اشاعتیں

اگست, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

سارہ خان سے لے کر موٹر وے ٹول پلازا تک

ُ کروڑوں افراد میں سے ایک آواز اُٹھی! صرف ایک آواز! یہ تنہا آواز معروف ٹی وی ڈرامہ ایکٹریس سارہ خان کی ہے۔ کراچی میں جو باپ بیٹی گاڑی کے نیچے کچل دیے گئے ہیں‘ اس حوالے سے سارہ خان نے کہا ہے کہ جو صنعتی ایمپائر ملزمہ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے! بنیادی حقوق کے نام پر بڑی بڑی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں‘ مگر اس جرأت مند پکار کا کریڈٹ ایک اداکارہ کی قسمت میں لکھا تھا: کامل اس فرقۂ زُہاد سے اٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے مہذب معاشروں میں پُرامن احتجاج روزمرہ کا معمول ہے۔ بائیکاٹ اسی پُرامن احتجاج کا حصہ ہے۔ جب مروجہ نظام مایوس کر دے تو امن اور قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کیا جاتا ہے۔ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اس کے خلاف یورپ اور امریکہ میں لوگ احتجاج ہی تو کر رہے ہیں۔ ہمارے احتجاج کے برعکس وہاں کے احتجاج میں املاک جلائی جاتی ہیں نہ بسیں! راہ گیروں کے لیے راستے اور گاڑیوں کے لیے ٹریفک بھی بند نہیں کی جاتی! احتجاج تو ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں۔ دھرنے بھی دیے جاتے ہیں‘ مگر ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان احتجاجی جلوسوں‘ جلسوں اور دھرنوں ک...

پاکستانی تارکینِ وطن… ایک تجزیہ

پاکستانی تارکینِ وطن کی تین قسمیں ہیں۔ دولت کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے کہ اپنے کلچر‘ اپنی زبان اور اپنی جڑوں کے حوالے سے ان کا کیا کردار ہے۔ پہلی قسم میں وہ تارکینِ وطن ہیں جو ''ہر چہ بادا باد‘‘ کے قائل ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی آئندہ نسل اپنے آبائی وطن سے‘ اپنی زبان سے یا اپنی تہذیب سے مربوط ہے یا دور ہو رہی ہے۔ یہ بچوں سے انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ بچے کیا کر رہے ہیں‘ کہاں جا رہے ہیں‘ کہاں سے آرہے ہیں‘ انہیں اس سے کوئی علاقہ نہیں۔ اس نوع کا کوئی دردِ سر وہ نہیں پالتے۔ زندگی خوش و خرم گزارتے ہیں۔ نوکری یا کاروبار کرتے ہیں۔ اچھا مکان‘ اچھی گاڑی‘ سیرو تفریح‘ سیاحت‘ پارٹیاں‘ یہی ان کی ترجیحات ہیں۔ فخر سے بتاتے ہیں کہ بچہ آکسفورڈ میں ہے یا بیٹی کیمرج میں یا ہاورڈ میں! اگر آپ انہیں کچھ بتانے کی جسارت کریں تو ان کا جواب کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ ترقی کا یہی راستہ ہے۔ ہم پیچھے کی طرف نہیں جا سکتے۔ اپنی دانست میں وہ درست ہیں۔ ایک بار اپنی جڑوں کا خیال دل سے نکال دیں تو موجاں ہی موجاں! زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ کون جھنجھٹ میں پڑے۔ بہاؤ کے ساتھ بہنے میں آسانی ہ...

ہے کوئی جو عبرت پکڑے

حامد کو یقین تھا کہ چوہدری بے گناہ ہے!  وہ ذاتی طور پر جانتا تھا کہ مقتول کو قتل چوہدری نے نہیں کیا۔ وہ اس کی بے گناہی کا عینی شاہد تھا۔ جس رات مقتول قتل ہوا‘ چوہدری اور حامد جائے واردات سے کئی سو کلومیٹر دور‘ ایک سرکاری ڈاک بنگلے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ چوہدری سارا وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہا۔ ایک لمحے کے لیے بھی کمرے سے باہر نہیں گیا۔ یہ لوگ شکار کے لیے آئے تھے اور رات اس ڈاک بنگلے میں ٹھہرے تھے۔ صبح انہوں نے قتل کی خبر سنی۔ اب یہ سوئے اتفاق تھا کہ مقتول کے خاندان سے چوہدری کی پرانی دشمنی تھی۔ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ سازش کس طرح کی گئی۔ قصہ مختصر‘ ایک سال کے بعد پولیس پکڑ کر چوہدری کو لے گئی۔ اُس پر اِس قتل کا الزام تھا۔ تجوریوں کے منہ کھل جائیں تو اس دنیا میں ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔ بہت ''ثقہ‘‘ قسم کے گواہ بھی میسر آ گئے۔ چوہدری کا خاندان دولت میں مقتول کے خاندان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے وکیلوں نے بہت زور لگایا۔ مگر طاقت جیت کر رہی۔ چوہدری کو سزائے موت ہو گئی۔ بدقسمتی یہ بھی ہوئی کہ ادھر چوہدری گرفتار ہوا‘ اُدھر حامد کو بیٹی کے علاج کے لیے امریکہ جانا پڑ گیا۔ وہاں حا...

