اشاعتیں

ستمبر, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

قرۃ العین حیدر کی فیملی

موت کی خبر بھی اتنی ہی طاقتور ہے جتنی موت ہے۔ جس طرح موت کو روکنا ناممکن ہے‘ ( تم جہاں کہیں ہو گے موت تمہیں آ ہی پکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو۔ النساء) اسی طرح موت کی خبر بھی ساری رکاوٹیں ہٹا کر‘ سارے ٹائم زون پار کر کے‘ سارے سمندر عبور کر کے‘ ساری ہواؤں‘ جھکڑوں‘ طوفانوں‘ بارشوں سے گزر کر جہاں پہنچنا ہو پہنچ جاتی ہے۔ میں نیوزی لینڈ میں تھا‘ یعنی وقت کے لحاظ سے پاکستان سے آٹھ گھنٹے آگے! پہلے تو برادرم غالب صاحب کا‘ جو ریٹائرمنٹ سے قبل وزیراعظم کے دفتر میں وفاقی سیکرٹری تھے‘ پیغام ملا۔ کچھ دیر کے بعد قاضی عمران الحق‘ سابق ڈپٹی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا وٹس ایپ موصول ہوا۔ دونوں کا متن ایک ہی تھا۔ ہماری سابق رفیقہ کار اور پچاس سالہ پرانی دوست‘ نور العین حیدر‘ اپنی مقررہ مدت اس دنیائے فانی میں پوری کر کے وقت کی سرحد کے پار اُتر گئیں۔ وہ اردو ادب کی عظیم لیجنڈ قرۃ العین حیدر کی سگی بھتیجی تھیں۔ یہ اتنی بڑی نسبت تھی کہ اس نے مجھے ہمیشہ ان کے قریب رکھا۔ سی ایس ایس کے امتحان کے نتیجے میں ہم دونوں پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس کے لیے (جو بعد میں پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس میں ضم...

مرا ہاتھ دیکھ برہمنا

ہم مری کے پرل کانٹی نینٹل ( پی سی) بھوربن میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک غیر ملکی کمپنی نے اپنے سیمینار میں مدعو کیا تھا۔ شرکا کو اجازت تھی کہ بیگمات بھی ساتھ آ سکتی ہیں۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ ہوٹل کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔کراچی‘ فیصل آباد اور دیگر امیر شہروں کے صنعتکار اور تاجر مری کا لطف اٹھانے کے لیے ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ سیمینار جس شام ختم ہوا اس کے دوسرے دن صبح میں اور اہلیہ ہوٹل کے اندر چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک بڑا ہال نظر آیا۔اس کے باہر بینر تھا یا بورڈ‘ اس پر لکھا تھا ''قسمت کا حال معلوم کیجیے‘‘۔ ہال کے اندر داخل ہوئے تو ایک کونے میں اس قسمت کا حال بتانے والے نے سٹال لگایا ہوا تھا۔ اس سے گپ شپ ہوئی۔ پوچھا: اتنے بڑے ہوٹل میں تم اچھا خاصا کرایہ دیتے ہو گے لیکن کیا آمدنی بھی اُسی حساب سے ہو جاتی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ کرایہ واقعی زیادہ ہے مگر آمدنی بھی خاصی معقول ہے۔ پھر پوچھا کہ یہاں آخر کون لوگ ہیں جو قسمت کا حال جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ وہ مسکرایا اور کہنے لگا: یہ جو دولت مند لوگ یہاں امیر شہروں سے آتے ہیں اور پورے پورے کنبوں کے ہمراہ ہفتوں ٹھہرتے ہیں‘ یہی بہت بے تابی ا...

