اشاعتیں

اکتوبر, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

نہ مانیں! آج بے شک نہ مانیں!

کیا کسی کو وسیم سجاد کا نام یاد ہے؟ وسیم سجاد صاحب گنتی کے اُن چند افراد میں سے ہیں جو ملکِ پاکستان کے بہت بڑے  BENEFICIARY  رہے! طویل ترین اقتدار کے مزے لوٹے۔ وہ بھی ہمیشہ نامزدگی کی بنیاد پر۔ کبھی عوام کے ووٹ لے کر ایوان میں نہ آئے۔ سنتے جائیے اور دُھنتے جائیے۔ دو بار قائم مقام صدر مملکت مقرر ہوئے۔ 1988ء سے 1999ء تک بارہ سال سینیٹ کے چیئرمین رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں طویل ترین مدت تک اسی منصب پر فائز رہے۔ دو سال وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اور پارلیمانی امور رہے۔ وزارت داخلہ اور نارکوٹکس کنٹرول کے انچارج رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے تختہ الٹا تو وسیم سجاد نے مسلم لیگ نون کی ہچکولے کھاتی کشتی سے چھلانگ لگانے میں تاخیر نہ کی اور جنرل کے ساتھ ہو لیے۔ 2003ء سے لے کر 2008ء تک پانچ سال سینیٹ میں قائد ایوان رہے، یعنی حکومتی نمائندوں کے سرخیل! یہ بھی ایک طاقت اور منصب تھا جو اِن دنوں راجہ ظفر الحق صاحب کی جیب میں ہے۔ پھر کیا ہوا۔ وسیم سجاد صاحب اِن بلند ترین‘ اِن عالی ترین‘ اِن فلک بوس مناصب سے‘ جن کی طرف دیکھنے والے کو دستار ہاتھوں سے سنبھالنا پڑتی تھی کہ گر نہ پڑے‘ فارغ ہو...

حل

بہت ہو چکی۔ خشکی اور پانی پر فساد اپنی حدوں کو عبور کرنے لگا ہے۔ خلقِ خدا معصوم ہے یا گناہ گار‘ جو کچھ بھی ہے عاجز آ چکی ہے۔ یہ روز روز کے الزامات ‘ پھر جوابی الزامات۔ یہ الزام در الزام۔ یہ جواب در جواب! یہ ٹیلی ویژن پر اور پرنٹ میڈیا پر دھوئے جانے والے گندے کپڑے‘ یہ اُٹھی ہوئی‘ پیٹ کو ننگا کرتی قمیضیں! یہ پارسائی کے دعوے! یہ جلسے‘ یہ جلوس‘ یہ عدالتیں! یہ عشروں تک لٹکتے اصغر خان کیس! یہ مجرم جو اس لیے سزانہیں پا رہے کہ بڑے بڑے منصبوں سے ریٹائر ہوئے! یہ پھانسیاں جو مقدموں کے فیصلوں سے پہلے دے دی گئیں! یہ رہائی کے پروانے جو قیدیوں کی موت کے بعد جاری ہوئے ؎ فصلِ گُل آئی یا اجل آئی‘ کیوں درِ زنداں کھلتا ہے کیا کوئی وحشی اور آپہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا یہ سب کیا ہے؟ یہ انصاف انصاف کے نعرے‘ یہ احتساب احتساب کی چیخیں‘ یہ تلاشی کے مطالبے یہ سارے جھکڑ‘ یہ سارے طوفان اب تھم جانے چاہئیں ؎ ہٹا لے جائو سب دریوزہ گر کشکول اپنے کہ ہم یہ سلسلہ اب ختم کرنا چاہتے ہیں کیا زمانہ تھا‘ جب ہر طرف امن و امان تھا۔ عدالتیں تھیں نہ اپوزیشن! کوئی الزام لگانے والا تھا نہ محاسبے کا تقاضا ...

