اشاعتیں

نومبر, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

میلبورن‘ جگر گوشے اور اردو سوسائٹی

14 سالہ حمزہ کو اس کی ماں جگاتی رہی مگر نہ جاگا۔ دیر سے اُٹھا۔ ناشتہ کرنے ہی لگا تھا کہ سکول لے جانے والی گاڑی آگئی۔ وہ ناشتہ کیے بغیر چلا گیا اور یہ بات میرے لیے سوہانِ روح بن گئی! بیگم کو بتایا کہ سخت پریشان ہوں‘ حمزہ ناشتہ کیے بغیر سکول چلا گیا‘ اسے بھوک لگے گی۔ انہوں نے تسلی دی کہ لنچ تو لے کر گیا ہے۔ مگر میری پریشانی اسی طرح رہی۔ لنچ سے پہلے تو بھوک لگے گی۔ اس کے سکول کا نام معلوم تھا نہ لوکیشن۔ معلوم ہوتا تو ٹیکسی پر جا کر ناشتہ دے آتا۔ اس کے ابا یا اماں سے سکول کا ایڈریس پوچھتا تو انہوں نے ایڈریس دینے کے بجائے کہنا تھاکہ اسے سمجھائیے وقت پر جاگا کرے۔ دو بار اسے ٹیلی فون کال کی مگر اس نے نہیں اٹھائی۔ میں پورا دن لکھنے پڑھنے کا کام کر سکا نہ آرام! واک پر نکلا مگر دل نہ لگا اور ایک دو فرلانگ کے بعد واپس آگیا۔ خدا خدا کرکے چھٹی کا وقت ہوا اور وہ واپس آیا۔ پہلے تو اسے سینے سے لگایا پھر پوچھا کہ دن بھر بھوکے رہے؟ ہنس کر کہنے لگا: نہیں کیونکہ جاتے ہوئے بسکٹ ساتھ لے گیا تھا۔ پوچھا: فون کیوں نہیں اٹھایا؟ کہنے لگا: ابو! میں اُس وقت کلاس میں تھا۔ ایک دن اسے کہا کہ چلو بازار چلتے ہیں‘ ...

ایک کالم کا ردعمل

کالم نگاری کے بتیس برسوں میں شاید ہی کسی قاری کامکتوب کالم میں نقل کیا ہو۔مگر اب کے‘ ایک ایسا رد عمل موصول ہوا ہے جسے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا ضروری ہے تا کہ سِکّے کا دوسرا رُخ بھی دیکھا جا سکے۔یہ ایک پروفیسر صاحب کا ای میل نما خط ہے۔ان سے خط کے مندرجات نقل کرنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے اجازت دی مگر اس شرط پر کہ ان کا نام اور ان کے تعلیمی ادارے کا نام نہ لکھا جائے۔ اختصار کی خاطر ان کی طویل ای میل کو ایڈٹ کرنا پڑا ہے۔ کالم نگار کا ان خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ '' آپ کا انیس نومبر2024ء کا کالم ( سولہ لاکھ پاکستانیوں کی ہجرت ) مایوسی پھیلانے کے علاوہ کسی کام کا نہیں۔ آپ نے تصویر کا ایک رخ دکھا یا ہے۔ آپ نے ملک کی ایسی تصویر کھینچی ہے جو ایک طرف تو حقیقت پسندانہ نہیں اور دوسری طرف بے شمار پاکستانیوں کو اپنے ملک سے بد دل کر سکتی ہے۔ یہ جو ہر طرف مہنگائی کا ہا ہا کار مچا ہوا ہے‘ یہ صرف شور ہے۔ اس کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر قیمتیں چڑھی ہیں تو دوسری طرف آمدنیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ باورچی اور ڈرائیورجن کی دو تین سال پہلے ماہانہ اجرت پندرہ اور بیس ہزار کے درمیان تھی ا...

ایک سو بتیس برسوں پر پھیلی ہوئی کہانی …(2)

