اشاعتیں

مئی, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ایٹم بم کے بعد؟؟

دو دن پہلے‘ اٹھائیس مئی کو‘ اخبارات میں دو خبریں چھپیں۔ ایک تو نمایاں تھی۔ سب نے پڑھی۔ یہ یوم تکبیر کی تھی! ہم نے ایٹم بم بنایا اور دشمن کو قابو کر لیا۔ اس خوشی میں عام تعطیل ہوئی۔ خوشی کی بات بھی ہے‘ اس لیے کہ ایٹمی کلب میں شامل ہونا ہر ملک کے بس کی بات نہیں۔ ہم اب قوموں کی برادری میں ہائی سٹیٹس کے مالک ہیں! بھارت نے جب ایٹمی دھماکا کیا تو اس کے فوراً بعد اس کے لیڈروں کا لہجہ ہی بدل گیا۔ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ ان کے بیانات سے یوں لگتا تھا جیسے پاکستان اب ایک ترنوالہ ہے۔ پاکستان نے جوابی دھماکا کیا تو حالات نارمل ہوئے۔ دوسری خبر بہت ہی کم لوگوں نے پڑھی ہو گی۔ جنہوں نے پڑھی ہو گی‘ وہ جلدی سے آگے بڑھ گئے ہوں گے۔ اس طالب علم نے بھی پڑھی! یہ خبر کسی دور افتادہ بستی کی ہے نہ علاقہ غیر کی! یہ لاہور شہر کی خبر ہے! ایک عورت نے دوسری بیٹی کو جنم دیا۔ اس گناہِ کبیرہ پر بہادر‘ جوانمرد شوہر نے بیوی کو شدید تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا۔ اس کارِ خیر میں اس کے عظیم المرتبت والدِ گرامی اور قابل ِفخر بھائی نے بھی اُس کا ہاتھ بٹایا۔ خبر کا دلچسپ‘ دردناک اور عبرت انگیز پہلو یہ ہے کہ شوہرِ نامدار حافظ ق...

قرۃ العین حیدر کی تائید

'' ابراہام لنکن ایک دن دنیا ومافیہا سے بے خبر کسی دوست کے ساتھ سر جوڑے کئی گھنٹوں سے شطرنج میں مصروف تھے۔ بیوی نے کئی بار چائے رکھی اور ہر بار ٹھنڈی ہونے پر واپس لے جاتی۔ شطرنج کھیلنے والا دوست بھی غالباً انہیں ناپسند تھا‘ اس لیے پیمانۂ صبر ذرا جلدی لبریز ہو گیا۔ گرم گرم چائے کی ٹرے لے کر پاس کھڑی ہو گئیں۔ جب کھلاڑیوں نے کوئی نوٹس نہ لیا تو انہوں نے ٹرے کو عین بساط کے اوپر لا کر ہاتھ چھوڑ دیے۔ مسز لنکن پیر پٹختی کچن کی طرف روانہ ہو گئیں اور دونوں دوست کپڑے جھاڑتے کھڑے ہو گئے۔ لنکن نے معذرت کی۔ ہاتھ ملایا اور کہا: کل اسی چال سے دوبارہ گیم شروع ہو گی۔ گڈ نائٹ!‘‘ یہ اقتباس پروفیسر ڈاکٹر صباحت مشتاق کی تصنیف ''اعتراف‘‘ سے ہے۔ کتابوں کا  Influx  اس عہد میں سیلِ رواں کی طرح امڈا آتا ہے۔ ایسے میں ہر کتاب توجہ کے لائق نہیں۔ مگر ڈکٹر صباحت مشتاق کی کتاب ''اعتراف‘‘ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قرۃ العین حیدر نے اس کی کہانیوں کی تعریف کی ہے جو معمولی بات نہیں‘ اس لیے کہ قرۃ العین حیدر ایک تو تعریف کرنے میں فیاض ہر گز نہ تھیں‘ دوسرے‘ لگی لپٹی رکھنے کی قائل نہ تھیں۔ ان کا مقام ا...

