اشاعتیں

اکتوبر, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

نور مقدم

فروری 2022ء میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے نور مقدم کے قاتل کو سزائے موت سنائی اور ساتھ ہی پچیس سال کی قید بامشقت کی سزا بھی! ایک سال ایک ماہ بعد‘ یعنی مارچ 2023ء میں‘ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائے موت کی توثیق کر دی اور پچیس سال کی قید بامشقت کو بھی سزائے موت میں بدل دیا‘ یعنی سزائے موت دو بار دی جائے گی۔ ایک ماہ بعد یعنی اپریل 2023ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اپیل دائر کر دی گئی۔ اپیل دائر کیے ہوئے صرف ڈیڑھ سال ہوا ہے۔ حیران کن امر یہ ہوا کہ مقتولہ کے والد نے چار دن پہلے نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کر ڈالی۔ یہ اس کی مقتولہ بیٹی کی سالگرہ کا دن بھی تھا۔ والد نے دہائی دی کہ اپیل دائر کیے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اور کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین نے اس موقع پر کہا کہ ''یہ ایک اوپن اینڈ شَٹ کیس ہے (یعنی ایسا کیس جس میں کوئی ابہام نہیں)۔ ملزم کے خلاف مکمل ثبوت موجود ہے مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر مقدمہ التوا میں چلا آ رہا ہے‘‘۔ سارا معاملہ افسوسناک ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ حیرت انگیز بھی! مقتولہ ک...

یہ نشہ بھی آزما کر دیکھیے

پنڈی سے لاہور جانا تھا۔ رانا صاحب کہنے لگے: میرے ساتھ چلو‘ راستے میں گپ شپ ہو گی۔ رانا صاحب اس نفسیاتی خوف میں مبتلا ہیں کہ ڈرائیو کرتے ہوئے انہیں نیند نہ آلے۔ اس لیے ہمیشہ کسی دوست کو ساتھ بٹھا لیتے ہیں کہ وہ راستے میں ان کا سر کھاتا رہے یا وہ اس کا سر کھاتے رہیں۔ اس دفعہ یہ اعزاز میرے حصے میں آیا۔ حالانکہ پنڈی اور لاہور کے درمیان ریل کار پارلر کا سفر مجھے اتنا محبوب ہے کہ میں اسے پکنک کے برابر سمجھتا ہوں۔ ریل کے سفر میں وہ سارا ادب یاد آ جاتا ہے جو انگریزی اور اردو میں ریل پر لکھا گیا ہے۔ تاہم ریل کے سفر کی رانا صاحب نے کچھ تلافی یوں کر دی کہ گاڑی موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ پر ڈال دی۔ جی ٹی روڈ کا سفر غور کیجیے تو تاریخ کا سفر ہے۔ زندگی راستے میں جگہ جگہ گنگناتی‘ مہکتی اور اپنے رنگ دکھاتی نظر آتی ہے۔ راستے میں بازار ہیں‘ شہر‘ قصبے اور قریے ہیں۔ راستے میں کلچر‘ تہذیب اور ثقافت ہے۔ ایک اپنائیت ہے‘ بلکہ یوں کہیے کہ پاکستانیت ہے۔ وزیر آباد کی مچھلی ہے۔ راہوالی کی قلفی ہے۔ جگہ جگہ چائے خانے ہیں۔ ٹرک ہوٹل ہیں۔ ڈھابے ہیں۔ بیکریاں ہیں۔ کسی بھی قصبے کے بازار میں داخل ہو جائیں تو دکانوں م...

تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے

! پیدائش تو ماشا اللہ پاکستان کی ہے مگر رومانس بھارت کے ساتھ اتنا ہے جیسے کل ہی وہاں سے سب کچھ چھوڑ کر تشریف لائے ہیں۔ محلات کا سلسلہ ایسا تعمیر کرایا کہ عباسیوں کے دور میں البرامکہ نے بغداد میں کیا بنوائے ہوں گے! برامکہ نے تو بغداد کے اندر محلات بنوائے تھے‘ آپ نے لاہور کے نواح میں عظیم الشان محلات پر مشتمل ایک نیا شہر ہی بسا دیا۔ اور نام اس کا جاتی امرا رکھا۔ جاتی امرا سے ان کے والد گرامی مرحوم نے ہجرت کی تھی‘ خود انہوں نے نہیں! یہ کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات بھی نہیں۔ من موہن سنگھ کو بھی اپنے چھوڑے ہوئے گاؤں سے پیار ہے۔ چکوال کے گاؤں ''گاہ‘‘ میں انہوں نے بچپن گزارا ہے۔ افسوس! ان کے پاس وسائل نہیں تھے۔ عقل بھی نہیں تھی کہ اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے۔ ایف بی آر میں ایک دن ''ایس آر او‘‘ جاری کرتے۔ فائدہ اٹھا کر دوسرے دن کینسل کر دیتے۔ بیچارے من موہن سنگھ! یورپ میں جائیداد تو کیا بناتے‘ انڈیا میں بھی محلات کا شہر نہ بسا سکے کہ اس کا نام ''گاہ‘‘ رکھ دیتے! یہ خوش قسمتی صرف ہمارے میاں صاحب ہی کے نصیب میں تھی!
محتاط ماشا اللہ اتنے ہیں کہ جو بات پاکستانی صحافیوں سے کرنے کی ہ...

ایک درد ناک ملاقات

آج کل جہاں قیام پذیر ہوں وہاں سے لائبریری بیس منٹ کی واک پر ہے۔ دن کو کسی بھی وقت لائبریری چلا جاتا ہوں۔ کچھ وقت وہاں گزارتا ہوں۔ لائبریری سے نکلتا ہوں تو دس منٹ کے فاصلے پر ایک بیکری ہے۔ کچھ دیر اس میں بیٹھتا ہوں۔ یہ بیکری بھی ہے‘ کافی شاپ بھی اور چائے خانہ بھی۔ دن کے وقت یہاں بیٹھنے والوں کی زیادہ تعداد میری طرح کے عمر رسیدہ حضرات اور بیبیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کچھ تنہا ہوتے ہیں‘ کچھ میاں بیوی اور کچھ دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ۔ یہاں چائے کی پیالی پیتا ہوں۔ کتاب پڑھتا ہوں یا آئی پیڈ پر کام کرتا ہوں۔ ایک دن میری نگاہ ایک شخص پر پڑی جو بیکری کے کونے میں بیٹھا تھا۔ اس کی شکل کچھ کچھ جانی پہچانی لگی مگر میں نے یہ خیال جھٹک دیا۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی چہرہ آشنا سا لگتا ہے مگر ہم اسے کبھی نہیں ملے ہوتے۔ اس شخص نے سر پر بوسیدہ سی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ عمر ہو گی چالیس کے پیٹے میں‘ جینز کا رنگ اُڑا اُڑا سا تھا۔ پاؤں میں اطالوی طرز کے سویڈ کے جوتے تھے۔ سگریٹ پی رہا تھا۔ سامنے دھرے کپ میں چائے تھی یا کافی‘ دور سے جاننا مشکل تھا۔ چہرے پر ایک نامعلوم سی کراہیت تھی جو اسے غیر پسندیدہ قس...

پیر صاحب کی بیٹی کو کتا کھا گیا

تصویر
یہ 2005ءیا 2006ءکی بات ہے۔ اخبار میں خبر پڑھی کہ گوجر خان کے نواحی گاوں میں ایک میّت کی تدفین کے وقت قبر سے آگ کے شعلے بلند ہوئے۔ تدفین مکمل ہوئی یا نہیں؟ اب یاد نہیں کہ خبر میں اس حوالے سے کیا بتایا گیا تھا۔ میں نے گاڑی لی‘ اپنے ڈرائیور چاچے علی احمد کو ساتھ لیا اور گھنٹے ڈیڑھ بعد اُس گاوں میں پہنچ گیا۔ آج اٹھارہ برس بعد گاوں کا نام بھی یاد نہیں۔ پنڈی سے آتے ہوئے جی ٹی روڈ کے دائیں طرف تھا اور اچھا خاصا بڑا گاوں تھا۔ گاوں میں داخل ہونے کے بعد پوچھا کہ کیا یہاں کوئی اخبار فروش ہے؟ ایک کھوکھے کی طرف رہنمائی کی گئی۔ اخبار فروش کو بتایا کہ فلاں اخبار میں کام کرتا ہوں اور یہ کہ اخباری خبر کے مطابق تدفین کے وقت قبر میں آگ جل رہی تھی‘ اس کی تفصیل کیا ہے؟ کہنے لگا کہ اس نے بھی سنا ہی ہے۔ عام طور پر چھوٹے قصبوں اور بستیوں میں ایک ہی اخباری نمائندہ تمام اخباروں کو خبریں بھیجتا ہے۔ اس سے اخباری نمائندے کا نام پوچھا۔ اس نے غور سے مجھے دیکھا۔ پھر کچھ سوچ کر کہنے لگا کہ اسے نام نہیں معلوم۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ بتانا نہیں چاہتا تھا‘ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی چھوٹی آبادی میں اخبار فروش‘ اخب...