روداد ایک کتاب کی

۔۔ 2005 ء میں میری نواسی زینب پیدا ہوئی۔ یہ میری پہلی گرینڈ کِڈ تھی۔ (اُردو میں کوئی ایسا لفظ نہیں جو پوتوں پوتیوں‘ نواسوں نواسیوں یعنی سب کے لیے استعمال کیا سکے)۔ یہ چند ماہ کی تھی کہ اپنی جنم بھومی امریکہ سے واپس آگئی۔ اس کے بعد زیادہ تر ہمارے (یعنی نانا نانو کے) پاس ہی رہی۔ یہ عجیب و غریب تجربہ تھا۔ معلوم ہوا کہ زندگی کا یہ مرحلہ باقی تمام مراحل سے مختلف ہے۔ زیادہ شیریں‘ زیادہ پُرکشش! اُن دنوں میں وزارتِ خزانہ میں ایڈیشنل سیکرٹری ( برائے دفاع) تھا۔ شام کی تمام مصروفیات منسوخ کرکے سارا وقت زینب کے ساتھ گزارتا۔ شام پارکوں اور باغوں میں گزرتی۔ بچپن ہی سے رات کے مطالعہ کی عادت تھی۔ وہ عادت بھی ہوا ہو گئی۔ کہانیاں گھڑنے اور سنانے کا اپنا مزا تھا۔ کہانی سنانے کے دوران زینب کے عجیب و غریب سوالات ذہن کی پرتوں کو اُلٹ پلٹ کر کے رکھ دیتے۔ پھر اللہ نے دو نواسے عطا کیے۔ 2010ء میں میلبورن میں پہلے پوتے کا ورود ہوا جو وہاں رہتے ہوئے بھی اردو اور پنجابی روانی سے بولتا ہے۔ ان بچوں کے فراق کے مراحل آئے تو یہ تجربہ جاں گسل تھا۔ کبھی بچے سفر کرکے دور چلے جاتے۔ کبھی مجھے سفر درپیش ہوتا اور ان سے دور ...

تو کیا ہم غلام ہیں؟

چھ جوان ہمارے پرسوں شہید ہوئے۔ پہلی بار نہیں! شہادتوں پر شہادتیں ہو رہی ہیں! ہوتی جا رہی ہیں! اتنا جانی نقصان ہمارا تین جنگوں میں نہیں ہوا ہوگا جتنا اس غیر اعلانیہ جنگ میں ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ آئے دن مغربی سرحد سے حملے ہو رہے ہیں۔ ہمارے افسر‘ ہمارے جوان خون میں نہا رہے ہیں۔ مائیں سینہ کوبی کر رہی ہیں۔ بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ خواتین بیوہ ہو رہی ہیں۔ ہمارے بوڑھوں کے ہاتھوں سے ‘ ان کے سہارے ‘ ان کے جوان بیٹے چھینے جا رہے ہیں! ہم بے بس ہیں۔ ہم بظاہر ایٹمی طاقت ہیں مگر مار کھا رہے ہیں۔ کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ اپنا دفاع نہیں کر سکتے ؟ یا ہمیں دفاع کی اجازت نہیں! تو کیا ہم غلام ہیں؟ ہم ثبوت دے چکے ہیں کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ پکے ثبوت! ناقابلِ تردید ثبوت! حملہ آور وہیں سے آتے ہیں! ان کی تربیت گاہیں وہاں ہیں۔ ان کے پاس جدید اسلحہ ہے جو اُن کے سرپرست انہیں دے رہے ہیں۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ ہمارے خلاف کس کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے ۔ بچے بچے کو پتا ہے کہ کون حملہ آوروں کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ مگر جب بتایا جاتا ہے‘ اور ثبوت کے ساتھ بتایا جاتا ہے تو وہ جو انگریزی می...

ایک پاکستان کے اندر دو پاکستان!!

