مشتاق رضوی انتظار کر رہا ہے
مشتاق رضوی انتظار کر رہا ہے!…… جنت کے چمن زاروں میں ٹہلتے ٹہلتے اسے جس وقت وہ اذیت یاد آتی ہے جس سے وہ دنیا میں گزرا ہے، تو پاس سے گزرتے ہوئے فرشتے سے پوچھتا ہے: وہ پہنچا ہے کہ نہیں ؟ فرشتہ مسکراتے ہوئے جواب دیتا ہے نہیں! ابھی نہیں پہنچا‘ مگر خاطر جمع رکھو‘ آنا اس نے ضرور ہے‘ تمہیں پورا موقع ملے گا ، تم خود اس سے اُس ظلم کا حساب مانگو گے جو اس نے تم پر ڈھایا‘ حکمران یا سابق حکمران وہ دنیا میں تھا‘ یہاں وہ ملزم ہو گا‘ تمہارا ملزم اور بہت سے دوسرے افراد کا ملزم۔ سابق حکمران کو مشتاق رضوی کا نام تک یاد نہ ہو گا۔ کہاں سابق حکمران جب پتا بھی اس کے اشارۂ ابرو کے بغیر نہیں ہلتا تھا، جب انصاف اس کے بوٹوں کے نیچے قالین کی طرح بچھا ہوا تھا‘ اور کہاں مشتاق رضوی گریڈ انیس بیس کا معمولی سرکاری ملازم ! کیا حیثیت تھی اس کی حکمران کے سامنے! مگر آہ ! حکمران بھول جاتے ہیں کہ جو مناظر ان کے سامنے تیزی سے گزر کر غائب ہو جاتے ہیں ، وہ کسی اور کمپیوٹر پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ایک ایک خراش، ایک ایک ٹھنڈی سانس، ایک ایک گرم آہ، ہر چیز کا حساب ہو گا۔ تُلیں گے کس ترازو میں یہ آنسو اور آ...