ایک اور عبدالحمید

تب بھی ایک عبد الحمید شہید ہوا تھا۔ 56 سال پہلے کی بات ہے۔ یہ دادا جان کا زمانہ تھا۔ طلبہ نے بغاوت کی۔ دادا جان کی فورس نے گولی چلائی۔ عبدالحمید نامی طالب علم شہید ہو گیا۔ اس 17 سالہ جوانِ رعنا کا تعلق پنڈی گھیب سے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس کے والدین کی دلجوئی کے لیے اور طلبہ کی حمایت کے لیے پنڈی گھیب گئے۔ شہید کا خون رنگ لایا۔ دادا جان کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ پھر وہی ہوا جو ہر گردن بلند کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور جسے ہر گردن بلند سمجھتا ہے کہ کبھی نہیں ہو گا۔ چند ماہ ہی گزرے تھے کہ اقتدار کی ریت پاؤں کے نیچے سے سرک گئی۔ رہے نام اللہ کا! عبدالحمید کے خون کے علاوہ بھی دادا جان کے سر بہت کچھ ہے۔ آج پوتا کہتا ہے کہ ماشل لاء دادا جان نے نہیں لگایا تھا‘ اسکندر مرزا نے لگایا تھا۔ بالکل درست کہا۔ ابنِ خلدون اور ٹائن بی کے بعد یہی درست ترین تعبیر ہے تاریخ کی۔ اسکندر مرزا نے خود ہی اپنے آپ کو جلا وطن کر دیا اور سب کچھ دادا جان کو سونپ دیا۔ پھر اسکندر مرزا ہی نے روزنامہ امروز‘ پاکستان ٹائمز اور لیل و نہار پر قبضہ کرکے پریس کا گلا گھونٹ دیا۔ جس نام نہاد آئینی کمیشن نے پارلیمانی نظام کے نقائص گن...

لیفٹیننٹ جنرل کمال اکبر

میری ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ لیفٹیننٹ کرنل تھے اور میں نے سی ایس ایس کر کے نئی نئی ملازمت شروع کی تھی۔ کسی ''لائق‘‘ ڈاکٹر نے عینک کا نمبر غلط دے دیا تھا۔ ایک سینئر نے کہا کہ چلو تمہیں ایک بہت ہی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے چلوں۔ وہ ایم ایچ کے آئی ڈیپارٹمنٹ میں کرنل کمال اکبر کے پاس لے گئے۔ دو منٹ کے اندر اندر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ پرانے دوست ہوں۔ سحر تھا یا کچھ اور‘ ایک عجیب مقناطیسی شخصیت تھی۔ کرنیلی تھی نہ ڈاکٹری! صرف نرم گفتاری تھی اور اپنائیت۔ نظر اُن کے سٹاف نے چیک کرنا تھی مگر انہوں نے خود کی۔ یہ اُس تعلق کی ابتدا تھی جو لگ بھگ پچاس برس قائم رہا۔ وہ فوج میں پروموٹ ہوتے گئے‘ میں سول سروس میں! وہ تھری سٹار جنرل ہو گئے۔ میں گریڈ بائیس میں پہنچ گیا۔ وہ آرمی میڈیکل کالج کے پرنسپل رہے۔ پھر سرجن جنرل ہو گئے‘ یعنی تینوں مسلح افواج کے میڈیکل شعبوں کے سربراہ! مگر نرم گفتاری اور اپنائیت میں کوئی فرق نہ پڑا۔ وہ ہمیشہ کمال اکبر رہے۔ کبھی جنرل کمال اکبر نہ بن سکے۔ خلقِ خدا کی خدمت کا عجیب جذبہ ودیعت ہوا تھا انہیں۔ بتایا کرتے تھے کہ سیالکوٹ میں بطور کپتان تعینات تھے۔ اپنے ...

واہ! ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب واہ !