اندازہ لگائیے۔ وزیراعظم اور صدرِ مملکت کے دفاتر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر‘ وفاقی دارالحکومت سے ایک بزنس مین اغوا ہوتا ہے۔ پولیس کے ہاں ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ بزنس مین ایک مہینہ کے بعد چھوڑا جاتا ہے۔ رہائی کے لیے آٹھ کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ رہائی میں پولیس کا کوئی حصہ نہیں۔ میڈیا کی رپورٹ کی رُو سے یہ رہائی ''جرگے‘‘ نے دلوائی۔ حکومت نے‘ جو عوام کے جان و مال کی ذمہ دار ہے‘ کچھ نہیں کیا۔ یہ خبر محض نمونے کے لیے بیان کی گئی ہے۔ ورنہ ملک میں چوری‘ ڈاکا زنی‘ اغوا برائے تاوان عام ہے۔ گاڑی‘ موٹر سائیکل‘ زیور‘ جان‘ کچھ بھی‘ کہیں بھی محفوظ نہیں! اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا ایک ہی مطلب ہے۔ اس وقت پاکستان‘ اپنی سرحدوں کے اندر‘ دو پاکستانوں میں بٹ چکا ہے۔ پہلا پاکستان‘ یوں سمجھیے‘ فرسٹ ورلڈ ہے۔ یہ کھیل کے ایک وسیع میدان کی طرح ہے۔ اس میدان میں پانچ کھلاڑی کھیل رہے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کے نام ہیں مسلم لیگ (ن)‘ پی پی پی‘ پی ٹی آئی‘ جے یو آئی اور ان کے علاوہ ایک اور‘ پانچواں کھلاڑی! ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں! دور دور کا بھی نہیں! یہ سب لوگ کروڑ پتی‘ ارب پتی بلکہ کچھ تو کھرب پتی ہیں۔ ان کی اپنی دن...
بھاگ مسافر میرے وطن سے‘ میرے چمن سے بھاگ  جمیل قمر پرانے دوست ہیں۔ ملازمت ایسی تھی کہ ملک ملک کا پانی پیا۔ چاڈ (افریقہ) میں تھے تو وہاں سے خاص سوغات لائے۔ تتلی کے پروں سے ترتیب دی ہوئی تصویر! ریٹائرمنٹ کے بعد کینیڈا میں مقیم ہیں۔ جب معلوم ہوا کہ شو ہارن جمع کرنے کا فضول شوق ہے تو کینیڈا سے شو ہارن بھی بھیجا۔ کالم پڑھنے کا شوق تعلق کا سبب بنا۔ پندرہ سال پہلے میں نے اپنے پوتے کے ہجر میں ایک کالم لکھا ''ٹُر گیا ماہیا‘‘۔ یہ کالم بس ان کے دل میں اُتر گیا۔ جوان بیٹے سے ہمیشہ کی مفارقت کا صدمہ جھیلا۔ اب اُس کے بچوں کو سینے سے چمٹائے بیٹھے ہیں۔ شعر بہت اچھے کہتے ہیں ؎ اپنی عزت مجھے پیاری تھی سو خاموش رہا میں نے ہمسائے کے بچے کو نصیحت نہیں کی خدا کی اس زمیں پر سب کا حق یکساں نہیں ہونا جو بے گھر ہیں انہوں نے بے گھری کے ساتھ رہنا ہے چند روز پہلے انہوں نے فون کیاکہ ہر بدھ کو کچھ ہم خیال‘ سینئر حضرات مل بیٹھتے ہیں۔ یہ مجلس آرائی جسمانی نہیں بلکہ آن لائن ہوتی ہے اس ہفتہ وار محفل کے تمام ارکان‘ سرد وگرم چشیدہ‘ جہاندیدہ اور اپنے اپنے شعبے کے ماہر ہیں۔ وکالت‘ اکاؤنٹس‘ آئی ٹی‘ صحافت‘ مینجمنٹ...

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

اس قصے کو فی الحال رہنے دیجیے کہ صوبے کا سربراہ کسی دوسرے ملک سے اپنے طور پر معاملات طے کر سکتا ہے یا نہیں‘ اس بات پر غور کیجیے کہ اگر گنڈا پور صاحب افغانستان سے مذاکرات کریں گے تو کون سا معاملہ طے کریں گے اور کیسے؟ اب تو اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں کہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی اصل میں دونوں ایک ہیں۔ جب بھی حکومتِ پاکستان افغانستان کو کہتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے حملے افغانستان سے ہو رہے ہیں‘ تو افغان حکومت جواب میں دو باتیں کہتی ہے۔ اول: وہ یہ مانتی ہی نہیں کہ دہشت گردی میں افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ دوم: اس کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے‘ وہ خود ٹی ٹی پی سے بات کرے۔ منطقی طور پر افغان حکومت یہی جواب گنڈا پور صاحب کو بھی دے گی۔ اب اگر گنڈا پور صاحب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرتے ہیں تو کیا وہ ٹی ٹی پی کے مطالبات مان لیں گے؟ ٹی ٹی پی کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں کی پرانی پوزیشن بحال کی جائے۔ اس سے ٹی ٹی پی کو ایک بیس مل جاتی ہے۔ جہاں وہ امارت اسلامیہ قائم کر سکتے ہیں۔ کیا گنڈا پور صاحب یہ مطالبہ مان لیں گے؟ اور اگر ٹی ٹی پی یہ مطالبہ منوائے بغیر‘ صرف گ...

