اشاعتیں

مئی, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

قومی ائر لائن ، آسٹریلیا اور پاکستان ہائی کمیشن

سری لنکا ایئر لائن کا یہ پہلا تجربہ تھا اور بے حد خوش گوار!! ہماری قومی ایئر لائن کی روایت کے بالکل بر عکس جہاز وقت پر روانہ ہوا! ساڑھی پوش میزبان خواتین نے بے حد خیال رکھا۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کولمبو ایئر پورٹ پر ہوا۔ یہ ایئر پورٹ ہمارے اسلام آباد ایئر پورٹ سے کہیں زیادہ بڑا‘ زیادہ منظم اور زیادہ خوبصورت ہے۔ بڑے بڑے بازار ہیں جبکہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر‘ جس کی تعمیر میں گیارہ سال صرف ہوئے‘ صرف ایک کیفے ٹائپ دکان ہے۔ سراندیپ‘ سری لنکا کا پرانا نام ہے۔ یہی نام ایئر پورٹ پر واقع لاؤنج کا تھا جس میں تمام سہولتیں وافر مقدار میں موجود تھیں‘ یہاں تک کہ وہ عظیم الجثہ صوفے بھی جن پر نیم دراز ہوا جا سکتا تھا۔ کولمبو سے میلبورن کا نو گھنٹوں کا سفر خاصا آرام دہ تھا مگر ذہنی اذیت ساتھ رہی اور ذہنی اذیت یہ تھی کہ کیا ہم سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں؟ گویا: انجم غریبِ شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں  سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں لاکھوں پاکستانی رہتے ہیں۔ ان سب نے پاکستان آنا ہوتا ہے اور کچھ دن رہ کر واپس بھی جانا ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ لاکھوں وہ ہیں جو ان پاکستانیوں کو مل...

ہجر ایک شہر کا

تیرہویں جماعت کا طالب علم تھا جب پہلی بار لاہور دیکھا۔ ایک مشاعرہ بورے والا میں تھا اور دوسرا لاہور میں! ہم دو شاعر طالب علموں کو ہماری درسگاہ‘ گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی نے اس سفر پر روانہ کیا۔ پہلے بورے والا میں انعام جیتا۔ لاہور اسلامیہ کالج میں ''شمعِ تاثیر‘‘ کا مشاعرہ تھا۔ شنید یہ تھی کہ لاہور سے باہر والا انعام نہیں جیت سکتا۔ مگر تیسری پوزیشن ہم لے اُڑے۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ پہلا انعام سرمد صہبائی کو ملا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے لیے انٹرویو بھی لاہور میں ہوا۔ پھر عرصۂ ملازمت میں تو لاہور آنا جانا معمول ہو گیا۔ کئی اداروں کی سربراہی ایسی تھی کہ کیمپ آفس لاہور میں تھا۔ کبھی کبھی تو ہر ماہ ایک ہفتہ لاہور کے دفتر میں بیٹھنا ہوتا۔ پھر بیٹی کی شادی لاہور میں ہو گئی۔ یوں لاہور سے جذباتی وابستگی کا دور شروع ہو گیا۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ: یہ جو لاہور سے محبت ہے؍ یہ کسی اور سے محبت ہے۔ لاہور سے بیٹی اور اس کے میاں سمندر پار چلے گئے۔ وہاں آسمان سے پنگھوڑا اترا جس میں زینب لیٹی ہوئی انگوٹھا چوس رہی تھی۔ چار ماہ کی تھی کہ زینب اپنے بابا اور اماں کے ساتھ لاہور واپس آئی۔ یہاں س...

الحمدللہ! ہم پاکستانی ہیں!

