صرف زمین نہیں، ملکیت بھی گردش میں ہے
پجارو تھی یا لینڈ کروزر!جو بھی تھی فاخرہ سواری تھی! اور بالکل نئی نویلی! نئی نویلی گاڑی رواں دواں تھی، قصبوں، قریوں اور بستیوں کے درمیان، فراٹے بھرتی، ڈرائیور چلا رہا تھا، مالک گاڑی کا نشست پر یوں بیٹھا تھا جیسے گاڑی ہی کا نہیں، کرۂ ارض کا بھی مالک وہی ہو، لباس اس کا سفید لٹھے کی شلوار قمیض تھی، کلف سے کھڑ کھڑاتی ہوئی، انگلیوں میں سونے کی اور چاندی کی اور عقیق کی انگوٹھیاں پہنے تھا- گردن اس کی تنی ہوئی تھی۔ راستے میں ایک شخص نے گاڑی کو ہاتھ دیا۔ ڈرائیور نے گاڑی روک لی، عجیب آدمی تھا یہ گاڑی کو روکنے والا، قلاش، مفلس، سرپر چارخانے کا چیتھڑا نما رومال لپیٹے، پائوں میں ٹوی ہوئی چپلیں، ایک بوسیدہ تھیلا ہاتھ میں! ڈرائیور نے شیشہ نیچے کیا تو کہنے لگا، کیا مجھے فلاں بستی تک لے جا سکتے ہیں؟ ڈرائیور نے سوالیہ نظروں سے مالک کی طرف دیکھا، سچ تو یہ ہے کہ مالک کو ڈرائیور کی یہ حرکت قطعاً پسند نہیں آئی تھی کہ وہ کسی کے ہاتھ لہرانے سے گاڑی روک لے، مگر نہ جانے اس کے دماغ میں کیا لہر اٹھی کہ اس بدحال راہگیر کو گاڑی میں بیٹھنے کی اجازت دے دی تکبر سے پوچھا کیا کرتے ہو؟ اس نے مختصر جواب دیا،...