اشاعتیں

اپریل, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

بھارت کی پانی میں آگ لگانے کی کوشش

اللہ ہم اہلِ پاکستان پر رحم کرے! یورپ اور امریکہ کے ایک ایک شہر‘ ایک ایک قصبے کی معلومات ہیں مگر اپنے اڑوس پڑوس کا پتا نہیں! چند دہائیاں پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ افغانستان میں تاجک‘ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں۔ اکثریت پاکستانیوں کی یہی سمجھتی تھی کہ وہاں صرف پشتو بولنے والے ہیں۔ آج کتنے پاکستانیوں کو علم ہے کہ آر ایس ایس  (Rashtriya Swayamsevak Sangh)  کیا چیز ہے؟ کب بنی؟ اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ اس نے کون کون سے ''کارنامے‘‘ سر انجام دیے ہیں اور اس کے حتمی عزائم کیا ہیں؟ آر ایس ایس کے دوسرے بڑے لیڈر گول والکر  (Golwalkar)  نے‘ جو درحقیقت تنظیم کا اصل معمار تھا‘ صاف الفاظ میں مقصد بیان کر دیا۔ ''جو لوگ ہندوستان میں ہندو نہیں ہیں ان کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ انہیں ہندو کلچر اور ہندو زبانیں اپنانا ہوں گی‘ ہندو مذہب کو اعلیٰ ترین عزت دینا ہو گی‘ ہندو نسل اور کلچر کی برتری تسلیم کرنا ہو گی۔ ایک لفظ میں بات کہنی ہو تو بات یہ ہے کہ وہ غیر ہندو نہیں رہیں گے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو قوم کا ماتحت بن کر رہنا ہو گا۔ کسی شے کا یا کسی حق کا دع...

روشنی کی ایک صدی

ارشد محمود پر ہمیشہ رشک آتا ہے۔ بصارت کے مسائل کے باو جود اس نے تن تنہا‘ اتنا تحقیقی کام کیا ہے جتنا بڑے بڑے ادارے بھی شاید نہ کر سکیں۔ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہے تو لعل وجواہر نکال لاتا ہے۔ ریت کو چھوتا ہے تو سونا برآمد ہوتا ہے۔ وہ باکمال تخلیقات جن کے مصنفین تہہِ خاک جا چکے تھے اور تخلیقات پر زمانے کی گرد پڑی ہوئی تھی‘ ارشد محمود نے انہیں ڈھونڈا‘ گرد صاف کی‘ تفصیلات لکھیں اور منظرِ عام پر لے آیا۔ اب تک وہ ستر سے زیادہ تحقیقی جواہر پارے‘ ادب کے اساتذہ اور طالب علموں کے سامنے لا چکا ہے۔ ان دنوں وہ مسدس حالی کی تاریخ پر کام کر رہا ہے۔ مسدس کی ایک سو گیارہ اشاعتیں اور مختلف زبانوں میں اس کے تیس تراجم دریافت کر چکا ہے۔ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کا سربراہ ہے۔ کل وہ ڈین بھی ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے شیخ الجامعہ بھی بن جائے مگر شعبے کے سربراہ‘ ڈین اور جامعہ کے رئیس تو کئی آئے اور گئے‘ ارشد محمود ناشاد کے سر پر جو سرخاب کا پر ہے‘ وہ منصب کا نہیں‘ تحقیق اور تصنیف وتالیف کا ہے۔ مناصب اور مراتب عارضی ہیں۔ تخلیقی کام قیامت تک زندہ رہتے ہیں۔ عربی کے کسی شاعر نے کہا تھا: یلوح الخط ...

مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی

ایک بہت ہی محترم عالمِ دین نے‘ جو طویل عرصہ تک رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ بھی رہے‘ بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس سے خطاب کیا ہے اور ایک ایسی تجویز پیش کی ہے جوبلامبالغہ بہت قیمتی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اقلیت کا لفظ دستور سے حذف کر دیا جائے! ہم خود ایک عرصہ سے یہی رونا رو رہے ہیں کہ جب سب پاکستانی ہیں‘ سب کے پاس ایک جیسا پاسپورٹ ہے‘ سب ایک جیسے ٹیکس اور محصولات ادا کرتے ہیں تو پھر کچھ پاکستانیوں کے گلے میں اقلیت کا بورڈ کیوں لٹکا دیا گیا ہے؟ حضرتِ مکرّم کی یہ تجویز ہمیں ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کے برابر لا کھڑا کرے گی۔ غور کیجیے کہ اس وقت کروڑوں مسلمان‘ ہندو‘ سکھ ان ملکوں میں آباد ہیں جو بنیادی طور پر مسیحی ممالک ہیں۔ اکثریت ان ملکوں میں مسیحیوں کی ہے مگر کسی غیر مسیحی کے لیے اقلیت کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا۔ امریکہ ہو یا یورپ‘ آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ یا جاپان‘ مذہب کی بنیاد پر کسی کو اقلیت نہیں قرار دیا جاتا۔ ہاں! بھارت میں اقلیت کا لفظ ضرور استعمال ہوتا ہے۔ صدیوں سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بھارت میں اقلیت قرار دے کر ان سے برابری کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ ایک مسلمان‘ ہن...

یونیورسٹیوں کے اندر …اور باہر

یہ میرے لڑکپن کی بات ہے اور اُس قصبے کی جس میں مَیں بڑا ہوا۔ جب بھی اقبال ڈے آتا تو تقریب میں اہم ترین مقرر اسسٹنٹ کمشنر ہوتا (شاید تب اسے ایس ڈی ایم کہتے تھے)۔ اسے اقبال کا بہترین شارح اور بہترین اتھارٹی سمجھا جاتا! اس لیے نہیں کہ وہ اقبال شناس تھا بلکہ اس لیے کہ وہ علاقے کا حاکمِ اعلیٰ تھا۔ جس کا جہاں اختیار ہوتا ہے وہ اسے اختیارِ کُلی سمجھتا ہے اور ہر شے پر اتھارٹی بن جاتا ہے۔ یہ ''اقبال شناسی‘‘ یوں یاد آئی کہ ایک یونیورسٹی میں ناصر کاظمی پر سیمینار منعقد کیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کے سوا اردو ادب کے حوالے سے کوئی نامور نقاد یا سکالر اس میں نہیں بلایا گیا۔ ہاں‘ ہمارے دوست ڈاکٹر ساجد علی موجود تھے۔ ان کی جولان گاہ فلسفہ ہے۔ انہیں شاید اس لیے زحمت دی گئی کہ وہ ناصر کاظمی کے فرزند باصر سلطان کاظمی صاحب کے دیرینہ دوست ہیں۔ لگتا ہے کہ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کو بھی غلطی سے بلا لیا گیا کیونکہ مقررین کی فہرست سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سیمینار نہیں‘ یونیورسٹی کا کلاس روم ہے۔ چونکہ اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر اقبال اور قائداعظم پر اتھارٹی ہوتے ہیں اس لیے یونیورسٹی میں بھی جو ڈی...

دوست‘ مکھی‘ رخسار اور پتھر

پروفیسر صاحبہ ایک بڑی اور شاندار یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ایک علمی خاندان کی چشم و چراغ ہیں۔ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ منطق اور دانش سے تعلق ہے۔ چند دن پہلے ان کی ایک پوسٹ دیکھی۔ پوسٹ کا مضمون یہ تھا کہ غزہ کے نام پر احتجاج ہو رہا ہے۔ ٹریفک بلاک ہے اور زندگی منجمد! اس میں جھوٹ تھا نہ مبالغہ! اس کالم نگار نے اس پوسٹ کو شیئر کیا۔ اس پر کچھ احباب نے باقاعدہ عزا داری کی۔ دکھ کا اظہار کیا۔ ایک پوائنٹ یہ بھی نکالا گیا کہ ''آپ حضرات کو تکلیف ہو رہی ہے؟ یہی مقصد ہے کہ آپ کو اہلِ غزہ کی تکلیف کا احساس دلایا جائے‘‘۔ اصل سوال اور ہے۔ وہ یہ کہ کیا کسی بھی صورتحال میں راستے بند کیے جا سکتے ہیں؟ یہ کامن سینس کا بھی مسئلہ ہے۔ اور اگر مذہب کا حوالہ درکار ہو تو احادیث میں راستہ بند کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ راستے بند کرنے سے اور ٹریفک کو معطل کرنے سے اہلِ غزہ کو کیا فائدہ ہے؟ اگر میرا راستہ بند ہونے سے اسرائیل کو شکست ہوتی ہے اور غزہ کے بچوں کو آزادی مل سکتی ہے اور خوراک بھی تو بے شک میرا راستہ مہینوں نہیں‘ برسوں بند رکھیے۔ میرے لیے اس سے بڑی سعادت کیا ہو گی! لیکن ہم سب جان...

