اشاعتیں

جنوری, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ایف بی آر میں نئی گاڑیوں کا بکھیڑا

سنگاپور اور متحدہ عرب امارات کی کامیابی کی کئی وجوہات ہیں! مگر ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں‘ نجی شعبے کے برابر ہیں۔ بلکہ متحدہ عرب امارات میں سرکاری شعبے کی تنخواہیں نجی شعبے سے زیادہ ہیں۔ سرکاری شعبہ نجی شعبے کی وہاں قیادت کر رہا ہے۔ سنگاپور کے معمار‘ لی کؤان یئو نے سرکاری شعبے کی تنخواہیں پرائیویٹ سیکٹر کے برابر کیں اور بہترین افرادی قوت حاصل کی۔ اس کے بعد کرپشن کی گنجائش تھی ہی نہیں۔ سزائیں بھی سخت رکھی گئیں! یہ قصہ اس لیے چھیڑنا پڑا کہ ایف بی آر اپنے افسروں کے لیے کچھ گاڑیاں خرید رہا ہے اور قائمہ کمیٹی نے سخت اعتراض کیا ہے کہ کیوں خریدی جا رہی ہیں؟ وفاقی وزیر دفاع نے قائمہ کمیٹی کے اس اعتراض کا پس منظر بھی بتا دیا۔ ان کے بقول ایک کمپنی نے آرڈر لینے کے لیے سفارشیں کرائیں مگر ناکام رہی۔ ''خریداری رکوانے کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا استعمال کیا گیا‘‘۔ مگر یہ اصل ایشو نہیں۔ اصل ایشو وہ مائنڈ سیٹ ہے جو سرکاری ملازموں کو ہر وقت نشانے پر رکھتا ہے۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ افسر دیانت دار بھی ہوں‘ محنتی بھی ہوں مگر انہیں مراعات دی جائیں نہ تنخواہیں بڑھائی جائیں۔ ای...

ٹیلنٹ جو مضافات میں ہے

… نوجوان شاعر اسد اعوان شکوہ کناں تھے کہ مضافات میں بسنے والے شاعروں اور ادیبوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ شکوہ بے جا بھی نہیں۔ مشاعروں میں وہی مخصوص چہرے دکھائی دیتے ہیں جنہیں دیکھتے دیکھتے لوگ جوانی سے بڑھاپے تک پہنچ گئے۔ ادبی میلے (فیسٹیول) آغاز ہوئے تو امید بندھی کہ انتخاب کا کینوس ذرا وسیع ہو گا مگر یہاں بھی گروہوں‘ دھڑے بندیوں‘ دوست نوازیوں اور مفادات کا طویل و عریض سلسلہ دیکھنے میں آیا۔ گھمسان کی اس جنگ میں اور اس انتہائی کٹ تھروٹ میرٹ کُش افرا تفری میں جہاں بڑے شہروں کے جینوئن شاعروں اور ادیبوں کو کونوں کھدروں میں دھکیل دیا گیا‘ وہاں مضافات کے اہلِ قلم کو کس نے پوچھنا تھا! بقول شاعر: یہاں تو بھرتے نہیں زخم زار اپنے ہی کسی کی زرد محبت کی کیا خبر لیتے تاہم اکادمی ادبیات کی چیئر پرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے وہ کام کر دکھایا جو آج تک کسی نے نہیں کیا تھا۔ انہوں نے پورے ملک سے 20 نوجوان اہلِ قلم کو اکادمی ادبیات اسلام آباد بلا لیا۔ پہلے تو اکادمی نے اشتہار دے کر نام اور کوائف طلب کیے۔ پھر ایک ثقہ کمیٹی بنی جس نے پوری چھان بین اور غور ...

