اشاعتیں

ستمبر, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ایک نشست آوارہ کتوں کے ساتھ

وفاقی دارالحکومت میں آوارہ کتوں کی اس قدر کثرت ہو گئی ہے کہ بہت بڑے بڑے سرکاری اداروں اور محکموں نے متعلقہ ترقیاتی اتھارٹی اور شہری کارپوریشن کو ہدایت کی ہے کہ اس مسئلے کو حل کریں! ویسے یہ کالم نگار تقریباً ساٹھ برس سے وفاقی دارالحکومت میں رہ رہا ہے۔ آج تک کسی آوارہ کتے نے نہیں کاٹا۔ کوئی آوارہ کتا اس کالم نگار پر نہیں بھونکا۔ کسی آوارہ کتے نے راستہ نہیں روکا۔ کوئی آوارہ کتا پیچھے نہیں بھاگا۔ کس کس نے کاٹا‘ کس کس نے راستہ روکا‘ کون کون بھونکا‘ اس کی تفصیل بتانے کا یہ موقع نہیں! بس اتنی وضاحت کافی ہے کہ ان حرکتوں میں سے کوئی حرکت کسی کتے نے یا کسی آوارہ کتے نے نہیں کی۔ کل جب میں ایک پارک میں سیر کر رہا تھا‘ ایک طرف چند آوارہ کتے بیٹھے آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے۔ میں ابھی ان سے کافی دور تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ ایک کتے نے میری طرف اشارہ کر کے اپنے ساتھیوں سے کچھ کہا جس کے نتیجے میں تمام کتے میری طرف دیکھنے لگے اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے! جیسے ہی میں نزدیک پہنچا‘ اشارہ کرنے والا کتا آگے بڑھا اور مجھ سے مخاطب ہوا۔ اس کی آواز میں نرمی تھی۔ یوں لگت...

محمد شاہ اور نادر شاہ (نیا ایڈیشن)

کیا نہیں تھا محمد شاہ کے پاس! محلات تھے اور ایسی مسہریاں جو سلطنت میں شاید ہی کسی کے پاس ہوں! پالکیاں ایسی کہ پردے اُن پر زربفت کے اور نشستیں کمخواب کی! لباس اطلس کے تھے اور خالص ریشم اور پرنیاں کے! ہاتھیوں کے ہودے زرتار پارچوں کے! خدام کی فو ج نہیں‘ افواج تھیں! بس ایک کسر تھی کہ محمد شاہ جب قدم زمین پر رکھتا تو خدام ہر قدم کے نیچے ہتھیلیاں نہ رکھ سکتے! حرم قطار اندر قطار اور سب کنیزوں سے چھلکتے ہوئے! اور کنیزیں بھی کہاں کہاں کی اور کیسی کیسی! دلبر! سیم تن! ماہ رُخ! زہرہ وش! جیسے کوہ قاف کی پریاں! کوئی آرمینیا کی‘ کوئی جارجیا کی! کوئی ترکی سے! کوئی چین کی! کچھ ایرانی! کچھ قازق اور تاجک! زلفِ بنگال بھی اور جنوبی ہند سے بڑی بڑی آنکھوں والی بھی! محمد حسین آزاد لکھتے ہیں کہ مغل چار بیویاں رکھتے تھے۔ ہندوستانی بیوی افزائشِ نسل کے لیے‘ ایرانی پروٹوکول کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے‘ افغان گھر کا کام کرنے کے لیے اور ترک ان سب کو کنٹرول کرنے کے لیے! مگر بات بیویوں کی نہیں‘ کنیزوں کی ہو رہی تھی! اور کنیزیں سینکڑوں میں تھیں۔ رہے کھانے‘ تو محمد شاہ اور اس کے اہلِ خانہ اور حواریوں کے لیے ہر وہ غذا...

تارکینِ وطن کے رویے!!

