اشاعتیں

نومبر, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

صرف زمین نہیں، ملکیت بھی گردش میں ہے

‎پجارو تھی یا لینڈ کروزر!جو بھی تھی فاخرہ سواری تھی! اور بالکل نئی نویلی!  ‎نئی نویلی گاڑی رواں دواں تھی، قصبوں، قریوں اور بستیوں کے درمیان، فراٹے بھرتی، ڈرائیور چلا رہا تھا، مالک گاڑی کا نشست پر یوں بیٹھا تھا جیسے گاڑی ہی کا نہیں، کرۂ ارض کا بھی مالک وہی ہو، لباس اس کا سفید لٹھے کی شلوار قمیض تھی، کلف سے کھڑ کھڑاتی ہوئی، انگلیوں میں سونے کی اور چاندی کی اور عقیق کی انگوٹھیاں پہنے تھا- گردن اس کی تنی ہوئی تھی۔  ‎راستے میں ایک شخص نے گاڑی کو ہاتھ دیا۔ ڈرائیور نے گاڑی روک لی، عجیب آدمی تھا یہ گاڑی کو روکنے والا، قلاش، مفلس، سرپر چارخانے کا چیتھڑا نما رومال لپیٹے، پائوں میں ٹوی ہوئی چپلیں، ایک بوسیدہ تھیلا ہاتھ میں! ڈرائیور نے شیشہ نیچے کیا تو کہنے لگا، کیا مجھے فلاں بستی تک لے جا سکتے ہیں؟ ڈرائیور نے سوالیہ نظروں سے مالک کی طرف دیکھا، سچ تو یہ ہے کہ مالک کو ڈرائیور کی یہ حرکت قطعاً پسند نہیں آئی تھی کہ وہ کسی کے ہاتھ لہرانے سے گاڑی روک لے، مگر نہ جانے اس کے دماغ میں کیا لہر اٹھی کہ اس بدحال راہگیر کو گاڑی میں بیٹھنے کی اجازت دے دی تکبر سے پوچھا کیا کرتے ہو؟ اس نے مختصر جواب دیا،...

اور اب ریلوے

کھانا آپ نے کرسی پر رکھ دیا اور خود میز پر بیٹھ گئے۔ حجام کے پاس جوتے مرمت کرانے چلے گئے۔ انگریزوں کے زمانے میں والیانِ ریاست اسی طرح کے کام کرتے تھے۔ چیف انجینئر رخصت پر گیا تو اس کی جگہ پر چیف میڈیکل افسر کو تعینات کر دیا۔ چیف انجینئر واپس آیا تو اسے قاضی القضاۃ لگا دیا۔  یہ سب کیا ہے؟ جہاں کوئی شے رکھنی ہے وہاں نہ رکھی۔ کسی اور جگہ رکھ دی جہاں کسی کو تعینات کرنا ہے‘ وہاں اسے تعینات نہ کیا۔ کسی نااہل کو کر دیا یہی ظلم ہے۔ ظلم کی تعریف ہی یہی ہے وَضع شی فی غَیرِ محلّہِ کسی شے کو وہاں رکھنا جہاں اسے نہیں رکھنا چاہیے۔  پاکستان میں یہ ظلم دہائیوں سے ہو رہا ہے نہ جانے کب تک ہوتا رہے گا۔ ہر شاخ پر الو کو تعینات کیا جاتا رہا ہے۔ بدبختی سے یہ رویہ ہر حکومت میں یکساں ہی رہا۔ کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ Right person for the right jobکے اصول پر کاربند ہو! آمریت کے زمانوں میں یہ ظلم انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔ یادش بخیر‘ صدر پرویز مشرف نے وفاقی محکمہ تعلیم کا سربراہ ایک ایسے شخص کو بنا دیا جس کا وفاقی محکمہ تعلیم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بس صدر صاحب سے مراسم تھے۔ اسے توسیع پر توسیع ملتی ر...

سانحہء ناروے —-ایک پہلو یہ بھی ہے

ناروے میں قرآن پاک کے مقدس نسخے کو جلانے کی جو کوشش کی گئی، اس پر، اُسی شہر میں رہنے والے ایک صاحب محمد الیاس نے صورتِ حال پر روشنی ڈالی ہے۔ ہم اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں، مگر بات سُن لینی چاہیے۔ الیاس صاحب رقم طراز ہیں :  ’’ ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ کی آبادی اسّی ہزار ہے جس میں دو ہزار تعداد مسلمانوں کی ہے ایک جامع مسجد ہے اور کچھ مصلے بھی۔ مسلمانوں میں تیس سے زیادہ قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ قانون کے مطابق مذہبی آزادی حاصل ہے، یورپ کے گنے چنے ملکوں میں ناروے ایسا ملک ہے i جو تبلیغی جماعتوں کو بلا حجت ویزے جاری کرتا ہے۔ ہمارے شہر کی انتظامیہ، سیاست دانوں کی بڑی تعداد میئر، پولیس اور دیگر ادارے مسلمانوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی کسی معاملے میں شکایت نہیں ہوئی بلکہ جب مسلمانوں کو بڑی جگہ پر مسجد کی ضرورت پڑی تو سٹی کونسل میں دائیں بازو کی مخالفت کے باوجود ووٹنگ کروا کر نئی مسجد کی منظوری دلوائی ...