محترمہ مریم نواز‘ چیف منسٹر پنجاب کی خدمت میں

پہلے بھی عرض کیا ہے کہ پاکستان ''طبقۂ امرا کی حکومت‘‘ یعنی اولی گارکی  (Oligarchy)  کا شکار ہے۔ سالہا سال سے‘ کئی دہائیوں سے‘ یہی سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ متوسط طبقے کا کوئی پروفیسر‘ کوئی معیشت دان‘ کوئی دانشور حکومتی صفوں میں میرٹ پر آیا ہو۔ اگر کوئی‘ ایک آدھ نفر‘ اوپر آیا بھی ہے تو صرف اس لیے کہ اس نے کسی نہ کسی بڑے آدمی کے ساتھ ذاتی وفاداری نبھائی ہے۔ طبقۂ امرا اس قدر غالب ہے کہ کوئی مڈل کلاس سے آ بھی جائے تو جلدی جلدی ہاتھ پاؤں مار کے امرا کی صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ جنوب کی جس پارٹی نے شور مچایا تھا کہ مڈل کلاس سے ہے‘ اس کی مڈل کلاس جلد ہی ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ اب کسی کی امریکہ میں پٹرول پمپوں کی قطار ہے اور کسی کے اہلِ خانہ لاس اینجلس کے گراں ترین علاقے میں رہتے ہیں۔ ایک صاحب صحافت سے سیاست میں آئے تھے۔ مڈل کلاس سے تھے۔ مگر پارٹیاں اتنی بدلیں کہ ساری حدیں پار کر ڈالیں! آپ ''اولی گارکی‘‘ کے جبڑوں کی مضبوطی کا اندازہ ایک تازہ مثال سے لگائیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ملک میں عوام گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ صرف شاہراہوں پر رونما ہونے والے حادثات...

ویزا‘ بائیو میٹرک اور نجی کمپنی

چلچلاتی دھوپ تھی۔ کڑکتی ہوئی! سایہ عنقا تھا۔ درخت تھا نہ کوئی سائبان! کھلا میدان تھا۔ خلقِ خدا قطار باندھے کھڑی تھی۔ پسینہ ٹنوں کے حساب سے بہہ رہا تھا۔ قطار میں مرد تو تھے ہی‘ بچے بھی تھے‘ عورتیں بھی‘ اور بوڑھے اور بوڑھیاں بھی تھیں! لمبی قطار کے سرے پر ایک شرطہ نما پیشکار کھڑا تھا۔ وہ دروازے میں کھڑا تھا اس لیے دھوپ سے بچا ہوا تھا۔ ایک بوڑھی عورت نے اسے کہا: بھئی! ہم بوڑھے لوگ ہیں! سینئر سٹیزن ہیں۔ کب تک دھوپ میں کھڑے رہیں گے؟ شرطہ نما پیش کار نے ایک ادائے بے نیازی سے اسے دیکھا اور کہا: اچھا! میں اندر بتاتا ہوں۔ معلوم نہیں اس نے کس سے بات کی! کسی سے کی بھی یا نہیں۔ آدھا گھنٹہ اور گزر گیا۔ بوڑھی عورت کڑکتی دھوپ میں کھڑی رہی۔ کافی دیر کے بعد ایک اور داروغہ نما اہلکار آیا اور اسے عمارت کے اندر جانے کی اجازت ملی۔ یہ وفاقی دار الحکومت میں ایک نجی کمپنی کا احاطہ تھا۔ دوسرے ملکوں نے‘ یا دوسرے ملکوں کے مقامی سفارت خانوں نے اس نجی کمپنی کے سپرد اُن پاکستانیوں کو کر رکھا ہے جو ان ملکوں میں جانا چاہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کمپنی ویزا کے طلبگاروں کی درخواستیں وصول کرتی ہے اور پھر انہیں مختلف م...

کیا آپ ساتھ دیں گے؟

ایک مسوّدے کی ترتیب اور موازنے کے لیے مدد درکار تھی۔ ایک دوست نے ایک پڑھے لکھے‘ ڈگری یافتہ نوجوان کا نام تجویز کیا‘ جو فارغ بیٹھا تھا۔ اس سے رابطہ ہوا۔ طے ہوا کہ وہ اگلے دن صبح دس بجے پہنچ جائے گا۔ اسے تلقین بھی کی کہ دس بجے کا مطلب دس بجے ہے۔ دوسرے دن میں نے اپنے پڑھائی لکھائی والے والے کمرے میں ضروری اشیا ترتیب دیں اور چائے اور رس کا ''شاہانہ اور متعیشانہ‘‘ ناشتہ کر کے اس تعلیم یافتہ‘ ملازمت کے متلاشی‘ نوجوان کا انتظار کرنے لگ گیا۔ دس سے سوا دس ہو گئے۔ پھر ساڑھے دس۔ پھر پونے گیارہ۔ اور پھر گیارہ بج گئے۔ ان دنوں میں جہاں قیام پذیر ہوں وہ جگہ‘ شہر کے وسط میں‘ ایسی ہے کہ وہاں پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے دوران اس کا فون بھی نہ آیا۔ جب سوا گیارہ ہو گئے تو میں نے فون کیا کہ بھائی کہاں ہو؟ انتہائی بے نیازانہ لہجے میں جواب ملا ''سر! آ رہا ہوں‘‘! موصوف آئے تو کہنے لگے: کچھ دوست آ گئے تھے‘ ان کی وجہ سے دیر ہو گئی۔ نو ساڑھے نو بجے دوستوں نے کیا آنا تھا۔ بس اپنے وقت پر بیدار ہوئے۔ پھر آرام سے تیار ہوئے اور چل پڑے۔ کچھ اندازہ تھا نہ فکر کہ کب ...