لٹریسی واک میں لٹریسی کتنی ہے اور واک کتنی

مُلّانصر الدین کا یہ لطیفہ ہم سب نے سنا ہؤا ہے کہ وہ  کوئی گم شدہ شے باہر سڑک پر ڈھونڈ رہا تھا ۔ پوچھا گیا وہ شے کہاں رکھی تھی۔  کہنے لگا کمرے میں۔پوچھنے والے نے کہا کہ کمرے میں  رکھی تھی تو کمرے ہی میں تلاش کرو۔ مُلّا نے جواب دیا کمرے میں اندھیرا ہے۔  نہیں معلوم مُلّا نصر الدین  کا وجود تھا یا نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ، ایک قوم کی حیثیت سے ، ہماری حرکتیں ملا نصر الدین  کی سی ہیں۔ہم ہر وہ شے کمرے سے باہر ڈھونڈتے ہیں جسے کمرے کے اندر  رکھا تھا۔ہم وہاں پانی دیتے ہیں جہاں بیج نہیں بوئے تھے۔ ہم ویرانے میں بازار لگاتے ہیں جب کہ  بازار کی ضرورت آبادی  میں ہوتی ہے۔ ہم سر پر چھتری وہاں تانتے ہیں جہاں دھوپ ہوتی ہے نہ بارش!ہم پچھتر برسوں سے یہی کچھ کر رہے ہیں ! ہم ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں۔ کئی برسوں سے ! کئی دہائیوں سے !!  نتیجہ یہ ہے کہ ہم قوموں کی فہرست میں پاتال سے بھی نیچے ہیں۔ اس پر بھی ہم خوش ہیں کہ نیچے سے ہماری پوزیشن دوسری یا تیسری ہے۔  خواندگی  کے عالمی دن پر “ لٹریسی ( خواندگی ) ڈے واک “  منعقد کی گئی ہے  ۔ یقین...

خواندگی کا عالمی دن

بیٹھنے کی جگہ کوئی خاص نہیں۔ لکڑی کے بنچ اور خستہ شکستہ کرسیاں! مگر اس ڈھابے پر چائے بہت اچھی ملتی ہے۔ یہ گھر سے پانچ چھ منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے۔ جب بھی کوئی بے تکلف دوست آتا ہے‘ اسے لے کر ڈھابے پر چلا جاتا ہوں۔ جوتے اتار کر لکڑی کے بنچ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتا ہوں۔ اردگرد مزدور‘ ڈرائیور اور اسی قسم کے لوگ بیٹھے چائے پی رہے ہوتے ہیں یا دال سبزی کے ساتھ روٹی کھا رہے ہوتے ہیں۔اصل پاکستان کی خوشبو نتھنوں سے ٹکراتی ہے تو ایک سرور سا طاری ہو جاتا ہے۔ اطمینان کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ڈھابے کے مالک کے سوا وہاں کوئی نہیں جانتا کہ میں بغل والی ''باعزت‘‘ آبادی میں رہتا ہوں۔ ہاں جب کوئی ایسا ملاقاتی آتا ہے جو اپنی حیثیت کے حوالے سے حساس ہوتا ہے‘ دوسرے لفظوں میں کمپلیکس کا مارا ہوا! تو اسے اُس کمرے میں بٹھاتا ہوں جسے عرفِ عام میں ڈرائنگ روم کہتے ہیں اور جسے میں بیٹھک کہتا ہوں۔ وہاں وہ ٹی بیگ والی چائے نوش کرتا ہے۔ وہی ٹی بیگ والی چائے جسے ڈرائیور حضرات حقارت سے دھاگے والی چائے کا نام دیتے ہیں۔ کل میں اپنے دوستوں کے ساتھ ڈھابے میں بیٹھا ہوا تھا۔ ڈھابے کے مالک نے کاؤنٹر سے آواز ...