''میں پچھلے 30 برسوں سے یورپ و انگلستان میں مقیم ہوں۔ یورپ کے ہر ملک میں آج سے پچیس تیس سال قبل بھی تارکینِ وطن کے خلاف نفرت موجود تھی لیکن یہ بہت محدود تھی۔ گزشتہ بیس برسوں میں یہ نفرت اور بے زاری باقاعدہ تحریکوں کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ اگلے بیس برسوں کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ چند دن پہلے لندن میں تارکینِ وطن کے خلاف ڈیڑھ لاکھ کے قریب عوامی اجتماع نے مظاہرہ کیا جس میں ایلون مسک نے بھی خطاب کیا۔ انگلستان میں تقریباً 16 لاکھ پاکستانی و کشمیری آباد ہیں۔ انڈین اور بنگالی بھی بیس لاکھ سے زائد ہیں‘ اور بھی دیگر چھوٹی بڑی کمیونٹیز ہیں لیکن جو رنگ ڈھنگ ہماری کمیونٹی کے ہیں وہ کسی اور کے نہیں حالانکہ دوسری کمیونٹیز کے لوگ بھی مسلمان ہیں۔ یہاں مختلف حوالوں سے جائزہ لیتے ہیں تو ہماری کمیونٹی کا آبادی کے تناسب سے جو حجم بنتا ہے‘ پرابلم اس سے کہیں زیادہ ہے۔ سماجی حوالے سے پچاس پچاس‘ ساٹھ ساٹھ سال گزار کر بھی ابھی تک برادری ازم اور فرقہ واریت میں بری طرح گرفتار ہیں۔ آج سے دس برس پہلے جب میں لندن کے ایک معروف اخبار میں ہفتہ وار کالم لکھتا تھا‘ اس وقت بھی متعدد ب...

عرضی بنام شہنشاہ چارلس سوم

عالی قدر! جہاں پناہ! آپ یوں تو برطانیہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے شہنشاہ ہیں مگر ہم اہلِ پاکستان ہر دم‘ دم ہمہ دم جناب کو یاد کرتے ہیں اور نم آنکھوں کے ساتھ آہیں بھرتے ہیں! بجا کہ آزادی سے پہلے ہمارے ماتھے پر غلامی کی مُہر تھی لیکن قائداعظم اور ان کے چند رفقا کے بعد جو کچھ ہم پر گزر رہی ہے وہ ایسی چاکری ہے کہ جس کی مُہر ہمارے دل پر لگی ہوئی ہے۔ ہم وہ جگر سوختہ اور تیرہ بخت ہیں کہ ہماری زبوں حالی پر ستارے آنسو بہاتے ہیں‘ پھول سسکیاں لیتے ہیں اور پرندے دردناک گیت گاتے ہیں! جہاں پناہ کو یاد ہو گا کہ اس عاجز عرضی گزار نے آپ کی خلد آشیانی مادرِ مہرباں کو بھی‘ جب وہ سریر آرائے تخت تھیں‘ ایک درخواست بھیجی تھی۔ اب ان کے بعد آپ کی سابقہ رعایا ہونے کے تعلق سے آپ کے حضور یہ پرارتھنا بھیجی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ حضور فیض گنجور کرم فرمائی کرتے ہوئے توجہ کی ایک جھلک مرحمت فرمائیں گے۔ صاحبِ تاج وتخت! ولیِ نعمت! جیسا کہ جناب کو علم ہے‘ ہمارے ملک کی آبادی بدقسمتی سے زیادہ ہے۔ اس وقت اس مختصر قطعہ زمین پر پچیس کروڑ سے زیادہ افراد رہ رہے ہیں۔ ...

