اشاعتیں

اگست, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

مشتاق رضوی انتظار کر رہا ہے

‎مشتاق رضوی انتظار کر رہا ہے!…… ‎جنت کے چمن زاروں میں ٹہلتے ٹہلتے اسے جس وقت وہ اذیت یاد آتی ہے جس سے وہ دنیا میں گزرا ہے، تو پاس سے گزرتے ہوئے فرشتے سے پوچھتا ہے: وہ پہنچا ہے کہ نہیں ؟ فرشتہ مسکراتے ہوئے جواب دیتا ہے نہیں! ابھی نہیں پہنچا‘ مگر خاطر جمع رکھو‘ آنا اس نے ضرور ہے‘ تمہیں پورا موقع ملے گا ، تم خود اس سے اُس ظلم کا حساب مانگو گے جو اس نے تم پر ڈھایا‘ حکمران یا سابق حکمران وہ دنیا میں تھا‘ یہاں وہ ملزم ہو گا‘ تمہارا ملزم اور بہت سے دوسرے افراد کا ملزم۔  ‎سابق حکمران کو مشتاق رضوی کا نام تک یاد نہ ہو گا۔ کہاں سابق حکمران جب پتا بھی اس کے اشارۂ ابرو کے بغیر نہیں ہلتا تھا، جب انصاف اس کے بوٹوں کے نیچے قالین کی طرح بچھا ہوا تھا‘ اور کہاں مشتاق رضوی گریڈ انیس بیس کا معمولی سرکاری ملازم ! کیا حیثیت تھی اس کی حکمران کے سامنے! ‎مگر آہ ! حکمران بھول جاتے ہیں کہ جو مناظر ان کے سامنے تیزی سے گزر کر غائب ہو جاتے ہیں ، وہ کسی اور کمپیوٹر پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ایک ایک خراش، ایک ایک ٹھنڈی سانس، ایک ایک گرم آہ، ہر چیز کا حساب ہو گا۔ ‎تُلیں گے کس ترازو میں یہ آنسو اور آ...

کیا یہ وہی ایبٹ آباد ہے ؟

چھیالیس برس سے ایبٹ آباد میں آنا جانا ہے۔ ہر کوچہ ‘ہر بازار ‘ ہر گوشہ جانا پہچانا ہے۔بچوں کی پرورش ایک لحاظ سے یہیں ہوئی۔ اب ان کے بچے بھی یہاں کے سبزہ زاروں ‘کوہساروں ‘رہگزاروں اور بازاروں سے شناسا ہیں۔ ایک ایسا شہر جو دامنِ دل پکڑ لے تو چھوڑتا نہیں۔ کئی بار یہاں بس جانے کا سوچا مگر آہ ! علائق جنہیں چھوڑا نہ جا سکا اور آہ ! زنجیریں جو توڑی نہ جا سکیں ! تاہم جب بھی دل پر یاس طاری ہوتی ہے پاؤں ایبٹ آباد کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ غم ِغریبی و غربت چو بر نمی تابم بشہرِ خود روم و شہریار خود باشم غریب الوطنی کا غم جب برداشت سے باہر ہو جائے تو اس اپنے شہر میں آجاتا ہوں اور اپنا مالک خود ہو جاتا ہوں۔ ایبٹ آباد شہروں میں ایک شہر ہے۔کوہسار اس کے گرد فصیل باندھے کھڑے ہیں۔ہوا اس کی خنک ہے۔ فضا اس کی عطر بیز ہے۔ بادل اس کے بادل نہیں پانیوں سے بھرے مشکیزے ہیں جو پیاسوں کا امتحان نہیں لیتے۔ درخت اس کے سبز اور گھنیرے ہیں۔باشندے یہاں کے نرم خو اور کشادہ جبیں ہیں۔ بات کریں تو اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔مغربی حاشیے پر شملہ پہاڑی ہے جس پر ہائیکنگ بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں سہل ہے۔ شمال مشرق میں ٹھنڈیانی ہے جو کوہ...

