں کا حصہ رہے تھے۔ کتنی ہی وزارتیں چلا چکے تھے۔ کبھی پیپلز پارٹی کے ساتھ‘ کبھی پرویز مشرف کی کابینہ میں ‘ کبھی مسلم لیگ کے دورِ اقتدار میں ! ایسی شخصیات بھی اُس فنکشن میں موجود تھیں جو بیرون ملک کاروبار چلا رہی ہیں اور ہر اونچ نیچ کو سمجھتی ہیں۔ ایسے بیورو کریٹ بھی بیٹھے ہوئے تھے جو ساری ساری زندگی اُن اعداد و شمار سے کھیلتے رہے تھے جن کے بارے میں وزیر اعظم کہہ رہے تھے کہ ڈیڑھ سال تک اُن کاپتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے ایک مشیر ایسے بھی ہیں جو بیس سال تک ورلڈ بینک کے اعلیٰ مناصب پر رہے۔ پھر سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ڈیڑھ سال تک وزیر اعظم کو ‘ بقول ان کے‘ اصل اعدادو شمار کا پتہ ہی نہیں چلا تو یہ مشیر صاحب کہاں تھے؟ لیکن اس منظر کے مضحکہ خیز ہونے کی وجہ یہ نہیں تھی۔ وجہ یہ تھی کہ یہ سب لوگ ‘ یہ سب تجربہ کار...

چہرے پر چہرہ

صوفی تھے یا عالم، محدث تھے یا مجذوب یا کوئی پہنچے ہوئے بزرگ، ہر وقت اپنے کمرے ہی میں رہتے۔ باہر نکلتے تو نظریں جھکا کر چلتے، یوں کہ کسی پر نظر نہ پڑے۔ جو بھی کام ہوتا، درس و تدریس کا یا مریدوں، عقیدت مندوں سے ملنے کا، انجام دیتے، اور نظریں جھکا کر چلتے ہوئے پھر اپنے حجرے میں واپس! ایک طویل عرصہ یوں ہی گزرا۔ آخر کار کسی پیروکار نے پوچھ ہی لیا کہ حضرت! کسی کی طرف دیکھتے نہیں! ملتے ملاتے بھی کم ہیں، بہت ہی کم! حجرے میں عبادت اور مطالعہ کے لیے اتنا زیادہ وقت! آخر اس کنارہ کشی میں کیا حکمت ہے اور کون سی مصلحت ہے؟ حضرت نے کچھ تامل فرمایا‘ پھر کہا کہ میں کیا کروں؟ چہروں پر نظر پڑے تو کوئی بندر نظر آتا ہے، کوئی بھیڑیا، کوئی خُوک اور کوئی سگ! اس صورت حال سے بچنے کے لیے صرف اُس وقت ہی باہر نکلتا ہوں جب ناگزیر ہو اور نکلتا بھی ہوں تو اس طرح کہ کسی چہرے پر نظر نہ پڑے! یہ حکایت یا روایت، جو بھی ہے، ہم نے بزرگوں سے سنی! دوسرے لوگوں نے بھی سنی ہو گی! معلوم نہیں کتنا اس میں سچ ہے اور کتنا مبالغہ! مگر اس سے ذہن قرآن پاک میں بیان کردہ اُس واقعہ کی طرف ضرور جاتا ہے‘ جس میں ایک نافرمان گروہ کو حکم دیا گیا...

………قسمت تھی کھوٹی

صوفی تبسم کو نہیں دیکھا۔ان کی سوانح بھی نظر سے نہیں گزری۔ کشور ناہید بتاتی ہیں کہ صوفی صاحب کی پوتی نے ان پر کوئی کتاب لکھی ہے۔ مصنفہ کا نام معلوم ہے نہ کتاب کا۔ صوفی صاحب ایک لیجنڈ تھے۔ اردو ادب کا کون ایسا دلدادہ ہو گا جس نے اس شعر پر سر نہ دھنا ہو ؎ سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی صوفی صاحب کا ایک عظیم الشان کارنامہ ان کی وہ نظمیں ہیں جو انہوں نے بچوں کیلئے لکھیں۔ٹوٹ بٹوٹ کا جو کیریکٹر انہوں نے تخلیق کیا اور پھر اس حوالے سے جو شاعری کی اس کی شاید ہی کوئی مثال کسی اورزبان میں موجود ہو۔ ٹوٹ بٹوٹ کی زندگی کے مختلف پہلو جو شاعر نے دکھائے ہیں ‘ بچوں کیلئے مزیدار تو ہیں ہی‘ بڑوں کو بھی آئینہ دکھاتے ہیں۔ اس کتاب کی شرح میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ افسوس! ادب کے نام نہاد‘ یک چشم نقاد اس سے غافل رہے۔ اب تو یہ کتاب بازار میں دستیاب ہے‘ جس وقت اس کالم نگار کے بچے چھوٹے تھے ‘ یہ نایاب تھی۔ کوئٹہ کی ایک بُک شاپ سے‘ جس کا نام یاد نہیں‘ ایک نسخہ اتفاق سے ملا تو گویا لاٹری نکل آئی۔ یہ‘ ہر عمر کے '' بچوں ‘‘ کیلئے یکساں پُر کشش ہے۔ ان '' بچوں ‘‘ میں ج...

