اشاعتیں

اپریل, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

بحرِ مُردار کا جزیرہ

یہ عجیب و غرسیب ملک بحرِ مُردار کے ایک منحوس جزیرے پر مشتمل تھا۔ یہاں رہنے والے لوگ ٹیکس دے دے کر ادھ موئے ہو چکے تھے۔ اُن کی پسلیاں گنی جا سکتی تھیں۔ گال پچک گئے تھے۔ بچوں کے پیٹ کمر سے جا لگے تھے۔ عورتیں گھر کا کام کرتے کرتے گر جاتی تھیں۔ بوڑھے دہلیزوں پر پڑے ایڑیاں رگڑ رہے تھے۔ وہ ہر شے پر ٹیکس دے رہے تھے۔ ماچس خریدتے یا نمک مرچ‘ کپڑا خریدتے یا دوا‘ موبائل میں کریڈٹ ڈلواتے یا ریستوران میں ایک پیالی چائے پیتے‘ ہر شے کی قیمت کے ساتھ اضافی رقم ٹیکس کی لگائی جاتی! بچوں کا دودھ‘ ان کی کتابیں‘ کاپیاں‘ کفن‘ لحد پر لگنے والی سلیں‘ قبر پر ڈالی جانے والی مٹی‘ قُل کے لیے خریدے جانے والے چاول‘ نماز والی ٹوپی‘ چارپائی کی ادوائن والی رسّی‘ غرض ہر شے پر ٹیکس تھا۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود شہنشاۂ معظم اور ان کے وزیراعظم کے اخراجات پورے نہیں پڑ رہے تھے۔ ملکی خزانہ ان اخراجات کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔ شہنشاہ کے محل میں استعمال ہونے والی ہر شے‘ کراکری سے لے کر بستر کی چادروں تک‘ سرکاری خزانے سے خریدی جاتی تھی۔ باورچیوں‘ باغبانوں اور دیگر خدام کا شمار مشکل تھا۔ پورے ملک میں جہاں جہاں ان حکمرانوں کے گھر ...

حکومتوں اور پولیس کے درمیان غیر اعلانیہ معاہدہ

یہ آج کی بات نہیں‘ سینکڑوں سال سے یہی ہو رہا ہے! تغلقوں‘ خلجیوں‘ لودھیوں اور مغلوں کے عہد میں بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔ آج کے پاکستان میں‘ آج کے جمہوری‘ یا‘ نام نہاد جمہوری دور میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مغل بادشاہ جب سفر کرتے تھے تو ہراول دستے کے پہریدار‘ راستے میں آنے والے راہگیروں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے تھے۔ اکثر راہگیر اُن کے ڈنڈوں اور تلواروں کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اُتر جاتے تھے۔ مگر شاہی جلوس کی رفتار کا اتنا پریشر ہوتا تھا کہ ان کیڑوں مکوڑوں کی موت پر رکتا کوئی نہیں تھا۔ آج بھی جب کوئی حکمران راستے میں ہوتا ہے تو ان کی پروٹوکول کی گاڑیوں کے نیچے آ کر مرجانے والے کیڑوں مکوڑوں کے لیے کوئی نہیں رکتا!  تیرے امیر مال مست‘ تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی‘ خواجہ بلند بام ابھی پنجاب کی وزیر اعلیٰ دن رات محنت کر رہی ہیں۔ کیا عجب مریم سپیڈ‘ شہباز سپیڈ اور محسن سپیڈ‘ دونوں سے بازی لے جائے۔ بہت خوش آئند بات ہے۔مگر ک یا ہی اچھا ہوتا اگر وزیر اعلیٰ یہ حکم دیتیں کہ ان کے پروٹوکول قافلے ( Motorcade)  کے جس ڈرائیور نے‘ میڈیا اطلاعات کی رُو سے‘ تئیس سالہ ابو بکر کو ہلاک کیا‘...