جناب عمر ایوب کی خدمت میں ایک مخلصانہ مشورہ

خواجہ محمد صفدر مرحوم‘ پاکستان کے تیسرے آمرِ مطلق ضیاالحق کے ساتھیوں میں سے تھے۔ اُس عہد کی مجلس شوریٰ جنرل صاحب کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی تھی اور خواجہ صفدر اس مجلس شوریٰ کے چیئرمین تھے۔ خواجہ صفدر کے صاحبزادے خواجہ آصف اپنے والد کے قول و فعل کے ذمہ دار نہیں۔ (اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ والی جان اپنے بوجھ کی طرف کسی کو بلائے گی تو اس کے بوجھ میں سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا‘ اگرچہ قریبی رشتہ دار ہو۔ القرآن ) اس کے باوجود انہوں نے اپنے والد مرحوم کے اُس دور کے حوالے سے معافی مانگی جس کے دوران وہ جنرل ضیا کے ساتھ تھے۔ عمر ایوب صاحب نے کہا ہے کہ مارشل لاء ان کے دادا نے نہیں‘ اسکندر مرزا نے لگایا تھا۔ یہ وہی بات ہے جو ہمارے گاؤں کے ایک صوبیدار صاحب کے بیٹے نے کی تھی! صوبیدار صاحب کو ملازمت کے دوران گھر کے لیے بَیٹ مین ملا ہوا تھا‘ جو فوج میں ملا کرتا ہے۔ بیٹا ان کا چھوٹا تھا۔ گُڑ بہت کھاتا تھا۔ صوبیدار صاحب نے بچے کو سختی سے منع کیا کہ گُڑ نہ کھائے۔ ایک دن چھٹی کر کے گھر آئے تو بچہ مزے سے گڑ کھا رہا تھا۔ باپ نے ڈانٹا تو کہنے لگا...

ایک کالم کانُو صاحبان کے لیے

کانو صاحب بہت اچھے آدمی تھے۔ پڑھے لکھے اور آسودہ حال! واحد مصروفیت اخبار بینی تھی۔ اور یہ اخبار بینی ہی ان کے گھر والوں کے لیے مصیبت بنی ہوئی تھی۔ اخبار ہارڈ کاپی نہیں پڑھتے تھے۔ کمپیوٹر پر پڑھتے تھے۔ اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ (یہ آگے چل کر آپ جان جائیں گے) ایک دو اخبارات پر قناعت نہیں کرتے تھے۔ ملک بھر کے تمام اخبارات‘ جو انٹرنیٹ پر پڑھے جا سکتے تھے‘ پڑھتے تھے۔ پڑھنے کا لفظ شاید موزوں نہیں۔ وہ اخبارات پڑھتے نہیں‘ بلکہ ایک ایک سطر‘ ایک ایک فقرہ‘ ایک ایک لفظ ماپتے اور تولتے تھے۔ بیگم صاحبہ سخت مزاج تھیں۔ ان کے سامنے بات کرنے کا یارا نہ تھا۔ بچے اپنے اپنے کام پر چلے جاتے تھے۔ بیگم پر جو غصہ ہوتا‘ اور بیگم صاحبہ کے زیر دست ہونے کی وجہ سے یاس کی جو ایک عمومی اور مستقل کیفیت تھی‘ اس کا توڑ کانو صاحب نے یہ نکالا تھا کہ جہاں جہاں کمنٹ کرنے کی گنجائش تھی‘ کمنٹ کرتے اور اندر کا سارا زہر باہر نکال دیتے۔ کالم نگار ان کا پسندیدہ شکار تھے۔ کالموں کے نیچے ایسے ایسے کمنٹ لکھتے کہ بندہ سن کر یا پڑھ کر کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اخبار والوں سے بھی دل میں دشمنی پالی ہوئی تھی کیونکہ وہ ان کے طعن و تشنیع اور د...

