اشاعتیں

جون, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

زیادہ خطرناک دہشت گردی

سیالکوٹ‘ جڑانوالہ‘ سرگودھا اور اب سوات میں جو کچھ ہوا اس سے ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ اس عفریت کے خاتمے کے لیے ریاست سے امید رکھنا سادہ لوحی ہے اور کم عقلی!! ریاست نے آج تک اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں کیا! یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ریاست بے بس ہے؟ یا ریاست اس سلسلے میں کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی؟ ان سوالوں کا جواب ہمیں خود ہی تلاش کرنا ہو گا۔ آئیے! تلاش کرتے ہیں! اس تلاش سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم جب ریاست کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس میں حکومت‘ عدلیہ‘ پارلیمان‘ مقتدرہ‘ بیورو کریسی‘ سب اعضا شامل ہیں۔ ایسے واقعات کے سد باب کے لیے مؤثر ترین عمل عبرتناک سزا ہوتی ہے۔ آج تک کسی بھی ایسے سفاک قتل کے مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔ سری لنکن شہری والے واقعہ کی سزا سنائی گئی‘ دی نہیں گئی۔ سزا سنانے اور سزا دینے میں فرق ہے۔ اگر کسی بھی ایسے وحشیانہ قتل کی سزا دی گئی ہے تو ریاست کا فرض تھا کہ اس کی تشہیر کرتی۔ اس سے پہلے سیالکوٹ ہی میں دو بھائیوں منیب اور مغیث کو ہجوم نے بے دردی سے ہلاک کر دیا تھا۔ ان کے قاتلوں کو کیا سزا ملی؟ بینک کے منیجر کو جس گارڈ نے گولی ماری تھی کیا اسے...

مشتری ہُشیار باش!!

حکومت اور ریاست‘ دونوں کی ترجیحات میں عوام نہیں نظر آتے۔ اس لیے پاکستان میں ہر شعبہ‘ خواہ سرکاری ہے یا نجی‘ عوام کو دھوکا دیتا ہے۔ عوام کا استحصال کرتا ہے۔ عوام سے جھوٹ بولتا ہے اور عوام کو اذیت دیتا ہے۔ مستثنیات یقینا ہیں مگر کم! بہت کم! مریضوں کو ڈاکٹروں سے شکایات ہیں۔ ڈاکٹروں کو حکومت سے اور ہسپتالوں سے! والدین کو سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے۔ ڈرائیوروں کو ٹریفک پولیس سے۔ اسی سے باقی شعبوں کا بھی قیاس کر لیجیے۔ ریاست اور حکومت کا اولین فریضہ عوام کے حقوق کا خیال رکھنا ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ اسی لیے غیرملکی کمپنیاں بھی پاکستانی عوام کو پریشان کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں! ایک بار ایک عزیز بیرونِ ملک سے آ رہے تھے۔ عید قریب تھی۔ ان کی پرواز نے پشاور اترنا تھا۔ میں انہیں لینے گیا۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کی دو معروف ایئر لائنوں میں سے ایک کا جہاز تھا۔ میرے عزیز آگئے مگر سامان ابو ظہبی رہ گیا۔ بتایا گیا کہ کسی اگلی فلائٹ میں آئے گا۔ اس پرواز میں پشاور کی نواحی بستیوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے مسافر تھے جو اپنے اعزہ کے لیے عید کے تحائف لے کر آئے تھے۔ یہ تحائف اب عید کے بعد پہنچنے تھے۔ کب...

