اشاعتیں
ستمبر, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
کالم
ٹیسٹ کیس
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
عین ان دنوں جب ہر شخص کی زبان پر یہ سوال ہے کہ کیا تبدیلی دھرنوں سے اور دھرنوں جیسے طریقوں سے آئے گی … یا… پارلیمنٹ کے ذریعے آئے گی، عین ان دنوں قدرت نے نشانی دکھلا دی۔ دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہوگیا۔ دھرنوں سے تبدیلی آئے یا نہ آئے ، دوپہر کے دمکتے سورج کی طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ رول آف لا موجودہ پارلیمنٹ کے بس کی بات نہیں۔ جنوبی پنجاب کے ایک شہر میں سلمیٰ نے ، جو بیوہ تھی خود کشی کرلی کیوں کہ بجلی کا بل اس کی استطاعت سے باہر ہوگیا تھا۔ اس ملک میں جہاں پارلیمنٹ آئین اور جمہوریت کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی ہے‘ سلمیٰ کی خبر کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ ہر مہینے ، ہر ہفتے ، ہر روز ، نہ جانے کتنی سلمائیں خودکشی کرلیتی ہیں۔ خودکشی نہ کریں تو انہیں مار دینے کے اور بہت طریقے ہیں ۔ پنچائتیں ہیں، جرگے ہیں، غیرت ہے، گلیوں میں برہنہ پھرائے جانے کا کلچر ہے۔ لیکن اس دفعہ جب سلمیٰ نے خودکشی کی ہے تو ساتھ کچھ اور بھی ہوا ہے۔ حکومت پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے وزیراعظم سے سرکاری گاڑی فراہم کرنے کی استدعا کی۔ قانون کی رو سے اس عہدیدار کا استحقاق اٹھارہ سو سی سی گاڑی کا تھا...
بوٹیاں اور کھمبے
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
نہیں! ہرگز نہیں ! حاجی خان میواتی کو جلال الدین اکبر سے کوئی محبت نہیں تھی۔ نہ ہی اسامہ حمزہ کو عمران خان یا تحریک انصاف سے محبت ہے۔ حب علی اور بغضِ معاویہ والا محاورہ جس نے بھی اردو زبان کو دیا ہے، ابلاغ کے علم پر احسان کیا ہے۔ غداری کی ہیموبقال نے عادل شاہ سوری سے‘ جس نے اسے کمانڈر ان چیف کے ساتھ ساتھ وزیراعظم بھی مقرر کیا تھا۔ ہمایوں کی موت کی خبر ہیمونہ ہضم کرسکا۔ ’’اب میں بادشاہ بنوں گا‘‘ اس نے اعلان کیا۔ اگر وہ کامیاب ہوجاتا تو برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی اس لیے کہ یہ ہندو احیاء ہوتا۔ جس برق رفتاری سے وہ بنگال سے چل کر بہار، مشرقی یوپی اور مدہیہ پردیش کو تاراج کرتا آگرہ پہنچا ہے تو بعد کے مورخوں نے اسے اس مہم سے تشبیہہ دی جو نپولین نے اٹلی میں سرانجام دی۔ کیا سکندر ازبک اور کیا تردی خان جیسے کمانڈر‘ سب بے بس ہوگئے۔ وہ تو بیرم خان ڈٹ گیا کہ نہیں ہم میدان ہیمو کے لیے چھوڑ کر کابل نہیں بھاگیں گے۔ پانی پت کے میدان میں دوسری بار رونق لگی۔ تیرہ سالہ اکبر کو بوڑھے بیرم خان نے میدان جنگ سے آٹھ میل دور رکھا اور ہدایت دی کہ افتاد پڑی تو جان بچانے کے لیے سیدھا کابل جانا ہے۔ کم ہی لوگوں...