فتح دین کا بیٹا عبد المجید واپس پرتھ پہنچ گیا۔اب وہ بیس سال کا تھا۔ آتے ہی اس کے اپنے والد سے اختلافات پیدا ہو گئے۔قصور باپ کا تھا‘ نہ بیٹے کا! فتح دین اس اثنا میں ایک سفید فام عورت سے شادی کر چکا تھا۔ اُس وقت کے قوانین کی رُو سے دوسری شادی کی آسٹریلیا میں اجازت تھی بشرطیکہ پہلی بیوی اجازت دے دے۔فاطمہ بی بی کو تا دمِ مرگ میاں کے عقدِ ثانی کا علم ہی نہ تھا۔عبد المجید جو پہلے ہی ماں کی جدائی سے غمزدہ تھا‘ سوتیلی ماں کے ساتھ نہ نبھا سکا۔ روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر اس نے مغربی آسٹریلیا کو خیر باد کہا اور جنوب کا رُخ کیا۔ ایڈیلیڈ سے ہوتا ہوا میلبورن پہنچا۔ یہ صوبہ وکٹوریہ کہلاتا ہے۔ اسی میں ایک خوبصورت علاقہ وادیٔ لاٹروب ہے۔ عبد المجید نے اس وادی کو مسکن بنایا اور بہت سے دوسرے پردیسیوں کی طرح پھیری کا کام شروع کر دیا۔ گھوڑا گاڑی اور ایک وفادار کتا اس کی کل متاع تھی۔ اس کام میں سرمائے کی ضرورت نہ تھی۔ آج کی طرح اُس زمانے کا آسٹریلیا بھی منتشر آبادیوں پر مشتمل تھا۔ سپر سٹوروں کا رواج نہ تھا۔ بڑی بڑی کمپنیاں تھوک فروشوں کو مال ادھار پر دیتیں۔ یہ تھوک فروش چینی ‘ لبنانی اور ہندوستانی ہ...

جوائنٹ فیملی سسٹم اچھا نہ بُرا !

ایک ضروری کام کے لیے اپنے دوست حامد کو فون کیا۔ صبح آٹھ بجے کا وقت تھا۔ میرا خیال تھا سو رہا ہو گا اور میری بات سننے سے پہلے میری شان میں نازیبا کلمات کہے گا کہ جگا کیوں دیا۔ مگر فون کا جواب بھابی نے دیا۔ کہنے لگیں: حامد پوتے اور پوتی کو سکول چھوڑنے گئے ہیں اور فون ساتھ نہیں لے کر گئے۔ دوپہر تک میں اپنے مسائل میں الجھا رہا۔ ظہر کے بعد پھر حامد کو فون کیا۔ پوچھا: کہاں ہو؟ کہنے لگا: یار پوتے پوتی کو سکول سے لینے جا رہا ہوں۔ میں ہنسا اور کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ نئی ڈیوٹی سنبھال لی ہے کیا؟ کہنے لگا: یار! بیٹا اور بہو دونوں صبح ساڑھے سات بجے اپنے اپنے کام پر چلے جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ بچوں کے لیے وین لگوائیں‘ میں خود ہی انہیں چھوڑنے اور لینے جاتا ہوں۔ وقت اچھا گزر جاتا ہے ان کے پاس۔ بیگم کو اور مجھے کھلونے مل گئے ہیں۔ ورنہ یہ لوگ ملک سے باہر تھے تو ہم سارا دن گھر میں بور ہوتے رہتے تھے۔ شام کو ایک قریبی عزیز ملنے آ گئے۔ بہت پریشان تھے اور مشورہ چاہتے تھے۔ ان کی بیگم اور بہو کی آپس میں بن نہیں رہی تھی۔ روز روز کی چخ چخ سے تنگ آ گئے تھے۔ بہو زبان سے نہیں کہتی تھی مگر چاہتی تھی کہ الگ ...

ہم کب سدھریں گے؟

خدا کی پناہ!! جو خبر بھی آتی ہے‘ شرمناک ہی آتی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے جو وجوہ پاکستانیوں کے ویزے بند کرنے کی بتائی ہیں‘ ایسی ہیں کہ ہم پاکستانیوں میں ذرہ برابر بھی عزتِ نفس ہو تو ڈوب مریں۔ تازہ ترین خبر کی رُو سے یہ وجوہ سرکاری سطح پر پاکستانی سفیر کو بھیج دی گئی ہیں۔ اولین وجہ جو بھی سنے گا اسے ہماری بے وقوفی پر ترس بھی آئے گا اور ہنسی بھی! وہ یہ کہ ہمارے ہم وطن‘ جو متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں‘ وہ متحدہ عرب امارات ہی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں! اس تنقید کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ دنیا میں جو ''استعمال‘‘ سوشل میڈیا کا ہم پاکستانیوں نے کیا ہے‘ شاید ہی کسی اور قوم نے کیا ہو گا۔ پاکستانی ایک بات بڑے مزے سے کہتے ہیں کہ جاپانیوں نے جو سوزوکی پک اَپ بنا کر بھیجی ہے‘ آکر اس کا استعمال دیکھیں تو بے ہوش ہو جائیں۔ 20‘ 30سواریاں اندر اور آٹھ‘ دس باہر لٹکی ہوئیں! سوشل میڈیا کا استعمال ہمارے ہاں اس سے بھی زیادہ بھرپور ہوا ہے۔ سب سے بڑی وجہ اس کی ہمارا ویلا ہونا ہے۔ ویلا پنجابی میں اُسے کہتے ہیں جس کے پاس وقت ہی وقت ہو۔ اس میں تھوڑی سی تضحیک بھی شامل ہے۔ ہم شاید دنیا میں سب...

