اشاعتیں

دسمبر, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اگر من موہن سنگھ پاکستان میں ہوتے

سوال یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے سُرگ باش ہونے والے ڈاکٹر من موہن سنگھ پاکستان میں ہوتے تو کیا دو بار وزیراعظم بن سکتے تھے؟ اور کیا وہ سب پالیسیاں جو انہوں نے بنائیں‘ بنا سکتے تھے؟؟ 1932ء میں چکوال کے گاؤں گاہ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ لینڈ لارڈ خاندان سے تھا نہ اس کے ماں باپ صنعتکار تھے۔ یہ ایک عام کھتری کنبہ تھا۔ وہ مقامی سکول میں اردو میڈیم میں پڑھ رہا تھا کہ ملک تقسیم ہو گیا۔ اس کا دادا قتل کر دیا گیا۔ یہ کنبہ بھارت چلا گیا۔ بعد میں جب وہ وزیراعظم بنا تو اسے کئی بار پاکستانی حکمرانوں نے‘ اور گاؤں والوں نے بھی دعوت دی کہ ایک پھیرا لگا جائے مگر یہ اُسے مشکل لگا۔ دادا کا قتل ہمیشہ اس کی یادوں کا اذیتناک حصہ رہا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ وہاں میرا دادا قتل ہوا تھا اور یہ کہ یادیں تلخ ہیں!  من موہن سنگھ کا تعلیمی کیریئر قابلِ رشک تھا! امتحانوں میں ہمیشہ اوّل پوزیشن حاصل کی۔ بھارتی پنجاب یونیورسٹی سے‘ جو تب ہوشیار پور میں واقع تھی‘ اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد من موہن سنگھ کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے۔ واپس آکر پنجاب یونیورسٹی میں کچھ عرصہ پڑھایا۔ پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ل...

ترکِ وطن پر ایک اہم تحقیق

''مغرب کی آزاد معاشرت میں سکونت اختیار کرنے والے تارکینِ وطن ایک وقت تک تو اسے باعثِ اطمینان تصور کرتے ہیں لیکن پھر صورتحال پیچیدہ ہونے لگتی ہے۔خصوصاً جب ان کی اولاد اس معاشرت میں پل کر جوان ہو تی ہے اور ان کی عادات و اطوار یا ترجیحات اسی معاشرے سے ہی میل کھاتی ہیں تو والدین کو فکر ستانے لگتی ہے۔یہ عجیب تضاد ہے جو محبت اور نفرت کے رشتے پر استوار ہے کہ ایک طرف تو وہ مغربی چکا چوند سے متاثر ہیں جبکہ دوسری طرف اس سے نفرت بھی کرتے ہیں اور اپنے مذہبی عقائد سے دور ہونے کا خطرہ انہیں بسا اوقات شدت پسند مسلمان بنا دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں پرورش پانے والی نسل اس دہرے معیارِ زندگی کی وجہ سے کئی نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہوئی ہے‘‘۔ مندرجہ بالا سطور کو پڑھتے ہوئے ہم محسوس کرتے ہیں کہ کمال کی یہ تشخیص ہمارے ذہن کے نہاں خانے میں بھی تھی مگر ہمیں اتنے بلیغ الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ ان سطور کی خالق‘ پروفیسر ڈاکٹر عذرا لیاقت نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے! کتابیں ہر ہفتے‘ بلکہ ہر روز موصول ہوتی ہیں۔ کچھ زیادہ اچھی‘ کچھ کم اچھی! مگر ڈاکٹر عذرا لیاق...

جہالت + جاہلیت

جج نے قرآنی آیات کا حوالہ دے کر بہن کو بھائیوں سے جائداد میں حصہ دلوایا۔ جج نے سورۃ النساء کی گیارہویں آیت پڑھ کر سنائی۔ جج نے کہا کہ اسلام نے وراثت کی تقسیم کے بہت واضح اصول اور قوانین بتائے ہیں۔ اس نے یہ بھی سمجھایا کہ لڑکوں کو لڑکیوں سے دُگنا ملتا ہے اس لیے کہ مردوں پر بیوی بچوں اور ماں باپ کی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ انصاف مملکتِ خدادداد میں نہیں ہوا۔ یہ بھارت میں ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی ایک مسلمان عورت تھی۔ بھائیوں نے اس کا حصہ ہڑپ کر لیا۔ وہ عدالت میں گئی۔ مقدمے نے طول کھینچا۔ ایسا طول کہ وہ مر ہی گئی۔ اس کے بعد اس کے بڑے بیٹے نے یہ مقدمہ سنبھالا۔ وہ بھی رزقِ خاک ہو گیا۔ عورت کے چھوٹے بیٹے نے یہ جنگ جاری رکھی اور آخرکار کئی دہائیوں کے بعد انصاف حاصل کر لیا۔ اس عورت کی بہادری کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے کسی ہچکچاہٹ اور کمپلیکس کے بغیر قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مقدمے کی طوالت اس کا حوصلہ توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ پھر اس کے بیٹوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ایک ہندو جج تھا جس نے قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں۔ اور یہ وضاحت بھی کر دی کہ مرد ک...