نواب ، ساہوکار اور سولہ بار معافی

محل شدید بد انتظامی کا شکار تھا۔ نواب صاحب کے اللّے تللّے جاری تھے۔ رقم پوری نہیں پڑ رہی تھی اب ایک ہی حل تھا کہ لالہ لاجپت رائے سے قر ض لے کر نوابی شان قائم رکھی جائے۔ تین سال کا معاہدہ لالہ کے ساتھ ہؤا۔ اس عر صہ میں لالہ کا منشی قر ض دیتا رہے گا اور محل کی معیشت میں ’’اصلاح‘‘ کرتا رہے گا۔ تین سال گزر گئے۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا لالہ یا اس کا منشی یہ مانیں گے کہ قرض بڑھ گیا مگر حالات خراب ہی ہیں جیسے تھے؟ نہیں ! کبھی نہیں! اگر وہ سچے تجزیے کرنے لگیں تو چل چکا ان کا ساہو کارہ!  آئی ایم ایف نے ہمارے ملک کو تین سال کا پروگرام دیا تھا۔ 2012-13ء سے لے کر 2015-16ء تک۔ پروگرام اختتام کو پہنچا تو آئی ایم ایف کی سربراہ بی بی لگارڈے بنفسِ نفیس تشریف لائیں ۔ بظاہر کہا کہ پروگرام کامیاب ٹھہرا۔ بین السطور مارکٹائی بھی کی!پاکستان کے تین چوٹی کے ماہرین اقتصادیات نے چار دن پہلے آئی ایم ایف کو کھلا خط لکھا ہے جس میں تصویر کا دوسرا رُخ پیش کر کے کہا ہے کہ    ع سخن شناس نہ ای دلبرا! خطا اینجاست حضور! سخن شناس کیسی ہیں آپ؟ مسئلہ تو دوسرا ہے۔ اُس کی آپ بات ہی نہیں کرتیں! یہ...

کلائیو کی یہ بات آئی پسند کہ وہ مر گیا

کیا آپ نے کبھی لارڈ کلائیو کی تصویر دیکھی ہے؟ کلائیو! جو اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے اٹھارہ سال بعد پیدا ہوا اور مرنے سے پہلے اورنگ زیب عالم گیر کی سلطنت میں اتنے چھید کر گیا کہ آج تک سِل نہیں پائے! بنگال کو سلطنتِ برطانیہ کے تاج میں ٹانک دیا۔ جنگیں لڑیں۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر رہا۔ فراڈ کیے‘ دھوکے دیے‘ وعدہ خلافیاں کیں‘ مگر انگریزی راج کی بنیادیں اتنی مستحکم کر دیں کہ دو سو سال تک برطانیہ برصغیر کو چھری کانٹے کے ساتھ آرام سے بیٹھ کر کھاتا رہا! تو کیا آپ نے کلائیو کی تصویر دیکھی ہے؟ تاریخ کی کوئی پُرانی کتاب کھنگال کر دیکھ لیجیے۔ ہوبہو وہی تصویر ہے جو آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لگارڈے کی ہے۔ لگارڈے بی بی کی تصویر دیکھی تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ہمارے سارے سابق آقاؤں کی روحیں حلول کرکے اِس بی بی کی شخصیت میں جمع ہو گئی ہیں۔ کیا وارن ہیسٹنگز، کیا کرزن، کیا ولزلے، لگتا ہے سب کی پڑپوتی ہے! ضمیر جعفری نے کہا تھا؎ کلائیو کی یہ بات آئی پسند کہ وہ مر گیا مگر کلائیو مرا نہیں زندہ ہے! آئی ایم ایف کیا ہے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی ہی تو ہے! نام کا فر...

