اشاعتیں
اکتوبر, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
کالم
انتقام
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
آکسفورڈ یونیورسٹی کب شروع ہوئی؟ تاریخ کا تعین آج تک نہیں ہوا لیکن اتنا معلوم ہے کہ 1096ءمیں یہاں تدریس ہو رہی تھی۔ 2010ءمیں یونیورسٹیوں کی ریٹنگ میں آکسفورڈ یونیورسٹی یورپ میں دوسرے نمبر پر رہی۔ ایک سال بعد یعنی 2011ءمیں اس کا نمبر پوری دنیا میں چوتھا آیا۔ یونیورسٹی 38 کالجوں پر مشتمل ہے۔ ہر کالج بذات خود ایک مکمل ادارہ ہے جس کی روایات سینکڑوں سال سے چلی آ رہی ہیں۔ یونیورسٹی میں ایک سو دو لائبریریاں ہیں۔ مرکزی لائبریری میں ایک کروڑ دس لاکھ کتابیں ہیں اور اگر الماریوں کی تمام شلفیں جمع کی جائیں تو ایک سو بیس میل لمبائی بنتی ہے۔ یونیورسٹی کا عجائب گھر 1683ءمیں وجود میں آیا اور دنیا کا قدیم ترین یونیورسٹی عجائب گھر ہے۔ برطانیہ کے 26 وزرائے اعظم آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ تیس عالمی رہنما اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان کے پانچ وزیراعظم (لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو) یہیں کے پڑھے ہوئے تھے۔ صف اول کے کئی شاعر اور ادیب آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے۔ آسکر وائلڈ، آلٹرس ہکسلے، وکرم سیٹھ، شیلے، ڈبلیو ایچ آڈن، ٹی ایس ایلیٹ، آدم سم...
تذلیل
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ہ پرسوں کا واقعہ ہے۔ 19اکتوبر کی شام تھی۔ میں پونے آٹھ بجے اسلام آباد کلب سے نکلا۔ کلب کے صدردروازے سے نکلتے ہی گاڑی بائیں طرف موڑ لی۔ چند گز کے فاصلے کے بعد دائیں طرف کنونشن سنٹر کی جانب مڑنا تھا۔ جیسے ہی موڑ پر پہنچا سامنے بڑی بڑی فولادی، خاردار تاروں والی رکاوٹیں نظر آئیں۔ رکاوٹوں کے پاس ایک پولیس والا سینہ تان کر کھڑا تھا۔ ٹریفک رک گئی۔ چند منٹ میں چاروں سڑکوں پر ان گنت گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں کھڑی ہو گئیں۔ شاید بلکہ یقینا کسی وی وی آئی پی نے گزرنا تھا؛ تاہم دور دور تک کسی سرکاری قافلے کا تاحال کوئی نشان نہ تھا۔ دو تین بار کچھ من چلوں کی گاڑیوں نے پیں پیں کی آوازیں نکالیں اور پھر ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ میں نے گاڑی کا انجن بند کر دیا اور سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر، راضی برضا ہوکر جسم کے تنے ہوئے پٹھے ڈھیلے چھوڑ دیے۔ اب مجھے یاد نہیں کہ میں کتنی دیر آنکھیں بند کرکے، ٹیک لگا کر بیٹھا رہا۔ ٹک ٹک کی آواز آئی تو پہلے تو میں نے کوئی توجہ نہ دی۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ آواز کسی اور گاڑی سے آ رہی ہے۔ لیکن جب آواز تسلسل کے ساتھ آنے لگی تو میں نے آنکھ کھول کر دیکھا۔ ایک عجیب سا ہاتھ میرے ہی در...