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کتابوں کی نقل وحمل

لاہور جب بھی آؤں‘ سب سے بڑے کتب فروش سے ضرور پوچھتا ہوں کہ انڈیا سے کتابیں آنے کا سلسلہ شروع ہوا یا نہیں؟ اب کے بھی یہی سوال کیا اور اب کے بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ شاید یہ ملک کا واحد کتاب فروش ہے جس نے اپنی تین چار منزلہ دکان میں کیفے بھی بنا رکھا ہے۔ مغربی ملکوں میں ایسے کیفے عام ہیں۔ آپ کتابیں بھی دیکھ اور پڑھ سکیں اور وہیں‘ چائے اور کافی بھی پی سکیں تو اس سے زیادہ لطف آور سچوایشن کیا ہو گی!! اسلام آباد میں ''مسٹر بکس‘‘ کے مالک یوسف صاحب نے‘ جو بہت اچھے دوست تھے‘ ایک بار بتایا تھا کہ وہ سٹار بکس کافی کی برانچ اپنی بک شاپ میں لانا چاہتے ہیں۔ اب تو یوسف مرحوم ہو گئے۔ بھارت سے کتابیں آنے اور کتابیں وہاں بھیجنے کا سلسلہ بند ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ زیادہ نقصان پاکستان کا ہو رہا ہے یا بھارت کا؟ 2012-13ء میں پاکستان میں 3811 کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے ساڑھے آٹھ سو کے قریب انگریزی میں تھیں۔ اسی سال بھارت میں نوّے ہزار کتابیں چھپیں جن میں بائیس ہزار انگریزی زبان میں تھیں۔ یہ بائیس ہزار کتابیں ہمیں اُن کتابوں سے سستی مل سکتی ہیں جو اَب ہم یورپ یا امریکہ سے مہنگی منگوا رہ...

ایسا بھی تو ہو سکتا تھا

پہلا منظر ۔  جناب وزیر اعظم! یہ عثمان بزدار ہیں! ازراہ کرم انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ تعینات کر دیجیے؟ “ “   میں انہیں نہیں جانتا! ا ن میں ایسی کون سی خصوصیت ہے کہ انہیں پنجاب جیسے بڑے صوبے کا حکمران مقرر کیا جائے۔ “؟ ” جناب ! ان کی خصوصیت یہ ہےکہ ان کی بیگم میری بیگم کی سہیلی ہیں اور میری بیگم کے متعلق تو آپ جانتے  ہی ہیں  کہ مرشدہ کے بہت قریب ہیں! “  “نہیں! یہ ممکن نہیں! وہ اس منصب کا اہل نہیں! میں پنجاب کا وزیر اعلی اسے لگاؤں گا جو لائق ہو اور تجربہ کار ہو!  “  { دوسرا منظر ۔ ” جناب وزیر اعظم! بہت افسوسناک خبر ہے ۔  پولیس افسر کو ، جو، پاک پتن کا انچارج ہے،    وزیر اعلیٰ ہاؤس میں طلب کیا گیا۔  وزیر اعلی کی موجودگی میں گجر صاحب نے پولیس افسر سے حاکمانہ لہجے میں باز پرس کی۔ وزیر اعلی ،خاموش، دیکھتے رہے! گجر صاحب  نہ جانے کس حیثیت میں  یہ رعب جھاڑتے رہے۔”  “ یہ ناقابل برداشت ہے۔ وزیر اعلی کو بتائیے کہ یہ واقعہ ان کے لیے باعث شرم ہے۔ آئندہ ایسی لا قانونیت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ گجر سے کہا جائے کہ پولیس افسر سے معذرت کرے...

وقت کی گنجلک

اس حجام کی دکان میں تقریباً پچاس‘ پچپن سال کے بعد جانا ہوا۔ ہم 1966ء میں اسلام آباد منتقل ہوئے۔ میں اس وقت اصغر مال کالج میں بی اے کا طالب علم تھا۔ دارالحکومت میں سب سے پہلا سکول‘ سکول نمبر ایک تھا جہاں والد گرامی مرحوم پڑھاتے تھے۔ اس وقت کا اسلام آباد بہت مختصر تھا۔ دو تین سیکٹر ہی مکمل طور پر آباد تھے۔ آبپارہ سے زیرو پوائنٹ تک پیدل جانا عام بات تھی۔ سب سے پرانا ہوٹل‘ جو آج شہر کے تین بڑے ہوٹلوں میں شمار ہوتا ہے‘ تب زیر تعمیر تھا۔ ہم چند دوست شام کو نکلتے تو بہت سے لوگ کھڑے ہو کر ہوٹل کو تعمیر ہوتے دیکھ رہے ہوتے۔ سوشل میڈیا تھا نہ ٹی وی چینلوں کی بہتات! لوگ باگ شام کو باہر نکلتے تھے اور ہوا خوری کرتے تھے۔ جلد ہی یہ ہوٹل مکمل ہو گیا‘ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے آرکیڈ (گیلری) میں دکانیں بھی بن گئیں۔ انہی میں ایک دکان اس حجام کی بھی تھی۔ خیال یہ تھا کہ اتنے بڑے ہوٹل میں حجام کی یہ دکان مہنگی ہو گی مگر اس کے نرخ بالکل عام دکانوں جتنے تھے۔ یہ جان صاحب کی دکان تھی۔ جان صاحب دبلے پتلے تھے۔ سمارٹ اور اپنے فن کے ماہر! ہاتھ ان کے بہت تیز چلتے۔ اس کے بعد سال دہائیاں بنتے گئے۔ گردشِ زمانہ مجھے ا...

