اشاعتیں

مارچ, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

استعفیٰ؟ مگر کس کا؟؟

  عمران خان کی ساری غلطیوں‘ ساری حماقتوں‘ ساری جلد بازیوں‘ بے پناہ منتقم مزاجی اور تکبر کے باوجود خلقِ خدا اس کے ساتھ کیوں ہے؟ اس لیے کہ ان دونوں خاندانوں کی دوست نوازی اور کرونی ازم حد سے بڑھ گیا ہے! ذاتی وفاداری واحد معیار ہے۔ اور ذاتی وفاداری کا صلہ قومی خزانے سے دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کی اپنی دولت‘ اپنی جائیدادوں‘ اپنے کارخانوں‘ اپنے محلات اور اپنے فلیٹوں کے سلسلے لامتناہی ہیں۔ اندرونِ ملک بھی! بیرونِ ملک بھی! آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق کرونی ازم کا مطلب ہے دوستوں کو اعلیٰ مناصب پر ان کی اہلیت کے بغیر تعینات کرنا!! کرونی ازم‘ میرٹ پسندی کی ضِد ہے! یہ جو ایچی سن کالج کے پرنسپل کے استعفے کا سیاپا پڑا ہے‘ یہ کرونی ازم ہی کا شاخسانہ ہے۔ کیسے؟ یہ ہم آگے چل کر عرض کرتے ہیں۔ اس رسوائے زمانہ جنجال کے پانچ پہلو ہیں۔ پانچوں ہی دردناک ہیں! اور شرمناک بھی!! پہلا یہ کہ جیسے ہی پرنسپل نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا‘ حکومت کی داڑھی میں تنکا صاف نظر آنے لگا! وزیر‘ امیر سب ایک ایک کرکے اُس سابق بیوروکریٹ اور حال وزیر کا دفاع کرنے لگ گئے جو بکھیڑے کا مرکزی کردار تھا۔ یہ سلسلہ اتنا مضحکہ خیز تھا کہ باقاع...

پاکستان، بھارت اور تجارت

وزیر خارجہ اسحاق ڈار صاحب نے کہا ہے کہ پاکستانی تاجر بھارت سے تجارت کرنے کے خواہاں ہیں۔ اور یہ کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنے سے متعلق جائزہ لے گا۔ یہ تعلقات پانچ برس پہلے اُس وقت ختم کیے گئے تھے جب مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ ہم اور تو کچھ کر نہیں سکے‘ تجارتی تعلقات پر کلہاڑا چلا دیا۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح ہمارے قصباتی کلچر میں بات بات پر قطع کلامی کر لی جاتی ہے۔ تجارتی تعلقات ختم کرنے سے مقبوضہ کشمیر کو کیا فائدہ ہوا؟ یا پاکستان نے کیا حاصل کیا؟ کیا بھارت نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا؟ کیا کسی نے ہماری منت سماجت کی کہ جناب! کرم کیجیے! تجارتی تعلقات بحال کر دیجیے۔ پانچ سال کے بعد ہم خود ہی بحال کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں! چین اور تائیوان کی باہمی دشمنی سے زیادہ آخر کیا دشمنی ہو گی۔ چین تائیوان کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔ اس کا مؤقف ہے کہ یہ چین کا حصہ ہے۔ مگر دونوں کے درمیان تجارت بالکل نارمل انداز میں ہو رہی ہے۔ 2022ء کے اعداد و شمار کی رُو سے چین تائیوان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ چین کے ساتھ تجارت تائیوان کی کُل تجارت کا 23 فیص...