ہم دنیا میں کیوں بے توقیر ہیں؟

جہاز میں بیٹھا تو ہانگ کانگ یاد آ گیا۔ یہ کچھ برس پہلے کی بات ہے۔ ہانگ کانگ سے کراچی جانا تھا۔ سامنے ایئر پورٹ پر جہاز کھڑے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک اُڑتا تھا تو ایک اور آجاتا تھا۔ سارے جہازوں کے ساتھ جیٹ برِج لگے تھے۔ جیٹ برِج اس سرنگ نما راستے کو کہا جاتا ہے جس سے گزر کر جہاز میں بیٹھتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو ٹرمینل سے بس میں بٹھاتے ہیں یا پیدل چل کر جہاز کے پاس پہنچتے ہیں اور سیڑھیاں چڑھ کر جہاز میں سوار ہوتے ہیں۔ ہانگ کانگ ایئر پورٹ پر ہر جہاز جیٹ برِج کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ ہم پاکستان جانے والے مسافر سامنے کھڑے ہوئے جہازوں کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ انہی میں سے ایک جہاز کراچی جانے والا ہے۔ بس اعلان ہو گا اور ہم جیٹ برِج سے ہوتے ہوئے جہاز کے اندر چلے جائیں گے‘ مگر جب اعلان ہوا تو ہمیں ایک بس میں بٹھایا گیا۔ یہ بس کافی دیر تک چلتی رہی۔ ایئر پورٹ کے آخری ویران کونے میں پہنچے تو ہمیں بس سے اُتارا گیا۔ تھوڑی دور تک پیدل چلے۔ پھر جہاز سے لگی سیڑھیاں چڑھ کر جہاز میں داخل ہوئے۔ یہ سلوک کسی اور کے ساتھ نہیں ہوا۔ صرف ہم پاکستانی اس کے مستحق ٹھہرائے گئے! جہاز میں بیٹھتے ہی ہانگ کانگ میں پاک...

اولمپک ڈپلومیسی؟؟

ہم نے کرکٹ ڈپلومیسی بھی دیکھی اور مینگو (آم) ڈپلومیسی بھی دیکھ لی۔ اب ''اولمپک ڈپلومیسی‘‘ بھی آزما لی جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ مینگو ڈپلومیسی تو ایک عام سی بات تھی اور شاید ہے۔ یہاں کا انور رٹول اور سفید چونسہ وہاں جاتا ہو گا اور وہاں کا الفانسو ہمارے بڑے لوگوں کے گھروں میں لینڈ کرتا ہو گا۔ رہی کرکٹ ڈپلومیسی تو جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اس کے ذریعے کوشش کی کہ تعلقات سرد مہری سے اُتر کر نارمل سطح پر آ جائیں! مگر یہ ساری ڈپلومیسیاں حکمرانوں کے درمیان تھیں‘ ان کا عوام سے کوئی تعلق نہ تھا! پاکستانی عوام سے نہ بھارتی عوام سے! تین چار جنگیں ہو چکیں! سال ہا سال سے تجارتی مقاطعہ ہے۔ اس مقاطعہ کا رمق بھر فائدہ مقبوضہ کشمیر کو ہوا نہ ہمیں! یوں بھی تجارت کا فائدہ پاکستان کو زیادہ ہو گا کیونکہ اسے بھارت جیسی بڑی منڈی ملے گی اور بھارت کو چھوٹی!! تعلقات کی ویرانی کا یہ حال ہے کہ کتابیں اور رسالے بھی نہیں آ جا سکتے۔ اردو کے ایک نامور استاد کو کتاب بھیجی‘ سات ماہ کے بعد ملی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت میں کتابیں زیادہ شائع ہوتی ہیں۔ اس پابندی کا زیادہ نقصان پاکستان کے پڑھے لکھے لوگو...