اک پیڑ تھا اور اُس پہ الوچے لگے ہوئے

جزیرہ سر بمہر ہے۔ کوئی وہاں سے باہر نکل سکتا ہے نہ اندر داخل ہو سکتا ہے۔ یہ گئے وقتوں کی طلسماتی داستان نہیں جس میں پریاں اور شہزادے جزیرے میں قید کر دیے جاتے تھے۔ ان داستانوں میں ایک بھاری بھرکم، ڈراؤنا، دیو، بھی ہوتا تھا۔ یہ دیو، کبھی ولن کا کردار ادا کرتا تھا اور کبھی مددگار ثابت ہوتا تھا۔ ایک فقیر قسم کا کریکٹر بھی ہوتا تھا جو مشکلات حل کرتا تھا۔ پیر تسمہ پا بھی ہوتا تھا جو دھوکے سے گردن پر سوار ہوتا اور پھر اترنے کا نام نہ لیتا۔ کوہ ندا بھی ہوتا تھا جہاں آواز سن کر، پیچھے دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا تھا۔ ان داستانوں میں سب کچھ ممکن تھا۔ تپتے سلگتے صحراؤں میں، عین سراب کے بیچ، پانی کے چشمے ابل پڑتے، گھوڑے پرندوں کی طرح اُڑتے اور سمندر جادو کے زور سے پار کیے جاتے۔ مگر یہ سب داستانیں تھیں۔ خیالی! تصوّراتی! آج جزیرے حقیقت میں سر بمہر ہیں۔ سِیل کر دیے گئے ہیں۔ جنوبی بحرالکاہل اور بحرِ ہند کے درمیان اور ایشیا کے جنوب مشرق میں واقع، دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ، مقفل کر دیا گیا ہے۔ جو وہاں ہیں وہ جزیرے سے نکل نہیں سکتے۔ جو باہر ہیں وہ اندر نہیں جا سکتے۔ عجیب ڈرپوک ہیں اس جزیرے والے! لکڑی کے ب...

……یہ لوگ ! جوہمارے لیے امتحان ہیں

اس بہت بڑی دکان پر اڑتیس چالیس برس سے آنا جانا ہے۔ تاجر یعنی مالک سے دوستی تھی۔ کیش کاؤنٹر پر ایک بزرگ بیٹھا کرتے‘ کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہو گیا تو یہ سیٹ ان کے نوجوان بیٹے نے سنبھال لی۔اب تو خیر اس کی داڑھی بھی سفید بالوں سے بھرتی جا رہی ہے۔ جب بھی جا نا ہوتا پہلے اس سے دعا سلام ہوتی‘پھر اوپر تیسری منزل پر جا کر اپنے دوست یعنی مالک کے پاس بیٹھ جا تا۔ گپ شپ ہوتی‘ چائے کا دور چلتا۔ ایک دن دکان میں داخل ہوا تو نوجوان خلافِ معمول کاؤنٹر سے باہر آگیا۔ ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گیا‘ اس کی آنکھوں میں آج غیر معمولی چمک تھی۔ کہنے لگا : صاحب نے چالیس لاکھ روپے میں مجھے مکان خرید کر دیا ہے۔ اب میں گھر والوں کو گاؤں سے لے آؤں گا اور بچوں کو پڑھاؤں گا۔ بہت خوش ہوں اسی لیے آپ کو بتا رہا ہوں۔ میں نے اسے مبارک دی۔ وہ اپنے صاحب کو دعائیں دینے لگ گیا۔ میں اوپر گیا تو اپنے دوست سے اس بات کا کوئی ذکر نہ کیا۔ اس کی عادت کا پتا تھا۔ ذکر کرتا بھی تو مسکرا کر بات ٹال دیتا۔ کئی برس اور گزر گئے۔ ایک دن موت کھڑکی کے راستے آئی‘ ہارٹ اٹیک ہوا اور میرا دوست بزنس کی ایک پوری ایمپائر یہیں چھوڑ کر‘موت کے ہمراہ‘ درواز...