……ہے کوئی بھارتی مسلمانوں کا والی وارث؟؟

بادشاہ بیمار پڑا! بہت سخت بیمار! کوئی دوا کام نہیں آ رہی تھی۔ کوئی علاج کارگر نہیں ہو رہا تھا۔ پھر اطبّا نے ایک عجیب وغریب نسخہ تجویز کیا۔ ایک نوجوان کا پِتّہ درکار ہو گا مگر صرف اس نوجوان کا جس میں فلاں فلاں خصوصیات ہوں! بادشاہ نے اشارہ کیا اور مملکت میں ڈھنڈیا پڑ گئی۔ بالآخر تلاشِ بسیار کے بعد ایک نوجوان مل گیا۔ اس میں وہ تمام خصوصیات تھیں جن کا طبیبوں نے کہا تھا۔ بادشاہ کی زندگی بچانے کے لیے نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا پِتّہ نکالنا تھا۔ اس کام میں دو رکاوٹیں تھی۔ ماں باپ اور عدالت! ماں باپ کے لیے شاہی خزانے کے منہ کھل گئے۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ عدالت نے فیصلہ دے دیا کہ ملک کی سلامتی اور عوام کے وسیع تر مفاد کا سوال ہے۔ اس لیے بادشاہ کی زندگی پر رعایا میں سے ایک فرد قربان کیا جا سکتا ہے۔ جلاد جب سر قلم کرنے لگا تو نوجوان آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسا۔ اتفاق ایسا تھا کہ بادشاہ نے یہ منظر دیکھ لیا۔ اس نے نوجوان سے پوچھا کہ یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے؟ نوجوان نے جواب دیا کہ اولاد کی حفاظت ماں باپ کرتے ہیں‘ میرے ماں باپ نے دولت لے کر مجھے فروخت کر دیا۔ انصاف عدالت نے دینا تھا۔ عدالت ن...

اے برطانیہ کے بادشاہ! اے امریکہ کے صدر

! اگر کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی کا مقصد پاکستانیوں کو قتل کرنا ہے تو یہ کام تو ان کے بغیر بھی ہو رہا ہے اور بہت اچھی طرح سے ہو رہا ہے۔ ان تنظیموں سے کوئی پوچھے کہ تم یہ کام کر کے کیوں بدنامی مول لے رہی ہو؟ گزشتہ ہفتے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر ایک ڈمپر نے پانچ پاکستانیوں کو ہلاک کر ڈالا۔ ان میں ایک 40سالہ خاتون اور ایک 15سالہ لڑکی بھی شامل تھی۔ کئی لوگ زخمی ہوئے۔ ڈمپر کا ڈرائیور بھاگ گیا۔ امید واثق ہے کہ پکڑا نہیں جائے گا! کچھ عرصہ پہلے ملیر ہالٹ کراچی میں میاں بیوی کو ایک ٹینکر نے کچل ڈالا۔ خاتون حاملہ تھی۔ ڈمپر‘ ٹینکر اور ٹریکٹر ٹرالیاں ہر سال سینکڑوں لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد وہ ہے جو رپورٹ ہو جاتی ہے‘ وگرنہ یہ تعداد ہزاروں میں ہو گی۔ حافظ نعیم الرحمن پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے ڈمپروں اور ٹینکروں کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر ہلاک ہونے والوں کی بات کی ہے۔ اگرچہ یہ بات انہوں نے صرف کراچی کے حوالے سے کی ہے۔ انہوں نے مسئلے کا حل بھی نہیں بتایا۔ صرف یہ مطالبہ کیا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کے پسماندگان کو معاوضہ دیا جائے۔ بہر ...