شہرِ لاہور! تری رونقیں دائم آباد
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
میاں محمد شہبازشریف صاحب سے دشمنی ہے نہ چوہدری پرویز الٰہی صاحب سے دوستی۔ آج تک ملاقات ہوئی نہ خدشہ ہے۔ شعر پامال ہے لیکن کارآمد ہے حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی، نہ ان کی دوستی اچھی احمد جاوید نے کہ تصو ّف کی نذر ہو گئے، اس موضوع کو مزید نکھارا ہے اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے لنگر سے روٹی لیتے ہیں پانی سبیل سے اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے جناب شہبازشریف نے لاہور پر اپنی ساری محبت نچھاور کر دی ہے۔ اس محبت میں وسائل بھی شامل ہیں۔ لاہور ان کے لئے وہی مقام رکھتا ہے جو تیمور کے لئے سمرقند رکھتا تھا۔ تیمور نے بھی جو کچھ مفتوحہ شہروں سے ملا، سمرقند پر نچھاور کر دیا۔ پوری سلطنت سے معمار، نقاش، شیشہ گر اور زین ساز سمرقند میں اکٹھے کر لیے۔ لاہور بھی سمرقند کی طرح خوش بخت ہے۔ کہیں پل بن رہے ہیں اور کہیں شاہراہیں۔ معمار اور کاریگر رات دن کام کر رہے ہیں۔ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ لاہور کی محبت میں صوبے بھر کے وسائل کا معتدبہ حصہ لاہور پر خرچ ہونے لگا ہے۔ جناب حسن نثار نے لکھا ہے کہ سستی روٹی سکیم پر دی گئی مجموعی سبسڈ...
فضا بھی مقدس ہے اور زمین بھی
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
شمالی وزیرستان پرفوج کشی ایک لاحاصل مہم ہوگی اور کوئی کوتاہ اندیش ڈرون حملوں کے حق میں ہے تو وہ ملک کی سالمیت گروی رکھنے کا حامی ہے! پاکستانی عساکر کوشمالی وزیرستان میں جھونکنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ اس لیے کہ اتحادیوں کی افواج قاہرہ ان علاقوں میں امن قائم کرنے میں بدستور ناکام ہیں‘ جو شمالی وزیرستان کی سرحد کے پار افغانستان میں واقع ہیں۔ مولانا فضل اللہ اور اس کے ساتھی افغانستان میں کمین گاہیں بناکر بیٹھے ہوئے ہیں اور پاکستان میں مسلسل دراندازی کررہے ہیں۔ کافرستان کی سیرگاہیں غیرمحفوظ ہوچکی ہیں۔ وہاں اب کسانوں اور چرواہوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ سرحدیں پامال ہورہی ہیں۔ پاکستان کے مسلسل احتجاج کے باوجود امریکہ اور نیٹو کے لشکر صورت حال کو جوں کا توں رکھ رہے ہیں۔ نیچے جنوب میں ان علاقوں میں جو شمالی وزیرستان سے متصل ہیں، نیٹو کے ٹینک غلبہ پانے میں بدستور ناکام ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان سے لشکر کشی کا مطالبہ دھاندلی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایک دلدل ہے جس میں پاکستانی فوج اتر گئی تو نکلنا مشکل ہوگا اور غالباً مطالبہ کرنے والوں کا مطلوب و مقصود بھی یہی ہے۔ اور ڈرون حملے؟ اگر ان حملوں ک...