''مجھے بلایا اسلام آباد میں کہ یتیم بچوں کو ملو۔ میں بولا ٹھیک ہے۔ میں بہت بِزی تھا۔ دس منٹ دوں گا۔ تقریر ختم ہو گئی تو خواتین‘ میں خواتین ہی بولوں گا‘ بالغ تھیں سب‘ سٹیج کے اوپر آ گئیں۔ میں بولا کیا ہو رہا ہے؟ کہا ''بچیاں ہیں۔ میری بیٹیاں ہیں‘‘۔ یہ کدھر کا تصور ہے۔ لڑکی جب بالغ ہو جاتی ہے‘ 13سال‘ 14سال‘ 15سال‘ آپ اس کو چھو بھی نہیں سکتے۔ میں اسلام پر تقریر کر رہا ہوں۔ پوری فوج آجاتی ہے۔ لڑکی لوگوں کی۔ کیا ہے یہ؟ یتیم خانے کا جو مالک تھا کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب یہ میری بچیاں ہیں۔ میں بولا تم کو بھی چھونا حرام ہے۔ تیری بیوی کے پیٹ سے اگر پیدا ہوئی تو جائز ہے۔ میں سٹیج سے نیچے اُتر گیا۔ سوشل میڈیا پر لوگ کہہ رہے ہیں ارے ڈاکٹر صاحب نے غلط کیا۔ بچوں سے نہیں ملا۔ کیا ہو گیا ہے اس دیش (پاکستان) کو! آپ نابالغ‘ نا محرم کو چھو بھی نہیں سکتے۔ اور یہ پاکستان میں ہو رہا ہے! انڈیا میں جب ہندو مجھے بلاتے ہیں تو احترام کرتے ہیں۔ ہندو جب مجھے بلاتے ہیں تقریر کرنے کے لیے‘ احترام کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک لڑکیوں کو نہیں چھوتے۔ دور رکھتے ہیں۔ یہاں تو میں جب اسلام آباد میں گیا تو ٹیل...

ایک بیٹی کی فریاد

'' میری عمر اس وقت 35 سال ہے۔ میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے خاندان کی رسم ہے کہ خاندان سے باہر رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے۔ خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا۔ میں عمر کے 35ویں سال میں پہنچی ہوں‘ اب تک میرے لیے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جبکہ غیر خاندانوں سے کئی ایک رشتے آئے لیکن مجال ہے کہ میرے والدین یا بھائیوں نے کسی سے ہاں بھی کی ہو۔ میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ لاش بن چکی ہوں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں جب اپنی ہمجولیوں کو اُن کے شوہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔ یاخدا! ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دینا جو اپنی خاندان کے ریت ورسم کو نبھاکر اپنی بچوں کی زندگیاں برباد کردیں۔ میرے درد کو مسجد کا مولوی صاحب بھی جمعہ کے خطبے میں بیان نہیں کرتا... اے مولوی صاحب ذرا تو بھی سن!!! رات کو جب ابا حضور اور اماں ایک کمرے میں سو رہے ہوتے ہیں‘ بھائی اپنے اپنے کمروں میں بھابیوں کے ساتھ آرام کر رہے ہوتے ہیں تب مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ صرف میں...

ہم گنڈاپوری عہد میں جی رہے ہیں

جو کچھ ہونے والا ہے‘ اس کا سوچ کر آپ خلجی‘ تغلق‘ لودھی اور مغل خاندانوں کی عظیم الشان سلطنتوں کو بھول جائیں گے۔ آپ اس انگریزی یلغار کو بھی فراموش کر بیٹھیں گے جو جنوب سے شروع ہوئی تھی اور پورے ہندوستان پر چھا گئی تھی۔ جو کچھ ہونے والا ہے اس کے سامنے آپ کو راجہ پورس‘ سکندرِ اعظم‘ احمد شاہ ابدالی‘ نادر شاہ اور رنجیت سنگھ جیسے سورما چوہے نظر آئیں گے۔ گنڈاپوری لشکر چل پڑا ہے۔ جن توپوں کے ساتھ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے ابراہیم لودھی کے لشکرِ جرار کو دھول چٹوا دی تھی‘ وہ توپیں اب گنڈاپوری لشکر کے جلو میں ہیں۔ ان توپوں کو 20ہزار بیل کھینچ رہے ہیں۔ توپوں کے پیچھے جنگجو ہاتھیوں کی سیسہ پلائی دیوار کھڑی ہے۔ ایک ایک ہاتھی کے کجاوے پر پانچ پانچ بندوقچی متعین ہیں۔ ان بندوقچیوں کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوا۔ جس ہاتھی پر بہت بڑا سنہری چترِ بادشاہی نصب ہے‘ اس پر بانیٔ سلطنتِ گنڈاپوری‘ جناب گنڈاپور صاحب‘ خود بنفس نفیس تشریف فرما ہیں۔ ہاتھ میں تلوار ہے۔ کمر کے ساتھ خنجرِ آبدار لٹک رہا ہے۔ تاج پر لگے ہیرے اور موتی چمک رہے ہیں۔ ان کے دائیں بائیں جلو میں اور عقب میں تیر اندازوں کے دستے ہیں۔ سورج مغرب سے ...