اور بٹ گئے تم تین گروہوں میں

کمہاروں کا بیٹا سارا دن برتن دھوتا رہا۔ ایک دن پہلے حویلی میں مہمان بہت آئے تھے۔ سو، برتنوں کے ڈھیر لگے تھے۔ وہ رسوئی کے باہر سیمنٹ کے بنے ہوئے چوبچے پر بیٹھا استقامت کے ساتھ برتن دھوتا رہا۔ چاشت دوپہر میں ڈھلی، پھر سہ پہر آ گئی۔ اس اثنا میں چوہدرانی کی اپنی بہوکے ساتھ دو بار جھڑپ ہوئی۔ دونوں نے اپنے اپنے بزرگوں کے کپڑے اُتارے، ننگا کیا۔کمہارکا بیٹا برتن دھوتا رہا اور لڑائیوں کی تفصیلات حافظے میںمحفوظ کرتا رہا۔ اُدھر مردانے میں مُصلی نے بیٹھک کی صفائی کی۔ چارپائیوں پر سفید چادریں بچھائیں۔ کڑھے ہوئے غلافوں والے تکیے دھرے۔ حُقے تازہ کیے۔ پھر تقریباً سارا دن ہی بڑے چوہدری صاحب کی ٹانگیں دباتا رہا۔ اس اثنا میں چوہدری اپنے بیٹوں اور داماد کے ساتھ گھریلو معاملات پر مسلسل بات چیت کرتا رہا۔ یہ بات چیت کبھی اونچی آواز والی بحث میں تبدیل ہو جاتی اور کبھی چوہدری کی ڈانٹ میں۔ خاندان کی ساری کمینگیاں ایک ایک کرکے مصلی کے سامنے آتی رہیں۔ وہ سنتا رہا، پنڈلیوں پر مالش کرتا رہا،کاندھے دباتا رہا، حقے کی چلمیں انڈیل انڈیل دوبارہ بھرتا رہا، خاموشی کے ساتھ، جیسے اس کا وجود ہی نہ تھا۔ پھر شام ڈھلی...

ٹماٹر

جان نکس پھلوں اور سبزیوں کا تاجر تھا۔ اُس زمانے کے نیویارک میں وہ مارکیٹ میں چھایا ہوا تھا۔ شاید ہی کوئی اور تاجر اِس شعبے میں اس کی ٹکر کا ہو۔ 1839ء میں اس نے چھوٹے پیمانے پر کام کا آغاز کیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ اس کی کمپنی دوسری ریاستوں اور برمودا کے جزائر سے سبزیاں اور پھل درآمد کرنے والی پہلی کمپنی تھی۔ جان نکس 1895ء میں وفات پا گیا۔ اس کی وفات کو ایک سو اکیس سال ہو گئے ہیں مگر آج بھی امریکہ میں اس کا اور اس کی کمپنی کا نام زندہ ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ امریکہ میں اُس وقت سینکڑوں ہزاروں لوگ سبزیوں اور فروٹ کا کاروبار کرتے ہوں گے۔ اگر جان نکس نیویارک کی منڈی پر چھایا ہوا تھا تو آخر واشنگٹن، بوسٹن اور کئی دوسرے شہروں میں بھی تو سبزیوں اور پھلوں کے بڑے بڑے تاجر ہوںگے۔ آخر ان کا نام آج کیوں کسی کو نہیں معلوم! جان نکس کو تاریخ میں زندہ رکھنے والا مُحسن کوئی انسان نہیں تھا بلکہ ٹماٹر تھا! ہوا یہ کہ نکس نے بیرونِ ملک سے ٹماٹر درآمد کیا۔ امریکہ میں اس وقت ایک قانون رائج تھا جس کا نام ’’ٹیرف ایکٹ 1883ء‘‘ تھا۔ اِس ایکٹ کی رُو سے درآمد شدہ سبزیوں پر بھاری محصول ادا کرنا پڑتا ...