ایک اور ہی طرح کا جھگڑا

انور مسعود نے چائے اور لسی کے جھگڑے کو نظم کیا ہے۔ شدید ضرورت ہے کہ پلاؤ اور بریانی کے جھگڑے پر بھی بات کی جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ پلاؤ کی جنم بھومی وسط ایشیا ہے۔ سوویت یونین نے ان علاقوں پر قبضہ کیا تو جہاں کریم‘ کریموف بنا اور عبدالرحمن‘ عبد الرحمانوف بنا وہاں بیچارہ پلاؤ بھی پلاؤف اور پھر پلاف بن گیا۔ اب بہت سے ملکوں میں اسے پلاف کہا جاتا ہے‘ مگر اس کے علاوہ بھی اس کے بہت سے نام ہیں۔ مادہ سب کا پلاؤ ہی ہے۔ وسط ایشیا سے نکل کر پلاؤ پوری دنیا میں پھیلا۔ مغل ہندوستان میں آئے تو ساتھ پلاؤ بھی لائے۔ جنوبی ہند کے تامل دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ پہلے سے موجود تھا مگر یہ دعویٰ باطل ہے۔ بو علی سینا نے اپنی معروف تصنیف ''القانون‘‘ میں پلاؤ کا ذکر کیا ہے۔ شرقِ اوسط میں اسے بخاری پلاؤ کہتے ہیں۔ یہ نسبت بھی وسط ایشیا ہی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بریانی سے میری اَن بن ذاتی نوعیت کی ہے۔ اس میں مرچ اتنی زیادہ ڈالتے ہیں کہ کم از کم میرے لیے اسے کھانا ایک سزا سے کم نہیں۔ پاک وہند پر اس وقت اصل حکمرانی مرچ کی ہے۔ لال مرچ ہو یا ہری‘ ہر پکوان میں ٹھونسی جاتی ہے۔ سموسہ بھی وسط ایشیا سے آ...

دو شرمناک مبارکبادیں

ہماری تاریخ میں دو مبارکبادیں بہت شرمناک ہیں!! ایک برطانوی غلامی کے عہد میں اور دوسری پاکستان بننے کے بعد! عید کی صبح ہمارے جاگیردار‘ زمیندار‘ وڈیرے اور گدی نشین ڈپٹی کمشنر بہادر کی کوٹھی کا رخ کرتے تھے۔ یہ لوگ عام طور پر خاص قسم کی اچکن پہنتے تھے جو سائیڈوں سے نہیں کٹی ہوتی تھی بلکہ پیچھے سے درمیان میں چاک ہوتا تھا۔ سر پر طُرّے والی دستار ہوتی تھی۔ یہ کلف زدہ طُرّے اتنے ہی اکڑے ہوئے ہوتے تھے جتنے یہ وڈیرے اور گدی نشین عوام کے سامنے اکڑے ہوئے ہوتے تھے۔ کسی سفید چمڑی والے کی موجودگی میں یہ اکڑ اڑ جاتی تھی اور یہ لوگ رکوع کی حالت میں ہو جاتے تھے۔ انگریز ڈپٹی کمشنر‘ وسیع و عریض کوٹھی کے اندر سو رہا ہوتا تھا۔ یہ سب ٹوڈی کوٹھی کے لان میں کھڑے ہو جاتے تھے اور پہروں کھڑے رہتے تھے۔ بہت دیر کے بعد ڈی سی جاگتا تھا۔ پھر اندر سے ایک چپڑاسی نمودار ہوتا تھا اور اعلان کرتا تھا کہ صاحب بہادر نے آپ حضرات کی عید مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے تھے اور ایک دوسرے ہی سے گلے ملتے تھے۔ اس کامیابی اور سرخروئی کے بعد یہ اپنے اپنے گھروں کو چل دیتے تھے۔ آج کل منتخب ایوانوں میں باہم...