دامن خالی، ہاتھ بھی خالی

''اٹھارہ مہینے پہلے یہاں کوئی برطانوی مسافر طیارہ نہیں آتا تھا! آج ایک ہفتے میں بیس سے زیادہ پروازیں آ رہی ہیں۔ یہ پاکستان پر ہمارے اعتماد کی نشانی ہے‘‘ یہ بیان برطانیہ کے محترم سفیر کا ہے۔ پہلے برٹش ایئر ویز کی پروازیں شروع ہوئیں۔ اب ایک اور برطانوی ایئر لائن کے جہازوں نے آنا جانا شروع کیا ہے۔ اس کی پہلی پرواز کی مناسبت سے اسلام آباد ایئر پورٹ پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ سفیر صاحب نے یہ اظہارِ مسرت اسی موقع پر کیا۔ کیا زبردست کامیابی ہے پاکستان کی! اپنی ایئر لائن کو، جس کا شہرہ ایک زمانے میں چار دانگِ عالم میں تھا اور جو امریکی‘ برطانوی اور یورپی مسافروں کی اولین چوائس ہوتی تھی، نوچ نوچ کر، بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر، کھا کھا کر، ہڈیوں کے پنجر میں تبدیل کیا اور اب بے حمیتی کا یہ عالم ہے کہ جس برطانیہ کی فضاؤں میں پی آئی اے کے اوپر کَندہ، پاکستانی پرچم چمکتا تھا وہاں پی آئی اے پر پابندی ہے، اور پاکستانیوں اور پاکستانی تارکین وطن کا سارا انحصار بدیشی ایئر لائنوں پر ہے۔ کیا کمال ہے ہمارا! مکمل چھان بین کیے بغیر ہم نے سرکاری سطح پر یہ ''خوشخبری‘‘ دنیا بھر کو سنائی کہ ہمارے پائ...

ملین ڈالر سوال: ذمہ دار کون ہے؟

میرے دوست کی آنکھوں میں چمک تھی۔ وہ مجھے مدعو کرنے آیا تھا۔ بیٹی کی شادی تھی۔ پہلے دن ان کے اپنے گھر میں ڈھولکی کا پروگرام تھا۔ دوسرے دن دلہن کے چچا کے گھر میں۔ تیسرے دن ماموں کے ہاں۔ چوتھے دن دلہن کی بڑی بہن کے گھر میں۔ پانچویں دن دلہن کی ایک قریبی اور عزیز سہیلی کے ہاں، جہاں سب سہیلیوں نے جمع ہونا تھا۔ چھٹے دن مایوں تھی جس میں خاندان بھر کے ڈیڑھ دو سو افراد نے شرکت کرنا تھی۔ ساتویں دن مہندی کا فنکشن تھا جو باقاعدہ ایک ہال میں منعقد کیا جا رہا تھا۔ آٹھویں دن برات کی آمد تھی جو شادی کا اصل اور بڑا فنکشن تھا۔ نویں دن لڑکے والے ولیمہ کی تقریب کر رہے تھے۔ اس میں پانچ سو کے لگ بھگ مہمان متوقع تھے۔ یہ تفصیل بتاتے ہوئے میرے دوست کی آنکھوں میں چمک تھی۔ خوشی کی تھی یا سفاکی کی؟ نہیں معلوم! میں نے کہا یار! خدا کا خوف کرو! سادگی سے فرض ادا کرو۔ کورونا کی سطح دن بدن بلند سے بلند تر ہو رہی ہے‘ جتنا زیادہ میل ملاپ ہو گا‘ اتنا زیادہ خطرہ ہو گا۔ اس کی آنکھوں کی چمک تیز تر ہو گئی۔ اس نے مجھے لا جواب کر دیا یہ کہہ کر کہ روز روز تو شادی نہیں ہونی‘ ہم نے اپنے ارمان، اپنے شوق، اپنی حسرتیں پوری کرنی ہیں۔ م...

صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے

آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پاکستان کے ایک ادارے‘ سول ایوی ایشن اتھارٹی‘ کا پاکستان سے یا پاکستان کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ! ہے نا حیرت کی بات ! مگر جب آپ کو اس اجمال کی تفصیل معلوم ہو گی تو نہ صرف حیرت اُڑ جائے گی بلکہ ہاتھوں کے طوطے بھی اُڑ جائیں گے ! سول ایوی ایشن اتھارٹی میں نیا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا گیا ہے۔ اس تعیناتی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ وجہ ؟ وجہ درخواست گزار نے یہ بیان کی ہے کہ اس اسامی کو مشتہر کیا گیا۔چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ اٹھارہ کو شارٹ لسٹ کیا گیا اور ان کا انٹرویو ہوا۔ اس کے بعد‘ ایک ایسے شخص کو تعینات کر دیا گیا جو ان چھ سو یا ان اٹھارہ میں شامل ہی نہیں تھا۔ درخواست دہندہ کے بیان کے مطابق یہ شخص اس پوسٹ کا اہل بھی نہیں۔ سیکرٹری ایوی ایشن نے کابینہ کو بتایا کہ چھ سو امیدواروں میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ ملا جو مناسب ہو۔ درخواست دہندہ کے مطابق سیکرٹری کا یہ بیان جھوٹا‘ من گھڑت اور پوچ (False, fabricated and frivolous)ہے کیونکہ شارٹ لسٹ کیے گئے اٹھارہ کے اٹھارہ امیدوار‘ تعینات کیے گئے شخص سے کہیں زیادہ اہل ہیں۔ عدالت کیا فیصل...

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں

گْل گئے، گلشن گئے، جنگلی دھتورے اور تُنبے رہ گئے! زرق برق پروں والے طائر اُڑ گئے! اب خزاں زدہ شاخوں پر زاغ و زغن بیٹھے ہیں۔ اس مفہوم کا شعر شاید حماسہ میں ہے کہ کیسا المیہ ہے! جو اہل تھے وہ چلے گئے اور اب سرداری ہم جیسوں کے سر آ پڑی! ارشاد حقانی کے بعد عبدالقادر حسن کا کوچ کالم نگاری کے فن کے لیے زوال ہے اور بہت سخت دھچکا! یہ کتنے بڑے لوگ تھے! ہم جیسے بے بضاعت بے ہنروں کو بھی اہتمام سے ملتے تھے اور پیار سے پاس بٹھاتے تھے۔ عبدالقادر حسن کی تحریر میں شکوہ تھا! شکوہِ خسروی! بلا شبہ قلم کی قلمرو کے وہ بادشاہ تھے! کالم نہیں تھا دبستان تھا! ان کا اپنا ڈکشن تھا۔ اپنا اسلوب! لغت کے اسرار بھی تھے کالم میں اور ادب کا ذائقہ بھی! انہی کے کالموں کی بدولت عزیز حامد مدنی کا یہ شعر مقبول ہوا: طلسمِ خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں چند ہی ملاقاتیں رہیں۔ وسط ایشیائی ریاستیں سوویت یونین کے دامِ تزویر سے رہا ہوئیں تو یہ کالم نگار شروع شروع کے مسافروں میں شامل تھا۔ مختار حسن مرحوم نے رہنمائی کی اور پاکستان دوست ازبکوں کے ریفرنسز دیئے۔ واپس آ کر شاعری میں نوحہ خوانی کی۔ یہ شاعری...

جسم کا زوال

سترہویں صدی کے آغاز میں فلپ سوم ہسپانیہ کا بادشاہ تھا۔ اس کی موت کی وجہ عجیب تھی۔ آتشدان کے پاس بیٹھا رہا۔ بیٹھا رہا۔ حرارت اس کے جسم میں نفوذ کرتی رہی۔ بخار تیز ہوتا گیا۔ جس ملازم کی ڈیوٹی آتشدان ہٹانے کی تھی ‘ وہ مل نہیں رہا تھا۔ خود اُٹھ کر ہٹنا بادشاہ کی شان کے خلاف تھا۔اسی حال میں مر گیا۔ فلپ سوم آج کے زمانے میں ہوتا تو کم از کم اس وجہ سے نہ مرتا۔ اس کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول ہوتا۔ اپنی جگہ سے اٹھے بغیر ‘ گرم ہوا پھینکنے والے ایئر کنڈیشنر کو بند کر دیتا۔ آج اکثر کام اپنی جگہ سے اُٹھے بغیر کیے جا رہے ہیں!انسانی جسم زوال کے راستے پر چل رہا ہے۔ انسانی جسم پر پہلی افتاد ریل کی صورت میں پڑی‘ مگر اصل دشمن کار ثابت ہوئی۔کار ایجاد تو پہلے ہو چکی تھی مگر بڑی مقدار میں پروڈکشن بیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی۔1913 ء اور 1927 ء کے درمیان‘فورڈ کمپنی نے ڈیڑھ کروڑ کاریں بنا ڈالیں۔ جیسے جیسے گاڑیاں عام ہوئیں‘ لوگوں نے چلنا چھوڑ دیا۔ پھر بسیں اور ویگنیں آگئیں۔ اس کالم نگار کو وہ دن یاد ہیں جب گاؤں سے لڑکے دوسرے گاؤں میں واقع سکول جانے کے لیے کچے ٹریک پر چلتے اور کچھ ہی دیر میں پہنچ جاتے۔ اب وہ اپ...