لمبا پراندہ! چھوٹا قد ونگیاری دا

سب سو رہے تھے۔ کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے۔ سب لحافوں میں دبکے تھے۔ برف ہوا کے دوش پر اُڑتی ہوئی آئی اور گرنے لگی۔ بڑے بڑے سفید گالوں کی صورت! شاہراہیں برف سے ڈھک گئیں۔ چھتیں سفید ہو گئیں۔ جنگلے چھپ گئے۔ سوراخ بھر گئے۔ اونچی نیچی جگہیں برابر ہو گئیں۔ سات انچ برف پڑی! پھر یوں ہوا کہ تیز ہوا چلی اور برف بنانے اور برسانے والے بادل اُڑتے اُڑتے نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ صبحدم لوگ بیدار ہوئے تو خلافِ معمول ہر طرف بکھری سفیدی نظروں سے ٹکرائی۔ آنکھیں حیران ہو گئیں۔ پھر بچے سکولوں کو روانہ ہوئے‘ برف کے گولوں سے کھیلتے، گھٹنوں تک دھنستے اور درختوں کی ٹہنیوں کو تعجب سے دیکھتے، جو کیسی کیسی شکلوں میں نظر آرہی تھیں! رابرٹ برجز (Bridges) کی یہ نظم انگریزی شاعری کے اکثر مجموعوں میں ملتی ہے۔ یہ بھائی صاحب ڈاکٹر تھے مگر آخری عمر میں ادب پر توجہ دی اور شاعری میں نام پیدا کیا۔ یہ نظم جیسے انہوں نے ہمارے لیے ہی لکھی تھی! اٹھارہ اکتوبر کو قوم غفلت کی نیند سو رہی تھی۔ سب کھیل کود میں، لہو و لعب میں، موج میلے میں لگے تھے مگر وہ جن کے دل میں قوم کا درد تھا، جمہوریت کی بساط بچھا رہے تھے۔ انیس کی صبح...

اصل سبب! اللہ کے بندو! اصل سبب

یہ ایک وسیع و عریض علاقہ تھا اور قبیلے کا سردار اس علاقے کا بلاشرکت غیرے حکمران تھا۔ اس حکمرانی کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ رعایا کو یا سردار کے ماتحتوں میں سے کسی کو مسئلہ درپیش ہوتا تو اُسے یہ نہ معلوم ہو پاتا کہ کس کے پاس جانا ہے۔ بس کسی نہ کسی طرح سردار تک رسائی حاصل کرنا ہوتی۔ سردار مسئلہ سنتا اور کسی کو حکم دیتا کہ مسئلہ حل کرے۔ وہ کسی کو بھی یہ حکم دے سکتا تھا۔ عام طور پر جو بھی اُس وقت پاس ہوتا‘ اسے ہی یہ ذمہ داری سونپ دیتا۔ وہ شخص‘ جو کام پہلے سے کر رہا ہوتا‘ اسے چھوڑ دیتا‘ نئے سائل کو پکڑ کر دربار سے نکلتا اور اپنی دانست میں مسئلہ حل کرتا۔ حل کرتا یا خراب تر کرتا‘ یہ اُس کی ذہانت پر اور سائل کے بخت پر منحصر ہوتا۔ اردگرد کے علاقوں پر جو نواب حکمران تھے‘ ان میں سے بعض کے ساتھ تعلقات خوشگوار تھے اور اکثر کے ساتھ کشیدہ۔ ایک صبح شمالی سرحد کے پار حکمرانی کرنے والے نواب کا پیغام آیا کہ وہ ملاقات کے لیے اپنے عمائدین کے ہمراہ آنا چاہتا ہے۔ اُس وقت سردار کا منجھلا بیٹا اُس کے ساتھ بیٹھا گوسفند کے گوشت اور اونٹنی کے دودھ کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا۔ سردار نے نواب کے استقبال کی ذمہ ...

مراد علی شاہ صاحب! ڈٹ جائیے

بلیک میلنگ کا پہلا تحریری تذکرہ 1530ء کے کاغذات میں ملتا ہے۔ آدم سکاٹ‘ ایک غنڈہ تھا جو بلیک میل کر کے لوگوں کو لوٹتا تھا۔ اُسے موت کی سزا دی گئی۔  یہ اُس زمانے کی بات ہے جب بلیک میلنگ کا مطلب محض یہ تھا کہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان سے نقد روپیہ یا اشیا بٹوری جائیں۔ بلیک میل کے لفظ میں اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ’’میل‘‘ کا مطلب ڈاک ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ سولہویں صدی کی انگریزی میں یہ لفظ  MAILL   تھا۔ یعنی ایل کا لفظ حرف دو بار لکھا جاتا تھا۔ اس میل کا مطلب خطوط یا ڈاک نہیں تھا۔ اس کا مطلب کرایہ تھا یا ٹیکس۔ ہم اسے جگا ٹیکس بھی کہہ سکتے ہیں جو غنڈے وصول کرتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کے بارڈر پر رہنے والے انگلینڈ کے کسان سکاٹ لینڈ کے ظالم جاگیرداروں کو نقد رقم دیتے تھے یا مویشی اور غلہ۔ ایک دوسری روایت میں انگلینڈ کے زمیندار‘ سکاٹ لینڈ کے کسانوں سے یہ سب کچھ بٹورتے تھے۔ یہ سب ماضی کے قصے ہیں۔ آج کی بلیک میلنگ کا مقصد ضروری نہیں‘ دھمکی دے کر رقم بٹورنا ہو‘ اس سے مراد اپنی بات منوانا بھی ہے۔ مشہور تفریحی ڈرامے ’’تاقے کی آئے گی برات‘‘ میں بشریٰ انصاری ایک نٹ کھٹ شوخ چنچل بیگم کا ...

آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا

مسجد کے بڑے ہال کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا تھا کہ ایک بزرگ صورت صاحب نمودار ہوئے۔ یوں تو چٹے سر اور چٹی داڑھی کی وجہ سے میں بھی اچھا خاصا بزرگ لگتا ہوں مگر وہ جینوئن بزرگ دکھائی دے رہے تھے۔ دروازہ کھول کر کھڑا رہا تاکہ وہ پہلے گزریں۔ وہ گزرے مگر یوں جیسے میں کئی نسلوں سے ان کا خاندانی مزارع تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ میری طرح ان پڑھ تھے۔ لباس سے تعلیم یافتہ لگ رہے تھے۔ باہر نکل کر نوٹ کیا کہ وہ جس گاڑی میں بیٹھ رہے تھے‘ وہ پرانی تھی نہ چھوٹی! آپ ڈرائیو کر رہے ہوں‘ راستہ تنگ ہو یا کسی دوسرے گاڑی والے نے مڑنا ہو‘ اور آپ رک جائیں تاکہ وہ پہلے گزر جائے تو وہ یوں شانِ بے نیازی سے گزرے گا‘ جیسے رکنا آپ کا فرض تھا اور اس کا حق۔ پوری مہذب دنیا میں دوسری گاڑی والا ہاتھ اٹھا کر شکریہ ادا کرتا ہے۔ ہاں! ایک بار ایک ٹیکسی والے نے ہاتھ لہرا کر شکریہ ادا کیا اور موٹر سائیکل پر سوار ایک لڑکے نے‘ جس کے گزرنے کے لیے میں نے بریک لگائی‘ شکریہ ادا کیا۔ مگر یہ شرح اس قدر برائے نام ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے! آخر ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ ہم شکریہ ادا کرنے میں یا ایک مسکراہٹ بکھیرنے میں‘ جس پر کوئی خرچ بھ...

انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں

سات برس کا عثمانی گریڈ ون کا طالب علم تھا۔ گھر سے سکول اور سکول سے گھر، سکول کی بس میں آتا جاتا تھا۔ اُس دن اس کے ساتھ انوکھا ہی معاملہ ہوا۔ پانچ ہم عمر بچوں نے اسے پاکستانی کہا، پہلے آوازے کسے، پھر ایک نے اس کے چہرے پر مُکا رسید کیا۔ پھر دوسرے نے اُس کے دونوں بازو پکڑ کر اُس کی پیٹھ کے ساتھ لگا لیے۔ دو بچے اسے ٹھوکریں مارنے لگے۔  بچہ دہشت زدہ ہو گیا۔ اس کی نفسیات پر گہرا اثر پڑا۔ سکول میں شکایت کی گئی۔ تفتیش شروع ہوئی۔ اس اثنا میں عثمانی فیملی نے سامان باندھا اور واپس پاکستان منتقل ہو گئی۔ امریکہ اب ان کے رہنے کے لیے ایک محفوظ ملک نہیں تھا۔ اس کیس کو ہم اسلاموفوبیا کی واضح مثال قرار دے سکتے ہیں۔ ہم اسے ’’ٹرمپ کا امریکہ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے ہم ایسے تمام واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور مذمت کرنا بھی چاہیے۔  تاہم معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اپنے آپ سے بھی کچھ سوال کرنے ہوں گے۔ اس قبیل کے اکثر واقعات پاکستانیوں کے ساتھ ہی کیوں پیش آتے ہیں؟ پاکستانی نصف صدی سے امریکہ میں‘ یورپ میں، آسٹریلیا اور جاپان میں رہ رہے ہیں۔ ان تمام ملکوں نے پاکستانیوں کو ملازمتیں دیں۔ شہریت ...