کیا جناب چیف جسٹس ملک کی اس بدنامی کا نوٹس لیں گے؟؟

وفاقی دارالحکومت کے وسطی بازار میں ایک دکان ہے جہاں خالص چمڑے کی مصنوعات دستیاب ہیں۔ یہ لوگ اِس گئے گزرے زمانے میں بھی زینیں بناتے ہیں۔ بچپن کی یادیں تازہ کرنے کے لیے کبھی کبھی وہاں جانا ہوتا ہے اور ان لوگوں سے گپ شپ ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے شہروں میں زین ساز‘ شمشیر ساز‘ ظروف ساز اور کئی طرح کے اہلِ حرفہ ہوتے تھے۔   مرے بلخ‘ میرے ہرات شاد رہیں سدا مرے کوزہ گر‘ مرے زین ساز سدا رہیں  بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے زمانوں میں جو بھی دارالحکومت ہوتا تھا اس میں 32 ذاتیں‘ یعنی 32 پیشے ہوتے تھے تاکہ بادشاہ‘ اس کے عمائدین اور اس کی فوج کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں۔ جولاہے‘ درزی‘ کفش ساز‘ رنگ ساز‘ کوزہ گر‘ قالین باف‘ مٹھائیاں بنانے والے‘ اسپ فروش‘ نعل لگانے والے‘ سبزی اگانے والے‘ جلدساز اور کئی دیگر کاریگر ہوتے تھے۔ ہر پیشے کا اپنا الگ محلہ ہوتا تھا۔ شاہ اور شاہی محل کے مکینوں کی خدمت ان پیشوں کا اولین مقصد تھا۔ جیسے ترکی میں آج جو کرسٹل (بلور) عام بکتا ہے‘ کسی زمانے میں اس کرسٹل کے کارخانے صرف عثمانی سلاطین کے لیے کام کرتے تھے۔ کل بھی میں اس چرم ساز کے پاس بیٹھا تھا اور اسے بتا رہا ...

وزیراعظم کے اصل مخالف

ہمارے جیسے ملکوں میں سب سے زیادہ بے خبر شخص کون ہوتا ہے؟ حکومت کا سربراہ! روایت ہے کہ صدر ایوب کے ملاحظہ کے لیے ایک خصوصی اخبار چھاپا جاتا تھا جس کے واحد قاری وہ خود ہوتے تھے۔ اس میں ''سب اچھا ہے‘‘ کی تفصیل دلکش انداز میں بیان کی جاتی تھی۔ خصوصی اخبار یہ بھی بتاتا تھا کہ ایوب خان ملک کے محبوب ترین لیڈر ہیں اور ہر مرد و زَن معترف ہے کہ پاکستان کو انہوں نے پاتال سے اٹھا کر بامِ ثریا تک پہنچا دیا! سنا ہے کہ اقتدار کے آخری ایام میں کار کی کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر اُس وقت بھی لہراتے رہتے جب باہر کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہ روایت بھی سنی ہے کہ جب یحییٰ خان کو معلوم ہوا کہ لوگ اسے برُا بھلا کہتے ہیں‘ یہاں تک کہ دشنام دہی سے بھی باز نہیں آ رہے تو اس نے حیران ہو کر پوچھا ''کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘ صدیوں کے تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ حکمران ''اپنوں‘‘ کا جو حصار اپنے اردگرد باندھتا ہے‘ اسی حصار سے حکمران کے خلاف سازشوں کا جال پھیلتا ہے۔ اس حصار کے اکثر اراکین ان سازشوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اگر نہیں آگاہ ہوتا تو تخت پر بیٹھا حکمران! جنرل ایوب خان نے جب‘ الطاف گوہر ...

نہیں! جناب وزیراعظم! نہیں!

بنانا ری پبلک؟؟   نہیں! بنانا ری پبلک میں تو ری پبلک کا لفظ آتا ہے! یہ صرف بنانا ہے! آکسفورڈ لغت کی رُو سے ری پبلک وہ ریاست ہوتی ہے جس میں اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے یا اُن کے منتخب نمائندوں کے پاس!! جس ریاست میں ہم رہ رہے ہیں وہاں عوام کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو حکمرانوں نے مدینہ‘ جدہ اور پھر لاہور میں کیا!! رہے منتخب نمائندے تو ان کی طاقت کا مرکز پارلیمنٹ ہے!! ایک ری پبلک میں پارلیمنٹ حکومت کو گرا سکتی ہے اور بنا سکتی ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہو! یہ ری پبلک نہیں! خدا کی قسم ! یہ ری پبلک نہیں! یہ ری پبلک ہوتی تو جہاز کا پائلٹ اور نام نہاد قومی ایئر لائن کا سربراہ دونوں برطرف ہو چکے ہوتے! جس جہاز نے جدہ اترنا تھا اسے‘ مبیّنہ طور پر‘ مدینہ منورہ اُتارا گیا۔ خبر کی رُو سے‘ مدینہ جہاز اتارنے والے حکمرانوں نے مسجد نبوی میں نوافل ادا کیے۔ واپسی پر جدہ ایئر پورٹ پر جہاز میں سوار مسافروں کو دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا کیونکہ ''سرکاری‘‘ وفد نے سوار ہونا تھا اور انہیں اس بات کی مطلق فکر تھی نہ پروا کہ سینکڑوں مسافر جہاز میں دو گھنٹے سے بیٹھے ہیں۔ سرک...