معصوم‘ بے گناہ قیدی

راولپنڈی کچہری چوک سے ہم نے گاڑی جی ٹی روڈ پر ڈالی اور روات کا رُخ کیا۔ سؤاں کیمپ سے ذرا آگے گئے تو بائیں طرف ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کا قوی ہیکل‘ عظیم الجثہ گیٹ تھا۔ اس کے پاس ایک شخص کھڑا تھا جس کے کاندھے پر لمبا سا ڈنڈا افقی لحاظ سے رکھا تھا۔ڈنڈے کے دونوں کناروں پر دو پنجرے لٹک رہے تھے۔ان میں چڑیاں قید تھیں۔میں نے گاڑی رکوائی۔ اسے بلایا اور پوچھا کہ ان بے گناہ چڑیوں کو کیوں قید کیا ہوا ہے۔ اس نے کہا :آپ پیسے دے کر انہیں آزاد کرادیں! یہ بات اس نے اتنے عجیب اور طنزیہ لہجے میں کی کہ میں دم بخود رہ گیا۔پوچھا: کتنے پیسے لو گے۔اس نے بتایا کہ ایک پنجرے کی چڑیوں کو چھڑوانے کی یہ قیمت ہے اور دونوں پنجروں کی یہ! میرے پاس اتنی کیش نہیں تھی۔اسے کہا کہ چڑیوں کو چھوڑ دو اور میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھو‘ گھر جا کر تمہیں پیسے دیتا ہوں۔اس نے پہلے ایک پنجرے کا دروازہ کھولا۔ ننھی ننھی چھوٹی چھوٹی چڑیاں ایک ایک کر کے‘ پُھر پُھر کر تی‘ کھلی فضا میں اُڑ گئیں۔پھر اُس نے دوسرا پنجرہ کھولا۔ اس سے بھی اُڑ گئیں۔ میں گاڑی میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔وہ نزدیک آیا تو میں نے اسے کہا: تمہارا علاج تو یہ ہے کہ میں تمہیں ی...

بُلھے شاہ! اساں مرنا ناہیں

وہ تو اچھا ہوا عزت رہ گئی! ورنہ ڈر تھا کہ وہ جو ہماری روایت ہے رُول آف لاء پر چلنے کی‘ جس کے لیے ہم دنیا میں مشہور ہیں‘ کہیں اس حوالے سے ہماری شہرت پر زد نہ پڑے! وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 2010ء میں جب توسیع دی تو عمران خان صاحب نے اس کی مخالفت کی۔ یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ توسیع کو ہمارے سابق آقا اپنی زبان میں  Extension  کہتے ہیں۔ تو جب عمران خان صاحب نے اس کی مخالفت کی تو میرا تو دل ہی بیٹھ گیا۔ مجھے خان کا یہ اعتراض قطعاً پسند نہیں آیا تھا۔ ارے بھئی! جب ہم قانون کی پیروی کر رہے ہیں اور اپنے معروف اور مشہورِ زمانہ قواعد و ضوابط کے مطابق چل رہے ہیں تو آپ اعتراض کر کے ہمیں سیدھے راستے سے کیوں ہٹانا چاہتے ہیں؟ کچھ عرصہ گزرا تو عمران خان خود سریر آرائے سلطنت ہوئے۔ تب انہوں نے بھی 2019ء میں توسیع کا حکم دیا۔ تب مجھے یک گونہ اطمینان ہوا اور میں نے خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کیا کہ وہ جو ہماری رول آف لاء پر چلنے کی روایت تھی‘ اسے خان نے برقرار رکھا۔ اس موقع پر ایک خوشگوار اتفاق یہ بھی ہوا کہ اپوزیشن نے‘ بشمول (ن) لیگ‘ خان کی حمایت کی اور توسیع دینے کی زبردست قانونی روایت کو...

