اشاعتیں

دسمبر, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

شام پئی بن شام محمد

اب ہم دوسری بات کی طرف آتے ہیں اور ثبوت اور حوالے کے ساتھ آتے ہیں۔ یہ کہنا خلافِ واقعہ ہے کہ علامہ اسد کو ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن سے قائد اعظم کی رحلت کے بعد ظفر اللہ خان نے نکالا یا نکلوایا۔ نہ ہی یہ سازش تھی ۔قادیانی وزیرِ خارجہ کی ہمّت اور طاقت ہی نہ تھی کہ علامہ اسد کو وہاں سے نکال باہر کرتا۔ یہ تبادلہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کیا اور قائد اعظم کی وفات سے سات یا آٹھ ماہ قبل جنوری 1948ء میں کیا۔ اس لیے کہ لیاقت علی خان وزارتِ خارجہ میں علامہ اسد سے وہ کام لینا چاہتے تھے جو اور کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ علامہ اسد حکومتِ پنجاب کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن میں کام کر رہے تھے کہ جنوری 1948ء میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے انہیں کراچی بلایا۔ یہ واقعہ وہ اپنی خودنوشت ’’Home Coming of the Heart‘‘میں بتاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے انہیں کہا’’آپ پاکستان کے اُن معدود ے چند لوگوں میں سے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ کو عربی اور فارسی پر کامل دسترس حاصل ہے۔ ہمیں وزارتِ خارجہ میں آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے۔‘‘ لیاقت علی خان نے ...

نفسیاتی عارضہ

                                                     یہ ستر کی دہائی کا آغاز تھا۔ کراچی دنیا کے بہترین شہروں میں سرفہرست تھا۔ امن و امان اس قدر تھا کہ رات کے ایک بجے لوگ پیدل چل کر جیکب لائنز‘ بندوخان کی دکان پر کباب اور پراٹھے کھانے آتے تھے۔ صدر‘ ریگل سے لے کر ایک طرف ایمپریس مارکیٹ تک اور دوسری طرف فریئر ہال تک ایسا علاقہ تھا کہ دامنِ دل کھینچتا تھا۔ دنیا کی کون سی چیز تھی جو اس علاقے میں نہ تھی۔ مسجدیں بھی تھیں‘ چرچ بھی تھے۔ آتش پرستوں (پارسیوں) کا معبد بھی تھا۔ کسی کو کسی سے خطرہ تھا نہ دشمنی نہ غرض۔ وہ جو کہتے ہیں کہ   ؎  بہشت آنجاست کازاری نباشد  کسی را با کسی کاری نباشد  بہشت وہ ہوتا ہے جہاں کسی قسم کا آزار نہ ہو‘ اور کسی کو کسی سے غرض ہو نہ احتیاج۔ تو یہی صورت حال تھی۔ پارسی اور مسیحی خواتین سکرٹ پہنتی تھیں جو عام نظر آتا تھا۔ آج کل جس طرح یو اے ای اور ترکی میں مسجدیں اور کلب دونوں آباد ہیں‘ کراچی میں بھی تب ایسا ہی...

کم از کم چار اقدامات

یہ دنیا کا سب سے زیادہ طاقت ور اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم بھی ہے۔ راولپنڈی کو سِیل کر دیا گیا ہے۔ دس ہزار فوجیوں کو تیار رہنے کا حکم مل چکا ہے۔ تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ بائیس شہروں میں ڈبل سواری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے 58شہروں میں موبائل سروس بند کر دی گئی ہے۔ کوئٹہ میں سکیورٹی اداروں کے پانچ ہزار مسلح اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ تمام داخلی راستوں پر پولیس کی نفری کھڑی ہے۔ باہر سے آنے والی ہر گاڑی کی چیکنگ ہو رہی ہے۔ یہ مملکتِ خداداد ہے۔ یہ دنیا میں اسلام کا سب سے بڑا قلعہ ہے۔ تادمِ تحریر یہ اسلام کا واحد قلعہ ہے کیونکہ کسی اور ملک نے اپنے آپ کو ابھی تک یہ خطاب دینے کی جرأت نہیں کی۔ گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ شہر کے مختلف حصوں سے علماء اور دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا۔ آرمی کی بارہ کمپنیاں اور رینجر اور پولیس کے ریزرو دستے پہنچ چکے ہیں۔ تمام ہسپتالوں میں عملے کو الرٹ رہنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ سٹی پولیس افسر پوری رات دفتر میں موجود رہے۔ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مسلسل فضائی نگرانی کی جا رہی ہے۔یہ عظیم اسلامی...