دوسال

''ترقی سڑکوں اور پلوں کا نام نہیں‘‘ یہ عظیم اخلاقی سبق ہمیں دیا جاتا رہا؛ چنانچہ جب سبق دینے والوں کو اختیار ملا تو سڑکوں اور پلوں کے منصوبے روک دیے گئے۔ باقی ملک کی طرح وفاقی دارالحکومت میں بھی ہر پروجیکٹ پر فل سٹاپ لگ گیا۔ دو ایسے منصوبوں پر کام ہو رہا تھا جو نہ صرف دارالحکومت کے مکینوں کے لیے بلکہ پورے ملک کے ان لوگوں کے لیے بھی بے حد ضروری تھے جو دارالحکومت تک کا سفر کرتے ہیں۔ ایکسپریس وے جی ٹی روڈ کو اسلام آباد سے ملاتی ہے‘ اور قبل از تاریخ کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس شکستہ عبرت ناک شاہراہ کی تہذیب اور تعمیر کے لیے گزشتہ حکومت نے دس ارب کی جو رقم مخصوص کی تھی، یہ واپس لے لی گئی۔ جہلم چکوال، گوجر خان سے لے کر روات تک اور پھر خود اس شاہراہ کے کناروں پر آباد لاکھوں افراد ہر روز ایک ناقابل بیان اذیت سے گزرتے ہیں۔ جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دیتے ہیں۔ جنہوں نے ووٹ دیا تھا وہ اپنے آپ کو کوستے ہیں۔ شنوائی کوئی نہیں۔ چیف کمشنر صاحب کسی کا فون نہیں سنتے۔ متاثرہ فریادی پورٹل کو بھی آزما بیٹھے۔ معلوم ہوا سب مایا ہے۔ دوسرا نشانہ ایئر پورٹ کی میٹرو بس کا منصوبہ بنا۔ بیشتر حصہ بن چکا تھ...

…ہم اس کے، وہ اور کسی کا

نسیم صاحب کے مالی حالات قابل رشک نہیں تھے۔ بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پریشان رہتے۔ ذاتی مکان بھی نہیں تھا۔ انہی دنوں ان کا ایک قریبی دوست ہجرت کر کے لندن جا آباد ہوا۔ پاؤں جم گئے تو اس نے نسیم صاحب کو بھی ہجرت کرنے کا کہا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم لڑکپن میں تھے اور یورپی ملکوں کے لیے امیگریشن ویزے اور وہاں نوکری کا حصول اتنا مشکل نہ تھا۔ نسیم صاحب کی مالی مشکلات کے پیش نظر یہ ایک زبردست موقع تھا۔ گھر والے بھی خوش تھے‘ مگر نسیم صاحب نے اپنے دوست کی پیشکش ٹھکرا دی۔ وجہ انکار کی انہوں نے یہ بتائی کہ جب تک ان کے ماں باپ حیات ہیں وہ ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔ بیوی نے دلیل دی کہ اب بھی رہتے تو والدین کے ساتھ نہیں ہیں‘ وہ گاؤں میں ہیں اور آپ شہر میں۔ نسیم صاحب کا جواب تھا کہ جب بھی ان کا جی ماں باپ کو ملنے کے لیے کرتا ہے یا جب بھی ماں باپ کو ان کی ضرورت پڑتی ہے وہ تین گھنٹوں میں ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں‘ لندن سے وہ اس قدر جلد اور اس قدر سہولت کے ساتھ نہیں آسکیں گے۔ ماں باپ کی قربت نسیم صاحب کی پالیسی کا مرکزی ستون تھی۔ ہر شخص کی ایک پالیسی ہوتی ہے جس کے ارد گرد اس کی زندگی کے اہم فیصلے گھوم...

ہمیں عینک بدلنا ہو گی

متحدہ عرب امارات ملک کے بجائے انسان ہوتا اور شعر اس کا شعار ہوتا تو ضرور کہتا؎ غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم ساری دنیا کو اپنی عینک سے دیکھتے ہیں۔عینک ہماری پرانی ہو چکی۔ کمانیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ان کمانیوں پر جذبات کی دھجیاں لپیٹ رکھی ہیں۔ شیشوں کے نمبر کئی عشروں سے تبدیل نہیں ہوئے۔ ان فرسودہ نمبروں والے شیشوں سے ہمیں ہر شے دھندلی دکھائی دیتی ہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ دونوں شیشوں کے نمبر ایک دوسرے سے بھی نہیں ملتے۔ کبھی ہم عینک کو نیچے سرکا کر‘ اُوپر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی بڈھے بابوں کی طرح ایک شیشے کو ہتھیلی سے ڈھانپ کر ایک آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں جو کچھ دنیا کو نظر آرہا ہوتا ہے ہم نہیں دیکھ پاتے۔ اور جو ‘ اپنی دانست میں ‘ ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں ‘ اصل منظر سے مختلف ہوتا ہے۔ ہمیں پورا حق ہے کہ یو اے ای اور اسرائیل کے معاہدے کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھیں اور جانچیں مگر حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ یو اے ای کے نقطۂ نظر سے بھی دیکھیں۔ اسی طرح ایران اور ترکی کے موقف بھی ‘ ان دونوں ملکوں کی عینک سے دیکھنے...

……نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں

جب سے یہ تحریر نظر سے گزری ہے دماغ شل ہو رہا ہے۔ ہاتھ پیر کانپ رہے ہیں۔ ذاتی پسند کے امرا کو گلوری فائی کرنے کے لیے اب ہم اپنے قومی ہیروز کی تنقیص اور تضحیک پر اتر آئے ہیں۔ بار بار یہ شعر زبان پر آرہا ہے: بسی نادیدنی را دیدہ ام من مرا ای کاشکی مادر نہ زادی کہ کیا کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے‘ اس سے بہتر تھا پیدا ہی نہ ہوتے ہمارے ایک دوست نے دعویٰ کیا ہے کہ علامہ اقبال نے عمرِ عزیز کا بڑا حصہ ایک بنیان اور ایک تہبند میں گزار دیا۔ ثبوت اس دعوے کا یہ دیا ہے کہ ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں کہ انہوں نے بچپن میں اقبال کو صرف دو بار گھر میں کپڑے بدلتے دیکھا۔ ایک دفعہ عید پر اور ایک اُس وقت جب قائد اعظم ان سے ملنے تشریف لائے۔ دعوے تو علامہ کی تنقیص کی خاطر ایک دو اور بھی کیے گئے ہیں مگر پہلے کپڑے بدلنے کے سلسلے میں حقائق پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ اقبال کے فرزند گرامی جاوید اقبال 1924 میں پیدا ہوئے۔ علامہ کی عمر اس وقت 47 سال تھی۔ شروع کے کم از کم تین برس نکال دیجیے۔ اس کے بعد ہی کے مشاہدات یاد رکھے جا سکتے ہیں۔ گویا ڈاکٹر جاوید اقبال کو علامہ کے آخری گیارہ برس ہی کے واقعات یاد رہے ہوں گے۔ 1928 میں جاوید اقبا...

بنجاروں کا عروج

ایک افریقی کہانی‘ جو ہم اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں! یہ لوئر مڈل کلاس بستی تھی۔ کچھ اہل حرفہ تھے۔ کچھ کسان۔ بیس تیس فیصد ان میں پڑھے لکھے تھے۔ سب کا گزر اوقات مناسب ہو جاتا تھا۔ مجموعی طور پر یہ باعزت لوگ تھے۔ سائیکل کی سواری عام تھی۔ کئی خوش بخت گاڑیوں کے بھی مالک تھے۔ کچھ کے پاس ذاتی تانگے تھے۔ چند میل کے فاصلے پر بنجاروں کی ایک آبادی تھی۔ ان کی خواتین گلی گلی پھر کر چھوہارے، چوڑیاں وغیرہ بیچتی تھیں۔ مرد نچلی سطح کی محنت مزدوری کرتے تھے۔ کچھ بکریاں چراتے۔ کچھ نے گھوڑے رکھے ہوئے تھے۔ تعلیم سے بے بہرہ ان لوگوں کے بچے آوارہ پھرتے یا ایک دوسرے سے ہاتھا پائی کرتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بنجاروں کی اس مفلوک الحال آبادی کا انحصار اُس لوئر مڈل کلاس بستی پر تھا‘ جس کا ذکر ہم نے ابتدا میں کیا ہے‘ تو مبالغہ نہ ہو گا۔ یہ اپنے تھیلے لاتے اور بستی کے لوگ ان تھیلوں کو آٹے سے بھر دیتے۔ پوٹلیوں میں گندم باندھ کر لے جاتے۔ بستی کے سکول میں بنجاروں کے بچے، جو پڑھنا چاہتے، مفت تعلیم حاصل کرتے؛ اگرچہ ان کے ماں باپ کو تعلیم میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یہ جلد ہی بچوں کو سکول سے اٹھا لیتے اور کسی کام دھندے پ...