موٹر وے اسلام آباد ٹول پلازا اور ’’انصاف‘‘

یہ کہانی ہم نے سنی ہے‘ بارہا سنی ہے اور یہ ایسی کہانی ہے جو ہر بار ہم پر یوں منطبق ہوتی ہے جیسے نئی ہو!! ایک وزیر نے بادشاہ کو یقین دلایا تھا کہ رعایا کے ساتھ جو سلوک چاہیں کر لیجیے‘ رعایا حکم عدولی کرے گی نہ احتجاج! سب کچھ برداشت کر لے گی۔ بادشاہ نے ثبوت مانگا۔ دارالحکومت کے پاس ایک دریا تھا۔ شہر میں داخل ہونے کیلئے دریا کو پار کرنا پڑتا تھا۔ وزیر نے تجویز پیش کی کہ فرمان جاری کیجیے جو بھی شہر میں داخل ہونے کیلئے دریا پار کرے گا اسے دو کوڑے مارے جائیں گے۔ شاہی حکم کی تعمیل شروع ہو گئی۔ دریا پار کرنے والے ہر شخص کو دو کوڑے لگنے لگے۔ سب پتھر کی مورتیوں کی طرح‘ خاموش‘ بے حس و حرکت کوڑے کھاتے اور اپنا راستہ لیتے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد آبادی کا دباؤ بڑھا تو دریا پار کرنے والے عوام کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ کوڑے مارنے والا داروغہ ایک ہی تھا؛ چنانچہ لوگوں کو اپنے حصے کے کوڑے کھانے کیلئے لمبی لمبی لائنوں میں لگنا پڑتا اور طویل انتظار کرنا پڑتا۔ آخر کار ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا؟ کیا تھا یہ مطالبہ؟ کہ کوڑے مارنے کا سلسلہ ختم کیا...

قائداعظم بطور وکیل …(2)

1944ء میں سندھ کے سابق چیف منسٹر اللہ بخش سومرو قتل ہو گئے۔ اُس وقت مسلم لیگ کے سر غلام حسین ہدایت اللہ چیف منسٹر تھے۔ ان کی کابینہ کے ایک رکن کھوڑو صاحب اس قتل کے الزام میں دھر لیے گئے۔ وہ قائداعظم کے ساتھیوں میں سے تھے۔ انہوں نے قائداعظم کی خدمت میں اپیل کی۔ تار بھی دیے کہ ان کا مقدمہ لڑیں۔ قائداعظم کا جواب تھا ''میں وکالت چھوڑ چکا ہوں۔ عوامی مصروفیات‘ آل انڈیا مسلم لیگ کی مصروفیات اور کام کے دباؤ کے باعث ایسی پیشہ ورانہ ذمہ داری قبول کرنا ممکن نہیں۔ لیکن مجھے امید واثق ہے کہ آپ باعزت بری ہوں گے‘‘۔ یہ ایک جیتا ہوا کیس تھا پھر بھی قائداعظم نے نہیں لیا اس لیے کہ فیس ان کے لیے اہم نہیں تھی۔ جیسا کہ ان کی ماہرانہ پیش گوئی تھی‘ کھوڑو صاحب باعزت بری ہو گئے۔ قائداعظم اور مادرِ ملت نے انہیں مبارکباد کے تار بھیجے۔ نواب سعید راشد حکیم اجمل خان کے نواسے تھے۔ انہوں نے منیر احمد منیر صاحب کو بتایا کہ ان کی جائداد کا کوئی معاملہ تھا۔ وہ کیس کی فائل لے کر قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ قائداعظم نے فائل کا مطالعہ کیا اور مشورہ دیا کہ اس کیس میں جان نہیں ہے۔ نواب ...

قائد اعظم بطور وکیل

منیر احمد منیر معروف صحافی اور مصنف ہیں۔ انہوں نے قائداعظم کی زندگی پر بہت کام کیا ہے۔ معترضین کو دلائل کے ساتھ جواب دیا ہے۔ چار جلدوں میں ''دی گریٹ لیڈر‘‘ تالیف کی ہے جو اُن 81شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جو قائداعظم کے قریب رہے۔ میں اگر انہیں قائداعظم کا سپاہی کہوں تو غلط نہ ہو گا۔ پاکستان کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد کی پیش گوئیاں بہت اچھالی جاتی ہیں۔ منیر صاحب نے ان کا تجزیہ کر کے انہیں غلط ثابت کیا ہے اور اس پر پوری کتاب لکھی ہے۔ منیر صاحب طویل انٹرویوز کرنے کے لیے بھی مشہور ہیں۔ انہوں نے بہت سے مشاہیر کے تفصیلی انٹرویو لیے ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ منیر صاحب کچھ عرصہ روزنامہ دنیا میں کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔ ایک عرصہ سے رسالہ ''آتش فشاں‘‘ نکال رہے ہیں۔ چند دن پہلے ان کا ایک وی لاگ سنا۔ یہ سابق اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم کے اُس بیان کے متعلق تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ''میں (یعنی ملک قیوم) اصولوں اور اخلاقی تقاضوں کی پروا کیے بغیر صرف فیس کے لیے کیس لڑتا ہوں اور یہی کچھ بانیٔ پاکستان قائداعظم کیا کرتے تھے‘‘۔ یہ ...

