اشاعتیں

جولائی, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

واہ رے سکرین! واہ

ناشائستہ لوگ گھروں میں گھس آئے ہیں! اور المیہ یہ ہے کہ گھروں کے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے! جس قماش کے لوگوں کو ہم شرفا گلی میں سلام نہیں کرتے تھے‘ ان سے کوئی بات نہیں کرتے تھے‘ اپنے بچوں پر جن کا سایہ نہیں پڑنے دیتے تھے‘ جنہیں جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ہم سے کلام کریں‘ وہ ہمارے دالانوں‘ خوابگاہوں یہاں تک کہ زنان خانوں میں آ گئے ہیں! انا للہ وانا الیہ راجعون!! آپ کا کیا خیال ہے جو شخص پکے جواریوں اور نشے کے عادی مجرموں کی طرح سگرٹ کا سوٹا ایک خاص انداز میں لگاتا ہے‘ وہ آپ کے گھر میں داخل ہو کر‘ آپ کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ سکتا ہے؟ آپ یہ سن کر لاحول پڑھیں گے۔ مگر وہ تو آپ کے ڈرائنگ روم ہی میں نہیں‘ آپ کے بیڈ روم میں بیٹھا ہے! افسوس! صد افسوس! ریٹنگ کے راتب اور ڈالر کی ہڈی کے لیے چند اینکر ایسے غیر مہذب افراد کو پروگراموں میں بلاتے ہیں! تین حرف ایسی ریٹنگ پر! اور ایسے ڈالروں پر!! ثقافت کی کرسی پر انہیں بٹھا دیا گیا ہے جن کے اصل ٹھکانوں کے نام بھی شرفا کے گھروں میں نہیں لیے جاتے تھے اور اب یہ اُس جسم کے ساتھ جو زمین پر بوجھ ہے اور اس زبان کے ساتھ جو کاٹ دینی چاہیے‘ شرفا کے گھروں کے ان...

سہراب سپہری —سرحد پار کا ادبی منظرنامہ

انگریزی ادب کے تراجم اردو میں عام ہیں۔بد قسمتی سے فارسی، عربی اور ترکی زبانوں کے تازہ ترین ادبی شاہکار ہم تک کم ہی پہنچتے ہیں! بہت کم ! فارسی سے ہمارا تاریخی اور تہذیبی  تعلق ہے مگر یہ تعلق  رومی، سعدی، حافظ ، عطار اور دیگر کلاسیکی شعرا تک محدود ہے۔  سہراب سپہری ایران کے اُن پانچ شعرا میں شامل ہیں جنہوں نے  شاعری میں نئے رجحانات سَیٹ کیے اور فارسی شاعری کا پورا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ باقی چار شعرا    نیما یوشیج، احمد شاملو، مہدی اخوان ثالث اور فروغ فرخ زاد ہیں۔  سہراب سپہری ۱۹۲۸ ء میں کاشان میں پیدا ہوئے۔کاشان وسط ایران میں آجکل اصفہان صوبے کا حصہ ہے۔ ان کے خاندان کا ادب اور آرٹ سے گہرا تعلق تھا۔ سہراب نے بطور مصور بھی شہرت پائی۔کچھ عرصہ ٹیچر رہے۔ یورپ گئے ۔ مالی مشکلات کی وجہ سے وہاں مزدوری بھی کرنا پڑی۔  ۱۹۸۰ ء میں تہران میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر صرف  اکاون برس تھی۔ تدفین کاشان میں ہوئی۔ سہراب زندگی بھر مجرّد ہی رہے۔فارسی کے نامور سکالر اور استاد پروفیسر ڈاکٹر  معین نظامی نے  سہراب سپہری کی نظموں کا ترجمہ کمال مہا...

ہم ایسی پہیلی ہیں جسے کوئی سہیلی نہیں بُوجھ سکتی

تین مزدور تھے۔ دوپہر کا کھانا گھر سے لاتے۔ کھانا کیا ہوتا! سوکھی روٹی اور رات کا بچا کھچا سالن! تینوں نے صلاح مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ بیویوں کی کھنچائی کریں گے۔ آئندہ پراٹھے پکا کر ساتھ بھیجیں گی۔ مگر اس کھنچائی کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بالآخر انہوں نے بیویوں کو فائنل وارننگ دی کہ پراٹھے نہ ساتھ کیے تو خودکشی کر لیں گے۔ ان تینوں مزدوروں میں ایک مزدور سکھ تھا۔ آخری وارننگ کے بعد اگلی دوپہر کھانے کا وقفہ ہوا تو دو کے کھانے میں پراٹھے تھے اور سکھ کے کھانے میں وہی چپاتی! سکھ نے تیسری منزل سے چھلانگ لگائی اور خودکشی کر لی۔ اس کی بیوہ بَین کرتی تھی اور کہتی تھی: ہائے چپاتی اپنے لیے پکائی بھی اس نے خود ہی تھی! ہم پاکستانیوں کا حال بھی اُس سکھ جیسا ہے۔ رات دن ہائے ہائے کر رہے ہیں۔ دُکھوں کی پٹاری کھول کر سرِ راہ بیٹھے ہیں۔ دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے اور حیران ہو رہی ہے۔ سارے مسائل کا حل ہماری اپنی جیب میں ہے۔ ہم خود کشی کر نے کو تیار ہیں مگر مسائل حل نہیں کریں گے! اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آئی پی پیز کا ہے۔ یعنی بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں! یہ کمپنیاں پیداوار کے حساب سے پیسے نہیں لے رہی...

پیٹ وِچ درد؟ یا ڈِھڈ وِچ پیڑ؟؟

بل مندر سنگھ سے پہلی ملاقات نوے کی دہائی میں ہوئی۔ میں اُن دنوں وفاقی وزارتِ ثقافت میں تعینات تھا۔ میری ڈیوٹی میں جہاں اور امور شامل تھے‘ یہ بھی شامل تھا کہ ثقافتی طائفے دوسرے ملکوں میں لے کر جاؤں۔ ڈاکٹر خالد سعید مرحوم وزارتِ ثقافت کے ذیلی ادارے نیشنل کونسل آف آرٹس کے سربراہ تھے اور ان امور میں وزارت کے معاون و مدد گار تھے۔ بیرونِ ملک ایک بہت بڑی نمائش کا انعقاد ہو رہا تھا۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ چونکہ اس نمائش میں دنیا بھر سے ثقافتی وفود جا رہے ہیں اس لیے پاکستان کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔ چنانچہ 21 افراد کا گروہ میرے سپرد کیا گیا کہ لے کر نمائش میں جاؤں۔ ان میں عورتیں اور مرد شامل تھے۔ رقاص تھے‘ مغنی تھے‘ موسیقار تھے اور وارڈ روب‘ میک اَپ وغیرہ کے انچارج تھے۔ ایک دن پاکستانی فنکار بھنگڑا پیش کر رہے تھے۔ ہزاروں کا مجمع تھا۔ لوگ مسحور ہو کر دیکھ رہے تھے۔ میں لوگوں کے تاثرات لینے کی غرض سے مجمع میں گھوم پھر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص‘ جس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی اور کنگھی کیے گئے سیاہ بال تھے‘ رو رہا تھا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور انگریزی میں پوچھا کہ کیوں رو رہا ہے...