میری دنیا اور اُن کی دنیا

بہت بڑے ڈاکٹر ہیں۔ بہت بڑے منصب پر فائز رہے! اتنے بڑے منصب پر کہ انہیں دیکھتے ہوئے ٹوپی سر کے پیچھے گرنے کا اندیشہ ہو تا تھا! مگر مزاج میں عجیب معصومیت بھری تھی۔ مریضوں کو عجیب و غریب چھوٹے چھوٹے تحفے دیتے۔ جیسے پلاسٹک کی بطخ جو کبھی دائیں طرف حرکت کرتی تو کبھی بائیں طرف! مریض اسے دلچسپی سے دیکھتا رہتا اور اس کا دل بہلا رہتا! اتوار کو وہ پانی کی بوتل پکڑتے‘ بیگ کاندھے سے لٹکاتے اور چھوٹی سی گاڑی ڈرائیو کرتے راجہ بازار جا نکلتے! پلاسٹک کی کسی دکان سے کوئی نئی شے خریدتے۔ سستی گھڑیاں تلاش کرتے۔ درجنوں کے حساب سے بال پین خریدتے جو سٹاف کو دیتے رہتے۔ ایک بار میں سنگاپور جا رہا تھا۔ مجھے بتایا کہ جب سنگاپور کے جنوبی جزیرے سنتوسا میں جاؤ گے تو ظاہر ہے وہاں چیئرلفٹ پر بھی سواری کرو گے۔ جہاں چیئرلفٹ اتارے گی وہاں‘ سیڑھیاں چڑھ کر ایک دکان ملے گی۔ اس دکان میں ایک ایسی ٹوپی ہے جس پر ماتھے والی سمت بلب لگا ہے‘ جو رات کو پڑھنے کے لیے روشن کیا جا سکتا ہے۔ ان کی یہ ہدایت‘ آج بھی یاد کرتا ہوں تو دلکش لگتی ہے اور وہ طلسمی کہانی یاد آ جاتی ہے جس میں فقیر شہزادے کو اسی قسم کی ہدایات دیتا ہے کہ فلاں پہا...

حماقتوں کی پریڈ

باربرا ٹچ مین مشہور امریکی تاریخ دان تھی۔ 1989ء میں اس کا انتقال ہوا۔ اس کا نانا سلطنت عثمانیہ میں امریکی سفیر تھا۔ باربرا ٹچ مین نے تاریخ کی کتابیں اس انداز سے لکھیں کہ انہیں پڑھ کر عام قاری کو بھی تاریخ میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا اسلوب ادبی ہے  The March of Folly  (حماقتوں کی پریڈ) اس کی مشہور ترین تصنیف ہے۔ اس میں اس نے اپنا مشہور نظریہ پیش کیا ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ عام آدمی اپنے کام سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ اس نے جو کام بھی سرانجام دینا ہو‘ مکان بنانا ہو‘ بچوں کی تعلیم اور شادیوں کے فرائض سرانجام دینے ہوں‘ فیکٹری لگانی ہو‘ ملازم بھرتی کرنے ہوں‘ ہر کام عقل مندی سے کرے گا۔ اس کے مقابلے میں حکومتوں کے کام احمقانہ ہوتے ہیں! اتنے احمقانہ کہ عام آدمی کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ حکومت کا یہ کام‘ یا یہ پالیسی غلط ہے اور اس کے نتائج مثبت نہیں نکلیں گے! اس نظریے کے حق میں باربرا نے تاریخ سے کئی مثالیں پیش کیں۔ مثلاً لکڑی کا وہ گھوڑا جو یونانی‘ ٹرائے کے شہر کی فصیل کے باہر رکھ گئے تھے۔ طویل محاصرے کے باوجود جب یونانی شہر کو فتح نہ کر سکے تو انہوں نے یہ چال چلی۔ لکڑی کے اس بڑے سے گھوڑے...

صدقے جاؤں مگر کام نہ آؤں

پیپلز پارٹی سے کبھی بھی مناسبت اور مطابقت نہیں رہی۔ مگر ایک کریڈٹ اسے ضرور جاتا ہے۔ اس نے مذہبی کارڈ کبھی نہیں کھیلا! پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) نے تو اس ضمن میں ساری حدیں پار کر دی ہیں۔ حدیں پار کرنے کی تفصیلات بتانے کو جی تو چاہتا ہے مگر دل نہیں مانتا کہ بقول میر ؎ کھنچیں میر تجھ ہی سے یہ خواریاں  نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں!!  رہی وہ جماعتیں جو مذہب کے نام پر بنی ہیں‘ وہ تو مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کر ہی رہی ہیں! بلکہ مسلک کے نام پر تشکیل شدہ جماعتیں بھی میدان میں ہیں! گویا سب اسلام کی خدمت کررہی ہیں اور زیادہ خدمت کرنے کے لیے اقتدار میں آنا چاہتی ہیں! ہم پاکستانی اسلام کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ رمضان کی آمد پر ہمارے تاجر بھائی (سوائے تاجرانِ کتب کے) قیمتوں کو آسمان پر لے جاتے ہیں! غیرمسلم ملکوں میں کرسمس پر سیلیں لگتی ہیں اور اب تو رمضان اور عید پر بھی ان ملکوں میں قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں‘ جہاں لوگ مذہب کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ برقع پر عربی رسم الخط میں حلوے کا لفظ بھی نظر آجائے تو برقع پوش کو جان کے لا...