پُر اسرار خطوط کون بھیج رہا تھا؟

لے دے کر ایک‘ دور دراز رشتے کی چاچی رہ گئی ہے جو اصلی مکھڈی حلوہ پکاتی ہے۔ دور دراز رشتے کی یوں کہ وہ میرے والد صاحب مرحوم کے تھرڈ کزن کی بیگم ہے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ تھرڈ کزن کو اردو میں کیا کہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم اردو الفاظ کے انگریزی متبادل ڈھونڈتے تھے۔ اب یہ وقت ہے کہ انگریزی لفظوں کی اردو پوچھتے ہیں۔ اصلی اور خالص مکھڈی حلوہ پکانا ذرا مشکل کام ہے۔ اس کے لیے رات کو گندم کا آٹا بھگو کر رکھنا ہوتا ہے۔ پھر صبح صبح اس کا عرق نکالنا ہوتا ہے جسے ''دودھی‘‘ کہتے ہیں یعنی نشاستہ! اس حلوے کا آبائی وطن ضلع اٹک اور ضلع میانوالی کے علاقے ہیں۔ آج کی نسل گندم کے آٹے کا عرق نہیں نکالتی۔ اب ہر شے ''میڈ ایزی‘‘ ہے۔ سوجی کو پانی میں گھولیے۔ لیجیے نشاستہ یا نام نہاد نشاستہ تیار ہے۔ مگر ہماری رشتے کی چاچی ضعیف اور نحیف ہونے کے باوجود آٹے کا عرق نکالتی ہے۔ اسی لیے ہم کبھی کبھار گاؤں جا کر اس سے اصلی اور خالص مکھڈی حلوے کی فرمائش کرتے ہیں! کچھ عرصہ پہلے اس چاچی کے بیٹے نے ایک عجیب حرکت کی! میرے ایک کھیت پر قبضہ کر لیا۔ اس نے اس میں مونگ پھلی بو دی اور گاؤں میں مشہور کر دیا ...

سو سال بعد بھی یہی حال ہو گا

''ایک صاحب انتیس رمضان کو فلاں بزرگ کے پاس گئے۔ اُن کے گھر سے ایک بہت خوبصورت نوجوان‘ بڑی سج دھج کے ساتھ‘ خوش خوش! باہر نکل کر جا رہا تھا۔ یہ صاحب اندر گئے اور بزرگ سے پوچھا: حضرت! یہ اتنا خوبصورت نوجوان جو بہت خوش دکھائی دے رہا تھا‘ کون تھا؟ بزرگ نے فرمایا: یہ انسان نہیں تھا۔ یہ عید کا چاند تھا! اور پوچھنے آیا تھا کہ حضرت! انتیس کو نکلوں یا تیس کو؟؟‘‘ اس نام نہاد واقعے پر مشتمل وڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ ایک شخص یہ کہانی سنا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے سامنے بیٹھے ہوئے سینکڑوں لوگ سن کر اَش اَش کر رہے ہیں۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ! کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اور ایسے لوگ اس ملک میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں! ان میں اَن پڑھ بھی ہیں۔ نیم تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں! ایسے بھی ہیں جو ہر سال فلاں صاحب کا درشن کرتے ہیں‘ اس یقین کے ساتھ کہ اندھوں کو بینائی مل جاتی ہے۔ ہم چند عمر رسیدہ‘ پرانے دوست‘ ایک دن کلب میں بیٹھے ہوئے‘ بیماریوں اور ڈاکٹروں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ہم میں سے ایک‘ جو ہم میں سے ...