اونٹنی

اونٹنی صرف اونٹنی نہیں‘ ایک علامت ہے۔تب بھی علامت تھی۔ آج بھی علامت ہے۔ تب بھی لوگوں نے پروا نہ کی۔ آج بھی لوگ اٹکھیلیاں کر رہے ہیں۔ تب بھی خدا کا خوف عنقا تھا۔ آج بھی وہی صورت حال ہے۔  پہلے معجزے کا مطالبہ کیا۔پہاڑ پھٹا۔ اس میں سے اونٹنی نکلی۔ حکم ہوا ایک دن تالاب ( یا چشمے) سے اونٹنی پانی پیے گی۔ اور ایک دن سب لوگ۔ یہ پابندی لوگوں کو پسند نہ آئی۔ خدا کی اس نشانی کو انہوں نے ہلاک کر دیا۔ پھر ان پر عذاب اُترا! ایسا عذاب کہ آج تک ان کی بستیاں نشانِ عبرت ہیں! یہ جو اونٹنی کی ٹانگ اب‘ اس ملک میں‘ کاٹی گئی ہے‘ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اصل مجرم کو‘ مبینہ طور پر‘ بچایا جا رہا ہے کیونکہ اس کا تعلق طاقتور طبقات سے ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ‘ مبینہ طور پر ایک سیاسی جتھے سے بھی جُڑا ہوا ہے۔ جس معاشرے میں طاقتور مجرموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے‘ اس معاشرے پر عذاب اُترتا ہے۔ عذاب صرف یہی نہیں کہ زلزلہ آئے یا چنگھاڑ سنائی دے‘ یا طوفان آکر مجرموں کو ہلاک کردے اور وہ اوندھے پڑے ہوں جیسے کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں‘ یا ان پر مینڈکوں کی یا جوؤں اور مچھروں کی یا خون کی بارش ہو یا ان کے چہرے مسخ ہو کر...

دشت اور گَلّہ بانی

پبلک ڈیلنگ والے ایک بہت بڑے ادارے میں کام پڑ گیا۔ کسی دوسرے شہر کے ایک بے سہارا شخص کا کام تھا۔ ایک دوست نے اس کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس کے بعد کی داستان دلخراش ہے‘ دلدوز ہے اور دلگیر!  یہ ایک نیا زمانہ ہے۔ ایسا زمانہ کہ اس کا مثیل اس سے پہلے‘ ہزاروں لاکھوں سال میں نہیں آیا۔ یہ زمانہ ایک لفظ‘ صرف ایک لفظ‘ کے گرد گھومتا ہے۔ ایسا لفظ جس نے دنیا کا جسم‘ دنیا کی روح‘ دنیا کا دل‘ دنیا کا مزاج‘ دنیا کی شان‘ سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے دنیا ایک جوہڑ تھی۔ اب ایک سمندر ہے۔ اس سے پہلے دنیا ٹکڑوں پر مشتمل تھی۔ اب ایک اکائی ہے۔ اس سے پہلے دنیا ایک چیستان تھی۔ اب ایک کھلی کتاب ہے۔ یہ لفظ جس نے سب کچھ کایا کلپ کر کے رکھ دیا ہے ''انفارمیشن‘‘ ہے۔ اب کوئی جھونپڑی میں‘ آلتی پالتی مار کر‘ فرشِ خاک پر بیٹھا ہے یا محل میں مسندِ زرّیں پر‘ امریکہ میں بیٹھا ہے یا افریقہ میں‘ انفارمیشن‘ ہر معاملے کی‘ ہر موضوع پر‘ اس کی مٹھی میں ہے۔ اندازہ لگائیے‘ ایک زمانہ تھا کہ کراچی سے چھپنے والا روزنامہ اسلام آباد میں شام کو اور ڈھاکہ میں دوسرے دن ملتا تھا۔ اب آپ نے ایک بٹن دبانا ہے اور واشنگٹن اور نیویا...

قراردادِ مقاصد کی بیلنس شیٹ

گھمسان کی جنگ ہے۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں۔ موضوع‘ بنیادی طور پر‘ قرادادِ مقاصد ہے۔ جناب وجاہت مسعود‘ جناب مجیب الرحمان شامی اور جناب خورشید ندیم میدان میں نبرد آزما ہیں۔ تینوں اصحاب علم و ادب‘ صحافت اور خطابت میں یکتائے روزگار ہیں۔ تینوں اردو لکھتے ہیں تواپنے اپنے انداز میں‘روشنیاں بکھیرتے جاتے ہیں! ان کے دیے ہوئے مصرع پر گرہ لگانا کم از کم مجھ جیسے نیم خواندہ کے بس کی بات نہیں۔ پھر بھی کچھ معروضات ایسی ہیں جو پیش ہونا چاہتی ہیں۔ میری مثال اُس شخص کی سی ہے جس کے تین بھائی عالم فاضل تھے اور وہ اَن پڑھ تھا۔ اس کا نام فتح محمد تھا۔ اَن پڑھ ہونے کی وجہ سے ''پھتّا‘‘ کہلواتا تھا۔ کسی شمار قطار میں نہ تھا۔ مگر بھائی تو تھا؛ چنانچہ جب بھائیوں کو گِنا جاتا تھا تو اس کا نام بھی ضرور ہوتا تھا۔ اس سے محاورہ ایجاد ہوا کہ ''پھَتّا وِچ بھراواں گَتّا‘‘۔ گَتّا ہماری لہندی پنجابی میں ''گننا‘‘ کا فعل مجہول ہے۔ یعنی پھَتا بھی بھائیوں میں گِنا جاتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کو پچھتر سال ہو چکے ہیں۔ آج کے با شعور پاکستانی نوجوان کو اس سے غرض نہیں کہ قرارداد مقاصد غلط تھی یا صحیح ! پیش کر...