پہلا بیان: ''دونوں ممالک غربت وافلاس کے مسائل پر قابو پانے اور اپنے عوام کی خوشحالی اور ترقی کیلئے کوشاں ہیں اور دونوں ہی نیوکلیائی ممالک ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ممالک اور یہاں کی سیاسی وعسکری قیادتیں اب تیزی سے پائیدار امن کیلئے ٹھوس اقدامات کریں گی۔ سرحدی علاقوں میں رہنے والے عام بھارتی شہریوں کی ہلاکت کی مسلسل خبریں آ رہی ہیں۔ بے قصور شہریوں کو لاحق خطرات ہماری فوری توجہ چاہتے ہیں۔ ہم ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان خاندانوں کو ترجیحی بنیادوں پر تمام ضروری امداد اور تحفظ فراہم کرے۔ سرحد کے اُس پار بھی کئی عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ معصوم شہریوں‘ بالخصوص خواتین اور بچوں کی ہلاکت‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل‘ مذہب‘ زبان‘ قومیت یا طبقے سے ہو‘ انتہائی افسوسناک ہے اور تمام فریقوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہر حال میں بے گناہ انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ دہشت گردی خطے کا سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی قیمتی اور بے قصور جانیں اس کی نذر ہو چکی ہیں اور پاکستان میں بھی دہشت گردی کے لوگ مسلسل شکار ہوتے...

سیّدانی

سیّدانی کے نام سے آپ کے ذہن میں ایک بی بی صاحبہ کی تصویر اُبھرے گی جو ہاتھ میں تسبیح پکڑے‘ منہ سر لپیٹے‘ ایک تخت پر تشریف فرما ہیں۔ سامنے زمین پر مریدنیاں بیٹھی ہیں جو ایک ایک کر کے ان کے پاس جاتی ہیں۔ پہلے ہاتھ چومتی ہیں۔ پھر عرضِ مدعا کرتی ہیں۔ بی بی صاحبہ کچھ پڑھ کر پھونکتی ہیں۔ کچھ اوراد و وظائف تجویز کرتی ہیں۔ دم کیا ہوا پانی عنایت کرتی ہیں۔ آخر میں مریدنی نذرانہ پیش کرتی ہے۔ مگر میں جن سّیدانی صاحبہ کا ذکر کر رہا ہوں وہ بالکل مختلف ہیں۔ ان کے ہاتھ میں تسبیح ہے نہ مریدنیوں کی حاضری میں دلچسپی ہے۔ نذرانہ لیتی ہیں نہ منہ سر لپیٹتی ہیں۔ وہ تو ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں‘ وہ بھی سائنس کی! ظاہر سے نہیں معلوم ہوتا مگر گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ پہنچی ہوئی ہیں‘ عقل و دانش کا خزانہ ہیں۔ کسی بھی مسئلے پر ان کا کہا حرفِ آخر ہوتا ہے۔ ایک بار میں کسی مسئلے میں الجھا ہوا تھا! پریشان تھا اور پراگندہ خاطر! ایک دوست کہنے لگا کہ ایک بزرگ کے پاس لے چلتا ہوں بشرطیکہ وہ حاضر ہونے کی اجازت دے دیں۔ فون کرنے کے لیے وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ واپس آیا تو کہنے لگا: چلیں! میرے ذہن میں یہی تھا کہ کوئی در...

بھارتی معاشرہ کرچی کرچی ہو رہا ہے

سراج کَورڈ  (Covered)  مارکیٹ اسلام آباد شہر کا بہت بڑا لینڈ مارک تھا۔ جس عمارت میں آج کل نادرا کا ہیڈ آفس ہے‘ وہاں پہلے وزیراعظم کا دفتر ہوتا تھا۔ مشہورِ زمانہ میلوڈی مارکیٹ سے اس دفتر کی طرف جائیں تو کَورڈ مارکٹ راستے میں پڑتی تھی۔ اس سڑک کو اب سرفراز اقبال روڈ کہا جاتا ہے۔ کَورڈ مارکیٹ کے بالکل سامنے بیگم سرفراز اقبال کا گھر تھا جہاں شاعروں ادیبوں کی بیٹھک جمتی تھی۔ فیض صاحب بھی وہاں آتے تھے۔ میں بھی کئی بار مشہور ڈرامہ نگار اور افسانہ نویس احمد داؤد مرحوم کی معیت میں بیگم صاحبہ کے گھر گیا۔ اب اسی گھر میں ان کے شوہر ملک اقبال صاحب رہتے ہیں۔ ماشاء اللہ نوے سے اوپر کے ہیں مگر تندرست حالت میں ہیں۔ سراج کَورڈ مارکیٹ بہت بڑا بازار نہیں تھا مگر شہر کی جان تھا۔ اسلام آباد میں رہنے والے تمام غیر ملکی‘ گوشت سبزی اور دیگر سودا سلف یہیں سے خریدتے تھے۔ شہر کا بہترین گوشت‘ پھل اور سبزی یہیں ہوتی تھی۔ اس مارکیٹ کی ایک اور وجۂ شہرت یہ تھی کہ شہر کے مشہور ترین اور بہترین ٹیلر شیخ امین کی دکان بھی یہیں تھی۔ اسلام آباد میں مقیم اکثر سفیر‘ ڈپلومیٹ‘ سیاستدان اور بیورو کریٹ اس کے گاہک ت...