ایک سال میں سولہ لاکھ پاکستانیوں کی ہجرت

کیا ریاست کو معلوم ہے؟ کیا حکومت کے علم میں ہے؟ گزشتہ سال‘ 2023ء کے دوران‘ سب سے زیادہ تعداد میں جس ملک سے لوگوں نے ہجرت کی‘ وہ پاکستان ہے۔ پاکستان سے باہر بھاگنے والوں کی تعداد سولہ لاکھ سے زیادہ تھی۔ دوسرے نمبر پر سوڈان تھا جہاں سے ساڑھے تیرہ لاکھ سوڈانیوں نے ہجرت کی۔ بھارت تیسرے نمبر پر تھا۔ پونے دس لاکھ بھارتی ہجرت کر کے ملک سے باہر چلے گئے۔ ان اعداد وشمار کا علم ہونے سے پہلے میرا خیال تھا کہ جتنے لوگ پاکستان سے گئے ہیں یا جا رہے ہیں‘ اتنے ہی بھارت سے بھی جا رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ آبادی کا دباؤ ہے۔ اس تاثر کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران بھارت سے آسٹریلیا آنے والوں کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ صرف پاکستان سے نہیں‘ دوسرے ملکوں سے‘ خاص طور پر بھارت سے بھی لوگ نکل رہے ہیں۔ اپنے اس تاثر کی بنیاد پر ایک کالم بھی لکھا۔ مگر جب عالمی اعداد وشمار دیکھے تو معلوم ہوا کہ اصل معاملہ اور ہے۔ یہ آبادی کا دباؤ نہیں‘ ملکی حالات سے مایوسی ہے جو لوگوں کو بھاگنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سوال وہی ہے جو اوپر پہلی سطر میں کیا ہے۔ کیا اس ملک کے حکمرانوں کو اس صورتحال...

فقیرنی‘ لندن اور جنیوا

ایک محترم وفاقی وزیر نے بھیک مانگتی فقیرنی کو‘ میڈیا کے بقول‘ جھاڑ پلائی ہے۔ اسے مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ''آپ کے گھر کے مرد کام نہیں کرتے کہ انہوں نے آپ کو کام پر لگا دیا ہے۔ بھیک مانگنا شرمناک کام ہے‘‘۔ فقیرنی نے بعد میں بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے مجبور ہے۔ گھر چلانا مشکل ہو چکا ہے۔ محترم وفاقی وزیر کا یہ اقدام‘ ہم سمجھتے ہیں‘ لائقِ تحسین ہے۔ اصل میں یہ اصلاحِ معاشرہ کی مہم ہے جو انہوں نے شروع کی ہے۔ ایک بات وہ بھول گئے۔ انہیں چاہیے تھا کہ فقیرنی کو آسان ترکیب بھی بتاتے کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کھاؤ۔ یاد آیا کہ جب عمران خان اپنی تقریروں میں لوگوں کے نام رکھتے تھے تو کہا جاتا تھا‘ اور درست کہا جاتا تھا‘ کہ کلامِ پاک میں تضحیک آمیز نام رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ یقینا آج بھی کہا جائے گا‘ اور کہنا بھی چاہیے‘ کہ کلام پاک میں سوالی کو جھڑکنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ ایک تو دیتے کچھ نہیں اوپر سے جھڑکتے بھی ہیں! وزیر صاحب کی اتباع میں ان کے شہر کی پولیس نے بھی اصلاحِ معاشرہ کی مہم شروع کر دی۔ آخری خبریں آنے تک 19بھکاریوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ا...