اُترن‘ اُترن اور اُترن

لاہور‘ ایمپریس روڈ سے گزر تے ہوئے ریلوے سٹیشن جا رہے تھے۔ مقامی ڈرائیور نے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ''ادھر دیکھیے‘ لنڈے بازار کی بہاریں‘‘!! چار پانچ گھنٹوں کے بعد راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر اُترے اور گوالمنڈی پُل کا رخ کیا۔ بائیں طرف لنڈا بازار تھا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ کئی سو دکانیں قمیضوں‘ کوٹوں‘ اوور کوٹوں‘ سویٹروں‘ جرسیوں‘ ٹوپیوں‘ پتلونوں‘ جیکٹوں‘ جُرابوں‘ جوتوں اور پردوں سے اَٹی ہوئی تھیں۔ یہ چیزیں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تھیں۔ اور یہ صرف ایک شہر کا حال ہے۔ یہ وہ ملبوسات ہیں جو امیر ملکوں کے باشندوں نے پہنے اور جب ان سے اُکتا گئے تو ہماری طرف بھیج دیے۔ ان ملبوسات کو غریب ہی نہیں مڈل کلاس بھی پہنتی ہے۔ ہماری ریاست روٹی اور مکان نہیں دے سکتی تو کپڑا کیسے دے گی؟ پانی‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ امن و امان‘ حفاظت‘ ہر شے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ شرم کیسی؟ کہاں کی عزتِ نفس؟ ہم آسودہ حال ملکوں کی اُترن پہن کر گزارہ کر رہے ہیں۔ اُترن کہیے یا لنڈا‘ یا سیکنڈ ہینڈ! بات ایک ہی ہے! ہم بطور قوم وہ ہاری ہیں جنہیں وڈیرے اپنی اُترن بخشتے ہیں اور ہم لے کر سر جھکاتے ہوئے‘ سینے پر...

بظاہر سب ایک جیسے ہیں

سفید ریش حکیم صاحب کے چہرے کو دیکھا تو دل میں جیسے سکون کی ایک لہر سی اُٹھی! طمانیت کا احساس ہوا! اُن دنوں میری طبیعت خراب رہتی تھی۔ دوا مستقل لینے سے بلڈ پریشر تو کنٹرول میں تھا مگر ٹینشن پھر بھی رہتی تھی۔ سر درد‘ چڑچڑا پن‘ ہمیشہ رہنے والی بے خوابی میں مزید اضافہ‘ ایک قسم کی بے اطمینانی‘ بھوک کی کمی! مردم بیزاری‘ تھکاوٹ! بیگم کو کسی نے ان حکیم صاحب کا بتایا تھا۔ ان کا مطب اسلام آباد کی کراچی کمپنی میں واقع تھا۔ ہفتے میں ایک دن اپنے قصبے سے تشریف لاتے تھے اور مطب میں بیٹھتے تھے۔ ہم گئے تو زیادہ رش نہیں تھا۔ ہماری باری آئی تو بہت خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ ان کے چہرے کو دیکھا تو عجیب نرمی کا احساس ہوا جیسے گرمی میں خنکی کی لہر چلنے لگے یا جیسے دھوپ میں سر پر بادل کا سایہ آ پڑے۔ بیگم نے انہیں میری صورتحال بتائی۔ ساری شکایات سن کر انہوں نے پوچھا: کرتے کیا ہیں؟ یعنی پیشہ اور مصروفیات! بیگم نے پروفیشن بتایا اور اُس وقت کی پوسٹنگ کی نزاکت‘ مکروہات اور مشکلات سے بھی آگاہ کیا۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ کالم بھی لکھتے ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ حکیم صاحب نے میرا ہاتھ مستقل اپنے ہاتھ میں لے رکھا ت...