خواجہ صاحب ! بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے !

''بلدیاتی ادارے ہمارے ملک میں بالکل بے دست وپا ہیں۔ پنجاب میں تو ہیں ہی نہیں! جب Devolution ہوئی ہے تو یہ ساری Devolution لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور تک رُک گئی ہے۔ کیا آپ کا سسٹم Devolve ہوا ہے؟ شہر کے لیول پر؟ یا گاؤں کے لیول پر؟ یا تحصیل کے لیول پر؟ یا ضلع کے لیول پر؟ نہیں ہوا!! ساری طاقت صوبائی دارالحکومتوں کے پاس ہے! آپ Devolve کریں۔ ونڈ کھاؤ تے کھنڈ کھاؤ۔ آپ پاور کو تقسیم کریں۔ پاور تقسیم کریں گے تو وہ ملٹی پلائی ہو گی۔ اس کا عوام کو احساس ہو گا۔ آپ کے بلدیاتی ادارے شہروں میں‘ گاؤں میں‘ تحصیلوں میں‘ آپ کے سسٹم کی حفاظت کریں گے۔ کیونکہ وہ جوابدہ ہوں گے! کوئی نہ کوئی ووٹر‘ کسی بھی آبادی میں ان کی کُنڈی کھٹکھٹا سکے گا۔ لیکن ہم بلدیاتی اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے اوزار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عوام کو پاور دینے کے لیے نہیں بلکہ اپنے آپ کو پاور دینے کے لیے! آپ کو ایک جامع‘ طاقتور اور تنومند لوکل گورنمنٹ سسٹم چاہیے جو شہروں میں‘ گلیوں میں‘ محلوں میں‘ گاؤں میں‘ تحصیلوں میں‘ ضلع میں خدمت کر...

سیلاب‘ جاپان اور جمہوریت

کیا ستم ظریفی ہے کہ سیلاب کی تباہیوں کے عین درمیان ہنسی کے مواقع میسر آ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ اربن فلڈنگ کی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے تمام ضروری اقدامات فوری طور پر کئے جائیں اور یہ کہ عوامی نمائندے اور حکومتی ادارے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بروقت انخلا اور امدادی کاروائیوں کی مؤثر نگرانی کریں! ہمارے جاننے والوں میں ایک صاحب اپنی بیمار بیگم کو علاج کیلئے امریکہ لے جا رہے تھے۔ دوستوں کا خیال یہ تھا کہ علاج کیسے ہوگا جبکہ بیماری‘ میاں کی صورت میں‘ ساتھ ہی جا رہی ہے۔ بالکل یہی صورتحال وزیراعظم کے بیان پر منطبق ہو رہی ہے۔ جن ''عوامی نمائندوں اور حکومتی اداروں‘‘ کو وزیراعظم ضروری ہدایات دے رہے ہیں‘ وہی تو سیلاب کے حوالے سے‘ بہت سے مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آبی گزر گاہوں پر بستیاں بسائی جا رہی تھیں اور مکان تعمیر کیے جا رہے تھے تو یہ حکومتی ادارے کہاں تھے؟ کیا اس وقت ان اداروں کی آنکھوں میں موتیا اُتر آیا تھا؟ سب کچھ ان کے سامنے ہو رہا تھا اور وہ خاموش تھے! جیسے ان کا وجود ہی نہ تھا۔ وزیراعظم ایک کمیشن کیوں نہیں بناتے...