گورنر سٹیٹ بینک کے نام

نوجوان پریشان تھا۔ غصے میں تھا۔ صدمے میں تھا۔ اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔ اضطراب اس کے جسم سے‘ اس کی رَگ رَگ سے‘ اس کے مساموں سے زہریلی شعاؤں کی طرح پھوٹ رہا تھا۔ وہ میرے ایک دوست کے ساتھ میرے پاس آیا تھا۔ آج کل دو کتابوں پر کام کر رہا ہوں۔ اس لیے ملنے ملانے سے گریز کرتا ہوں۔ یوں بھی زندگی جھنجھٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ مگر میرے دوست نے کہا کہ اس نوجوان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے ضرور سنوں کہ اس میں نوجوان کو تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا‘ ہاں مجھے اس ملک کی پسماندگی کی ایک اور وجہ ضرور معلوم ہو جائے گی۔ نوجوان بیرونِ ملک سے آیا تھا۔ پہلی بات اس نے جو کی‘ اس کی مایوسی اور بے بسی پوری طرح بتا رہی تھی۔ ''سر! پاکستان میں میرے ماں باپ ہیں ورنہ ادھر کا رخ نہ کرتا ‘‘۔ اسے پانی پلایا‘ چائے پیش کی مگر جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا تھا اُس سلسلے میں مَیں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ بغل گیر ہو کر روؤں۔ اس نوجوان نے‘ جو بیرونِ ملک ملازمت کر رہا تھا‘ کچھ عرصہ پہلے حبیب بینک میں ڈالر اکاؤنٹ کھلوایا تھا۔ سارا سال بیرونِ ملک سے ڈالر بھجواتا رہا جو اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتے ر...

تیمور اور دیگر تارکینِ وطن

جنوری کے آخر میں تیمور واپس گیا۔ ایئر پورٹ پر‘ اندر جانے سے پہلے‘ مجھے گلے ملا تو پوچھا ''ابو! آپ کا ویزا کب لگے گا؟‘‘۔ بارہ سالہ تیمور‘ ہر روز‘ پاکستانی وقت کے مطابق‘ تین بجے سہ پہر‘ وڈیو کال کرتا ہے۔ اُس کے ہاں یہ نو بجے رات کا وقت ہوتا ہے۔ سونے سے پہلے کہانی سنتا ہے۔ یہ اس کا معمول ہے۔ پاس ہو تو مجھے اس کے پلنگ پر‘ اس کے ساتھ بیٹھ کر‘ یا نیم دراز ہو کر کہانی سنانا ہوتی ہے۔ پاس نہ ہو تو وڈیو لنک پر! اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی سالار بھی کہانی سنتا ہے۔ آسٹریلیا واپس پہنچ کر کچھ دن تک ہر روز پوچھتا رہا کہ ویزے کا کیا بنا؟ ان معاملات میں اتنی جلدی کوئی پیشرفت تو ہوتی نہیں! یہاں سے روتے ہوئے جاتا ہے۔ وہاں سے جب ہم نے واپس آنا ہوتا ہے‘ تو ہماری روانگی سے چند دن پہلے ہی کہنا شروع کر دیتا ہے کہ ایک مہینہ اور رُک جائیے۔ ابھی جنوری میں جب واپس گیا تو اس کے ابا نے بتایا کہ وہ لوگ‘ تالا کھول کر‘ خالی گھر میں داخل ہوئے تو تیمور رو پڑا اور کہنے لگا ''ہمیں پاکستان سے واپس نہیں آنا چاہیے تھا!‘‘ اب تو ما شاء اللہ بارہ سال کا ہے۔ جب چار پانچ سال کا تھا تب بھی دادا دادی کے ساتھ و...

اسلام آباد کے نئے چیف کمشنر اور محترمہ عظمیٰ بخاری

وفاقی دارالحکومت میں نئے چیف کمشنر نے منصب سنبھال لیا ہے۔ ہم‘ شہر کے مکین‘ نئے والیٔ شہر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں دستور عجیب ہوتا تھا۔ شہر کے صدر دروازے سے علی الصبح داخل ہونے والے اجنبی کو حکومت سونپ دی جاتی تھی۔ بقول شاعر   میں جب ساحل پہ اُترا خلق میری منتظر تھی کئی دن ہو گئے تھے‘ بادشہ ملتا نہیں تھا مگر یہ داستانوں کی باتیں ہیں۔ اب وہ شہر رہے نہ اُن کے صدر دروازے! اب افسر کئی چھلنیوں سے گزر کر شہر کا والی مقرر ہوتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نئے چیف کمشنر صاحب ایک Typical  بیوروکریٹ کی طرح شہر کے باشندوں سے دور رہنے کی روایت پر عمل پیرا نہیں ہوں گے۔ ان کے پیشرو کو خدا خوش رکھے! اُن سے رابطہ کرنا یا ان کی توجہ حاصل کرنا جو بائیڈن سے بات کرنے سے زیادہ مشکل تھا۔ اسلام آباد کے وسطی حصے میں ایک مسئلہ آن پڑا جو ارد گرد بسنے والوں کے لیے سوہانِ روح تھا۔ بیچارے لوگ رپورٹر یا کالم نگار کو کہتے ہیں کہ‘بھئی! حکام تک ہماری بات پہنچاؤ! رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اس حصار سے جو اُس وقت کے چیف کمشنر صاحب کے گرد قائم تھا‘ گزرنا ناممکن تھا۔ سو کالم لکھا۔ کچھ نہ ہوا۔پھر کالم ان ک...