مجھ سے لینے لگے ہیں عبرت لوگ

یہ اٹھارہ دسمبر کی شام تھی، پانچ بجے کا وقت تھا، شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں خودکش حملہ آور نے کھجوری چیک پوسٹ سے بارود سے بھرا ٹرک ٹکرادیا۔ سکیورٹی اہلکار مغرب کی نماز ادا کررہے تھے، نماز پڑھتے ہوئے پانچ اہلکار شہید ہوگئے اور 43 زخمی ہوئے، ان زخمیوں میں اکثریت کا تعلق پاک فوج سے تھا اور باقی ایف سی سے تھے۔ تعجب ہے کہ عمران خان کو ان پاکستانیوں کی شہادت کے بارے میں آج تک اطلاع نہیں ملی ورنہ موصوف ضرور اظہار افسوس کرتے۔ عمران خان کی سیاسی ’’ سرگرمیوں‘‘ کو دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ جس جماعت کو مرکز اور صوبوں میں اچھی بھلی انتخابی نمائندگی حاصل ہے ، اس کے طور اطوار ان جماعتوں کی طرح ہیں جو پارلیمنٹ سے باہر ہوتی ہیں اور اپنے آپ کو اِن رکھنے کے لیے یہ سارے جتن کرتی ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت اس چوں چوں کے مربے پر ہے جو عمران خان نے اپنی دکان پر بیچنے کے لیے سجارکھا ہے۔ تاریکی پسند قوتیں اس کے آگے پیچھے، دائیں بائیں ہیں۔ ایک صاحب جو مجسم غیظ و غضب ہیں، جن کی نخوت کی حکایتیں پاکستان سے شکاگو تک عام ہیں، جو بات کرتے وقت لاٹھی مارتے ہیں، عمران خان سے گزارش ہے کہ کسی وقت ان س...

کیا ہمارے ڈاکٹر……؟

الطاف سے قرابت تھی۔ ہم گائوں میں پڑوسی تھے اور ہمجولی بھی۔ جولائی کی چلچلاتی دوپہروں میں کبوتروں کے بچے ڈھونڈنے دور چلے جاتے اور گھر والوں سے پٹتے۔ اس نے گیس اور تیل کے نیم خود مختار ادارے میں ملازمت کرلی اور دور افتادہ مقامات پر رہا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد فتح جنگ میں گھر بنالیا۔ غالباً دس سال پہلے کی بات ہے جب اسے دل کے عارضے نے آگھیرا۔ اس کا محکمہ ریٹائرڈ ملازمین کے حق میں فیاض ہے۔ راولپنڈی کے ایک بڑے نام اور وقار والے ہسپتال میں داخل ہوا۔محکمے نے ساڑھے پانچ لاکھ روپے ادا کیے اور اس کا بائی پاس آپریشن ہوا۔ آپریشن کے بعد ہفتہ اور پھر کئی ہفتے گزرگئے۔ یہی بتایا جاتا رہا کہ بحالی ہورہی ہے۔کچھ وقت لگے گا اور یہ کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔جب بھی خبرگیری کے لیے ہسپتال جانا ہوا، اس کا بیٹا ظفر برآمدے میں اس بڑے کمرے کے سامنے کھڑا ہوتا جس میں بحالی والے مریض رکھے جاتے تھے اور لواحقین کے لیے اندر جانا منع تھا۔جب تین چار ہفتے مزید گزر گئے تو ایک دن ہسپتال کے عملے سے ’’ مل ملاکر‘‘ یہ نویسندہ اندرگیا۔ الطاف کو دیکھ کر جھٹکا لگا۔ سخت جھٹکا۔ اس کا پیٹ بہت زیادہ سوج چکاتھا۔ آنکھیں دونوں کھلی تھیں ...

