ہم چاہیں یا نہ چاہیں
! مشہور شاعر جناب انور مسعود کی ایک نظم ہے: سوچی پئے آں ہُن کی کریے۔ یعنی سوچ رہے ہیں کہ اب کیا کریں! اس نظم میں ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ جی چاہتا تھا مارشل لا سے جان چھڑائیں اور حکومت کی بنیاد ووٹوں پر رکھیں‘ مگر افسوس! ووٹوں کا مزا بھی چکھ لیا!! ہم نے بھی سب کچھ کر کے دیکھ لیا۔ مڈل کلاس کے اوپر آنے کی حسرت تھی۔ سو، مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعت کا مزہ بھی چکھ بیٹھے ہیں۔ ہمیں وہ سیاسی پارٹیاں بُری لگتی تھیں جن پر خاندانوں کے موروثی قبضے ہیں۔ سو ایک ایسی پارٹی بھی بھگتا بیٹھے ہیں جس پر موروثی قبضہ نہیں ہے۔ یہ اور بات کہ بائیس چوبیس سال سے اس کا سربراہ تبدیل نہیں ہوا۔ ہمیں مغربی ممالک کی مثالیں دی گئی تھیں اور یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ویسی ہی جمہوریت رائج کی جائے گی‘ مگر وہاں تو سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہر چند برس بعد تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تھریسا مے صرف تین سال کنزرویٹو پارٹی کی لیڈر رہیں۔ ڈگلس ہوم دو سال سے بھی کم عرصے کے لیے سربراہ رہے۔ بعض اوقات تو پارٹی ارکان ووٹ کی طاقت سے چند ماہ بعد ہی لیڈر کو چلتا کر دیتے ہیں۔ تو کیا ہم تحریک انصاف پر اب اعتراض کریں کہ چوبیس برس سے ایک ہی لیڈر پارٹ...