…ہر ضلع میں ایک کلائیو بیٹھا ہے

صحافی کا لہجہ شائستہ تھا اور مہذب ۔بات وہ دلیل سے کر رہا تھا ۔ شکایت کا لبِ لباب یہ تھا کہ تحصیل ہسپتال میں ایک عرصہ سے گائنی کالوجسٹ کی تعیناتی نہیں ہوئی تھی۔ شہر اور مضافات کے ڈیلیو ری کے کیسز دوسرے شہروں کو لے جانے پڑتے تھے ۔ عوام کو تکلیف تھی اور بے حد تکلیف ! ڈپٹی کمشنر کا جوابی لہجہ سخت تحکمانہ تھا ۔ کئی بار کہا کہ'' میں ڈپٹی کمشنر ہوں ‘‘۔ یہ بھی کہ میں باتیں سننے کا عادی نہیں۔پھر بڑے فخر سے بتایا کہ وہ فلاں شہر سے ہے اس لیے جگتیں بھی مار سکتا ہے۔ اگر آپ کے قیاس کا گھوڑا فیصل آباد کا رخ کر رہا ہے تو باگ کھینچ لیجئے۔ ڈی سی صاحب بہادر نے ایک اور شہر کا نام لیا تھا۔ مقصد کسی کی پگڑی اچھالنا ہوتا تو ڈی سی کا نام بھی لکھا جا سکتا تھا۔ ضلعے کا بھی اور تحصیل کا بھی‘ مگر مقصد صرف یہ ہے کہ اس گلے سڑے نظام کے تعفن کا ذکر کیا جائے۔یہ نظام از کارِ رفتہ ہو چکا ہے ۔ بوسیدہ‘ کھنڈر سے بد تر ‘ نوکر شاہی اس پانی کی طرح ہو چکی ہے جو مدتوں سے کھڑا ہے۔ بدبو کے بھبکے اُٹھ رہے ہیں ‘جو گزرتا ہے ناک پر کپڑا رکھ لیتاہے‘ مگر جن کا فرض اس پانی کو صاف کرنا ہے یا ختم کرنا ہے وہ خود اس پانی کے پروردہ ہ...

……ہم سے کوئی امید نہ رکھو

وہ گڑ گائوں سے دہلی جا رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کے پک اَپ ٹرک کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ آٹھ دس مشٹنڈے موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں پر اس کے پیچھے آ رہے تھے۔ ڈر کے مارے اس نے رفتار تیز کر دی۔صدر بازار پہنچا تھا کہ تعاقب کرنے والوں نے آ لیا۔ گھسیٹ کر نیچے اتارا گیا۔ پھر لوہے کی سلاخوں، ڈنڈوں، لاتوں اور گھونسوں سے مارا گیا‘ یہاں تک کہ جسم زخموں کا ڈھیر بن گیا۔ اس نے بہت منت کی کہ یہ گائے کا نہیں‘ بھینس کا گوشت ہے۔ پک اَپ ٹرک کے مالک طاہر قریشی نے بھی لاکھ بتایا کہ یہ بھینس کا گوشت ہے۔ طاہر قریشی ایک مارکیٹ میں گزشتہ پچاس برس سے بھینس کے گوشت کا کاروبار کر رہا ہے۔ لقمان خان اس وقت ہسپتال میں داخل ہے۔ کئی ہڈیاں فریکچر ہو گئی ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ گڑ گائوں اور دہلی پولیس نے کیا کیا ہوگا؟ غنڈوں کو پکڑا ہوگا؟ نہیں! انہوں نے غنڈوں کو کچھ نہیں کہا کیوں کہ یہ غنڈے‘ مقدس غنڈے تھے۔ ''گائے کی حفاظت‘‘ کرنے والے گروہ سے تھے۔ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ لقمان خان اور طاہر قریشی دونوں پر اعتبار نہ کرتے ہوئے گوشت کو لیبارٹری بھجوا دیا کہ ٹیسٹ کر کے معلوم کیا جائے گوشت گائے کا ہے یا بھینس کا!  ی...

ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لُوٹ لیا

1206ء میں جب محمد غوری کو سوہاوہ کے قریب قتل کیا گیا اور قطب الدین ایبک دہلی میں تخت پر بیٹھا تو ایبک سیدھا آسمان سے نہیں اترا تھا‘ نہ ہی بنگال، تبت یا ہمالہ کی کسی چوٹی سے براہ راست دہلی پر نازل ہوا تھا۔ ایبک پنجاب سے گیا تھا۔ لاہور اس سے پہلے اس کا پایۂ تخت تھا۔ طبقاتِ ناصری کے مطابق محمد غوری کی وفات کے وقت ملتان، سیالکوٹ، لاہور، ترائن، ہانسی، بھیرہ اور پنجاب کے دوسرے علاقوں پر غوریوں کی حکومت تھی۔ اور پنجاب میں یہ چند دن پہلے نہیں آئے تھے۔ 1001ء میں محمود غزنوی نے ہندوستان کا رُخ کیا تھا۔ تیس سال وہ پنجاب اور ملحقہ علاقوں پر حملہ زن رہا۔ اسی وقت سے مسلمانوں کا پنجاب میں آنا جانا، رہنا شروع ہو گیا۔ یہ درست ہے کہ محمود جن علاقوں کو فتح کرتا، ہندو حکمرانوں کو سونپتا جاتا، مگر ظاہر ہے کہ ان ماتحت اور مفتوحہ ہندو علاقوں میں مسلمانوں کو رہنے کی آزادی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ محمد غوری نے 1175ء میں پنجاب پر حکمرانی کا آغاز کیا تو اس سے پہلے ایک سو ستر ایک سو پچھتر سال سے پنجاب میں مسلمان رہ رہے تھے۔ کبھی حاکم بن کر اور کبھی بااثر کمیونٹی کے طور پر... تو ظاہر ہے کہ ان کی ا...

