اشاعتیں

ستمبر, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کے بعد پہلی مرتبہ 1973

‎کیا کسی کو یاد ہے نیو یارک ٹائمز نے اس وقت اپنے اداریئے میں کیا لکھا تھا؟  1973 ‎ء میں شاہ فیصل نے مغرب کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف تیل کی برآمدبند کر دی تھی! مغرب کو ایک سرداور بے سہارا سرما صاف سامنے نظر آرہا تھا۔ 2008ء میں سابق انٹیلی جنس سربراہ اور واشنگٹن میں سابق سفیر ترکی الفیصل نے ایک انٹرویو دیا۔یہ انٹرویو معروف جریدے’’شرق الاوسط‘‘میں چھپا۔ 1973ء میں جب تیل پر پابندی لگائی گئی تو ترکی الفیصل شاہی دربار میں مشیر تھے۔ ‎ شاہ فیصل اُس وقت جدہ میں تھے۔ سی آئی اے کے ایک نمائندے نے ترکی الفیصل کو ایک کاغذ دیا۔ اس پر دستخط کسی کے نہیں تھے۔ بتایا گیا یہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی طرف سے ہے۔ اس پر لکھا تھا کہ اگر شاہ نے پابندی نہ ہٹائی تو امریکہ اپنے مفاد میں سب کچھ کرے گا۔ مطلب واضح تھا۔ طاقت کا استعمال! ترکی الفیصل کہتے ہیں۔ ‎’’میں بادشاہ کے پاس گیا اور پیغام دیا۔ بادشاہ نے پیغام وصول کیا اور صرف اتنا کہا ’’خیر‘ انشاء اللہ‘‘۔ ترکی بتاتے ہیں کہ بادشاہ ‘ اس دھمکی کے باوجود‘ پرسکون‘ ہشاش بشاش اور اچھے موڈ میں رہے۔ امریکی دھمکی کا انہوں نے کوئی اثر نہ لیا۔  ‎کیا کسی کو...

شیخ ابو سعید‘ بو علی سینا اور کشمیر

مشہور و معروف صوفی شاعر شیخ ابو سعید ابوالخیر ‘ بوعلی سینا کے ہم عصر تھے۔ ایک بار دونوں کی ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات عجیب تھی۔ تین دن اور تین راتیں علیحدگی میں مصروف گفتگو رہے۔ عقیدت مندوں اور مریدوں میں سے کوئی اندر نہ جا سکتا تھا۔ سوائے اس کے جسے وہ اجازت دیتے۔ صرف نماز باجماعت کے لئے باہر نکلتے۔ تین دن بعد ملاقات ختم ہوئی۔ بو علی سینا سے ان کے شاگردوں نے ملاقات کے متعلق پوچھا تو بو علی سینا نے بتایا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں شیخ ابو سعید اسے دیکھ سکتے ہیں۔ ابو سعید ابوالخیر سے ان کے مردوں نے ملاقات کا حال جاننا چاہا تو شیخ نے فرمایا جو کچھ ہم دیکھ سکتے ہیں ‘ وہ اسے جانتے ہیں i! شیخ ابو سعید کی یہ رباعی زبان زدِ خاص و عام ہے ؎   باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ   گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ   این درگِہ ما درگِہ نو میدی نیست   صد بار اگر توبہ شکستی باز آ   واپس آ جا ۔ واپس آ ج...

جنت ہماری پکی ہے

’ہم لوگ دینی معاملات میں تو بہت حساس ہیں مگر ریاست کے قانون پر عمل کرنے کے معاملے میں حساس نہیں! کتنی ہی مجبور ہو پر روزہ نہیں توڑتے البتہ افطاری کے وقت ٹریفک کے اشارے توڑتے چلے جاتے ہیں ہمارا یہ دہرا معیار کیوں ہے؟ مولانا نے اس کا جواب دیا کہ دینی معاملات میں ہمارے سر پر جہنم کا ایک ڈنڈا ہے اگر ہم نماز روزے میں کوتاہی کریں گے تو آخرت میں ناکام ہوں گے مگر دنیاوی قانون پر کوئی اس وقت تک عمل نہیں کرتا جب تک اسے معلوم نہ ہو کہ اس کی بھی سزا ملے گی‘‘  یہ مکالمہ ایک معروف نوجوان کالم نگار اور ایک مشہور عالم دین کے درمیان حال ہی میں ہوا اور اسی مکالمے پر ماتم کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔  غور کیجیے‘ عالم دین نے کس صفائی کے ساتھ دین اور دنیا کو الگ کر دیا ہے روزہ توڑیں گے تو جہنم کا ڈنڈا سر پر ہو گا اور آخرت میں ناکامی ہو گی مگر ٹریفک کا اشارہ توڑیں گے تو اس کا آخرت سے کوئی تعلق نہیں! بس یہی وہ نکتہ ہے جس پر ماتم کرنا ہے! اشارہ توڑیں گے تو خلق خدا کو اذیت پہنچے گی! کیا اس کا آخرت میں حساب نہیں ہو گا؟ اشارہ توڑنے سے جو حادثہ ہو گا‘ جس کے نتیجے میں کوئی مرے گا کوئی زخئمی ہو گا‘ دو گھر اجڑ جا...

