اشاعتیں

ستمبر, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کان مجرم ہیں مگر آنکھ گنہگار نہیں

نائب قاصد نے اعتماد سے بھرپور لہجے میں سمجھایا ''صاحب! آپ لنچ کر لیجیے۔ جن صاحب کا آپ انتظار کر رہے ہیں وہ چار بجے سے پہلے نہیں آئیں گے‘‘ ''لیکن انہوں نے خود کہا ہے کہ وہ آ رہے ہیں اور کھانا میرے ساتھ کھائیں گے‘‘ ''صاحب! آپ کی مرضی!‘‘ اور وہی ہوا۔ نائب قاصد بالکل صحیح کہہ رہا تھا۔ جن بڑے صاحب نے میرے ساتھ لنچ کرنا تھا وہ چار بجے پہنچے حالانکہ ان کا دفتر ساتھ والی عمارت میں تھا۔ زیرِ تربیت سرکاری ملازموں سے جب بھی گفتگو کرنے کا موقع ملے انہیں یہ ضرور بتاتا ہوں کہ جس نائب قاصد کو، جس ڈرائیور کو، جس دفتری کو یا جس پی اے کو آپ کوئی اہمیت نہیں دیتے، وہ آپ کی گاڑی کا دروازہ کھولے تو نظر ہی نہیں آتا، خاموشی کے ساتھ آپ کا بریف کیس اٹھاتا ہے، سر جھکا کر ڈکٹیشن لیتا ہے اور فون پر جی سر جی سر کہتا ہے، اُسے آپ کا کریکٹر سرٹیفکیٹ لکھنے کے لیے کہا جائے تو اس سے زیادہ سچا سرٹیفکیٹ کوئی نہ لکھ سکے۔ آپ کی لیاقت، ذہانت‘ دیانت داری، یہاں تک کہ آپ کے فیملی بیک گراؤنڈ کے بارے میں بھی اس کا تخمینہ کم از کم نوے فی صد بالکل درست نکلے گا۔ تو پھر یہ سیاستدان، یہ بیوروکریٹ، ی...

ڈیفنس میکنزم

مرحوم نے یہ واقعہ خود بتایا تھا۔ بعد میں وہ رپورٹنگ اور کالم نگاری کے حوالے سے خاصے مشہور ہو گئے تھے مگر یہ ان کے کیریئر کے ابتدائی دنوں کی بات ہے۔ جس اخبار میں وہ کام کر رہے تھے اس کے مالک کا نام، فرض کیجیے، مجید تھا۔ ایک دن ان کے کسی سینئر نے، یا باس نے، انہیں گالی دے دی۔ انہوں نے جواب میں ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اور شور مچا دیا کہ مجید صاحب کو گالی دے رہے ہو‘ میں نہیں برداشت کر سکتا۔ گالی دینے والے کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ تھپڑ الگ کھایا۔ یہ کیا ہے؟ یہ ڈیفنس میکنزم ہے۔ دفاعی میکانیت کہہ لیجیے یا دفاعی طریق کار! قدرت نے مختلف حیوانات کو مختلف ڈیفنس میکنزم سے مسلح کیا ہے۔ رینگتے ہوئے کسی کیڑے کو چھیڑیں تو وہ کنڈلی سی مار کر یوں پڑ رہے گا جیسے اس میں جان ہی نہیں رہی۔ کچھ کیڑے ماحول کے رنگ میں اتنے رچے بسے ہوتے ہیں کہ اسی کا حصہ لگتے ہیں جیسے ٹڈا (grasshopper)۔  ہمارے علاقے میں اسے خدا کا گھوڑا یا خدا کا گھائیا کہتے ہیں۔ بالکل گھاس کا ہم رنگ! کئی مچھلیاں خطرے کے وقت اپنا رنگ بدل لیتی ہیں۔ ایک چھپکلی ایسی ہے جسے کوئی دوسرا جانور کھانے لگے تو آنکھوں سے لہو کی تیز دھار پھینکتی ہے جو...