مقناطیس اور دھات کے بکھرے ذرّے
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
سابق وزیراعظم کے صاحبزادے نے وزیر مملکت بننے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ توقع کر رہے تھے کہ انہیں مکمل وفاقی وزیر کا عہدہ پیش کیا جائے گا۔ نیو ساﺅتھ ویلز آسٹریلیا کی ریاست ہے، سڈنی جس کا صدر مقام ہے۔ وہاں ایک وزیر کو اس لئے مستعفی ہونا پڑا کہ اس نے سرکاری لیٹر پیڈ پر ایک سفارشی چٹھی لکھ دی تھی۔ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اس کے صاحبزادے کو وزارت کی پیشکش کی جائے گی؟ حیرت ہے ان دوستوں پر جو کبھی زلزلے کو عذاب کہتے ہیں اور کبھی ڈرون حملوں کو.... یہ تو آزمائشیں ہیں۔ عذاب تو ان پر اترے گا جو حملے کر رہے ہیں اور کروا رہے ہیں۔ لیکن جو عذاب اترا ہوا ہے اس کی کسی کو پروا نہیں۔ برائی کو قبول کر لیا گیا ہے۔ اس کی ساری آلودگیوں اور تمام مضمرات کے ساتھ! کون سی بہتی گنگا ہے جس میں سابق وزیراعظم نے ہاتھ نہیں دھوئے۔ اپنے من پسند، داغدار شہرت رکھنے والے افسروں کو تعینات کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے مسلسل گتکا کھیلتے رہے۔ حج کے نام پر کیا نہیں ہوا۔ بھارت، خلیج اور برطانیہ کے اخبارات میں ڈیزائنر سوٹوں سے بھرے ہوئے کارٹنوں اور ٹرکوں کی کہانیاں شائع ہوتی رہیں‘ جو ڈیفنس لاہور کے گھروں میں سامان اتارتے رہے۔ پھر...
تنبے کا درخت اور انجیر
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ہم نے جوکچھ بویا وہی کاٹ رہے ہیں، تنبے کا درخت انجیر کا پھل نہیں دیتا۔ روسیوں کو وسط ایشیا ہڑپ کرنے میں دوسوسال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ ان کا پہلا ہدف خیوا تھا ۔ کتنی ہی مہمات اس برفانی راستے کی نذر ہوگئیں جو ماسکو سے خیوا تک بچھا ہوا ہے۔ ایک بار تو پوری فوج راستے میں ختم ہوگئی۔ ایسی ظالم سردی کہ ہاتھ یاپاﺅں برہنہ ہوتا تو جھڑ جاتا۔ 1860 میں روسیوں نے تاشقند پر قبضہ کرلیا۔ برطانوی ہندکو صاف نظر آرہا تھاکہ روسی رکیں گے نہیں۔جنوب کی طرف بڑھیں گے۔ برطانوی جاسوس دریائے آمو کے پار پھیل گئے۔ کوئی جڑی بوٹیوں کی تلاش میں اور کوئی کسی اور بھیس میں۔ یہ گریٹ گیم تھی۔ برطانیہ کی کوشش کہ روس جنوب کی طرف نہ آئے اور روس کا ہدف کہ برطانیہ وسط ایشیا کے دروازے پر دستک نہ دینے لگے۔ جب روس نے سمرقند‘ بخارا اور ترمذ بھی چھین لیے تو برطانوی ہند نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی لیکن یکے بعد دیگرے کئی جنگی مہمات ناکام ہوئیں۔ ایسی ہی ایک مہم تھی جس میں کابل سے واپس آنے والی انگریزی فوج پوری کی پوری افغانوں نے نیست و نابود کردی۔ صرف ایک فوجی ڈاکٹر زندہ جلال آباد پہنچ سکا۔ تاریخ نے انگریزوں ک...