ہم ہمیشہ دیر کیوں کر دیتے ہیں؟؟

منیر صاحب روم کے پاکستانی سفارت خانے میں تعینات تھے۔ وہ بہت بڑے افسر نہ تھے مگر ایک تو ان کے کام کی نوعیت اہم تھی‘ دوسرے وہ اخلاق کے بہت اچھے تھے۔ سفارت خانے کے سب لوگ‘ سفیر سے لے کر ڈرائیور تک‘ ان کا احترام کرتے تھے۔ مجھے چند ماہ کے لیے اٹلی میں رہنا تھا۔ یہ تقریباً 40 سال پہلے کی بات ہے۔ روم پہنچ کر دوسرے دن میں نے اپنے سفارت خانے میں رپورٹ کیا۔ قیام کے اخراجات اطالوی حکومت نے ادا کرنے تھے اور یہ کام سفارت خانے کی وساطت سے طے پانا تھا اس لیے میں کئی دن سفارت خانے جاتا رہا۔ سفیر صاحب نے کہا کہ آپ منیر صاحب ہی سے رابطہ رکھیں‘ وہی سارا کام کریں گے۔ منیر صاحب سے پہلے دن ہی دوستی ہو گئی۔ وہ نرم گفتار تھے اور خوش اخلاق! کئی بار اپنے گھر لے گئے جو انہیں سفارت خانے کی طرف سے ملا ہوا تھا۔ میں ہوٹل میں رہ رہا تھا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ میں ان کے گھر قیام کروں مگر میں نے معذرت کی۔ یہ اور بات کہ دن ان کے ساتھ‘ ان کے دفتر ہی میں گزرتا تھا۔ ان دنوں پاکستان میں چینی کی شدید قلت تھی۔ دو تین کلو چینی کے لیے بھی لوگ دھکے کھاتے پھرتے تھے۔ ایک دن منیر صاحب نے ایک ڈبہ دکھایا کہ اس میں ایک کلو چینی ہے او...

یار ارشد ندیم۔ !!

یار ارشد ندیم! یہ تم نے کیا کیا؟   اگر ہمیں ہارٹ اٹیک ہو جاتا تو؟ ہم تو خوشیوں کے عادی ہی نہیں! ہم نے تو برسوں سے کیا‘ دہائیوں سے کوئی خوشی نہیں دیکھی! مثنوی رومی میں حکایت بیان کی گئی ہے کہ خاکروب عطر فروشوں کے بازار میں چلا گیا تھا اور بے ہوش ہو گیا تھا۔ تم تو ہمیں عطر فروشوں کے بازار میں لے گئے! ہمیں تو خوشبو لگائے ہوئے‘ خوشبو سونگھے ہوئے‘ زمانے ہو چکے تھے! ہم تو چیتھڑوں کے عادی تھے۔ تم نے ہمیں ریشمی پوشاک پہنا دی! اور یہ قومی اسمبلی میں تم نے کیا کرا دیا۔ وہ تو اکھاڑہ تھا۔ وہاں تو سر پھٹول کے مناظر ہوا کرتے تھے۔ وہاں تو فریقین تیر برساتے تھے۔ توپیں چلاتے تھے۔ ایک دوسرے کو للکارتے تھے۔ تم نے حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کو اکٹھا کر دیا۔ تم وہ عظیم لمحہ لے کر آئے جس میں سارا ایوان تمہاری دی ہوئی مسرت منانے میں متحد تھا۔ تمہاری کامیابی نے ہمیں یاد دلایا کہ وطن کی عزت میں‘ وطن کی خوشی میں سب شریک ہیں۔ تم نے ہمیں وہ لمحہ دیا جب کوئی مسلم لیگ تھی نہ تحریک انصاف‘ نہ پی پی پی۔ کوئی سندھی تھا نہ پنجابی نہ پختون نہ بلوچ نہ بلتستانی نہ کشمیری! بلکہ سب پاکستانی تھے! صرف اور صرف پاکستانی!!...