اصل چہرہ

یہ ایک دلدوز منظر تھا۔ اتنا دل دوز کہ دیکھنے والے کا کلیجہ باہر آنے لگتا تھا۔ وہ چار تھے۔ تن پر صرف پتلون نما چیتھڑے تھے۔ ہر ایک کی کمر کے گرد رسی تھی۔ رسی کا دوسرا سرا سامنے کھڑی گاڑی سے بندھا تھا۔ پہلے انہیں بھارتی ریاست کے قصبے اونا کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ پھر ایک ایک اونچی ذات کا ہندو آتا اور لکڑی کے بہت چوڑے ڈنڈے کے ساتھ ان کے پیچھے ضرب لگاتا۔ ایک آیا۔ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا‘ پھر چوتھا۔ وہ مار کھا کھا کر گر جاتے۔ پھر انہیں اٹھایا جاتا‘ اور مزید افراد آ کر مارتے۔ یہ دلت تھے۔ اچھوت۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ گائے پہلے سے مری ہوئی تھی۔ ان پر الزام لگا کہ انہوں نے گائے کو مارا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرے ہوئے جانوروں کی کھال اتارنا ان کا پیشہ ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ مگر مودی کے گجرات میں ہندو دھرم اپنی نئی آفتوں کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ ’’گائے بچائو‘‘ جتھے بنے ہوئے ہیں جو شہروں‘ قصبوں اور بستیوں میں گشت کرتے ہیں۔ شائبہ بھی پڑ جائے تو بغیر تحقیق یا تفتیش کیے‘ ’’مجرموں‘‘ کو سزا دینا شروع کر دیتے ہیں۔ مگرگجرات کے اچھوتوں نے ہڑتال ...

بیرم خان

بیرم خان نے مغل خانوادے کی تین نسلوں تک چاکری کی! وہ بدخشاں میں پید ہوا۔ بدخشاں کے لعل مشہور تھے، جیسے یمن کے عقیق! یہ وہ زمانہ تھا جب لعل فخر سے بادشاہوں کے تاج میں سجتے تھے اور گلے کی مالا کا حصہ بنتے تھے۔ یہی حال پھولوں کا تھا! پھول کسی کے سر پر سجنا اپنے لیے باعثِ افتخار گردانتے تھے۔ اسی لیے تو مومن نے کہا تھا     ؎ بے بخت رنگِ خوبی کس کام کا کہ میں تو تھا گُل، ولے کسی کی دستار تک نہ پہنچا اقبال نے آ کر بتایا کہ کسی کی دستار پر لگ کر اونچا ہونا، عزت کی نہیں، محکومی کی نشانی ہے   ؎ نہیں یہ شانِ خوداری چمن سے توڑ کر تجھ کو کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیبِ گلو کر لے بیرم خان نے بابر کی نوکری شروع کی تو سولہ سال کا تھا۔ ہمایوں کے سارے عرصۂ اقتدار میں اور عرصۂ مہاجرت میں وہ اس کا ساتھی رہا۔ ہمایوں ایران گیا تو بیرم خان ساتھ تھا۔ شیر شاہ سوری کے خاندان کے ساتھ جنگ ہو رہی تھی کہ ہمایوں دنیا کو چھوڑ گیا۔ بیرم خان نے تیرہ سالہ اکبر کو تخت پر بٹھایا اور پھر جان و دل سے مغل سلطنت کے استحکام میں لگ گیا۔ پانی پت کی دوسری لڑائی میں بیرم خان ہی نے ہیمو کو شکست دی ورنہ...