مگر اک بات‘ جو دل میں تھی ، جس کا غم بہت ہے

’’دس دیسی مرغیاں قریے سے منگوائی ہیں‘‘ایک دوست عزیز نے کل اطلاع دی ہے !   ؎ میں اتھے تے ڈھولا تَھل اے مَینڈی اللہ خدائی آلی گل اے اب کیا کہا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ نوشِ جان فرمائیے اور انتساب فقیر کے نام کر دیجیے۔ یہاں انتساب نہیں‘مناسب لفظ’’ایصالِ ثواب‘‘ ہے لیکن اس لیے احتراز کیا کہ اس میں فقہی اختلافات ہیں۔ فتویٰ لگنے کا احتمال ہے ۔ کیا زمانہ تھا کہ تکفیرمیں بھی رکھ رکھائو تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا تھا کہ فلاں دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اب تو ’’کافر‘‘کا لفظ اتنا ارزاں ہو گیا ہے جیسے پاکستانیوں کا خون!سو یہ سوال اُٹھ سکتا تھا کہ یہاں مُردوں کو ایصالِ ثواب کرنے پر جھگڑے ہیں‘یہ زندہ آدمی ایصالِ ثواب چاہتا ہے! دیسی مرغی کے عُشاق دو انواع کے ہیں۔ ایک وہ جو اِس فقیر کی طرح دیہاتی پس منظر کے ہیں اور فارمی مُرغی کو قبول کرنے سے قاصر۔ گائوں میں پلا بڑھا شخص تین چیزوں سے ڈرتا ہے‘ فارمی مرغی سے‘ چائے میں ڈالنے کے لیے پائوڈر والے دُودھ سے اور بازار سے لائے ہوئے تھیلے والے آٹے سے۔ دوسرے وہ بدبخت جنہیں اس حقیقت کا علم ہے کہ وطن عزیز میں فارمی مرغیوں کو مہیا کی جانے والی خوراک (فیڈ...

بھارت میں ہمت تھی نہ ہے

مشرقی پاکستان میں 1971ء کے آرمی ایکشن کو سوات کے حالیہ آرمی ایکشن سے تشبیہ دینا محض کٹ جحتی ہے!کیا سوات میں الیکشن ہوئے تھے؟کیا سوات میں اسمبلی کا اجلاس اٹنڈ کرنے والوں کو ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دی گئی تھی؟ اللہ کے بندو! سوات میں سو فیصد نہیں تو پچانوے فیصد اکثریت طالبان سے خوف زدہ اور تنگ تھی۔ اس عظیم اکثریت کو مٹھی بھر طالبان کے ظلم و ستم اور قتل وغارت سے بچانے کے لیے فوج میدان میں اتری تھی اور سیاسی حکومت کے حکم سے اتری تھی۔پورے ملک نے اس آرمی ایکشن کی حمایت کی ،سوائے ان تاریکی پسند قوتوں کے جو سواداعظم کے خلاف ہیں۔ اس کے برعکس مشرقی پاکستان کا آرمی ایکشن اکثریت کے خلاف تھا۔ جو الیکشن خود حکومت پاکستان نے منعقد کرایا،اس کا نتیجہ کچھ لوگوں کو نہ بھایا۔ پہلے عوام  کا بنیادی حق غصب کیاگیا پھر ان پر چڑھائی کردی گئی! جوبزر جمہر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سہرا بھارت کے سر باندھ رہے ہیں، وہ حقائق کو بھی جھٹلارہے ہیں اور قومی حمیت کا بھی جنازہ نکال رہے ہیں۔ وہ بھارت کی انا کو گنے کا رس پلارہے ہیں۔ جو بھارت قیام پاکستان کو نہ روک سکا ، وہ پاکستان کو دولخت کیسے کرسکتا تھا؟ اگر ہم ...