نیوزی لینڈ

تلخ نوائی —- نیوزی لینڈ جہاز میں داخل ہوا توکچھ مسافر ایشیائی شکل و صورت کے دکھائی دیے۔ ان کی جسامتیں بڑی تھیں اور وہ بھاری بھرکم تھے۔ مگر ایشیائی تو اس تن و توش کے مالک نہیں ہوتے۔ تو یہ کون تھے؟ نیوز ی لینڈ پہنچنے کے بعد اس نوع کے بہت سے مرد اور عورتیں دیکھیں۔ معلوم ہوا یہ وہ لوگ ہیں جو انگریزوں کی آمد سے پہلے سے نیوزی لینڈ میں رہ رہے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد سینکڑوں سال پہلے تائیوان اور جنوب مشرقی ایشیا سے آئے تھے۔ یہ لوگ ماؤری کہلاتے ہیں اور نیوزی لینڈ کی کل آبادی کا 18 فیصد ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آسٹریلیا کے اصل باشندے ایبوریجنل  (Aboriginal)  کہلاتے ہیں۔ انگریز آئے تو ان اصل باشندوں پر بہت ظلم ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے بچے تک اٹھائے جاتے رہے۔ جس طرح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایک بنیادی فرق ہے‘ اسی طرح آسٹریلیا کے ایبوریجنل اور نیوزی لینڈ کے ماؤری باشندوں میں بھی بنیادی فرق ہے۔ آسٹریلیا میں بنیادی طور پر مجرموں اور سزا یافتہ انگریزوں کو آباد کیا گیا تھا جبکہ نیوزی لینڈ میں آنے والے انگریز آزاد تھے۔ اسی طرح آسٹریلیا کے ایبوریجنی لوگ ہمیشہ سے آسٹریلیا ہی میں رہتے ہیں۔ یہ شکل‘ ر...

ہر الزام تحریک انصاف پر مت دھریے

لطیفہ ہے یا واقعہ۔ خاتون نے گاڑی سرخ سگنل پر روکی۔ بھکاری مانگنے آیا۔ خاتون نے اسے دیکھا تو کہا: تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ بھکاری نے دانت نکالے اور کہنے لگا ''باجی! ہم فیس بک پر ایک دوسرے کے دوست ہیں‘‘۔ یہ اگر لطیفہ ہے تو اسے لطیفہ نہیں‘ سانحہ کہنا چاہیے۔ اس لیے نہیں کہ بھکاری انسان نہیں۔ اس لیے کہ سوشل میڈیا نے باہمی پردے ہٹا دیے ہیں۔ طبقات ایک دوسرے کے ساتھ مکس ہو رہے ہیں۔ جو لوگ نرم گفتار‘ وضعدار اور مہذب ہیں‘ اب وہ ان لوگوں سے نہیں بچ سکتے جو گالیاں دیتے ہیں‘ آوازے کستے ہیں اور ایک خاص طرزِ زندگی رکھتے ہیں۔ آپ اُس محلے میں بچوں کو نہیں رکھنا چاہتے جس میں غنڈے اور بدمعاش رہتے ہیں۔ آپ کسی بہتر آبادی میں منتقل ہو جاتے ہیں‘ مگر آپ ان غنڈوں اور بدمعاشوں سے نہیں بچ سکتے۔ اب وہ سوشل میڈیا پر آپ کو آ ملتے ہیں۔ ساری احتیاط دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ میر تقی میر بیل گاڑی پر دلّی یا لکھنؤ جا رہے تھے۔ سارا راستہ ہم سفروں سے بات نہ کی کہ زبان پر برا اثر پڑے گا۔ کیا اچھا زمانہ تھا کہ خراب زبان بولنے والوں سے بچا جا سکتا تھا اور بچوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ میر صاحب آج کی دنیا م...