وسوسے تو دل میں اُٹھیں گے

تو کیا عابد کوئی سوئی ہے جو کسی سوراخ میں گر گئی اور اب نہیں مل رہی ؟ یا گندم کی بالی ہے جسے ہوا اڑا کر لے گئی ؟یا وہ شلغم تھا جسے گائے کھا گئی؟ کیا وہ کنگھی کا دندانہ تھا جو ٹوٹ گیا اور اب اسے ڈھونڈنا ناممکن ہے ؟ یا وہ بیج کا دانہ تھا جسے زمین کھا گئی ؟ کیا وہ پانی کا قطرہ تھا جو ہوا میں تحلیل ہو گیا؟ یا مٹی کا پیالہ تھا جو گرا اور ٹوٹ گیا؟ یا اس کے ہاتھ کوئی سلیمانی ٹوپی آگئی ہے ؟ نہیں! وہ گوشت پوست کا انسان ہے۔ علائق کے ساتھ بندھا ہوا! رشتہ داریوں میں مقید! ضرورتوں کا محتاج! وہ پولیس جس کے پاس ہزاروں سے زیادہ کی نفری ہے ‘ وسائل ہیں ‘ سائنسی آلات ہیں ‘ مخبروں کے گروہوں کے گروہ ہیں ‘ اسے ڈھونڈنہیں پا رہی ! عجیب بات ہے ! یہ بالکل فطری امر ہے کہ دل میں وسوسے اٹھیں! کیا کہیں کوئی گڑ بڑ ہے ؟ کیا اصل بات کوئی اور ہے ؟آخر ہفتوں پر ہفتے گزرتے جا رہے ہیں اور مجرم نہیں مل رہا ! اب اس کے نہ ملنے کی خبر ہیڈ لائن سے اُتر کر ‘ پہلے صفحے کے نچلے حصے تک آگئی ہے۔کچھ دن اور گزریں گے تو اخبار کے بیک پیج پر آجائے گی۔پھر اندر کے کسی صفحے پر! پھر غائب ہو جائے گی ! یہاں تک کہ عوام بھول جائیں گے۔ صرف وہ خات...

ایک بے مثال کامیابی

بیڈ پر نیم دراز میرے ساٹھ سالہ پوتے نے اپنے دائیں ہاتھ پڑے ہوئے ٹیبل پر لگی گھنٹی کا بٹن دبایا۔ بغیر کسی تاخیر اور بغیر کسی آواز کے‘ سامنے والی دیوار ‘ ٹی وی سکرین میں تبدیل ہو گئی۔ ایک خاتون ''اِنگ اردو‘‘ میں خبریں سنا رہی تھی۔ حیران نہ ہوں جب میرا پوتا ساٹھ سال کا ہوا تو اس وقت تک اردو بھی غائب ہو چکی تھی اور انگلش کی ہیئت بھی بدل چکی تھی۔ اب یہ ایک نئی زبان تھی۔ اردو اور انگلش کا آمیزہ۔ اسے پہلے تو انگلش اردو کہا جاتا تھا مگر کثرت استعمال سے یہ لفظ ''اِنگ اردو‘‘ ہو گیا۔ یہ ایک ضمنی بات درمیان میں آ گئی۔ بتا میں یہ رہا تھا کہ میرا ساٹھ سالہ پوتا لیٹسٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹی وی پر خبریں سن رہا تھا۔ اچانک اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی۔ ہڑبڑا کر نیم دراز پوزیشن اس نے بدلی اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے بیوی کو آواز دی۔ بیوی چھت پر گاڑی پارک کر رہی تھی۔ اڑتی ہوئی گاڑی اْس نے چھت کے اوپر فضا میں ٹھہرائی تھی اور اب ایک متحرک کرسی پر بیٹھ کر‘ گراؤنڈ فلور کی طرف آ رہی تھی۔ ''کیوں آوازیں دے رہے ہو؟ ایک منٹ ادھر ادھر نہیں ہونے دیتے‘ بالکل اپنے دادا پر گئے ہو‘ میں نے...