معاملہ اصل زر اور سود کا

نانی نے نرسری کا چکر لگانا تھا۔   ان کا ایک ہی شوق ہے۔ پودے‘ پودے اور پودے! پھل پھول اور سبزیاں! سرکاری گھروں کے آگے پیچھے جگہ کافی ہوتی تھی‘ سو موصوفہ سال بھر کا پیاز اور لہسن اُگا لیتی تھیں۔ اب جگہ زیادہ نہیں ہے پھر بھی خوبانی اور مالٹوں سے لے کر پالک اور بھنڈی تک‘ سپلائی اپنے ہی صحن سے ہو جاتی ہے۔ دسہری آم بھی دو پیٹیوں کے برابر ہو ہی جاتے ہیں۔ پہلے تو کدال سے کھدائی اور کُھرپے سے گوڈی بھی خود ہی کرتی تھیں۔ کیاریاں بھی خود بناتی تھیں۔ اب یہ مشقت باغبان کرتا ہے مگر نگرانی اس کی کڑی ہوتی ہے۔ سرگرمیاں اسی نوع کی ہورہی ہوتی ہیں۔ کھاد منگوائی جارہی ہے۔ مٹی آ رہی ہے۔ گھاس لگ رہی ہے۔ گملے پینٹ ہو رہے ہیں۔ بیلیں رسیوں سے باندھی جا رہی ہیں۔ کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ ہو رہا ہے۔ کہتی ہیں: میرے پودے میرے ساتھ باتیں کر تے ہیں! وہ جو مجید امجد نے کہا تھا۔ ع کاش میں تیرے بُنِ گوش کا بندہ ہوتا! تو میں کہا کرتا ہوں: کاش ہم پودے ہوتے! جس دن کی بات ہو رہی ہے اس دن نرسری جا رہی تھیں تو رُستم کو بھی ساتھ لے گئیں! پیسے جتنے پاس تھے‘ پودوں پر خرچ ہو چکے تو رستم نے ایک طوطا دیکھ لیا۔ پلاسٹک آف پیر...

یہ کون ہے جو ملک کو بدنام کر رہا ہے؟

پہلے ہی پاکستان پر دہشت گردی کا دھبہ لگا ہوا ہے۔ اوپر سے دن دہاڑے وفاقی دارالحکومت میں راستے بند کیے جا رہے ہیں! وہ بھی اسلام آباد کے عین دل میں!! ایک طرف پنج ستارہ ہوٹل ہے جہاں غیرملکی ٹھہرتے ہیں! دوسری طرف ڈپلومیٹک انکلیو ہے جہاں سفارت خانے ہیں۔ تیسری طرف مرکزی سیکرٹریٹ‘ سپریم کورٹ اور اہم وفاقی دفاتر ہیں۔ چوتھی طرف کنونشن سنٹر ہے۔ ہر طرف پولیس کھڑی ہے۔ ٹریفک رُکی ہوئی ہے۔ لوگ بے بس ہیں۔ تماشا لگا ہوا ہے! یہ کس کے اونچے دماغ نے فیصلہ کیا ہے کہ کرکٹ ٹیموں کو اُس ہوٹل میں ٹھہرایا جائے جو وفاقی دارالحکومت کے عین قلب میں واقع ہے؟ اس سے زیادہ غیردانشمندانہ فیصلہ کیا ہو سکتا تھا۔ یہ ''غیر دانشمندانہ‘‘ کا لفظ تو مجبوراً لکھا ہے‘ جو لفظ لکھنا چاہتا تھا اس کی ایڈیٹر نے اجازت نہیں دینا تھی اور وہ لفظ آپ سمجھ گئے ہوں گے!! قربان جائیے اس عقل و دانش کے۔ جڑواں شہروں میں بیسیوں‘ درجنوں ایسے ٹھکانے ہیں جو مصروف شاہراہوں سے ہٹ کر واقع ہیں۔ مسلح افواج کے میس ہیں۔ محفوظ گوشوں میں واقع اور سکیورٹی سے آراستہ! بیسیوں محکموں کے گیسٹ ہاؤسز ہیں! پرائیویٹ مہمان خانے ہیں! ان میں سے کہیں بھی کھلاڑی...