اسلام آباد ٹھیکے پر دے دیجیے

ہماری بیورو کریسی اس وقت اَسفلَ سافِلین کے درجے میں ہے۔ اس کا زندہ ثبوت اسلام آباد کا شہر ہے۔ یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ یہ شہر مسلم دنیا میں واحد ایٹمی ملک کا دار الحکومت ہے۔ یہ کوئی ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے نہ کسی تحصیل کا صدر مقام ! یہ کوئی تجارتی منڈی ہے نہ بندر گاہ! یہ کراچی یا فیصل آباد کی طرح بزنس کا مرکز بھی نہیں۔ نہ ہی یہ صنعتی شہر ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ شہر اتنا غیر منظم ‘بدصورت اور بے ترتیب ہو چکا ہے کہ غلہ منڈ ی لگتا ہے یا مچھلی بازار! اس شہر کا سب سے بڑا چارم '' بلیو ایریا‘‘ ہے جو شہر کے وسط میں ‘ مشرق سے لے کر مغرب تک‘ پلازوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہ پلازے دونوں طرف ہیں۔ ان کا منہ شمال کی طرف بھی ہے اور جنوب کی طرف بھی۔ آپ بلیو ایریا کی شمالی جانب ڈرائیو کریں یا جنوبی جانب‘ آپ قدم قدم پر بد ترین ٹریفک جام کا سامنا کریں گے۔ جب آپ بلیو ایریا کی مغربی انتہا پر پہنچیں گے‘ جہاں نادرا کا دفتر ہے تو آپ اچانک پکار اٹھیں گے کہ یہ دارالحکومت ہے یا کوئی غلہ منڈی ہے۔گاڑی چل سکتی ہے نہ پارک کرنے کی جگہ ہے۔ کئی لوگوں سے بات کی۔ تقریباً سبھی نے کہا کہ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ ون وے ...

ایک بار پھر دوہری شہریت کا شوشہ

حکومت پاکستان ہر سال دو شوشے چھوڑتی ہے اور ایسا کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔ پہلا یہ کہ ریٹائرمنٹ کی عمر تبدیل کی جا رہی ہے۔ یہ کھیل دو دہائیوں سے جاری ہے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے سے! کبھی کہا جاتا ہے کہ اٹھاون سال ہو رہی ہے۔ پھر حکومت کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ بڑھائی جا رہی ہے۔ ساٹھ سے باسٹھ سال ہو رہی ہے۔ ایک بار پینسٹھ سال کا شوشہ بھی چھوڑا گیا۔ اس بار (دس دسمبر) کو پچپن کی خبر چلی کہ وزیراعظم کو اس سلسلے میں بریف کیا گیا۔ یہ بھی کہ تجویز ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور یہ کہ اگر یہ فیصلہ کر لیا گیا تو اس کا اطلاق صرف سول ملازمین پر کیا جائے گا۔ ایسی خبر پڑھ کر غیر ارادی طور پر منہ سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ ہوتے ہیں'آہ! بے چارے سول ملازمین‘‘!! موجودہ قانون یہ ہے کہ ساٹھ سال کی عمر پر ریٹائرمنٹ ہو جاتی ہے۔ مگر یہ قانون '' اپنے‘‘ بندوں کے لیے قانون نہیں‘ کانون بن جاتا ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے اسّی اسّی سال کے‘ بیٹری پر چلنے والے‘ بابے دفتروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم جن کے بارے میں مشہور تھا (دروغ بر گردنِ راوی) کہ سنجیدہ اجلاس کے دوران اچانک پوچھتے تھے کہ لہوروں مچھی...