مجرم کون؟؟ سزائے موت

''آج جب دنیا میں اسلحہ سے متعلق جرائم، اسلحہ کی سمگلنگ اور اسلحہ کی نقل و حمل زوروں پر ہے، سنگا پور میں یہ جرائم بہت ہی کم ہیں۔ اس کی وجہ ہمارا یہ قانون ہے کہ اگر کوئی فائر کرتا ہے، تو کوئی اس سے زخمی یا ہلاک نہ ہو تب بھی اس کی سزا موت ہے‘‘۔ یہ الفاظ جیا کمار کے ہیں۔ جیا کمار مذہباً ہندو ہیں۔ نسلاً تامل ہیں۔ سنگا پور کے ڈپٹی وزیر اعظم رہے۔ مختلف اوقات میں مختلف وزارتوں کے انچارج رہے۔ یکم جولائی 2020ء سے انہیں نیشنل یونیورسٹی آف سنگا پور کا پرو چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اتنی سخت سزا کے باوجود، جو بظاہر ظلم لگتی ہے‘ اسلحہ سے متعلق جرائم اس ملک سے بالکل ختم نہیں ہوئے‘ مگر سنگا پور میں یہ کبھی ایشو نہیں بنا۔ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر رونما ہونے والے گھناؤنے جرم کے بعد سزائے موت پر ایک بار پھر بحث چل نکلی ہے۔ دو وفاقی وزیروں سمیت، کچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ سزائے موت جرائم کا حل نہیں۔ ہر کسی کو رائے دینے کا حق حاصل ہے مگر رائے دیتے وقت انصاف سے کام لینا چاہیے۔ سزائے موت اس وقت جاپان، روس، چین، جاپان، سنگا پور، جنوبی اور شمالی کوریا، تھائی لینڈ اور تائیوان سمیت کئی م...

جاگدے رہنا! ساڈے تے نہ رہنا

حمید صاحب ہمارے پڑوسی تھے۔ ایک ریٹائرڈ بینکار۔ ہم لوگ جس آبادی میں رہ رہے تھے وہ وزیر اعظم کے مغل سٹائل، پُرشکوہ، دفتر سے صرف پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیو پر واقع تھی۔ ایک صبح معلوم ہوا کہ حمید صاحب کے گھر سے رات ان کی گاڑی چوری ہو گئی ہے۔ متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کرائی گئی۔ تھانے والے آئے‘ اور کئی بار آئے۔ حمید صاحب بھی تھانے کے چکر لگاتے رہے۔ ہونا کیا تھا! صبر کر کے بیٹھ گئے۔ دو تین ماہ گزرے تھے کہ حمید صاحب کو ایک فون کال موصول ہوئی کہ گاڑی، جس کا رجسٹریشن نمبر یہ ہے، ہمارے پاس ہے‘ بنوں آ کر فلاں جگہ ملیے اور ''سودا‘‘ کر کے گاڑی لے جائیے۔ حمید صاحب پتہ نہیں کس ذہنی کیفیت میں تھے، بیگم سے مشورہ کیا نہ بچوں کو بتایا، ایک پٹھان دوست کو، جو ڈاکٹر ہے‘ ساتھ لیا اور ٹاپو ٹاپ بنوں پہنچ گئے۔ وہاں دونوں کو اغوا کر لیا گیا۔ ساٹھ ساٹھ لاکھ دونوں کے لواحقین نے دیے (یہ لگ بھگ 2012ء کی بات ہے) اور رہائی دلوائی۔ گاڑی اغوا کنندگان کے پاس تھی ہی نہیں۔ ان کا کل اثاثہ ''انفارمیشن‘‘ تھی۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ یہ انفارمیشن انہیں کس نے بہم پہنچائی ہو گی؟ حمید صاحب کے اڑوس پڑوس اور ملنے والوں میں...