ایک اہم ملاقات کی تفصیل

بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات کا وقت لیا ہے۔ کبھی کوئی خاص دقت پیش نہیں آئی۔ وزیروں سے‘ سفیروں سے‘ امیروں سے‘ بادشاہوں سے! زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ دو تین دن انتظار کرنا پڑا۔ مگر ایک شخصیت ایسی تھی جس سے اپائنٹمنٹ لینے کی کوشش میں چھکے چھوٹ گئے۔ پہلے تو سراغ ہی نہیں مل رہا تھا کہ کس سے رابطہ کیا جائے۔ ہر شے پُراسرار تھی۔ شخصیت بہت بڑی مگر آہنی پردوں کے پیچھے! کئی صحافی دوستوں سے مدد مانگی۔ کوشش انہوں نے بہت کی مگر تھک ہار کر اظہارِ عجز کر دیا۔ پھر مجھے یہ محاورہ یاد آگیا کہ ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘۔ ایک پرانا بے تکلف دوست پولیس میں ملازم تھا۔ اس سے اظہارِ مدعا کیا۔ پہلے تو اس نے ٹال مٹول سے کام لیا مگر میں نے جب پرانی دوستی کا واسطہ دیا تو کہنے لگا یار! معاملہ بہت خطرناک ہے۔ کسی کو معلوم ہو گیا کہ شیدے ڈاکو کا نمبر میں نے دیا ہے تو میری شامت آ جائے گی۔ اس پر مجھے غصہ آگیا۔ میں نے کہا: کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے کہ پولیس کی خاموشی یعنی ''نیم رضا‘‘ کے بغیر کوئی ڈاکا نہیں پڑ سکتا؟ پھر میں نے اسے آنکھوں دیکھا واقعہ سنایا۔ یہ 2012ء یا 2013ء کی بات ہے۔ میں اسلام آباد...

صرف پی ڈبلیو ڈی کا خاتمہ کیوں؟؟

وزیراعظم نے حکم دیا ہے کہ پی ڈبلیو ڈی کے محکمے کو ختم کر دیا جائے۔ وجہ؟ کرپشن اور نااہلی!یہ ایک درست فیصلہ ہے! مگر سوال یہ ہے کہ صرف پی ڈبلیو ڈی ہی کیوں؟ وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں ''جیہڑا بھنّو‘ اوہی لال اے‘‘۔ اگر کسی محکمے کو ختم کرنے کا سبب کرپشن اور نااہلی ہے تو پھر:تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں! کچھ سال پہلے لاہور کی کسی عدالت نے کہا تھا کہ ایل ڈی اے کرپٹ ترین محکمہ ہے۔ اس پر اس کالم نگار نے سی ڈی اے کو غیرت دلائی تھی کہ جاؤ اور شکایت کرو کہ کرپٹ ترین ہونے کا اعزا ز تو تمہارا ہے۔ ایل ڈی اے بھی ہو گا مگر دوسرے نمبر پر! دو ہفتے پہلے ہمارے ایک دوست نے مکان خریدا۔ مکان بہت پرانا تھا۔ 50‘ 60 سال پہلے کا بنا ہوا۔ اس کی دیکھ بھال بھی نہیں کی گئی تھی۔ معمار نے فیصلہ سنایا کہ اسے منہدم کرنا ہو گا۔ منہدم کرنے والی پارٹیوں کو بلایا گیا۔ سب نے ایک ہی بات بتائی کہ انہدام کیلئے سی ڈی اے سے این او سی لینا ہو گا اور اس کیلئے 50ہزار روپے ''ریٹ‘‘ ہے!! کہنے کو تو سی ڈی اے نے ''وَن ونڈو آپریشن‘‘ بنایا ہے مگر اس طریقِ کوہکن میں بھی حیلے پرویزی ہی ہیں! اگر کام 50ہزار روپے ر...