محمد قدیر

فرات کے کنارے مرنے والا کتّا خوش قسمت تھا کہ اس کا کوئی والی وارث تو تھا۔ افسوس! صد افسوس! حیف! صد حیف! محمد قدیر اتنا خوش قسمت نہ تھا۔ وارث وہ پیچھے تین بلکہ چار چھوڑ گیا۔ مگر والی کون تھا؟ احساس پروگرام سے لے کر بے حسی کی گہری دبیز تہہ تک، ''غریبوں‘‘ میں روپیہ تقسیم کرنے کے اعلانات سے لے کر محمد قدیر کی موت تک، بہت کچھ واشگاف ہو گیا۔ ریاست مدینہ کے نام لیوا حکمرانوں کے دور میں بھوک اور ننگ سے ایڑیاں رگڑتا محمد قدیر زہر کھا کر، زمین کے فرش پر، آسمان کی چھت تلے، سو گیا اور کچھ بھی نہ ہوا۔ ؎ نہ مدعی‘ نہ شہادت، حساب پاک ہوا یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا بینک زکوٰۃ کاٹتے رہے۔ خیراتی ادارے دستر خوان بچھاتے رہے۔ سینکڑوں، ہزاروں فلاحی تنظیمیں اشتہار بازی کے ذریعے اپنی کارکردگی جتاتی رہیں، مسجدوں میں اذانیں دی جاتی رہیں، جبینیں سجدہ ریز ہوتی رہیں، مسلمانوں کی بستی میں محمد قدیر کی مدد کو کوئی نہ پہنچا۔ عظیم الشان سرکاری مشینری نا کام ہو گئی۔ مملکتِ خداداد کو ریاست مدینہ بنانے کے اعلانات ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ دھواں دھار تقریریں بے نتیجہ نکلیں۔ سمارٹ لاک ڈائون محمد قدیر کو لے بیٹھ...

بحث کی بغدادی نسل

داستانوں میں پڑھا اور سنا تھا کہ ایک موسم بغداد میں مناظروں کا تھا۔ دروغ بر گردنِ تاریخ‘ ان مناظروں کا اختتام دست بدست لڑائی پر ہوتا تھا۔ فریقین ایک دوسرے پر پل پڑتے تھے۔ تفصیلات میسر نہیں کہ اُن دنوں پولیس آ کر مداخلت کرتی تھی یا نہیں! پھر اسی موسم میں انکل ہلاکو آئے اور مناظرے‘ مجادلے‘ مناقشے سب ختم ہو گئے۔ انکل ہلاکو نے انکل مستعصم کو اس کے زریں اور نقرئی ظروف پیش کر کے حکم دیا کہ انہیں کھاؤ۔ اس نے پوچھا :یہ تو سونا چاندی ہے‘ کیسے کھاؤں‘ تو ہلاکو نے پوچھا: پھر جمع کیوں کیے تھے؟ اس سے بہتر تھا ہتھیار بنواتے اور سپاہ کو تنخواہ دیتے۔ خیر‘ یہ تو دو انکلز کا باہمی معاملہ تھا ہمیں اس سے کیا‘ ہم تو مناظروں کی بات کر رہے تھے۔ ہمیں سوشل میڈیا نے‘ بالخصوص یوٹیوب نے‘ بُری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم اندر سے کتنے کثیف ہیں‘ کتنے نامعقول ہیں‘ یو ٹیوب نے سب کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ یو ٹیوب پر آپ کو بالکل بغدادی نسل کے مناظرے دیکھنے کو ملیں گے۔ پہلے فریقین کتابیں کھول کھول کر دلائل دیتے ہیں‘ پھر آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں‘ پھر دونوں طرف کے صاحبان کھڑے ہو جاتے ہیں‘ اور پھر وہی ہوتا ہے جو بغد...