کموڈ
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
چلیے مان لیا کہ یہ منصوبہ تھا بلکہ ایک قدم آگے سہی، سازش تھی! لندن میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی ملاقات ہوئی۔ سرگوشیاں کی گئیں، ایک دوسرے کی ہتھیلی پر ہتھیلی زور سے ماری گئی۔ دونوں نے اپنی اپنی آنکھ کا ایک ایک کونہ بھی میچا۔ یہ بھی مان لیا کہ یہ فساد تھا۔ تخریب تھی، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ چند ہزار … بلکہ چند سو سر پھرے افراد جمع ہوکر حاکم وقت کے استعفیٰ کا مطالبہ کریں اور آئین اور جمہوریت کی توہین کریں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میں شامل سب لوگ ادارہ منہاج القرآن کے ملازم ہیں۔ انہیں دھرنے میں بیٹھنے کا معاوضہ ملتا ہے۔ بلکہ کچھ کو تو زرعی زمینیں یعنی مربعے بھی الاٹ کیے گئے ہیں۔ ڈالروں کی بھرمار ہے۔ ساری رات ڈاکٹر طاہرالقادری کنٹینر میں ڈالر گنتے ہیں اور صبح تقسیم کرتے ہیں۔ یہ بھی درست تسلیم کرلیتے ہیں کہ عمران خان کی زبان ناشائستہ ہے۔ وہ ہر پارٹی ہر سیاست دان پر حملہ آور ہورہا ہے۔ اس کے اردگرد جو سیاستدان جمع ہیں وہ خود سٹیٹس کو کی علامت ہیں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مافوق الفطرت غیبی قوتیں دھرنے کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ کچھ سبزپوشوں کو تو رات کے ...
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب!
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
بھارتی شدت پسندوں نے عسکری سرگرمیوں سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا۔ ان کے بقول اب وہ بھارت کے اندر عوامی بہبود کے منصوبوں پر توجہ دیں گے۔ ہاں!یہ اعلان انہوں نے اس کے ساتھ ہی کر دیا ہے کہ پاکستان میں ’’اپنا کردار‘‘ وہ جاری رکھیں گے۔ ایسا ہوا نہیں!لیکن اگر خدانخواستہ ہو‘ تو پاکستان کاردعمل کیا ہو گا؟پاکستان کے عساکر الرٹ ہوجائیں گے ۔پاکستانی عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ جائے گی اور پاکستانی حکومت احتجاج کرے گی! بفرض ِ محال اگر عصمت اللہ معاویہ نے افغانستان میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنا بھی تھا تو اس کا اعلان ببانگ دہل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟پاکستانی ناظم الامور کو کابل نے وزارت خارجہ میں طلب کیا اور احتجاج کیا۔آخر بیچارے ناظم الامور نے اس کی کیا توجیہہ پیش کی ہو گی!غالباً یہی کہ یہ تو نان سٹیٹ ایکٹر ہیں‘ لیکن ردعمل میں اگلا منطقی سوال یہی ہو سکتا ہے کہ حضور!نان سٹیٹ ایکٹر ہیں تو ہیں تو پاکستان کے اندر ہی! آخر انہیں کون کنٹرول کرے گا؟ ان کی کرم نوازی ہے کہ ملک کے اندر عسکری سرگرمیوں کا سلسلہ بند کر رہے ہیں۔تاہم ایک گروہ جو اس قابل ہے کہ دوسرے ملک میں ’’کردار‘‘ ادا کر سکے‘وہ اپنے ملک ...
سائیں! بڑا افسوس ہے!!