سقوطِ ڈھاکہ

                                          ڈھلتی شام تھی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری میں‘ جو چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی‘ ہم سب بیٹھے تھے۔ اندر تیز چلتے پنکھوں کی آواز تھی۔ باہر ہوا کا شور تھا۔ املی اور لیچی کے درختوں کے پتوں کے عکس کھڑکیوں کے شیشوں پر پڑ رہے تھے۔ طالب علم کتابوں میں غرق تھے۔ کوئی پڑھ رہا تھا‘ کوئی لکھ رہا تھا۔ کچھ باتیں کر رہے تھے مگر زیرِ لب۔ میں اور میرے مشرقی پاکستانی دوست نے کتابیں اور کاغذ وہیں میزوں پر رکھے اور کینٹین کی طرف چل دیے۔ مادھو کی کینٹین! جو 1921ء سے ڈھاکہ یونیورسٹی کی ثقافتی‘ علمی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے اور جس کی دردناک کہانی الگ مضمون مانگتی ہے۔ ہم نے چائے منگوائی اور ساتھ دو سموسے اور دو رَس گُلے۔ میرے دوست کا ایک ہی سوال تھا اور غیر مبہم‘ واضح سوال تھا۔  ’’اظہار! مجھے بس اتنا بتا دو‘ گیارہ سال ایوب خان کی آمریت رہی۔ اب ایک اور فوجی ڈکٹیٹر آ گیا ہے۔ جرنیل پنجابی ہیں یا پٹھان۔ جن علاقوں میں انگریزوں کا مقابلہ کیا گیا‘ بنگال‘ یوپی...

ہیرو

لشکری آمریت کے طویل عرصے میں جسٹس افتخار چودھری وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تن تنہا ایک آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ’’نہیں‘‘ کہا اور پھر ڈٹ گئے۔ جس روز وہ آرمی ہائوس راولپنڈی میں عملی طور پر کئی گھنٹے محبوس رہے‘ ان کی پشت پر کوئی سیاسی جماعت تھی نہ کوئی اور قوت۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ جو چنگاری وہ جلا رہے ہیں‘ بجھ جائے گی یا اس سے ملک بھر میں آگ لگ جائے گی۔  اس ملک کی تاریخ میں روایت یہ تھی کہ ہر فوجی آمر کو آمنّا و صدّقنا کہا جاتا تھا۔ کیا سیاست دان‘ کیا جج‘ کیا بیوروکریٹ اور کیا سول سوسائٹی‘ کوئی امیر المؤمنین بننے کی تجویز دیتا رہا ہے اور کوئی عشرۂ ترقی منانے کے پروگرام بناتا رہا ہے۔ ضیاء الحق کا طویل دور تو سیاسی کراہت سے بھرپور تھا۔ پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ تک‘ سب سجدہ کناں تھے۔ آج کے بڑے بڑے نام دریافت ہی ضیاء الحق نے اس پس منظر میں کیے تھے۔ دیکھا جائے تو خم ٹھونک کر کھڑا ہونے کی ریت افتخار چودھری ہی نے ڈالی   ؎  ادب کا قافلہ تھا سست گام اے سیماب  رواجِ گرم روی میرے کارواں سے چلا  قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پہلے شخص تھے جو عوام...

حرافہ

وہ سامنے سٹیج پر دیکھیے‘ زرق برق چھت کے نیچے‘ غباروں اور رنگین جھنڈیوں کے درمیان ایک عورت رقص کر رہی ہے۔ لباس ایسا ہے کہ پہن کر بھی نیم برہنہ ہے۔ بالوں کی آرائش اس انداز میں کی گئی ہے کہ عمر کم لگے۔ اونچی ایڑی کے اوپر ٹانگیں ننگی ہیں اور فربہ ہیں۔ چہرے کو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پینسٹھ برس سے کم کیا ہوگی۔ غازے کی دبیز تہہ جھریوں کو چھپانے میں بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوئی۔ اس فحاش حرافہ کا وحشیانہ ڈانس دیکھنے کے لیے جو تماشائی دادِ عیش دے رہے ہیں وہ ایک خاص قماش کے لگ رہے ہیں۔ چُپڑے ہوئے سر‘ بڑی بڑی مونچھیں‘ انگلیوں میں انگوٹھیاں‘ کلف سے کھڑکھڑاتے خالص کاٹن کے لباس‘ ایک ہاتھ میں قیمتی موبائل‘ دوسرے میں دساور کے سگرٹ کی ڈبیا‘ کچھ کلین شیوڈ‘ بظاہر تعلیم یافتہ بھی ہیں۔  فحاش حرافہ کے جسم کی ہر تھرک پر سیٹیاں بج رہی ہیں۔ وہ جب کولہے مٹکا کر سرینوں کو جنبش دیتی ہے تو گلاسوں سے مشروب ہوا میں اچھالے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر گرائے جاتے ہیں۔ حرافہ سٹیج سے اترتی ہے۔ رقص کناں‘ کرسیوں کے درمیان قطاروں میں آتی ہے۔ کوئی اُسے چھوتا ہے۔ کوئی ٹٹولتا ہے۔ کسی کے کاندھے پر وہ سر ٹیکتی ...