ملالہ پر حملہ ۔ صرف مذمت یا اسباب کا تعیّن بھی ؟؟
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوا میں نہیں ہوا۔ اس ملک کی زمین پر ہوا ہے۔ حملہ کرنے والے اچانک غیب سے نمودار نہیں ہوئے، ان کی موجودگی اور ان کے خیالات سے ہر شخص آگاہ ہے۔ یہ واقعہ افسوسناک تو ہے ہی، اس کے بعد جو کچھ ہورہا ہے عبرت ناک بھی ہے۔ مذمت کا ایک سیلاب ہے جو ہر طرف بہہ نکلا ہے لیکن اس واقعہ کے اسباب کی طرف کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کررہا۔ اکثر مذمتی بیانات‘ سیاسی اور نمائشی ہیں۔ یہ واقعہ تین حقیقتوں کی طرف نشاندہی کررہا ہے۔ تین برہنہ اور تلخ حقیقتیں!! افسوس! کچھ حضرات کو ان حقیقتوں کا بخوبی ادراک ہے لیکن وہ .... بوجوہ منقار زیر پر ہیں۔ اول۔ اس ملک میں نہ صرف یہ کہ دو مختلف نظام ہائے تعلیم چل رہے ہیں بلکہ ان کے نتیجہ کے طور پر دو مختلف ثقافتیں، دو مختلف طرز ہائے زندگی اور مذہب کے حوالے سے دو یکسر مختلف گروہ ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہیں۔ ان دو گروہوں کا لباس، رہنے سہنے کا طریقہ، انداز گفتگو، زیر مطالعہ اخبارات سب کچھ مختلف ہے۔ یہ بعُد المشرقین ہے‘ جس کے دور ہونے کی کوئی صورت ہے نہ امکان۔ آپ اس بچے کو ذہن میں رکھیے جو پانچ یا سات سال کی عمر میں ایک مدرسہ می...
ایسانہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
نون لیگ اور فضل الرحمن گروپ جتنا بھی زور لگا لیں ایک اعزاز عمران خان سے نہیں چھین سکتے۔ اور وہ ہے اس کا اب تک اقتدار میں نہ ہونا۔ کوئی مانے نہ مانے، عمران خان کے حمایتیوں کی کثیر تعدد ایک ہی بات کہتی ہے: سب کو آزما لیا ہے۔ عمران کو بھی موقع ملنا چاہیے۔ آخر آزمانے میں کیا حرج ہے؟ جولوگ پوچھ رہے ہیں کہ وزیرستان مارچ سے کیا حاصل ہوا۔ وہ یا تو بچے ہیں یا تجاہل عارفانہ کے عارضے میں مبتلا۔ اس مارچ سے اور کچھ حاصل ہوا ہو یا نہیں، پاکستانی سیاست کے ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی کنکر تو پڑا ہے اور کچھ دائرے تو بنے ہیں۔ ایک انگریزی معاصر کا دعویٰ ہے کہ جلوس چودہ کلومیٹر طویل تھا اور گاڑیوں کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ رہی یہ بات کہ شمالی وزیرستان کیوں نہیں گئے یا یہ اعتراض کہ قبائلی دستار کیوں اچھالی، تو یہ اس ہمیشہ منفی بات کرنے والی جھگڑالو عورت کے اعتراض کی طرح ہے جو بھرپور دعوت کے بعد خلال کرتے ہوئے تنقید کرتی ہے کہ کھانے میں نمک زیادہ تھا۔ جو حضرات شور برپا کررہے ہیں کہ پہلے شمالی وزیرستان کا کہا گیا تھا، کیا ان سے عمران خان نے شمالی وزیرستان جانے کا کوئی تحریری معاہدہ کیا تھا؟ ہر شخص جانتا ہے کہ ی...
چھُپا ہئوا مجرم
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
وہ جو اصل مجرم ہے وہ ہر بار بچ نکلتا ہے۔ کبھی اس ملک میں سیاست دان پر الزام لگتا ہے کہ وہ تباہی کا ذمہ دار ہے۔ ایوب خان ایبڈو کا پھندہ سیاست دانوں کے گلے میں ڈالتا ہے۔ ان کی خوب کردارکشی ہوتی ہے۔ انہیں ہر بڑائی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ جو اصل مجرم ہے بچ نکلتا ہے۔ پھر جرنیلوں کی باری آتی ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے لے کر بلوچستان کی صورتحال تک ہر خرابی کا کیچڑ ان کے چہروں پر ملا جاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ دفاع کا بجٹ ایک سطری بجٹ ہے اور پارلیمنٹ اس ضمن میں بے اختیار ہے۔ یہاں بھی اسے جو ہر خرابی کا ذمہ دار ہے، کوئی نہیں پوچھتا۔ کبھی بیورو کریسی پر تان ٹوٹتی ہے۔ الزام لگتا ہے کہ سیاست دانوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہیں ہوتے۔ ان کے غلط احکام کو مان لیتے ہیں۔ کرپشن کرتے ہیں اور کرپشن کرنے والوں کو تحفظ دیتے ہیں۔ کبھی مذہبی طبقات کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے اور معاشرے کی برائیوں کا انہیں ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس! اس عام آدمی کو کوئی کچھ نہیں کہتا جو ہر برائی کرتا ہے اور ہر قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسے کوئی پ...