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
یہ کراچی ہے۔ صبح کا وقت ہے۔ پی آئی اے کی پرواز پی کے 370سات بجے روانہ ہونی ہے۔ مسافر جہاز میں بیٹھے ہیں۔ سات بج جاتے ہیں۔ روانگی کے آثار کہیں نہیں! اس پرواز کو مسافر اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ نو بجے اسلام آباد پہنچ جاتی ہے۔ لوگ دفتروں‘ سفارت خانوں‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں‘ وزارتوں میں کام نمٹاتے ہیں اور شام کی پرواز سے واپس آ جاتے ہیں۔ سات سے آٹھ بج جاتے ہیں۔ پھر ساڑھے آٹھ پھر نو… عملہ ایک ہی بات بتاتا ہے۔ ’’ٹیکنیکل وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے‘‘ عملہ کے ایک رکن کے منہ سے سچی بات نکل جاتی ہے… ’’ایک وی آئی پی کا انتظار ہو رہا ہے‘‘… دو اڑھائی گھنٹے بعد ایک سینیٹر صاحب اپنا ٹرالی بیگ لڑھکاتے نظر آتے ہیں۔ شان و شوکت سے تشریف لا رہے ہیں۔ یہ پہلے وزیر تھے۔ ولایت کے باسی ہیں۔ اب بھی پیش منظر پر ہیں؛ تاہم شور سن کر‘ صورتحال بھانپ کر ٹرالی بیگ لڑھکاتے واپس چلے جاتے ہیں۔ اس سے چند منٹ پہلے بھی ایک عوامی نمائندہ آیا تھا۔ نشست پر بیٹھ گیا تھا۔ پورے جہاز کے مسافروں نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ وہ بھی دو گھنٹے تاخیر سے آیا تھا۔ ’’میں تو یہیں باہر بیٹھا تھا‘‘۔ اس نے جان بچانے ...
میں ہوں ناں
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
2002ء میں یورپ میں سیلاب آیا تو یورپی یونین کے ملکوں کے نمائندے کوپن ہیگن میں اکٹھے ہوئے۔ ناروے اور سوئٹزرلینڈ یورپی یونین کا حصہ نہیں لیکن انہیں بھی مدعو کیا گیا۔ وہ ممالک جو ابھی رکن نہیں بنے اور محض رکنیت کے امیدوار ہیں، انہیں بھی بلایا گیا۔ ان میں سے ہر ایک ملک نے اپنے ہاں ایک ڈائریکٹرمقرر کررکھا ہے جسے ’’ واٹر ڈائریکٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تمام ڈائریکٹر موجود تھے ۔اس بات پر اتفاق ہوا کہ سیلاب کی پیشین گوئی ، احتیاطی تدابیر اور سیلاب کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ سطح پر منصوبہ بندی کی جائے۔ چنانچہ فرانس اور ہالینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیاگیا۔ اس گروپ نے ایک دستاویز تیار کی جس کا نام ’’ بیسٹ پریکٹس ڈاکومنٹ‘‘ (بہترین عملی دستاویز) رکھا گیا۔2003ء میں ان تمام نمائندوں کا اجلاس یونان میں منعقد ہوا ،جہاں یہ دستاویز پیش کی گئی۔ یہ دستاویز (بیسٹ پریکٹس ڈاکومنٹ) اس وقت دنیا میں سیلاب کے حوالے سے جامع ترین دستاویز ہے۔ اسے زندہ (Living)دستاویز بھی کہا جاتا ہے ،اس لیے کہ اس میں مسلسل ترامیم کی جارہی ہیں۔ یہ تین حصوں پرمشتمل ہے ۔ حصہ اول میں طریق کار اور بنیادی اصول ...
لاٹری
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
یہ قلم کار اور اس کی عفیفہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ عمر کے اس مرحلے میں خوابیدہ قسمت جاگے گی اور وہ سب کچھ ممکن ہوجائے گا جو طلسماتی داستانوں میں پڑھتے آئے ہیں۔ سب سے پہلے تو بیرون ملک صاحبزادے کو لکھا کہ ہمارے لیے شہر کے بہترین حصے میں ایک عمدہ مکان تلاش کیا جائے۔ اب ہمارا اس کے گھر قیام مناسب نہ ہوگا ، بلکہ زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ اور اس کے بیوی بچے اس محل نما رہائش گاہ میں ہمارے ساتھ ہی رہیں‘ جسے تلاش کرنے کا اشارہ کیا ہے۔ ساتھ ہی نئی گاڑی کا آرڈر دے دے اور ڈرائیور کے لیے بھی متعلقہ کمپنی کو ای میل کردے ۔ ڈرائیور سفید فام ہونا چاہیے۔ بدلے ہوئے حالات میں یہ ہرگز مناسب نہ ہوگا کہ کہیں جانا ہو تو صاحبزادے یا بہو کو لانے لے جانے کی زحمت دیتے پھریں۔ اس کے بعد ایک دوست سے جو لندن کے طول و عرض سے یوں واقف ہے جیسے اپنی ہتھیلی سے‘ رابطہ کیا کہ پراپرٹی خریدنے میں مدد کرے اور اس غرض سے سروے شروع کردے۔ جب اس نے ترجیحی علاقوں کا پوچھا تو بتا دیا کہ جن جن علاقوں میں شریف خاندان کی جائیدادیں ہیں، وہاں بہتر ہوگا۔ چنانچہ پارک لین، مے فیئر، نائٹس برج، کین سنگٹن ، ڈیوک سٹریٹ اور دریائے ٹیمز کے ...