پاکستان اور افغانستان …جان اور جانان

''جب تک افغانستان ٹی ٹی پی کے ٹریننگ کیمپس‘ پناہ گاہیں اور سہولت کاری نہیں چھوڑے گا تب تک سلسلہ چلتا رہے گا۔ افغان حکومت کے روز بروز بدلتے رویے سے ہمارے پاس ان کے لیے آپشن محدود ہو رہے ہیں۔ جس طرح ساری دنیا میں بارڈر ہیں‘ پاک افغان بارڈر کو بھی ویسا ہونا چاہیے۔ لوگ ویزا لے کر پاکستان آئیں اور کاروبار کریں۔ فری کھاتے میں جو لوگ بارڈر کراس کرتے ہیں اس میں دہشت گرد آتے ہیں۔ بارڈر کی جو بین الاقوامی حیثیت ہوتی ہے‘ اس وقت اس کا احترام نہیں کیا جا رہا۔ ہم نے افغانستان کا سامان بھارت بھیجنے کی اجازت دی ہے۔ ہم نے افغانستان کے لیے جنگیں لڑیں۔ قربانیاں دیں۔ افغانستان سے دہشت گردی اور سمگل شدہ چیزیں آتی ہیں‘‘۔ یہ بیان ہمارے محترم وزیر دفاع کا ہے اور کل یا پرسوں کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ وزیر دفاع نے کہا ہے‘ اس میں سے کون سی بات ہے جو نئی ہے اور پہلے سے معلوم نہیں تھی؟ کیا اس میں دو آرا ہو سکتی ہیں کہ افغان بارڈر پر انہی بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے جو ساری دنیا میں نافذ ہیں؟ کیا بچے بچے کو نہیں معلوم کہ یہ جو افغان بارڈر پر کھلا کھاتہ چل رہا ہے‘ یہ دہشت گردوں ...

بابے …(2)

اس عنوان کی پہلی قسط چھ فروری2016ء کو اسی صفحے پر ظاہر ہوئی تھی۔ ایک بار پھر اس بات کا اعلان لازم ہے کہ میں بابوں کو مانتا ہوں۔یہ جو ڈِس انفارمیشن ہے کہ میں فلاں خاندان سے ہوں اورفلاں مسلک کی وجہ سے بابوں کو نہیں مانتا ‘ یہ ڈِس زیادہ ہے اور انفار میشن کم ! میرے باپ دادا بابوں کے بہت بڑے معتقد تھے۔ وہ رومی‘ سعدی‘عطار‘ نظامی‘ امیر خسرو اور جامی کے معتقد تھے۔ ان سے بڑے بابے کون ہوں گے! وہ میر‘ غالب اور بیدل کے ارادت مند تھے۔ میں بھی ‘ اپنے آبا ؤ اجداد کی تقلید میں‘ اپنے زمانے کے بابوں کا شیدائی ہوں! فرق صرف یہ ہے کہ بابے ‘ جنہیں میں مانتا ہوں‘سبز چولے پہنتے ہیں نہ مالائیں! وہ بالکل عام لوگوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ وہ زبردست دماغی قوتوں کے مالک ہیں اور قلم جب ان کے ہاتھ میں آتا ہے تو اس میں کیسے مافوق الفطرت طاقت بھر جاتی ہے۔ اصل بابا ہوتا ہی وہی ہے جو اپنے بابا ہونے کا اعلان خود نہ کرے۔ لاہور ہی کو دیکھ لیجیے۔ اس شہر میں سب سے بڑا بابا ظفر اقبال ہے۔ اب وہ ماشاء اللہ نوّے سے اوپر ہے مگر شعر گوئی کی رفتار میں کمی آئی نہ کوالٹی میں! چند ہفتے پہلے تک روزان...

سیاست سے ذرا ہٹ کر

کالم تو ایک اور موضوع پر لکھنا تھا۔ وزیر خارجہ کا دل اپنی وزارت میں لگ نہیں رہا۔ کابینہ کی کمیٹی جو نجکاری کے لیے بنائی گئی ہے‘ اس کی صدارت وزیر خارجہ کو دے دی گئی ہے۔ ایک اور طرفہ تماشا یہ ہوا ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل  (Council of Common Interests) یعنی  CCI  میں سے وزیر خزانہ کو باہر نکال دیا گیا ہے اور وزیر خارجہ کو شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ کونسل صوبوں کے درمیان متنازع مسائل حل کرنے کے لیے ہے۔ یہ مسائل‘ زیادہ تر‘ مالیات سے متعلق ہوتے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ جسے بھی کونسل کا رُکن بنائیں۔ ارے بھئی! صوابدید کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مچھلیوں کو دریا سے نکال کر درختوں پر آباد کر دیا جائے۔ صوابدیدی اختیارات کے لیے شرط ہے کہ عاقلانہ اور مدبرانہ طور پر  Judiciously  استعمال کیے جائیں گے۔ ارادہ تھا کہ کالم میں جناب وزیراعظم کی خدمت میں تفصیل سے یہ تجویز پیش کروں کہ جہاں پناہ! وزیر خزانہ کی اسامی کو ختم کر دیا جائے اور وزیر خزانہ کا قلمدان بھی وزیر خارجہ کے سپرد کر دیا جائے تا کہ یہ کہا جا سکے کہ حق بحقدار رسید!!   مگر راستے میں دورا...