کچی، ٹیڑھی اینٹیں

بچے کو بخار ہے۔ ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔ کیا کبھی کسی نے کہا کہ جب سارے ملک ہی میں صحت کا نظام درست نہیں تو ایک آدمی کی تندرستی سے کیا فرق پڑے گا؟ بچوں کو سکول داخل کیوں کراتے ہیں؟ کیوں تعلیم دلاتے ہیں؟ پورے ملک میں نا خواندگی کا دور دورہ ہے، جہالت عام ہے، صرف آپ کے بچے پڑھ لکھ گئے تو کتنی بہتری آ جائے گی؟ گھر کی صفائی مت کیجیے۔ شہر ہمارے گندگی سے اٹے پڑے ہیں۔ کراچی کا کچرا ملک کے گلے کا ہار بن کر رہ گیا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر قصبوں اور قریوں کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ ایک آپ کے چھوٹے سے گھر کی صفائی سے کون سا انقلاب آ جائے گا؟ کیوں تھکتے ہیں؟ کیوں اپنے آپ کو ہلکان کرتے ہیں؟ مگر ایسا ہوتا نہیں۔ کوئی پاگل ہی اپنے بچے کو علاج سے اس لیے محروم رکھے گا کہ اس سے ملک کے نظامِ صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ملک کا تعلیمی نظام حد درجہ پستی میں ڈوبا ہوا ہے مگر ہر فرد اپنے بچوں کو، مقدور بھر، اعلیٰ تعلیم دلا رہا ہے۔ گلی کوچے کیچڑ اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں مگر یہ کوئی وجہ نہیں کہ میں اپنے گھر کی صفائی نہ کروں! تو پھر اُس وقت موت کیوں پڑ جاتی ہے جب کوئی ہمیں کاروباری معاملات میں، دفتری امور میں یا روزمرہ کی زن...

حاجی عطا اللہ

دنیا میں پہلے ہماری عزت دو وجوہ سے تھی۔ ایک ہمارا پاسپورٹ‘ دوسری ہماری کرنسی۔امریکہ سے لے کر جاپان تک سب ہمارا پاسپورٹ دیکھ کر ٹھٹک جاتے اور سمجھ جاتے کہ یہ مسافر ایک عظیم الشان ملک سے تعلق رکھتا ہے۔ یہی حال کرنسی کا تھا۔ پانچ ڈالر کی چائے کا مطلب نوسو یا ہزار روپے تھا۔ مگر یہ صورتِ احوال ایک ہفتہ پہلے تک تھی۔ گزشتہ ہفتے ہمیں ایک طلسمی اسم مل گیا ہے‘ جادو کا لفظ۔اب دنیا میں عزت حاصل کرنے کے لیے ہمیں پاسپورٹ دکھانا پڑے گا نہ کرنسی کی شرح مبادلہ بتانا پڑے گی۔ اب ہم صرف ایک لفظ کہیں گے حاجی عطا اللہ۔ اور لوگ ہمارے سامنے احترام سے جھُک جائیں گے۔حاجی عطا اللہ !صرف گیارہ حروف ! اور اتنا بڑا اعزاز! ایک پاکستانی جس ملک میں بھی اب جائے گا‘ لوگ اسے دیکھ کر حاجی عطا اللہ کا ذکر کریں گے۔ پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو جائے گا۔ سینہ تن جائے گا۔ ہمارے صدرِ مملکت‘ ہمارے وزیر اعظم‘ ہمارے چیئرمین سینیٹ‘ ہمارے سپیکر قومی اسمبلی‘ ہمارے وزرائے کرام ‘ جہاں بھی ملک کی نمائندگی کرنے جائیں گے ‘ وہاں حاجی عطا اللہ کا ذکر ہو گا۔دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے نصابوں میں‘ قانون کی کتابوں میں ‘ انصاف کے تذکروں میں ‘ وک...