نومی
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ واسکٹ کے بٹن سونے کے ہیں یا چاندی کے ، گھڑی اڑھائی کروڑ ڈالر کی ہے یا اڑھائی کروڑ روپے کی ! مرغبانی کی صنعت پر قبضہ مکمل ہے یا ادھورا، محلات فرانس میں ہیں یا برطانیہ میں، فیکٹریاں جدہ میں ہیں یا ویت نام میں، بھائی بلوچستان میں گورنر ہے یا پنجاب میں وزیراعلیٰ، رشتہ دار اسمبلی میں سات ہیں یا کم، عزیزو اقارب کلیدی مناصب پر چوراسی ہیں یا زیادہ! قومی ٹیکس کارڈ بنا ہے یا نہیں ! بینکوں کو قرضے واپس ہوئے ہیں یا نہیں ! بجلی کے واجبات ادا کیے گئے یا واپڈا اہلکاروں کو قتل کی دھمکی ملی، پارٹی کے اجلاس دبئی میں ہورہے ہیں یا کہیں اور، محلات کا کل رقبہ اڑھائی ہزار کنال ہے یا ایکڑ، سارے حکمران وسطی پنجاب سے ہیں یا ایک آدھ باہر سے بھی، سارے متحد ہوگئے ہیں یا پھوٹ پڑنے والی ہے، اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ نومی خبردار ہوگیا ہے۔ نومی کا باپ ڈاکٹر ہے۔ باہرسے ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آیا اور لاہور کی فیشن ایبل پوش آبادی میں کامیاب کلینک چلانے لگا۔ نومی کے باپ نے سیاست میں کبھی دلچسپی نہیں لی۔ اسے معلوم تھا کہ یہ برادریوں کا ، جتھوں کا ، لاٹھیوں کا ، کرائے...
جناب وزیر اعظم!!
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
گلو سسٹر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ۔لندن سے چلیں تو دو اڑھائی گھنٹوں میں پہنچ جاتے ہیں کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے اس قلم کار نے وہاں کے ایک سٹور سے کوٹ خریدا ۔قیمت ادا کی۔کائونٹر پر بیٹھے شخص نے ایک رسید نما کاغذ دیا۔پوچھا یہ کس لیے ہے؟ کہنے لگا تم یہاں نہیں رہتے۔برطانیہ سے رخصت ہوتے وقت ہوائی اڈے پر ٹیکس والوں کا کائونٹر ہے ۔ا س کوٹ کی قیمت میں جتنا ٹیکس شامل ہے‘ وہ جاتے ہوئے تم ان سے واپس لے لینا۔پوچھا ‘ کیوں؟ٹیکس دے دیا تو دے دیا۔کہنے لگا۔’’اس لیے کہ اس ٹیکس سے حکومت شہریوں کو سہولیات فراہم کرتی ہے۔تم یہاں کے رہنے والے نہیں۔ تم ان سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔اس لیے تم سے ٹیکس لینا ازروئے انصاف درست نہیں!ایسے خریداروں کو ان کی روانگی کے وقت ٹیکس واپس کر دیا جاتا ہے۔‘‘ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر ٹیکس کے محکمے کا کائونٹر موجود تھا۔رسید دکھائی انہوں نے دو منٹ کے حساب کتاب کے بعد ٹیکس کی رقم واپس کر دی۔ میں مملکت پاکستان کا شہری ہوں اورباقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتا ہوں۔جب تک ملازمت رہی‘ سال کے بارہ مہینوں میں سے دس ماہ کی تنخواہ ملتی تھی ۔تقریباً دو ماہ کی تنخواہ ہر سال حکومت ٹیکس کی مد میں وا...
