اشاعتیں

جولائی, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

سنگ اور سر

’’پاپا نے اجازت نہیں دی۔ کل تم ہسپتال نہیں جائو گی‘‘ یہ کہہ کر شوہر باہر نکل گیا۔  ڈاکٹر بننا اس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا۔ محلے کے غریب لوگوں کو عطائیوں‘ ٹھگوں‘ پیروں فقیروں کے پاس جاتا دیکھتی تو کُڑھتی۔ اس نے ان پڑھ عورتوں کو مزاروں کی مٹی پھانکتے دیکھا۔ میٹرک میں پہنچتے ہی فیصلہ کر لیا کہ ڈاکٹر بنے گی۔ ایف ایس سی میں سخت محنت کی۔ میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ پانچ سال خونِ دل کو جیسے آنکھوں کی بینائی میں منتقل کرتی رہی۔ میڈیکل کی پڑھائی میں وقت کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ بقول عدمؔ ع  جاگ اٹھے تو چل دیے‘ تھک گئے تو سو لیے  کھانا پینا‘ اٹھنا بیٹھنا سب پڑھائی کے اردگرد گھومتا ہے۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ وہ ڈاکٹر بن گئی۔ ہسپتال میں ملازمت بھی شروع کردی۔ غریب مریضوں کا خاص خیال رکھتی۔ اس کا کمرہ سب کے لیے کھلا تھا۔ بیماروں سے بھرا رہتا۔ ان پڑھ مریضوں کو ایک ایک بات آرام سے سمجھاتی۔ اسے یوں لگ رہا تھا۔ جیسے زندگی کسی کام آ رہی ہے۔ جیسے وہ کچھ حاصل کر رہی ہے۔ پھر رشتے آنے شروع ہو گئے۔ ماں باپ نے دیکھ بھال کر‘ سوچ سمجھ کر‘ ایک تعلیم یافتہ خاندان کے سمجھدار پڑھے لکھ...

اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں ہے

بیماری تھی اور ایسی کہ ناقابلِ بیان! شاہی ڈاکٹر عاجز آ گیا۔ بالآخر ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھایا گیا، تشخیص پر بحث ہوئی اور پھر اس بات پر کہ دوا کون سی تجویز کی جائے! متفقہ فیصلہ اس پر ہوا کہ انسان کا پِتّہ ہی شفا دے سکے گا بشرطیکہ عام آدمی کا نہ ہو بلکہ صرف اُس شخص کا جس میں فلاں فلاں صفات ہوں۔ اب ڈھنڈیا پڑ گئی۔ سوال بادشاہ کا نہیں! سلطنت کی بقا کا تھا۔ بادشاہوں کے بغیر کیا سلطنت اور کون سے عوام، بادشاہ محفوظ ہے اور برسرِ اقتدار ہے تو سب کچھ ہے! ایک دہقان کا لڑکا ان مخصوص صفات کا حامل ملا۔ لڑکے کے ماں باپ کو سلطنت کی اہمیت سمجھائی گئی۔ وہ بادشاہ کی جان بچانے کے لئے بیٹے کی زندگی قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ہاں! کچھ قیمت اِس آمادگی کی انہوں نے ضرور وصول کی! لیکن اصل مسئلہ ماں باپ کی رضامندی کا نہ تھا، عدلیہ کا تھا! مسلمانوں کی تاریخ میں عدلیہ نے ہمیشہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ سعدی کی یہ حکایت جو ہم بیان کر رہے ہیں، ایک مثال ہے اُس تابناک کردار کی جو ہماری عدلیہ ہمیشہ سے ادا کرتی رہی ہے، ملک و قوم کے لئے، سلطنت کے لئے، بادشاہ کی سلامتی کے لئے، بادشاہ کے اقتدار کی بقا کی خاطر! اُس بادشاہ...