گرجنے والے اور برسنے والے
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو دنیا نے فیصلہ کیا کہ جو ہوا‘ اسے بھلا دیا جائے اور زندگی کا قافلہ آگے کی طرف بڑھے۔ خاص طور پر امریکہ چاہتا تھا کہ مغربی جرمنی میں جلد از جلد حالات معمول پر آ جائیں تاکہ اس ملک کو روسی بلاک کے خلاف بننے والے اتحاد کا حصہ بنایا جائے۔ لیکن یہودی جنگجوﺅں کے خیال میں ابھی امن کا وقت نہیں آیا تھا۔ ابھی انہوں نے ان نازی جرمنوں سے انتقام لینا تھا جو بقول ان کے‘ یہودیوں کے قتلِ عام میں ملوث تھے۔ اس وقت‘ شکست کھانے کے بعد‘ جرمن اپنی حیثیت کھو چکے تھے۔ یہودی اگر چاہتے تو پورے جرمنی میں نازیوں کے خلاف جلوس نکال سکتے تھے۔ جلسے کر سکتے تھے۔ انتقام انتقام کے نعرے لگا لگا کر آسمان میں شگاف ڈال سکتے تھے۔ ہر روز شاہراہوں پر رکاوٹیں رکھ کر آبادیوں کا جینا حرام کر سکتے تھے۔ اتحادیوں کی حکومت کے خلاف ہڑتالیں کر سکتے تھے اور مطالبہ کر سکتے تھے کہ ایک ایک نازی کو پھانسی دی جائے۔ وہ ہر سنیچر کے دن‘ جو ان کا مقدس دن ہے‘ شہروں اور قصبوں میں‘ بازاروں اور کارخانوں میں‘ سکولوں اور دفتروں میں چلتی ہوئی زندگی کا پہیہ روک سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ انہوں نے انتہائی...
نئے کلائیو
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
آئیے! حکومت کیجئے۔ ایک ملک دستیاب ہے! آپ جوکوئی بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں، اس ملک پر کسی بھی وقت حکومت کرسکتے ہیں! اس صلائے عام کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہ ملک کوئی معمولی ملک ہے۔ وسائل کے اعتبار سے یہ دنیا کے ان خوش قسمت خِطّوں میں سے ہے جنہیں قدرت نے سب کچھ عطا کیا ہے اور وافر عطا کیا ہے۔ موسم ایسے کہ سال میں تین فصلیں بھی ہوجاتی ہیں۔ پہاڑ بھی ہیں۔ ریگستان اور سمندر بھی۔ زرخیز میدان بھی ہیں اور برف پوش چوٹیاں بھی۔ دریاﺅں کا جال بچھا ہے۔ میوے کثرت سے ہیں۔ لوگ ذہین ہیں اور مواقع میسر ہوں تو حیران کردیتے ہیں! آپ کو ایسا ملک روئے زمین پر نہیں ملے گا۔ آئیے! اس پر حکومت کیجئے۔ یہ ملک حکومت کرنے کیلئے دستیاب ہے! آپ اگر ہچکچا رہے ہیں تو اس ملک کی تاریخ پر ایک نظر دوڑائیے، یہاں ہر گدھے گھوڑے نے حکومت کی ہے۔ ڈٹ کر کی ہے اور کوئی اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکا۔ آپ بھی آئیے اور قسمت آزمایئے! ابھی اس ملک کو وجود میں آئے مشکل سے دس سال ہوئے تھے کہ ایک وردی پوش سرکاری ملازم نے اس کی حکومت سنبھال لی۔ وہ دس سال تک سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ کسی نے چوں تک نہ کی۔ جتنے الطاف گوہر تھے‘ اس کے قدموں م...