مٹی‘ لوہا اور آگ۔
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
مورچے میں کیا ہے؟ مٹی‘ لوہا اور آگ۔ اسی میں ہمارا سپاہی رہتا ہے۔ کڑکتے دھماکے ہیں اور کالی دھول۔ جب بھی یہ کالی دھول پاک سرحد کی طرف بڑھتی ہے‘ ہمارا سپاہی اس کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کالی دھول سے لوہا نکلے یا آگ‘ سینہ ہے کہ تنا رہتا ہے۔ کون سا دشمن ہے جو سرحدوں کی طرف نہیں بڑھا‘ یا اندر سے نہیں اٹھا۔ وزیرستان کے بے برگ و گیاہ بنجر پہاڑ ہیں یا کارگل کی برف پوش آسماں بوس چوٹیاں‘ سب نے ہمارے سپاہی کو للکارا اور منہ کی کھائی۔ کارگل سے یا وزیرستان سے جب کوئی تابوت آتا ہے تو شہادت کا یہ تحفہ صرف شہید کے ماں باپ یا بیوی بچوں کے لیے نہیں ہوتا‘ پوری قوم کے لیے ہوتا ہے۔ ہاں! اگر قوم اس تحفے کی عظمت کو سمجھ سکے! وہ جو کارخانوں پر کارخانے‘ فیکٹریوں پر فیکٹریاں لگا رہے ہیں‘ کرپشن کر رہے ہیں‘ لوٹ مار کر رہے ہیں‘ سفارش‘ رشوت‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کا زہر بکھیر رہے ہیں‘ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سپاہی اپنی جان کا نذرانہ اس لیے نہیں دیتا کہ چند ناعاقبت اندیش اپنے بینک اکائونٹ فربہ کرتے رہیں اور اپنی توندیں واسکٹوں کے گھیر سے باہر لاتے رہیں۔ مجید امجد نے قلم توڑ کر رکھ دیا:...
مشورہ
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کرنے کے بعد میں ستمبر 1989ء میںپاکستان واپس آ گیا۔ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں اپنے ملک میںکام کروں۔ جن ڈاکٹروں کے ساتھ میرا مقابلہ تھا، انہیں ایک سیاسی جماعت کی تائید حاصل تھی۔ ایک کا پبلک سروس کمیشن سے بھی رابطہ تھا۔ 1989ء سے لے کر 1994ء تک کوشش کرتا رہا۔ کرتا رہا۔ کرتا رہا۔ لیکن ملازمت نہ ملی۔ نیفرآلوجی میں، اس صوبے میں میں پہلا ڈاکٹر تھا جو اس وقت ٹرانسپلانٹ یعنی پیوند کاری کی تربیت رکھتا تھا۔ تھک ہار کر برطانیہ واپس آ گیا۔ ان کافروں نے مجھے فوراً ملازمت دے دی۔ اب میں اس ’’دارالکفر‘‘ ہی میں ریٹائرمنٹ کے قریب ہوں۔ کیا پارلیمنٹ میں تقریریں کرنے والے بڑے لوگ بتائیں گے کہ میرٹ کو کیوں قتل کیا جا رہا ہے؟ اگر ہم نے پارلیمنٹ کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جو ایرانیوں نے کیا تھا تو یہ لوگ بار بار ایوان میں واپس آتے رہیں گے۔ اور میری طرح کے غریبوں کو مسافر بنا کر بیرون ملک دھکیلتے رہیں گے۔ آج میرے پاس ہر وہ چیز ہے جس کی ایک کامیاب انسان خواہش کرسکتا ہے۔ ایک ایک پائونڈ حلال کا ہے۔ ڈر خوف کوئی نہیں۔ پانچ منٹ کی ڈرائیوپر مسجد ہے۔ سکول کالج بہترین ہیں۔ لی...
