میلبورن‘ جگر گوشے اور اردو سوسائٹی
14 سالہ حمزہ کو اس کی ماں جگاتی رہی مگر نہ جاگا۔ دیر سے اُٹھا۔ ناشتہ کرنے ہی لگا تھا کہ سکول لے جانے والی گاڑی آگئی۔ وہ ناشتہ کیے بغیر چلا گیا اور یہ بات میرے لیے سوہانِ روح بن گئی! بیگم کو بتایا کہ سخت پریشان ہوں‘ حمزہ ناشتہ کیے بغیر سکول چلا گیا‘ اسے بھوک لگے گی۔ انہوں نے تسلی دی کہ لنچ تو لے کر گیا ہے۔ مگر میری پریشانی اسی طرح رہی۔ لنچ سے پہلے تو بھوک لگے گی۔ اس کے سکول کا نام معلوم تھا نہ لوکیشن۔ معلوم ہوتا تو ٹیکسی پر جا کر ناشتہ دے آتا۔ اس کے ابا یا اماں سے سکول کا ایڈریس پوچھتا تو انہوں نے ایڈریس دینے کے بجائے کہنا تھاکہ اسے سمجھائیے وقت پر جاگا کرے۔ دو بار اسے ٹیلی فون کال کی مگر اس نے نہیں اٹھائی۔ میں پورا دن لکھنے پڑھنے کا کام کر سکا نہ آرام! واک پر نکلا مگر دل نہ لگا اور ایک دو فرلانگ کے بعد واپس آگیا۔ خدا خدا کرکے چھٹی کا وقت ہوا اور وہ واپس آیا۔ پہلے تو اسے سینے سے لگایا پھر پوچھا کہ دن بھر بھوکے رہے؟ ہنس کر کہنے لگا: نہیں کیونکہ جاتے ہوئے بسکٹ ساتھ لے گیا تھا۔ پوچھا: فون کیوں نہیں اٹھایا؟ کہنے لگا: ابو! میں اُس وقت کلاس میں تھا۔ ایک دن اسے کہا کہ چلو بازار چلتے ہیں‘ ...