صرف زکوات اور صدقات ؟
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
یہ قطار جو میں نے دیکھی، ایوان صدر سے صرف چار کلومیٹر دور تھی۔ ایوان صدر جہاں ہر روز دو کالے بکرے ذبح کئے جاتے ہیں۔ جس کے مکین سنگ و آہن کی بنی ہوئی ناقابل عبور رکاوٹوں کے پار رہتے ہیں۔ لندن ہو یا نیویارک، آکسفورڈ ہو‘ پیرس یا دبئی۔ ان کے لئے وہاں جانا ایسا ہے جیسے ہم آپ گلی کی نکڑ تک جاتے ہیں۔ دریاست کہ صحرا ست، تہہ بال و پر ماست۔ ہر جگہ ان کے محلات ہیں۔ ایک عام پاکستانی ان کے طرز زندگی کا تصور تک نہیں کر سکتا۔ یہ قطار جو میں نے دیکھی، پارلیمنٹ لاجز سے صرف پونے چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ اگر آپ کو معلوم نہیں کہ پارلیمنٹ لاجز کسے کہتے ہیں تو یہ جان لیجئے کہ یہ وہ خصوصی رہائش گاہیں ہیں جو پارلیمنٹ کی بغل میں عوامی نمائندوں کے لئے تعمیر کی گئی ہیں۔ ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کے بعد پورے ملک میں یہ اہم ترین محلات ہیں۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے زمانے میں زیر زمین راستوں یعنی سرنگوں کی تعمیر کا سوچا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ عوامی نمائندے خفیہ راستوں کے ذریعے، زمین کے نیچے نیچے، پارلیمنٹ لاجز سے نکل کر پارلیمنٹ پہنچ جائیں۔ ان پار...
بلوچستان----ہاتھی اندھوں کے نرغے میں
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
جولائی یا اگست تھا۔ آدھی رات تھی۔ کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری رات ہو یا دن، چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ باہر تیز طوفانی ہوا تھی۔ املی کے پیڑ، یوں لگتا تھا، ٹوٹ کرلائبریری کی کھڑکیوں کے شیشوں پر آن گریں گے۔ اندر، دوطالب علم، گھنٹوں سے بحث کررہے تھے۔ ان کے سامنے اکنامکس کی کتابیں کھلی تھیں۔ کاغذات ایک طرف پڑے تھے۔ چند دن بعد امتحان تھا لیکن وہ جیسے مغربی اور مشرقی پاکستان کے باہمی مسائل ابھی اور اسی وقت حل کرنا چاہتے تھے۔ یہ ساٹھ کی دہائی کا آخری حصہ تھا۔ ان دو طالب علموں میں سے ایک ڈھاکہ ہی سے تھا اور دوسرا طالب علم یہ کالم نگار تھا جو بین الصوبائی (انٹرونگ) سکالر شپ پر ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات میں ایم اے کررہا تھا۔ اُس طالب علم کی بہت سی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا تھا۔ ایک کے بعد دوسرا مارشل لا، جاگیردارانہ نظام، برادری کا تانا بانا جوانتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا تھا اور یہ حقیقت کہ مشرقی پاکستان میں خواندگی اور تعلیم.... دونوں کا تناسب زیادہ تھا! آج چالیس سال بعد بلوچستان کو مشرقی پاکستان سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ یوں لگتا ہے ہاتھی اندھوں کے ہاتھ آگیا ہے۔ ...