دو تصویریں

یہ دو تصویریں کافی ہیں۔  قوموں کے حا ل کو سمجھنے اور مستقبل کو جاننے کے لیے ہزاروں صفحات کی کتابیں پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ سالہاسال مشاہدہ کرنے کی۔ گہری تحقیق کے بعد حُمَقَاء اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں جس پر مجذوب ایک نظر ڈال کر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ لطیفہ نما واقعہ خاصا پامال ہو چکا ہے ۔ سمندر کے کنارے ساحل کی نرم آسودہ ریت پر ایک چینی آنکھیں بند کیے مزے سے لیٹا تھا اور جانفزا ہوا کے جھکوروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔ ایک امریکی یہودی وہاں سے گزرا ۔ اسے افسوس ہوا کہ افیون زدہ چینی سونا سی عمر اور موتی سا وقت ضائع کر رہا ہے۔ اس کی پسلی کو پائوں سے ٹھوکر ماری اور کہا اُٹھو‘ بے وقوف‘ کچھ کام کرو۔ وقت ضائع کیوں کر رہے ہو۔ چینی نے نیم واآنکھوں سے اسے دیکھا اور پوچھا‘ کیا کروں؟ ’’یہ اتنی کشتیاں لانچیں اور سٹیمر کھڑے ہیں۔ ان میں کام تلاش کرو۔‘‘ ’’پھر کیا ہو گا؟‘‘ ’’تمہاری شہرت اچھے کارکن کی ہو جائے گی‘ تنخواہ بڑھے گی امیر ہو جائو گے۔ ’’پھر؟‘‘ ’’پھر تم اپنی ایک لانچ خرید لینا۔‘‘ ’’پھر؟‘‘ ’’پھر کئی لانچیں لے لینا‘‘ ’’پھر؟‘‘ ’’پھر تم بہت سے بحری جہازوں کے مالک ہو جائو گے۔...

آج کے واجد علی شاہ

تصویر

میڈیا کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟

یہ کڑوی سچائی تو ہم ذہنی طور پر قبول کر ہی چکے ہیں کہ بین الاقوامی میڈیا مسلمانوں کا‘ خاص طور پر ہم پاکستانیوں کا دشمن ہے!  ایک طویل عرصہ سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مسلمان قومیتوں‘ زبانوں‘ علاقوں اور مسلکوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں‘ حالانکہ حقیقت کا اس سے دور دور کا تعلق نہیں۔ ایران‘ ترکی‘ سعودی عرب آپس میں شیرو شکر ہیں۔ شام اور مصر میں گاڑھی چھنتی ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان مل کر ایک کنفیڈریشن بنانے کا سوچ رہے ہیں اور وسط ایشیائی ریاستوں کو بھی ساتھ ملانے کا پروگرام بنا رہے ہیں!  بین الاقوامی میڈیا جو یہودیوں اور نصرانیوں کے آہنی پنجے میں جکڑا ہوا ہے‘ رات دن مذموم پروپیگنڈا کیے جا رہا ہے کہ مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ دروغ گوئی کی حد یہ ہے کہ بجلی کا بلب شیخوپورہ کے چودھری نصیر احمد نے ایجاد کیا تھا مگر پاکستان دشمنی کا شاخسانہ ملاحظہ ہو کہ کتابوں میں تھامس ایڈیسن کا نام لکھا جا رہا ہے۔ ہوائی جہاز ہی کو دیکھ لیجیے۔ تحصیل تلہ گنگ کے دو بھائیوں ملک سمندر خان اور ملک جمعہ خان نے جدید دنیا کو یہ تحفہ دیا مگر سہرا آرول رائٹ اور ولبر را...