مراعات یافتہ طبقے کی ایک اور جیت

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ اور اگر یہی ہوتا رہے گا تو مستقبل مخدوش ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ ایک بار پھر جیت گیا۔ وہی مراعات یافتہ طبقہ جسے قرآنِ مجید میں ''مُترَفین‘‘ کہا گیا ہے! بے بس طبقہ ایک بار پھر ہار گیا۔ وہی بے بس طبقہ جسے قرآنِ مجید میں ''مُستَضعَفین‘‘ کہا گیا ہے!! اور یہ جو مُستَضعَفین ہیں ان سے پوچھا جائے گا تم کس حال میں تھے‘ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے‘ فرشتوں نے کہا: کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ کتنے برسوں سے‘ کتنی دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے۔ طاقتور طبقہ کمزوروں کو کچل رہا ہے۔ نہ صرف اپنی بڑی بڑی گاڑیوں کے سفاک پہیّوں کے نیچے‘ بلکہ اپنی دولت‘ قانون شکنی‘ دھونس‘ جبر و استبداد‘ غرور‘ تکبر‘ نخوت اور خودسری کے پہیوں کے نیچے بھی!! مبینہ طور پر پانچ کروڑ روپے میں انصاف حاصل کر لیا گیا۔ صنعتکار خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون جو‘ مبینہ طور پر نشے میں تھی‘ بچا لی گئی۔ عمران عارف اور اس کی جواں مرگ بیٹی آمنہ عمران کی روحیں یہ انصاف دیکھ رہی ہوں گی! انصاف کا یہ منظر فرشتوں نے بھی دیکھا ہو گا۔ انہوں نے انتظ...

ملک اس حال تک یونہی نہیں پہنچ گیا!

کتاب پر تبصرہ پڑھا تو منہ میں پانی بھر آیا۔ یہ رونا تو کئی بار رویا جا چکا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کتابوں کی تجارت نہیں ہو رہی۔ رہی اُن کتابوں کی بات جو امریکہ یا یورپ میں شائع ہوتی ہیں تو جب تک کوئی کتاب ہمارے ملک میں پہنچتی ہے اس وقت تک اس موضوع پر دس اور کتابیں وہاں چھپ چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ مغرب سے آنے والی کتاب اب بہت مہنگی پڑتی ہے۔ ڈالر اور پاؤنڈ کے مقابلے میں روپے کی جو قدر ہے‘ اس نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ چار پانچ ہزار سے کم میں شاید ہی کوئی درآمد شدہ کتاب آتی ہو۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی ایک بی بی نندینی داس نے‘ جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے‘ تھامس راؤ کے قیامِ ہندوستان پر ایک تفصیلی کتاب لکھی ہے (ہم جانتے ہیں کہ تھامس راؤ برطانوی سفارت کار کی حیثیت سے شہنشاہ جہانگیر کے دربار سے وابستہ رہا تھا)۔ چند ہفتے پہلے لاہور کی ایک معروف کتابوں کی دکان سے یہ کتاب خریدی تو ساڑھے چار ہزار روپے میں پڑی۔ اب ان حالات میں گنجی نہائے کیا اور نچوڑے کیا۔ روپے کی ناقدری نے پاکستان کو کہیں کا نہیں رکھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکمرانوں‘ وزیروں‘ امیروں اور سرکاری عمائدین...

وفاقی دارالحکومت کی شہ رگ کا ماتم —- ایک بار پھر !

یہ ایک بہت بڑی ، عظیم الجثہ ، دیو پیکر ، عفریت نما عمارت تھی۔ اس  کے اندر کئی ہوائی جہاز کھڑے تھے۔ بڑے بڑے جنگی ہوائی جہاز! ( ایسی عمارت ،جس کے اندر  ہوائی جہاز پارک کیے جائیں، ہینگر کہلاتی ہے۔ ) ہمارے چینی میزبان تفصیلات بتا رہے تھے۔ ہم حیرت سے گُنگ ہوئے جا رہے تھے۔مگر اصل حیرت کا پہاڑ ابھی ٹوٹنے والا تھا۔ ہم میں سے ایک نے پوچھا یہ عمارت کتنے عرصے میں مکمل ہوئی۔ جواب ملا پورے ایک سال میں! اس سے ایک دن زیادہ نہ کم! یہاں تو پانچ سو گز ( یعنی جعلی ایک کنال ) کا گھر ڈیڑھ سال میں بن جائے تو آدمی خوشی سے ہوا میں اُڑنے لگتا ہے۔ ( جعلی کنال اس لیے کہا ہے کہ اصل کنال بیس مرلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب پانچ سو گز یعنی تقریبا” سترہ مرلوں کو ایک کنال کہا جانے لگا ہے۔ ) ہم نے میزبانوں سے پوچھا کہ  مقررہ مدت میں نہ بنے تو  ؟  اس پر انہوں نے کہا کہ مقررہ مدت میں مکمل نہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جو تاریخ طے ہوتی ہے اس سے آگے پیچھے ہونے کا امکان صفر سے بھی کم ہے۔ اس یقین کی پشت پر   سزا کا وہ تصور کار فرما ہے جو چین میں رائج ہے۔ معافی یا سفارش کے ذریعے بچ جانے کا کوئی س...