ہم فارغ لوگ

ٹیکسی کے ڈرائیور کی عمر مشکل سے 19‘ 20برس ہو گی۔ سرگودھا سے تھا۔ ایک سال پہلے آسٹریلیا آیا تھا۔ جتنی دیر اس کے ساتھ سفر کیا‘ آسٹریلیا کی تعریفیں کرتا رہا۔ میں نے پوچھا: آسٹریلیا کی کون کون سی باتیں تمہیں خوش آئی ہیں؟ کہنے لگا: یہاں جھوٹ کوئی نہیں بولتا‘ سب وقت کے پابند ہیں‘ ہر کوئی قانون کی پابندی کرتا ہے‘ پانچ بجے دکانیں بند ہو جاتی ہیں‘ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو ڈاکٹر خود انتظار گاہ میں آکر مریض کو بلاتا ہے اور ساتھ لے جاتا ہے‘ یہاں گاڑی چلانا آسان ہے کیونکہ غلط سائیڈ سے کسی گاڑی کے آنے کا کوئی خطرہ ہے نہ امکان۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں گنوائیں۔ اس سے پوچھا: کیا یہ سب کچھ کرنا ہم پاکستانیوں کے لیے نا ممکن ہے؟ ظاہر ہے اس کا اس بچے کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ پھر بتانے لگا کہ چھوٹے بھائی کو آسٹریلیا منگوانا ہے۔ پوچھا: کیا کرتا ہے؟ کہنے لگا ایئر کنڈیشنر کی فٹنگ اور مرمت کا کام سیکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو بہت اچھا ہنر ہے۔ پہلے اس کا م کی ڈیمانڈ صرف گرمیوں میں ہوتی تھی۔ اب انورٹر آ گئے ہیں‘ سارا سال اے سی چلتے ہیں۔ اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔ کہنے لگا: یہی تو اسے سب سمجھ...

بھارت ہم سے کیوں پیچھے رہ گیا؟

ہم نے سفر ساتھ ساتھ شروع کیا تھا! پھر ہم آگے نکل گئے۔ بھارت پیچھے رہ گیا۔ کئی کوس‘ کئی میل پیچھے! کیوں؟ یہ ایک سادہ سی بات ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں  ہم نے اپنے عوام کی امنگوں کا خیال رکھا۔ ان کی لسانی‘ نسلی اور علاقائی حساسیت کو سمجھا اور مطمئن کیا۔ ہم نے کئی نئے صوبے بنائے۔ جنوبی پنجاب اور پوٹھوہار کے نئے صوبے بنائے۔ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ اور شنکیاری سے لوگوں کو پشاور جانا پڑتا تھا۔ ہم نے ہزارہ کے نا م سے الگ صوبہ بنا دیا۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کو پشاور جانے کی صعوبت سے بچاتے ہوئے جنوبی کے پی کا ایک اور صوبہ بنایا۔ سندھ کے شمالی اضلاع شکارپور‘ کشمور‘ جیکب آباد‘ سکھر‘ خیرپور‘ دادو وغیرہ کو کراچی کے نکاح میں دینے کی کیا تُک تھی۔ ہم نے انتظامی طور پر شمالی اضلاع کو کراچی کی انتظامیہ سے نکال کر شمالی سندھ کے نام سے الگ صوبہ بنا دیا۔ نئے صوبے بنانے سے اختیارات کی مرکزیت ختم ہو گئی۔ اب تھرپارکر‘ عمرکوٹ‘ میرپور خاص اور سانگڑ کے اضلاع پر مشتمل مشرقی سندھ کے نام سے ایک اور صوبہ بنا رہے ہیں! سیاستدان کراچی‘ لاہور‘ پشاور کو خوش کرنے کے بجائے مقامی مسائل پر توجہ ...

شاہ کی ڈھیری سے میلبورن تک … (3)

ڈاکٹر صہیب احمد مختلف ایام میں مختلف کلینکس میں کام کرتے ہیں۔ کیا یہ آسٹریلین حکومت کی پالیسی ہے؟ نہیں معلوم! مگر اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہر علاقے کے لوگوں کو طبی سہولتیں اپنے علاقے میں یا اپنے علاقے کے نزدیک میسر آجاتی ہیں۔ ہم ستمبر میں ان کے پاس گئے۔ انہوں نے معائنہ کیا اور سرجری کا فیصلہ کیا۔ ان کی مصروفیت بے پناہ تھی۔ ایک آنکھ کے لیے اکتوبر کی ایک تاریخ مقرر کی اور دوسری کے لیے نومبر کی۔ اس کے بعد مجھ سے اور میرے بیٹے سے مصنوعی عدسے کے حوالے سے طویل بات چیت کی۔ ہر عدسے کے فوائد تفصیل سے بیان کیے۔ مجھ سے یہاں تک پوچھا کہ اگر فلاں عدسے سے رات کو ستارے نظر نہ آئیں تو کوئی مضائقہ تو نہیں؟ ستارے دیکھنے والی بات بھی خوب رہی۔ گاؤں کی گرمیوں کی راتوں میں باہر صحن میں سوتے تھے تو تاروں بھرا آسمان رات کا ساتھی لگتا تھا۔ قطبی ستارہ بھی دکھائی دیتا تھا اور کہکشاں بھی! عجیب ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا جو آسمان سے اُترتی تھی۔ پھر ہم قصبوں اور آخر کار بڑے شہروں میں آگئے۔ ان شہروں نے ہمیں ہڑپ کر لیا۔ 1985-86ء میں ایک ہتھوڑا گروپ ظہور پذیر ہوا۔ سروں کو کچلا جانے لگا۔ اس کے بعد شہروں میں باہر صحن میں یا چھ...