اس عید پر

تدفین ہو چکی تھی۔ دوسری بستیوں اور شہروں سے آئے ہوئے مہمانوں کو گاؤں کے لوگ راستوں میں کھڑے، درخواست کر رہے تھے کہ کھانا تیار ہے، تناول فرما کر رخصت ہوں۔ کچھ گاڑیاں موڑ رہے تھے،اژدحام تو نہ تھا لیکن لوگ اتنے زیادہ تھے اور موٹریں اس قدر تھیں کہ گرد بہت تھی۔ مٹی اڑتی تھی تو ارد گرد کے چہرے چھپ چھپ جاتے تھے۔ میں اپنے عزیزوں کی اُس حویلی میں کھڑا تھا جہاں مرد حضرات کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ آمد و رفت لگی ہوئی تھی۔ اچانک شدید تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ چوبیس گھنٹوں میں شاید ہی آنکھ لگی ہو۔ آنسو خشک اور آنکھیں بنجر تو ہو ہی چکی تھیں، جسم کے دوسرے اعضا بھی ناتوانی کا شکار لگنے لگے تھے۔ نہ جانے کیا ہوا‘ دفعتاً میرے منہ سے الفاظ نکلے، جن کا مخاطب میں خود ہی تھا۔ اظہار الحق، آج تمہیں کسی نے نہیں کہنا کہ ’’میرے بچے تھک گئے ہو، ذرا لیٹ جاؤ‘‘، پھر کسی کو آواز دیتیں، ’’جاؤ، اظہار کے لئے اندر سے تکیہ لے آؤ‘‘، محرومی کا احساس ہوا اور اتنا شدید کہ بے کسی سے، بقول محبوب خزاں، دنیا رگوں میں چلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ تھکے تھکے قدم آہستہ آہستہ اٹھائے، ایک خالی کمرے میں فرش پر بچھی ہوئی دری پر لیٹ گیا۔ تکیہ تھا نہ...

بہ احترام فراواں

مولانا طارق جمیل کو احسن الخالقین نے حسن بیان کی قابل رشک نعمت سے نوازا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس وقت مقبول ترین واعظ ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ان کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی جماعت کے دیگر اکابر کی طرح آہنی پردے کے پیچھے نہیں رہے بلکہ مخصوص دائرے سے باہر نکلے ہیں۔ ان کے ارشادات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے لاتعداد مداح ان کی تقاریر التزام اور اہتمام سے لاکھوں لوگوں کو سنوا رہے ہیں۔ تبلیغی جماعت کی قابل تحسین پالیسی پر عمل پیرا، مولانا طارق جمیل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں مختلف مسالک اور مذاہب کے درمیان مناظرانہ، مجادلانہ اور معاندانہ ماحول جس طرح ہر وقت گرم رہتاہے اور آتشیں حدوں تک جا پہنچتا ہے، اس کے پیش نظر مثبت لہجے میں کام کرنے والی جماعتیں اور علما قابل قدر ہیں۔ مولانا نے حال ہی میں ایک ٹیلی ویژن چینل پر تفصیلی انٹرویو دیا ہے جس کی خبر نما تلخیص پرنٹ میڈیا پر بھی عوام تک پہنچی ہے۔ حضرت مولانا کی عوام تک رسائی کی خوشگوار پالیسی سے حوصلہ پا کر ہم بھی کچھ طالب علمانہ اشکال پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ...

صبح جب دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلی

ان دنوں پورے گائوں میں ایک آدھ ہی ریڈیو ہوتا تھا۔ گرمیوں میں ایسا ٹرانزسٹر نما ریڈیو شام ڈھلے چھت پر ہوتا تو تقریباً پورا گائوں ہی مستفید ہوتا۔ ایسی ہی ایک ڈھلتی شام تھی۔ ہمارا پڑوسی نواب کشمیری دکان بند کر کے چھت پر ریڈیو سے دل بہلا رہا تھا میں کھیل کود کے بعد ہم جولیوں سے رخصت ہو کر ڈھور ڈنگروں والی حویلی سے ہوتا رہائشی مکان کی طرف آ رہا تھا۔ دروازے سے داخل ہوا تو ارد گرد کی خاموشی میں ریڈیو کی آواز گونج رہی تھی۔ اس وقت تو نہیں معلوم تھا لیکن اب معلوم ہے کہ مشاعرہ ہو گا۔ کوئی عجیب سی آواز کے ساتھ جیسے اسے کھانسنے کی ضرورت ہو، پڑھ رہا تھا   ؎ اور تو کوئی چمکتی ہوئی شے پاس نہ تھی تیرے وعدے کا دیا راہ میں لا رکھا ہے خاندان میں تعلیم کا آغاز فارسی شاعری سے ہوتا تھا، اس لیے سن کچا ہونے کے باوجود شعری ذوق کچا نہیں تھا۔ شعر فوراً حافظے پر نقش ہو گیا۔ یہ احمد ندیم قاسمی سے پہلا تعارف تھا۔ یوں کہ شاعر کا نام معلوم ہی نہ تھا! کالج پہنچنے تک احمد ندیم قاسمی پسندیدہ شعراء میں شامل ہو چکے تھے۔ ’’فنون‘‘ حرز جاں بن چکا تھا۔ انہی دنوں کسی ادبی مقابلے میں ان کا شعری مجموعہ ’’دشتِ و...