قصیدہ بُردہ… ایک نئے رنگ میں

یہ اشعار کس نے نہیں سنے ہوں گے: یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے اور یہ شعر تو ضرب المثل ہے: دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو افسانہ سنا ڈالا تصویر دکھا ڈالی اور محبت کے یہ اشعار کتنے ہی عشاق کے سفری تھیلوں میں اور کتنے ہی ہجر گزیدوں کے تکیوں کے نیچے پڑے ہوں گے: جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں؍  مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے‘ نہیں‘ ایسا نہیں؍  کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد؍  اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں؍  تم سمجھتے ہو‘ بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق؍  تم کو اس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں؍  تجھ سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب؍  عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں؍  مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل؍  جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں؍  یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش؍  وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں؍  خامشی! کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی!؍  عرضِ...

سپریم کورٹ کی خدمت میں التماس اور بشار الاسد

بشار الاسد آنکھوں کا ڈاکٹر تھا مگر اندر سے نابینا تھا۔ یہ سقم اسے باپ سے وراثت میں ملا تھا۔ ایک سرکاری ادارے میں غبن کا کیس پکڑا گیا۔ بینک سے ساز باز کر کے یہ مجرم ہر ماہ ایک خطیر رقم ہڑپ کرتا رہا یہاں تک کہ کئی ماہ گزر گئے اور اس نے کروڑوں روپے جمع کر لیے۔ بالآخر پکڑا گیا۔ تفتیش کرنے والے افسر نے اس سے ایک دلچسپ سوال پوچھا کہ جب ایک معقول رقم جمع ہو گئی تھی تو پکڑے جانے سے پہلے بھاگ کیوں نہ گئے؟ اس نے کفِ افسوس ملتے ہوئے جواب دیا کہ ''سر! یہی تو غلطی ہو گئی۔ ہر ماہ سوچتا تھا کہ اب امریکہ بھاگ جاؤں مگر پھر اپنے آپ کو سمجھاتا کہ کچھ روپیہ مزید جمع کر لوں۔ یہی کشمکش جاری رہی اور آخرکار میں پکڑا گیا‘‘۔ ایک آمر کی یہی ذہنیت ہوتی ہے۔ بشا ر الاسد نے حسنی مبارک‘ قذافی اور زین العابدین وغیرہ کا انجام دیکھا مگر سبق نہ حاصل کر سکا۔ آنکھوں پر خود بینی‘ خود پسندی اور خود فریفتگی کی چربی چڑھ جاتی ہے۔ عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں۔ سامنے دیوار پر لکھا نہیں نظر آتا۔ کہتے ہیں یحییٰ خان نے لوگوں کے نعرے سنے تو حیران ہو کر کہا ''میں نے کیا کیا ہے؟‘‘۔ آپ آمروں کی عقل دیکھیے۔ تیونس کا ڈکٹیٹر زین...

سول نافرمانی سے لے کر پاکستان نیوی تک

رفعت بھابی کا فون تھا۔ سخت گھبرائی ہوئی تھیں۔ بُلا رہی تھیں۔ کہنے لگیں ''بھائی فوراً آئیے اور اپنے دوست کو سمجھائیے۔ ان کا دماغ چل گیا ہے‘‘۔ میں اور نصیر بچپن کے دوست تھے۔ لنگوٹیے یار! زندگی بھر کے سنگی! از حد بے تکلف! نصیر تھا ذرا سخت مزاج! بچوں پر سختی کرتا تھا۔ آئے دن اس کے گھر میں بحران پیدا ہوتا! جب رفعت بھابی کے والدین حیات تھے تب بھی انہوں نے والدین کو کبھی نہیں بتایا‘ مجھے ہی بتاتی تھیں۔ میں ہی جا کر حالات سدھارتا تھا۔ اب اس عمر میں حالات بہتر ہو گئے تھے۔ نصیر کی طبیعت میں ٹھہراؤ آ گیا تھا۔ اسی لیے بھابی کی یہ فون کال میرے لیے غیرمتوقع تھی۔ سوچنے لگا کہ اب کیا چاند چڑھایا ہو گا اس پیرِ فرتوت نے! قصہ مختصر‘ پہنچا تو عجیب منظر دیکھا۔ نصیر کے ہاتھ میں پھاوڑا تھا۔ وہ گھر کی بیرونی‘ یعنی لان والی دیوار کو گرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ساتھ رفعت بھابی کھڑی تھیں اور روکنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مجھے دیکھا تو روہانسی ہو کر بولیں‘ بھائی انہیں روکیے! پورے گھر کو منہدم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے سب سے پہلے اس کے ہاتھ سے پھاوڑا لیا۔ پھر پوچھا کیا کر رہے ہو‘ دماغ تو نہیں خراب ہو ...