کون لٹیرا ہے اور کون نہیں

محمود غزنوی لٹیرا تھا یا نہیں‘ احمد شاہ ابدالی یقینا لٹیرا تھا۔ تاریخ کا معتبر ترین حوالہ عوام کی زبان ہوتی ہے۔ اہلِ پنجاب کے ساتھ جو کچھ ابدالی کے سپاہی کرتے رہے‘ اس کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے۔ ''کھادا پیتا لاہے دا تے باقی احمد شاہے دا‘‘ وہ کہاوت ہے جو لوگوں کی زبان پر تھی۔ جو کچھ کھانے پینے سے بچ جاتا تھا‘ احمد شاہ کے لٹیرے چھین کر لے جاتے تھے۔ احمد شاہ ابدالی نے اُس وقت کے ہندوستان پر آٹھ حملے کیے۔ جنوری 1748ء میں وہ لاہور میں داخل ہوا اور قتلِ عام کا حکم دیا۔ معززینِ شہر نے 30لاکھ روپیہ جمع کرکے ابدالی کو پیش کیا اور درخواست کی کہ قتل و غارت اور لوٹ مار بند کرنے کا حکم دے۔ چوتھا حملہ اس نے 1756-57ء میں کیا۔ دہلی میں اتنی لوٹ مار کی کہ شہر کھنڈر بن گیا۔ ابدالی نے اپنی اور بیٹے کی شادیاں بے بس مغل خانوادے میں کیں۔ واپسی پر امرتسر میں غارت گری کی۔ تاریخ میں کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی کہ ابدالی نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا ہو کہ قتل و غارت کرتے وقت مسلمانوں کو چھوڑ دیا جائے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ جس طرح سکھ اور مرہٹے لوٹ مار کرتے تھے‘ قتلِ عام کرتے تھے‘ فصلوں کو تہس نہس کرتے تھے‘ ...
گلی گلی میں شور ہے… نہیں! نہیں! غربت نہیں! بیماری کا سبب کچھ اور ہی ہے!! کیا آپ کو وہ حادثہ یاد ہے جو جون 2017ء میں احمدپور شرقیہ میں پیش آیا تھا؟ آئل ٹینکر کراچی سے بہاولپور آ رہا تھا۔ احمدپور شرقیہ کے قریب ٹائر پھٹا اور ٹرک الٹ گیا۔ ہزاروں لیٹر پٹرول ٹرک سے نکل کر سڑک اور کھیتوں میں بہنے لگا۔ قریبی بستیوں سے ہزاروں لوگ جری کین‘ پتیلے‘ دیگچیاں‘ ڈرم‘ جگ‘ بوتلیں‘ واٹر کولر یہاں تک کہ کھانا پکانے والے برتن اُٹھائے‘ گھروں سے نکلے اور بہتے ہوئے پٹرول کو مالِ غنیمت‘ بلکہ شِیرِ مادر سمجھتے ہوئے‘ ٹوٹ پڑے۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ تیل لُوٹنا چاہتے تھے۔ بچے بوڑھے عورتیں مرد سب لگے ہوئے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہائی وے پر سفر کرنے والے افراد نے بھی اپنی گاڑیاں روک کر تیل لُوٹنا شروع کر دیا۔ پھر کسی نے سگرٹ سلگایا یا نہ جانے کیا ہوا کہ تیل نے آگ پکڑ لی۔دھماکا ہوا۔ آگ نے سب کو لپیٹ میں لے لیا۔ ایک سو پچاس سے زیادہ افراد جل کر کوئلہ ہو گئے۔ زخمی اس کے علاوہ تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ سب غریب تھے؟ وہ جو اپنی گاڑیوں میں سوار وہاں سے گزر رہے تھے اور رک کر لُوٹ میں شامل ہو گئے کیا وہ ...