بنگلہ دیش… اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟؟

بوڑھا چینی قلاش تھا۔ پوشاک میسر نہ پیٹ بھر کر روٹی۔ پھر بھی بادشاہ اس پر رشک کرتے۔ اس لیے کہ اس کے پاس ایک ایسا سفید گھوڑا تھا جو اُس وقت کی ساری دنیا میں بے مثال تھا۔ گھوڑا کیا تھا بادل کا سفید ٹکڑا تھا۔ چلتا نہیں تھا تیرتا تھا۔ بادشاہ نے منہ مانگی قیمت دینے کی بات کی۔ زمین جائداد بھی دینے کے لیے تیار تھا مگر بوڑھے نے ہمیشہ ایک ہی بات کی کہ گھوڑا اس کا فیملی ممبر ہے۔ بیچنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ایک صبح بوڑھے نے دیکھا کہ گھوڑا غائب ہے۔ اب گاؤں کے لوگوں نے لعن طعن کی کہ جب دولت اور جاگیریں مل رہی تھیں اُس وقت گھوڑا بیچ دیتا۔ بدقسمتی کہ گھوڑا چوری ہو گیا۔ بوڑھے نے جواب دیا کہ بات اتنی سی ہے کہ گھوڑا موجود نہیں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ بدقسمتی ہے۔ کچھ ہفتے گزرے تھے کہ گھوڑا واپس آ گیا اور وہ اکیلا نہیں تھا۔ ا س کے ساتھ بارہ خوبصورت جنگلی گھوڑے تھے۔ اب گاؤں کے لوگ مبارک دینے آئے اور کہنے لگے یہ تو خوش قسمتی ہے۔ بوڑھا ہنسا اور کہنے لگا: سچ صرف یہ ہے کہ گھوڑا چلا گیا تھا‘ واپس آیا تو ساتھ بارہ گھوڑوں کو لے کر آیا۔ یہ ایک جزو ہے‘ کُل نہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ خوش بختی ہے ی...

ہیروں کی کان جو آپ کے قدموں تلے ہے

''پاکستان چھوڑ کر کیوں نہیں گئے؟‘‘ پاکستان چھوڑ کر نہیں گیا کیونکہ پاکستان نے مجھے تعلیم دی۔ جو بھی میں نے زندگی میں کیا ہے وہ پاکستان کی دی ہوئی تعلیم سے کیا ہے۔ میں نے بھی ٹاٹ سکول سے زندگی سٹارٹ کی تھی۔ اب جب میں کسی کام کے قابل ہوا ہوں تو کیا یہ کہوں کہ یار! یہ ملک میرے لیے ٹھیک نہیں ہے؟ کیا میں کہیں اور پیدا ہوا تھا؟ میرا تو وطن یہی ہے اور جس کا وطن نہیں ہے‘ جیسے کسی افغانی سے پوچھیں جو یہاں آیا ہوا ہے اور جدوجہد کر رہا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے ملک دیا ہے‘ آپ سکون کے ساتھ اس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ناشکری سے اللہ تعالیٰ بچائے۔ پاکستان نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ میں نہ تو امیر آدمی کا بیٹا تھا نہ مجھے آؤٹ آف لائن ایسے پیسے ملے ہیں جو جائز نہیں تھے۔ یہیں کام کیا ہے۔ یہیں محنت کی ہے۔ جو پروڈکٹ میں بنا رہا ہوں وہ جرمن مجھ سے خریدنے میں خوش ہیں۔ لیکن جب میں پاکستان میں کام کر رہا ہوں تو پاکستان کے لیے کر رہا ہوں! ہزار ہا لوگ میری فیکٹری میں آئے جن کی میں نے ٹریننگ کی۔ پھر انہیں مختلف اداروں میں نوکریاں ملیں۔ میں اگر امریکہ چلا جاؤں تو میرا دال دلیا تو ٹھیک ہو ...

شیر شاہ سوری بنام مریم نواز

لاہور میں جرمن سیاح کے ساتھ پیش آنے والے سانحے کا جیسے ہی علم ہؤا، میں شیر شاہ سوری کو ملنے نکل پڑا۔ میری منزل سہسرام تھی جہاں شیر شاہ  کی جاگیر تھی۔ معلوم ہؤا وہ بابر کے دربار میں گیا ہؤاہے۔ اس پر میں آگرہ گیا۔ وہاں پہنچنے پر پتہ چلا  کہ بابر تو کب کا انتقال کر چکا۔ شیر شاہ سوری ہمایوں کو شکست دینے کے بعد اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ پھر خبر پہنچی کہ ہمایوں ایران بھاگ گیا اور شیر شاہ سوری کو تخت پر بیٹھے دو سال ہو چلے ہیں۔ میں اس کے پایۂ تخت پہنچا۔ اب اسے بادشاہ بنے پانچ سال ہونے کو تھے۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہؤا وہ کالنجر کے قلعے کو فتح کرنے گیا ہؤا ہے۔  اب میں منزلوں پر منزلیں مارتا کالنجر پہنچا۔ کالنجر کے قلعے کا محاصرہ کیے، شیر شاہ سوری کو چھ ماہ ہو چکے تھے اور ابھی محاصرہ ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ بادشاہ کے سٹاف نے  بتایا کہ اس کے پاس تو کان کھجلانے کا وقت نہیں، مجھ سے کیسے ملے گا۔ بہر طور میں نے کئی ہفتے انتظار کیا۔ بالآخر مجھے بادشاہ کے حضور پیش ہونے کا موقع مل گیا۔ دست بستہ عرض کیا کہ جہاں پناہ نے صرف پانچ سال کی قلیل مدت میں ہندوستان کے طو...