تیمور

کنارِ بحرالکاہل کے اس شہر میں جس کی کل عمر ایک سو اٹھتر سال سے زیادہ نہیں ، گرما کا موسم ہے، لیکن ایسا گرما ، ایسا تابستان شاید ہی کہیں ہو۔ سرما کا آغاز ہوا تو غالب نے کیا دل نشین شعر کہا    ؎ عید اضحی سرِ آغازِ زمستان آمد وقتِ آراستنِ حجرہ و ایوان آمد جاڑوں کے شروع میں عیدالاضحی آئی تو کیا جھونپڑے کیا محلات، سجاوٹ کا وقت آگیا۔  لیکن افسوس! غالب نے تابستان پر کوئی شعر نہیں کہا۔ تجربہ تو نہیں لیکن شاید وجہ یہ ہو کہ ’’ ش‘‘ سے شروع ہونے والی چیزیں تابستان میں کم اور زمستاں میں زیادہ خوش آتی ہیں۔ بہرطور یہ غالب ہی کو معلوم ہوگا یاانہیں جو بنتِ عنب سے ہم آغوش ہوتے ہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا    ؎ شام    آئی    ہے   شراب تیز  پینا   چاہیے ہوچکی ہے دیر اب زخموں کو سینا چاہیے بحرالکاہل کے کنارے اس شہر میں تابستان ہے اور کیا ہی دلکش تابستان ہے! ایک دن درجہ حرارت تیس تو اس کے بعد تین دن سولہ یا بیس اور کبھی تو سولہ سے بھی نیچے! وہ جو ظفر اقبال نے کہا ہے    ؎ کیا کیا کھلے ہیں پھول اس اندر کی دھوپ میں آ دیکھ مل...

آہ! نیلسن منڈیلا!

آہ! نیلسن منڈیلا! ایک ناکام سیاست دان‘ ایک ناکام پارٹی ہیڈ‘ ایک ناکام صدر!   یہاں تک کہ بطور قیدی بھی ناکام!  آپ بطور سیاستدان اس کی ناکامی دیکھ لیجیے‘سفید فام اقلیت کے خلاف تحریک چلائی تو حالات کے مطابق زمینی حقائق کو خاطر میں نہ لایا۔ کامیابی تو یہ ہوتی کہ وہ رات کے اندھیرے میں سفید فام حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملتا اور انہیں یقین دلاتا کہ میری قیمت ادا کر دیجیے اور جو خدمت چاہتے ہیں لے لیجیے۔ اُس کے بعد اپنی پارٹی کو اور اپنے پیروکاروں کو ایسا ناچ نچواتا کہ نسلی امتیاز تو کیا ختم ہوتا‘ اُسے ذاتی امتیاز ضرور حاصل ہو جاتا۔ پھر اس کا ڈیرہ ہوتا اور علاقے بھر کے جرائم پیشہ افراد! کوئی اس کا بال بیکا نہ کر سکتا۔ ’’آئین کے تناظر‘‘ کے حوالے سے ایسے ایسے نکات لاتا کہ سفید فام حکومت ایک نہیں کئی کمیٹیوں کی صدارت جھولی میں ڈال دیتی۔  یہ درست ہے کہ وہ جاگیردار تھا نہ صنعت کار لیکن آخر اور ماڈل بھی تو موجود ہیں۔ ایل پی جی کے لائسنس اپنے یا اپنی بیگم کے نام لیتا اور کروڑ پتی بن جاتا۔ بیٹی کو سفارت خانے میں اعلیٰ افسر لگوا لیتا۔ بھتیجے اور بھانجے کو تحصیل دار بنوا دیتا...