عرضداشت

نیب نے کرپشن کے ایک سو پچاس مقدموں کی فہرست سپریم کور ٹ کو پیش کی ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل مشاہیر کے اسمائے گرامی آتے ہیں: میاں نوازشریف، شہباز شریف، اسحاق ڈار، آصف علی زرداری، چودھری شجاعت حسین، پرویز الٰہی، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، ہارون اختر خان، آفتاب شیرپاؤ، جہانگیر صدیقی، نواب اسلم رئیسانی، میاں محمد منشا، ایاز خان نیازی، فردوس عاشق اعوان، عبداللہ یوسف، سلمان صدیق، علی ارشد حکیم، آصف ہاشمی، سحر کامران، حسین حقانی، شوکت ترین، ملک نوید، توقیر صادق، محمد صدیق میمن، یونس حبیب، علی احمد لونڈ، ذکی اللہ، نصیر حیات، عبدالغفور لہڑی، صدیق میمن، انجم عقیل خان، جنرل سعید الظفر‘ شاہد رفیع، اسماعیل قریشی، شاہنواز مری، میر شاہ جہان کھیتران۔ ہو سکتا ہے کچھ نام یہاں نقل کرنے میں رہ گئے ہوں۔ عوام کی طرف سے درج ذیل عرضداشت انہی مشاہیر کے نام ہے۔  معزز حضرات! آپ سب کا مؤقف… کیا مشترکہ اور کیا فرداً فرداً‘ایک ہی ہے کہ آپ بے قصور ہیں اور یہ الزامات‘ جرائم کی یہ فہرست، سازش کے علاوہ کچھ نہیں!  آپ درست فرما رہے ہیں۔ ہم عوام نہتے ہیں، اس ضمن میں ہمارے ہاتھ میں کوئی ثبوت نہیں؛ تاہم ہم...

سانپ ! سانپ ہی سانپ!!

تیسرا عشرہ شروع ہو گیا ہے۔ آگ سے رہائی کا پروانہ! رحمت، مغفرت، برکت، سعادت کا مہینہ آہستہ آہستہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے! کیا اطمینان ہے چہروں پر! عصر کے بعد جوق در جوق اہل ایمان خریداری کو نکلتے ہیں۔ پیشانیوں پر نور اور رخساروں پر عبادت کی تمازت صاف نظر آ رہی ہوتی ہے۔ تھیلے بھرے جاتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں پر نصف درجن شاپنگ بیگ ایک طرف اور نصف درجن دوسری طرف لٹکے ہوتے ہیں۔ گاڑیوں کی ڈگیاں اوپر تک بھر جاتی ہیں! وہ افطار جو ایک کھجور سے شروع ہوئی تھی، پورے ڈنر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ پکوڑے، سموسے، فروٹ چاٹ، چنوں والی چاٹ، سرخ لوبیے کی چاٹ، کباب، دہی بڑے، دہی پھلکیاں، تین قسم کے مشروبات! یہ وہ آئٹم ہیں جو کم از کم ہیں! مغرب ڈھلنے والی ہوتی ہے تو نماز ادا کر کے چائے پی جاتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد اکل و شرب کا دور ثانی چلتا ہے۔ یہ کھانا، کچھ اسے ڈنر کہتے ہیں! کھانے کا دور اول ہو یا دور ثانی، ٹیلی ویژن سکرین ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ کیا آسان دین ہے! سارے تقاضے، سارے وعظ، ساری رقت آمیز دعائیں، خوف خدا سے نکلتے ہوئے سارے آنسو، ٹیلی ویژن پر ہی نمٹا دیے جاتے ہیں۔ تین تین نسلوں سے جوہر دکھانے وال...