جناب احسن اقبال کی خدمت میں

منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر جناب احسن اقبال نے اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے ( سی ڈی اے ) کو ہدایت کی ہے کہ دارالحکومت کے لیے عمودی (ملٹی سٹوری) تعمیرات کے حوالے سے پالیسی فریم ورک تیار کر کے پیش کریں! مزید کچھ لکھنے سے پہلے ہم احسن اقبال صاحب کے اس آئیڈیا کی تحسین کرتے ہیں۔ خدا خدا کر کے پالیسی سازوں میں سے کسی کو یہ خیال تو آیا۔ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے وہ جو عام مقولہ سنتے آئے ہیں‘ لگتا ہے‘ اب پرانا ہو چکا ہے۔ مقولہ یہ تھا کہ ہندو وقت سے پہلے سوچتا ہے اور پیش بندی کر لیتا ہے۔ مسلمان عین وقت پر سوچتا ہے اور سکھ وقت یا موقع گزر جانے کے بعد سوچتا ہے۔ لیکن اب ہم سکھ برادری کا نمبر کاٹ گئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی بنیاد 1960ء کے لگ بھگ پڑی تھی۔ عمودی تعمیرات بھی اسی وقت شروع ہو جانی چاہیے تھیں۔ تقریباً پون صدی گزرنے کے بعد اب ہمیں خیال آیا ہے کہ شہر کی توسیع افقی نہیں‘ عمودی ہونی چاہیے۔ یہ پون صدی محلات اور وسیع و عریض فارم ہاؤسز بنانے میں کٹ گئی۔ ذرا مارگلہ روڈ پر مکان دیکھیے۔ مشرقی کنارے سے مغربی سرے تک۔ شاید رباط اور ریاض میں بھی اتنے بڑے‘ وسیع وعریض محل نہ ہوں! یہ شہر جو بنیادی ...

صورتِ حال… ملک کے اندر اور ملک سے باہر

یو اے ای کے بعد اب اگلی باری‘ یوں لگتا ہے سعودی عرب کی ہے۔ سرگودھا میں ریسکیو عملے کو اطلاع ملی کہ ایک شخص سڑک پر بے ہوش پڑا ہے۔ ریسکیو والوں نے اسے ہسپتال منتقل کیا۔ تلاشی لینے پر اس کی جیب سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے نکلے اور پاسپورٹ بر آمد ہوا۔ پاسپورٹ پر سعودی عرب کے ویزے لگے ہوئے تھے جن پر وہ کئی بار سعودی عرب کا سفر کر چکا تھا۔ علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ یہ بھیک مانگتا ہے اور اس کا تعلق بھکاریوں کے کسی گروہ سے ہے۔ اس خبر کا آخری حصہ ذرا غور سے سنیے۔ ہسپتال سے یہ بین الاقوامی بھکاری ڈسچارج ہوا تو ریسکیو عملے نے اس کے ساڑھے پانچ لاکھ روپے تو واپس کیے ہی‘ ساتھ ہی پاسپورٹ بھی واپس کر دیا۔ شاید ریسکیو والوں سے غلطی ہوئی ہے۔ انہیں چاہیے تھا کہ پورے پروٹوکول کے ساتھ اسے ایئر پورٹ لے جاتے۔ گارڈ آف آنر دیتے۔ اور سعودی عرب جانے والے جہاز پر بٹھاتے۔ حال ہی میں یو اے ای نے پاکستانیوں کیلئے ویزہ پالیسی سخت کی ہے۔ اس کی متعدد وجوہ بتائی گئیں۔ ایک بڑی وجہ پاکستان سے بھکاریوں کا کثیر تعداد میں ورود تھا۔ سعودی عرب بھی ہمارے ہم وطن بھکاریوں کی زد میں ہے۔ کیا عجب‘ وہاں کیلئے بھی پاکستان کے گرد سرخ ...