بھارت کے ساتھ امن کا معاملہ

آر ایس ایس اور اس کے سیاسی ماؤتھ پیس بی جے پی کی طرف سے پاکستان پر مسلط کردہ یہ جنگ‘ آخری جنگ نہیں! جو پاکستانی دانشور بھارتی جارحیت کی مذمت کیے بغیر امن کی اور خطے کی بات کر رہے ہیں‘ ان کے خلوص پر شبہ نہیں مگر یوں لگتا ہے انہوں نے آر ایس ایس کا منشور نہیں پڑھا۔ انہیں شاید معلوم نہیں کہ ادتیا ناتھ اور امیت شاہ کون ہیں‘ کیا کر رہے ہیں؟ اور کیا چاہتے ہیں؟ امن کا نعرہ وہاں جچتا ہے جہاں دونوں فریق امن کی اہمیت کو سمجھیں! جہاں ایک فریق دوسرے فریق کے وجود ہی کو نہیں تسلیم کرتا اور اسے مٹانے کے درپے ہے‘ وہاں امن کی تلقین کرنا غیر منطقی ہے۔ جو تنظیم گاندھی جی کوقتل کروا دے اور قاتل کو آج بھی ہیرو قرار دے‘ کیا وہ پاکستان کو امن کیساتھ رہنے دے گی؟ یہ جنگ آخری جنگ نہیں! پاکستان کو اپنی بقا کیلئے ہمیشہ تیار اور چو کنا رہنا پڑے گا۔ پاکستان کو ہمیشہ ایک مضبوط فوج رکھنا ہو گی۔ اسے ہمیشہ جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس ہونا پڑے گا۔ یہ بقا کا مسئلہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جو بھارت کی ''فرمانبردار‘‘ ریاست کبھی نہیں بنا۔ پاکستان بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے واحد دیوا...

صدیقاں بی بی سے لے کر میدانِ جنگ تک

ستائیس سال کا عرصہ تھوڑا عرصہ نہیں ہے۔ صدیقاں بی بی ستائیس سال انتظار کرتی رہی۔ اس عرصہ کے دوران جو بچے پیدا ہوئے‘ انہوں نے چلنا اور بولنا شروع کیا۔ سکولوں میں پہنچے۔ تعلیم مکمل کی۔ ملازمتوں اور کاروبار کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ ان کی شادیاں ہو گئیں۔ صاحبِ اولاد ہو گئے۔ صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ ستائیس برس کے اس عرصہ میں ملک میں اسلام کا غلغلہ پورے زور و شور کے ساتھ رہا۔ مسجدیں نمازیوں سے چھلکتی رہیں۔ مدارس میں اسلامی تعلیمات دی جاتی رہیں۔ تبلیغی وفود ملک کے اندر اور ملک سے باہر مسلسل سفر میں رہے۔ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور سکولوں میں اسلامیات پڑھائی جاتی رہی۔ لاکھوں پاکستانی حج اور عمرے کرتے رہے۔ پوری دنیا کو قائل کیا جاتا رہا کہ پاکستان کفر کی اس دنیا میں اسلام کا قلعہ ہے! ایک زبردست‘ ناقابلِ تسخیر قلعہ! صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ دھکے کھاتی رہی۔ ایک کچہری سے دوسری کچہری تک۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت تک! ایک وکیل کے دفتر سے دوسرے وکیل کے دفتر تک! ایک شہر سے دوسرے شہر تک! فیسیں ادا کرتی رہی! کس چیز کے لیے؟ اُس حق کے لیے جو اللہ نے‘ اللہ کے رسول نے‘ اللہ اور...

پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے

مسافر چیخ رہے تھے۔ جہاز ہچکولے کھا رہا تھا۔ اب گرا کہ گرا! اچانک ایک آواز ابھری ''گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ نیچے دیکھیے‘ سمندر کے صاف شفاف پانی پر چلتی ایک خوبصورت کشتی نظر آئے گی۔ ہم اسی کشتی سے بول رہے ہیں‘‘۔ اس لطیفہ نما حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہ بات کہ ایک انسان کیا کہتا ہے اور کس طرح کہتا ہے‘ اس امر پر منحصر ہے کہ وہ کہاں ہے اور جو کچھ کہہ رہا ہے‘ کہاں سے کہہ رہا ہے؟ بحر اوقیانوس کے پار‘ امریکہ کی مشفق‘ سرپرستانہ‘ نرم‘ مخملیں گود میں بیٹھ کر اسرائیل کے حق میں بولنا اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا اور بات ہے اور پاکستان کے اندر رہ کر کچھ کہنا اور بات ہے۔ شعائیں‘ Vibes تو اس شخص سے ہمیشہ منفی اور ناپسندیدہ ہی اٹھتی تھیں مگر یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ بے حسی کی آخری حد بھی پیچھے رہ جائے گی۔ تازہ ترین ہزلیات کی جھلکیاں دیکھیے۔ ''اگر اسرائیل غاصب ہے تو اس کو ذرا ڈی کوڈ کریں‘ یہ کیا چیز ہے۔ اسرائیل کو وہاں عالمی قوتوں نے بٹھایا ہے۔ وہی عالمی قوتیں کہ جنہوں نے ستاون اسلامی ممالک کی لکیریں کھینچی ہیں!‘‘۔ ''یہی مقدمہ طالبان پیش کرتے ہیں کہ ...

رستم‘ گھوڑے اور ڈائنو سار

نانا کے گھر میں رکھی آبائی زینیں دیکھنے‘ اور بارہا دیکھنے کا کچھ تو اثر ہونا تھا۔ تین سال کی عمر میں پولو میچ دیکھنے کا شوق‘ وہ بھی جنون کی حد تک! پولو کلب اس کی پسندیدہ جگہ ہے۔ جیسے ہی گاڑی باہر نکالوں‘ جوتے پہن کر آ جاتا ہے کہ چلیں پولو کلب! پولو کلب پہنچنے کے بعد اس کا رویہ عجیب و غریب ہوتا ہے۔ ہم سب گھر والے جہاں بیٹھے ہوتے ہیں اچانک دیکھتے ہیں کہ رستم وہاں سے غائب ہے۔ میں اور اس کی ماں اسے ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ پولو گراؤنڈ کے ایک کنارے پر لکڑی کے بہت سے بینچ پڑے ہوتے ہیں۔ پولو کے اصل شائقین یہیں بیٹھتے ہیں۔ ان شائقین کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ بینچ لکڑی کا ہے یا کرسی مخمل کی ہے۔ اور چائے ملے گی یا نہیں۔ یہاں ہم رستم کو تلاش کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اجنبی خواتین و حضرات کے درمیان بیٹھا میچ دیکھنے میں محو ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دائیں بائیں کون لوگ بیٹھے ہیں۔ ہم اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ چل کے ہمارے ساتھ بیٹھے اور کچھ کھا پی لے۔ مگر وہ سنی اَن سنی کر دیتا ہے۔ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ چند دن پہلے ہم کلب میں گئے تو وہ میچ کا دن نہیں تھا۔ دور پڑے ہوئے لکڑی کے بینچ ویرا...