6x3
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
بھوک مٹانے کے لیے کیا ضروری ہے؟ سادہ خوراک جو آدمی اور اس کے اہل و عیال کو زندہ رکھ سکے‘ توانائی دے اور معدے پر بوجھ نہ بنے۔ بس یہ ہے جو ضروری ہے۔ لیکن افسوس ! بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔ پہلے تو انسان نے وہ سب کچھ اکٹھا کرکے اپنے دستر خوان پر ڈھیر کرلیا جو زندہ رہنے کے لیے ضروری تھا نہ توانائی دینے کے لیے۔ سالنوں، پلائو، بریانیوں اور کبابوں کی لاتعداد اقسام۔ نہاری، پراٹھا، باقر خوانی، قتلمہ، حلیم ، کوفتہ ۔ گوشت کے لیے کبوتر، تیتر ، مرغابی ، ٹرکی، ہرن، خرگوش۔ مشروبات کے انتظام کے لیے آبدار رکھے گئے۔ میوہ جات دنیا بھر سے منگوائے جانے لگے۔ بیڈ ٹی کے لیے الگ ملازم رکھے گئے۔ باورچی خانے کا خرچ سماجی مرتبے کو متعین کرنے لگا۔ یہ کہا جانے لگا کہ فلاں کے کچن کا خرچ اتنے لاکھ روزانہ ہے۔ پھر دستر خوان پر رکھی جانے والی خوراک کی مقدار اتنی بڑھا لی گئی جو کئی انسانوں اور کئی خاندانوں کو زندہ رکھ سکتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے لوگ بھوکے رہنے لگے۔ پھر ذخیرہ کرنا شروع کردیاگیا۔ کل کے لیے ، اگلے ہفتے کے لیے ، اگلے سال کے لیے ، پھر پوری زندگی کے لیے اور پھر آنے والی کئی نسلوں کے لیے۔ پھر بات ا...
غلام اور مشعلیں
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
روم کی سیر ڈاکٹر رحیم رضا کرارہے تھے۔ رحیم رضا‘ مشرقی زبانوں کی یونیورسٹی میں‘ جو نیپلز میں ہے‘ فارسی کے شعبے کے سربراہ تھے۔کلکتہ سے تعلق رکھنے والے رحیم رضا نے تہران سے فارسی میں ڈاکٹریٹ کیا۔ روانی سے فارسی بولنے والی اطالوی خاتون سے شادی کی اورروم میں آباد ہوگئے۔ویٹیکن سے لے کر ہسپانوی سیڑھیوں تک۔ بہت سے مقامات دکھانے کے بعد ڈاکٹر رحیم رضا ایک ریستوران میں لے گئے ’’ یہاں ہم کافی پیئں گے لیکن یہ کوئی عام ریستوران نہیں ہے۔ یہ ریستوران سیاسی گپ شپ اور بحث کے لیے مشہور ہے۔ خاص کر انتخابات کے ایام میں یہاں بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ خاص بتانے کی بات یہ ہے کہ لوگوں سے بھرے اس ریستوران میں جب سیاست پر گفتگوعروج پر ہوتی ہے۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے زیادہ آواز نہیں سنائی دیتی۔ اونچی آواز سے کوئی نہیںبولتا۔ چیخنے ، گلے کی رگیں سرخ کرنے‘ آستینیں چڑھانے اور ناراض ہونے کا تصور ہی کوئی نہیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے حلیف کئی کئی گھنٹے بحث کرنے کے بعد بھی ایک دوسرے سے مسکرا کر بات کرتے ہوئے باہر نکلتے ہیں۔‘‘ جس قوت برداشت کی تفصیل ڈاکٹررحیم رضا نے روم کے ریستوران میں کھڑے ہوکر بتائی، وہ قوت برداشت ...