کھڑکیاں بند کر لو

تصویر

پیر ، فقیر ، اوراد ، وظائف

تصویر

اصل مدعی

چھوڑ کر جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ دل پاکستان کے لیے دھڑکتے تھے۔ کام مسلم لیگ کے لیے دن رات کیا تھا مگر بٹوارہ ہوا تو یہی فیصلہ کیا گیا کہ یہیں رہیں گے۔ تعلقات مثالی تھے۔ کامنی بڑے ابا کی یعنی دادا کی بہن بنی ہوئی تھی۔ راکھی باندھی تھی۔ زمین تھی‘ مکان تھے‘ دکانیں تھیں‘ ایک پورا سلسلہ چل رہا تھا۔ بہت سے خاندان ان کے سامنے گھروں کو مقفل کر کے جا رہے تھے کہ حالات معمول پر آئے تو واپس آ جائیں گے۔ بڑے ابا کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ واپس ہی آنا ہے تو بھاگنے کی کیا منطق ہے؟  پھر یوں ہوا کہ جو آگ دور تھی‘ پاس آتی گئی۔ ساتھ والا محلہ بلوے کی نذر ہوا تو یہاں بھی کھلبلی مچ گئی۔ اطلاعات یہ تھیں کہ چار عورتوں کو اٹھا کر لے گئے۔ تین مرد مارے گئے۔ باقی کسی نہ کسی طرح جان بچا کر ریلوے سٹیشن کو نکل گئے۔ کسی کو نہ معلوم ہوا کہ ان پر کیا گزری۔  بالآخر حملہ ہو گیا۔ کامنی تڑپ کر اٹھی اور منہ بولے بھائی کے گھر کی طرف بھاگنے لگی تو اس کے میاں اور بیٹوں نے روک لیا۔ انہی بیٹوں نے بڑے ابا کے سینے میں کرپان اتاری‘ زیور لوٹے۔ پھر ٹھاکر صاحب پہنچ گئے۔ سب کو لعن طعن کی۔ گھر تو جل کر خاکستر ہو ...

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

پاکستان میں عظیم ثقافتی انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے۔ اگر ابھی تک آپ اس سے لاعلم ہیں تو افسوس ہی کیا جا سکتا ہے! تاریخ میں اب تک جس عظیم ثقافتی انقلاب کا ذکر کیا جاتا ہے وہ چین میں مائوزے تنگ کی قیادت میں 1966ء میں برپا ہوا تھا۔ پارٹی کے کروڑوں کارکن ’’ریڈ گارڈز‘‘ کے نام سے جتھوں کی شکل میں پورے ملک میں پھیل گئے تھے۔ ملک میں ریلوے ا ور ٹرکوں بسوں کا پورا نظام تہس نہس ہو کر رہ گیا تھا کیونکہ ذرائع آمدورفت سب ریڈ گارڈز کو اطراف و اکناف میں پہنچانے کے لیے وقف کر دیے گئے تھے۔ فیکٹریوں کی پیداوار کم ہو گئی کیونکہ جن انقلابی کمیٹیوں کے سربراہوں اور سیاسی ورکروں نے صنعت کا انتظام سنبھال لیا تھا‘ انہیں صنعت کاری کی الف بے سے بھی واقفیت نہیں تھی۔ دو سال بعد جب ثقافتی انقلاب کا نشہ اترا تو معلوم ہوا کہ صنعتی پیداوار چودہ سے بیس فی صد تک کم ہو چکی ہے۔ چین کے ثقافتی انقلاب کی تفصیل آج کا موضوع نہیں۔ اس کے صرف ایک خاص پہلو کا تذکرہ مقصود ہے۔ ثقافتی انقلاب کے دوران بڑے بڑے سائنس دانوں‘ انجینئروں اور ٹیکنالوجی کے پروفیسروں کو جبراً دورافتادہ دیہاتی علاقوں میں بھیج دیا گیا تاکہ وہ کھیتوں‘ جنگلوں‘...