شاہ کی ڈھیری سے میلبورن تک … (2)

نظر کا چشمہ نویں جماعت ہی میں لگ گیا تھا یعنی چودہ سال کی عمر میں! نمبر بھی کچھ زیادہ ہی تھا۔ عینک کے ساتھ ساری زندگی کی رفاقت رہی۔ اس سے جدائی صرف تین حالتوں میں رہی۔ نہاتے دھوتے وقت‘ نماز کے دوران اور نیند کی حالت میں! عمر بھر جو نصابی اور غیرنصابی‘ فضول اور کارآمد‘ مفید اور غیرمفید‘ سنجیدہ اور غیرسنجیدہ‘ مشکل اور آسان کتابیں پڑھیں اور جس زبان میں بھی پڑھیں‘ نثر کی یا شاعری کی یا جس فن کی بھی‘ عینک کی مدد ہی سے پڑھیں۔ کتاب فروشوں کی طرح عینک سازوں سے بھی دوستی رہی۔ یہ کوئی پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے۔ ایک دن خیال آیا کہ ہمارے ساتھ کے کئی صاحبان نے سفید موتیے (کیٹا ریکٹ) کی سرجری کرا لی ہے۔ ہمیں بھی معائنہ کروا لینا چاہیے۔ اہلیہ کو لیا اور ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے معائنہ کیا اور کہا کہ آپ دونوں میاں بیوی فوراً سرجری کرائیے۔ ان کا انداز اور اصرار کچھ ایسا تھا کہ ہم دل میں قائل نہ ہوئے اور زبان سے ان کا شکریہ ادا کر کے واپس آگئے۔ ایک اور ڈاکٹر صاحب نے بھی یہی رویہ اختیار کیا۔ ان کی باتوں سے بھی کاروبار کی میٹھی میٹھی خوشبو آرہی تھی اور کاروبار کی خوشبو اس مزاج کو ک...

شاہ کی ڈھیری سے شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال تک

کیا تم نے آنکھیں بنوا لی ہیں؟ جی۔ بنوا لی ہیں۔ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ گئی تھی۔ پچھلے ہفتے ہی واپس آئی ہوں۔ یہ وہ مکالمہ ہے جو بچپن میں بارہا سنا۔ عورتوں سے بھی‘ مردوں سے بھی! آنکھیں بنوانے سے مراد ہوتی تھی سفید موتیے  (Cataract)  کا علاج۔ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ کسے کہتے تھے؟ یہ وہی قصبہ ہے جو اب ٹیکسلا کے نام سے مشہور ہے۔ مغل تاریخ میں‘ ٹیکسلا کا نام کہیں نہیں ملتا۔ اگرچہ حسن ابدال کا نام مذکور ہے جہاں اورنگزیب نے قیام کیا۔ مقامی روایات کی رُو سے اُس زمانے میں‘ جہاں اب ٹیکسلا ہے‘ ڈھیری جوگیاں نامی قصبہ آباد تھا۔ ڈھیری اُونچی جگہ کو کہتے ہیں۔ (فتح جنگ شہر میں ایک محلے کا نام ''چاساں آلی ڈھیری‘‘ ہے) ٹیکسلا تو منوں مٹی کے نیچے دبا ہوا تھا۔ یہاں ہندو آبادی تھی اور جوگیوں کی کثرت تھی۔ پندرہویں صدی عیسوی کے آغاز میں ایک بزرگ سید صفدر حیدر افغانستان سے نکلے اور اوچ شریف اور پھر مارگلہ سے ہوتے ہوئے ڈھیری جوگیاں تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ ان کے مرید اور معتقدین بھی تھے۔ انہوں نے ایک اونچی جگہ (ڈھیری) پر قیام کیا۔ ان کی تبلیغ اور اخلاق سے متاثر ہو کر لوگ مسلمان ہو نے لگے۔ یوں یہ ...