اُٹھو‘ خدا کے لیے اُٹھو
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
یہ لندن کا ایک ہسپتال تھا جس کے لیے ڈاکٹروں کے انٹرویو لیے جا رہے تھے۔ پاکستانی امیدوار نے پاکستان میں اپنے باپ کو ٹیلی فون کیا۔ ’’تیس اسامیاں ہیں اور سات سو امیدوار۔ کوئی امکان ہی نہیں کہ میں کامیاب ہو جائوں۔ یہ سات سو امیدوار دنیا بھر سے آئے ہوئے ہیں‘ انہوں نے شہرۂ آفاق اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ سینکڑوں سفید فام ہیں۔ انٹرویو دینا ایک لاحاصل عمل لگ رہا ہے‘‘۔ ادھیڑ عمر باپ‘ جسے برطانیہ کے نظامِ صحت‘ ہسپتالوں کے معاملات‘ ڈاکٹروں کی باہمی مسابقت‘ کسی شے کے بارے میں درست اندازہ تو نہ تھا‘ پھر بھی مسکرایا اور دلجمعی سے اس نے بیٹے کو فون پر جواب دیا… ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ایک امر بہرطور یقینی ہے۔ انٹرویو لینے والوں اور فیصلہ کرنے والوں کی میزوں کی درازوں میں ایسی فہرستیں ہرگز نہیں پڑی ہوئیں جو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری‘ وزیروں‘ گورنروں‘ وزرائے اعلیٰ‘ سپیکر اور قائد حزب اختلاف نے بھیجی ہوں۔ وزیراعظم کیا‘ ملکہ میں بھی اتنی جرأت نہیں کہ فیصلہ کرنے والے ڈاکٹروں کو کسی امیدوار کے لیے سفارش کر سکے۔ آرام اور سکون سے انٹرویو دو‘‘… ایک دن اور ایک رات اس ٹیلی فونک گفت...
عجائب گھر
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
یہ واشنگٹن کا ایک سکول ہے۔ اس میں سفید فام بچے بھی پڑھتے ہیں۔ افریقی نسل کے بھی‘ زرد جاپانی اور چینی نژاد بھی۔ انہیں یورپ کی تاریخ پڑھائی جا رہی ہے۔ بارہویں تیرہویں صدی کے یورپ کی تاریخ۔ یہ بڑی بڑی زمینداریوں کا زمانہ تھا۔ ہر زمیندار کی اپنی فوج تھی۔ اپنی پولیس‘ اپنی رعایا۔ بادشاہ کو ضرورت پڑتی تھی تو سارے زمینداروں کی فوج اکٹھی کر لی جاتی تھی۔ زمینداروں کی رعایا عجیب و غریب حالت میں رہتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے کچے گھر‘ شدید سردی اور برفباری میں کوئلوں کی انگیٹھی بھی میسر نہیں آتی تھی۔ چند ابلے ہوئے آلو اور بدترین کوالٹی کی روٹی۔ گھروں میں چراغ اتنی ہی دیر جلتے تھے کہ ضروری کام کر لیے جائیں۔ صبح سے شام تک کھیتوں میں کام یا کھڈیوں پر کپڑا بننے اور چاک پر برتن بنانے کا کام۔ آمدنی کا زیادہ حصہ زمینداروں کے منشی لے جاتے تھے۔ زمینداروں کی دنیا اپنی تھی۔ محلات تھے‘ آٹھ آٹھ گھوڑوں کی بگھیاں تھیں‘ بیسیوں ملازم ایک ایک فرد کے لیے تھے‘ پہاڑوں سے گرتے صاف شفاف چشموں کا پانی اس طبقے کے لیے مخصوص تھا جب کہ عام لوگ جوہڑوں‘ تالابوں اور نالوں سے پانی پیتے تھے۔ طبیب اتنے مہنگے تھے کہ ...