وزیراعظم سے انیس سوالات

‎1 ۔کیا وزیر اعلیٰ بزدار وزیر اعظم کا ذاتی انتخاب ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا وہ قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ وہ بزدار کو ذاتی طور پر کتنے عرصہ سے جانتے ہیں؟ ‎ 2 ۔ اگر ذاتی انتخاب نہیں تو قوم کیا یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ یہ نام کس نے تجویز کیا اور  کس فورم پر یہ تجویز منظور کی گئی؟  3 ‎۔ وزیر اعظم کو یاد ہو گا کہ ستمبر 2018ء کے پہلے ہفتے میں انہوں نے قوم کو بتایا تھا کہ ناصر درانی پنجاب پولیس کو اسی طرح سدھاریں گے جس طرح کامیابی کے ساتھ کے پی میں پولیس کو تبدیل کیا تھا۔ اسی ہفتے ٹوئٹر پر بھی وزیر اعظم نے یہی اعلان کیا۔ سترہ ستمبر کو ناصر درانی نے چارج لیا۔ بائیس دن بعد مستعفی ہو گئے۔ چونکہ وزیر اعظم نے ان کی تعیناتی پر قوم کو اعتماد میں لیا تھا تو کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ ان کے چلے جانے پر بھی قوم کو اعتماد میں لیتے؟  ‎4 ۔ ناصر درانی کے بعد وزیر اعظم نے پنجاب پولیس کی کایا کلپ کی ذمہ داری کس شخصیت پر ڈالی ہے؟  5 ‎۔ کیا وزیر  ‎اعظم کو معلوم ہے کہ پنجاب پولیس بدتر سے بدترین ہو رہی ہے؟  6 ‎۔ ’’وزیر اعلیٰ پنجاب(شہباز شریف) ایک ریفارمر ہیں! کرپشن کے خلاف شہباز شری...

لال قلعہ سے پاک سیکریٹیریٹ تک

اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ع  اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا  اکبر کو چند بیبیاں بے پردہ نظر آئی تھیں۔ اب تو حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ خواتین کو عبایا میں ملبوس و ملفوف کرنے کا کام حکومتوں نے سنبھال لیا ہے اور حکومتوں کا کام آئی ایم ایف کو منتقل ہو گیاہے۔  ولیم ڈالرمپل  کی مشہور کتاب’’دی لاسٹ کنگ‘‘ پڑھیے کیسے کیسے عبرت آموز واقعات ہیں۔ دہلی میں سرمٹکاف ‘ ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ بن کر بیٹھا تھا۔ یہ لوگ صبح سات بجے دفتروں میں پہنچ جاتے تھے۔ گیارہ بجے تک کام کا ایک حصہ ختم کر کے شمالی ہند کی جاں شکن گرمی میں وقفہ لینے واپس بیرکوں میں جاتے تھے تو اس وقت لال قلعہ میں شاہی خاندان کے ’’حکمران‘‘ نیند سے بیدار ہو رہے ہوتے تھے۔  پونے دو سو سال ہو چکے۔ سسٹم اب بھی وہی ہے۔ کردار بدل گئے ہیں۔ لال قلعہ میں مقیم شاہی خاندان کی جگہ پاکستانی کابینہ کے ارکان ہیں۔ سر مٹکاف کی جانشینی کا کام آئی ایم ایف کر رہا ہے!  اخبار میں ایک تصویر چھپی ہے! دیکھ کر‘ غیرت قومی سے زمین میں گڑ جانے کو دل کرتا ہے۔ آئی ایم ایف وفد کا سربراہ بیٹھا ہے۔ کوئی ڈائریکٹر کی سطح کا اہلکار! بیان صفائ...