باقی عمر اضافی ہے

ڈیئر اظہار! آج محبوب صدیقی کراچی میں چل بسے۔ اس دور میں جو میڈیا کے بنائے ہوئے شاعروں کا دور ہے‘ وہ آخری شاعر تھے جو شاعری میں زندگی کرتے تھے۔ اُس شاعری میں جسے وہ لکھتے تھے اور محسوس کرتے تھے۔  (جاوید علی خان)  یہ ای میل رات گئے موصول ہوئی‘ تب سے سوچ رہا ہوں‘ آج کتنے لوگ محبوب خزاں کو جانتے ہیں! ہر جینوئن شاعر تو ان سے متعارف ہے لیکن کیا اردو شاعری میں دلچسپی لینے والے تمام لوگوں نے ان کے بارے میں سنا ہے یا انہیں پڑھا ہے؟ ہرگز نہیں! اس کی ذمہ داری اُس میڈیا پر تو ہے ہی‘ جو نا شاعروں کو شاعر بناتا ہے لیکن خود محبوب خزاں پر بھی تھی اس لیے کہ وہ ساری زندگی تشہیر تو دور کی بات ہے تعارف سے بھی گریزاں رہے۔ اب یاد نہیں‘ یہ شعری بیٹھک فاطمہ حسن کے گھر کراچی میں ہو رہی تھی یا قمر جمیل کے ہاں‘ ہم دو تین دوستوں نے محبوب خزاں کو ان کے گھر سے لیا ۔ راستے میں سختی سے تاکید کی کہ قمر جمیل کے سامنے ان کے‘ یعنی محبوب خزاں کے شعری مجموعے کی اشاعت کا ذکر بالکل نہ کیا جائے کہ قمر جمیل پیچھے پڑ جاتے ہیں!  ایک ہی مجموعۂ کلام شائع کیا۔ اتنا وقیع کہ اردو شاعری میں بلند مقام حاصل ہوا۔ غال...

تبدیلی؟ کون سی تبدیلی؟

حضرت شیخ ابو سعید ابوالخیر ؒ سے پہلا تعارف اُس وقت ہوا جب سِن ابھی کچا تھا ۔ خاندانی کتب خانے کو چاٹنا شروع کیا تو ابھی فارسی پر دسترس حاصل نہیں ہوئی تھی۔ لیکن دہلی کی چھپی ہوئی ’’رباعیات ابو سعید ابوالخیر ‘‘ ساری پڑھ ڈالی۔ جو رباعیات سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں ان میں بھی غنائیت ‘ قافیہ آرائی‘ سلاست اور زبان کی لذت کمال کی تھی۔ یہ بھی کتاب سے معلوم ہوا کہ والد گرامی جو رباعی درد اور گداز کے ساتھ مترنم آواز میں پڑھتے تھے وہ حضرت شیخ ہی کی تھی۔ تصوّف کے پورے ادب میں اس رباعی کا جواب ہے نہ نظیر۔ باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ گر کافر و گبر وبت پرستی باز آ این درگہِ ما درگہِ نومیدی نیست صد بار اگر توبہ شکستی باز آ واپس آ جا۔ واپس آ جا۔ جو کچھ بھی تُو ہے‘ واپس آ جا‘ کافر ہے یا آتش پرست یا بت پرست‘ واپس آ جا یہ ہمارا دروازہ ناامیدی کا دروازہ نہیں۔ اگر ایک سو بار بھی توبہ توڑ چکا ہے تو واپس آ جا! افغان مہاجر آئے تو کم از کم ایک فائدہ یہ ہوا کہ فارسی کی کتابیں ملنے لگیں۔ پشاور یونیورسٹی کے قریب ایک چھوٹی سی بغلی گلی میں ’’ کتاب فروشیٔ خاور‘‘ نامی دکان میں شاعری کا ذخیرہ تھا...