۱۹۷۱ کا بکھیڑا اور رئیل اسٹیٹ کی تباہی

   ۱۹۷۱ کا سانحہ پاکستان میں ایسا ہاتھی بن چکا ہے جو اندھوں میں گھِر گیا تھا۔ ہر اندھا اپنے ''علم‘‘ کے مطابق بتا رہا تھا کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ جو اندھا ہاتھی کی ٹانگ کو ٹٹول رہا تھا اس کے رائے تھی کہ ہاتھی ستون کی شکل کا ہوتا ہے۔ جو ہاتھی کے کانوں کو چھو رہا تھا‘ اس کے نزدیک ہاتھی بڑے سائز کے دستی پنکھے کی طرح تھا۔ جس کے ہاتھ میں سونڈ تھی وہ کہتا تھا کہ ہاتھی پائپ کی طرح ہوتا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ کلامِ اقبال بن کر رہ گیا ہے۔ اقبال کے پورے کلام کو‘ پوری آئیڈیالوجی کو‘ پورے نظام کو نہ پڑھا جاتا ہے نہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مولوی اپنے مطلب کے اشعار نکال لیتا ہے۔ کامریڈ وہ اشعار پیش کرتا ہے جو اسے راس آتے ہیں۔ 1971ء کے حادثے سے بھی سب اپنے اپنے مطلب کے اجزا اخذ کرتے ہیں۔ کچھ بنگالیوں کو مجرم ثابت کرتے ہیں‘ کچھ بھارت کو‘ کچھ پاکستان کی طویل آمریت کو۔ کچھ سارا الزام یحییٰ خان پر لگاتے ہیں اور کچھ جنرل نیازی پر ملبہ ڈالتے ہیں جوڈراپ سین کے وقت وہاں موجود تھا۔ اس فکری انتشار کی وجہ بدنیتی کم ہے اور جہالت زیادہ! جہالت سے ہماری مراد ناخواندگی نہیں! اس سے مراد مشرقی پاکستان کی ع...

یہ مزا ہر ایک کی قسمت میں کہاں

ہم کئی دن اس کے پاس‘ اس کے گھر میں رہے۔ جس دن واپس آنا تھا میری طبیعت میں صبح سے عجیب اضطراب تھا۔ میں نے اور بیگم نے کوشش کی کہ اس سے چھپ کر گاڑی میں بیٹھیں۔ مگر جیسے ہی گاڑی سٹارٹ ہوئی وہ ننگے پاؤں بھاگتا باہر آیا۔ جب دیکھا کہ نانا نانو دونوں گاڑی میں سوار ہیں تو پوری قوت سے‘ جتنی اس کے ننھے جسم میں تھی‘ رونا چیخنا شروع کر دیا۔ پھر اس نے دونوں ہاتھ میری طرف کئے۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ اسے گاڑی کے اندر گود میں بٹھا لیا۔ پھر ڈرائیور سے کہا کہ ایک دو گلیوں کے چکر لگاؤ۔ گاڑی چلی اور اس نے خوشی سے گود میں ہلنا اور جھومنا شروع کر دیا۔ تین چار گلیوں سے ہو کر واپس پہنچے۔ اب اس کی ماں نے اسے گاڑی سے اتارنا چاہا۔ پہلے تو رستم نے مدافعت کی۔ پھر رویا اور خوب رویا۔ گاڑی کے دروازے بند ہوئے تو اس کے رونے کی آواز مدہم سنائی دینے لگی۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں اپنے  Grand children کے حوالے سے بہت حساس اور جذباتی ہوں۔ (معاف کیجیے گا‘ گرینڈ چلڈرن کا لفظ مجبوراً لکھا ہے۔ اس کا اردو متبادل لمبا ہے۔ یعنی پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں! اسی طرح گرینڈ پیرنٹس کا اردو متبادل نانا نانی‘ دادا دادی ہو گا۔ گرینڈ چلڈر...