قائداعظمؒ، جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ

77 سال کا یہ طویل قامت، دھان پان شخص، ایک فرد نہیں ایک ادارہ ہے۔ ایک ریسرچ سنٹر ہے، ایک لشکر ہے۔ ادارہ! کیونکہ تن تنہا اس نے اتنا کام کیا جتنا بڑے بڑے ادارے موٹی موٹی گرانٹس سے سرانجام دیتے ہیں۔ ریسرچ سنٹر! اس لیے کہ قائد اعظمؒ اور پاکستان پر جہاں بھی، جتنا کچھ بھی‘ لکھا گیا ہے یا کہا گیا ہے اسے اُس کی خبر ہے۔ اسّی‘ نوّے سال پہلے کے اخبارات ہوں یا دنیا کے کسی کونے میں قائد اعظمؒ یا قائدؒ کی جدوجہد کے متعلق کوئی کتاب، کوئی جریدہ یا کوئی دستاویز ہو، یہ 77 سالہ طویل قامت شخص اس سے آگاہ ہوتا ہے۔ لشکر! اس لیے کہ وہ ایک اکیلا ہے مگر پورے لشکر کا مقابلہ لشکر کی طرح کرتا ہے۔ قلم اس کی شمشیر ہے۔ تحقیق اس کا نیزہ ہے۔ ریسرچ میں دیانت اس کی ڈھال ہے۔ قائد اعظمؒ سے محبت وہ جذبہ ہے جس سے مسلح ہو کر وہ ہر اُس دشمن، ہر اُس بد اندیش، ہر اُس فتنہ پرور اور ہر اُس عفریت کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہو جاتا ہے جو قائدؒ پر، پاکستان پر یا علامہ اقبالؒ پر حملہ آور ہو! قائد اعظمؒ کا یہ سپاہی ڈاکٹر صفدر محمود ہے! مجھے کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے‘ ڈاکٹر صاحب قدرت کی طرف سے اس کام پر مامور کیے گئے ہیں۔ یہ سراسر توفیق...

کامونکے منڈی کا الیاس

کامونکے لاہور اور گوجرانوالہ کے درمیان واقع ایک قصبہ ہے۔ یہ چاول کی بڑی منڈی ہے۔ اسلام آباد‘ پنڈی کے لوگ یہاں سے گزریں تو چاول خرید لے جاتے ہیں۔ کچھ میری طرح صرف بھاؤ پوچھنے پر اکتفا کرتے ہیں اور خریداری اس کے پُر کشش تنگ بازاروں سے چاول کے مرنڈوں، مکھانوں، بھنے ہوئے چنوں، پتاشوں اور نُگدی کی کرتے ہیں۔ جو کچھ بچپن میں کھایا ہو زندگی بھر اس کی بھوک رہتی ہے۔ اس کامونکے میں ایک شخص رہتا تھا۔ الیاس اس کا نام تھا۔ انسان کے بھی کیا کیا شوق، خبط اور مشغلے ہوتے ہیں۔ ان بھائی صاحب کا شغل تھا سانپ پکڑنا اور انہیں دودھ نہیں! اپنا خون، جی ہاں! خون جسے لہو کہا جاتا ہے، پلانا! طریقۂ واردات اس کا یہ تھا کہ بلیڈ سے اپنی کلائی کاٹتا ، لہو نکال کر رکابی میں ڈالتا اور سانپ کو پیش کر دیتا۔ یہ سلسلہ ایک مدت سے چل رہا تھا۔ سانپ بھی خون پر پل رہے تھے اور سپیرا بھی آزار دوستی (Masochism) کے لطف سے بھرپور خوش خوش زندگی گزار رہا تھا۔ پھر ایک دن وہی ہوا جو ہونا تھا یا جس کا ڈر تھا۔ تین چار دن پہلے کی بات ہے الیاس ایک نیا سانپ لایا۔ بلیڈ سے اپنی کلائی کاٹی، رکابی میں اپنا خون اکٹھا کیا اور سانپ کی خدمت میں پیش کر...