جانا پڑا رقیب کے در پر

… ایک آسودہ حال شخص اپنے محل میں دسترخوان پر بیٹھا اپنی بیوی کے ہمراہ کھانا کھا رہا تھا۔انواع و اقسام کے مشروبات اور ماکولات سامنے رکھے تھے۔ دروازے سے ایک فقیر کی صدا آئی۔ امیر شخص نے بیوی سے کہا‘ فقیر کو کھانا دے آؤ۔ بیوی بہت سا کھانا لے کر باہر گئی۔ وہاں سے اس کی چیخوں کی آواز آئی۔واپس اندر آئی تو اس کی حالت عجیب سی ہو رہی تھی۔ شوہر کے پوچھنے پر اس نے جو بات بتائی ‘ وہ ہوشربا تھی۔اس نے کہا کہ یہ فقیر تو میرا سابقہ شوہر نکلا! پھر اس نے تفصیل بتائی کہ اس کا یہ سابقہ شوہر بہت مالدار تھا۔ ایک دن کھانا کھا رہا تھا تو ایک فقیر نے دروازے پر آکر کھانا مانگا۔ یہ باہر گیا اور فقیر کو مارا پیٹا اور اس کی خوب تذلیل کی۔ کچھ عرصہ بعد اس کا ستارہ گردش میں آ گیا۔ کاروبار فیل ہو گیا۔ جائداد بِک گئی۔کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا۔ پھر مجھے بھی چھوڑ دیا اور غائب ہو گیا۔ آج اسے مانگتے دیکھ کر میں کانپ اُٹھی اور افسوس اور حیرت سے چیخ نکل گئی۔ جب بیوی یہ سب کچھ بیان کر چکی تو اس کے شوہر نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات بتاتا ہوں۔ میں ہی وہ فقیر ہوں جس کی اس نے تذلیل کی تھی! یہ ایک بہت ہی ...

اس خزانے کو کون چھاپے گا؟ … (2)

کل ہم نے جعفر طاہر کی معرکہ آرا اور تاریخ ساز تصنیف ''ہفت کشور‘‘ کے حوالے سے چار ملکوں ( ترکی‘ مصر‘ عرب اور عراق) کے متعلق بات کی تھی۔ کتاب کا پانچواں باب ایران کے بارے میں ہے۔ جعفر طاہر نے قدیم تاریخ سے لے کر عہدِ جدید تک ایران کی تاریخ کو دلچسپ انداز میں نظم کیا۔ ایران حسن و جمال کا‘ پھولوں اور چشموں کا‘ قالینوں اور توشکوں کا اور شاعروں اور محبوبوں کا ملک ہے۔ جعفر طاہر کا اس سلسلے میں حُسنِ بیان دیکھیے ؎ دشت در دشت یہ آہو روِشانِ پُرکار یہ طلسمات سے معمور ختن کیا کہنے باغ در باغ نسیمِ طرب و بادِ شمال یہ فرو فالِ حسینانِ چمن کیا کہنے تاک در تاک مچلتے ہوئے شیریں چشمے مسکراتے ہوئے یہ کوہ و دمن کیا کہنے آج تک تیرے حسینوں کا نہیں کوئی جواب اے ستاروں کے بہاروں کے وطن کیا کہنے فردوسی کا شاہنامہ ایرانی ثقافت کی جان ہے۔ رستم و سہراب کا قصہ فردوسی نے بے مثل انداز میں بیان کیا ہے۔ جعفر طاہر نے اس کا ذکر کیسے کیا ہے‘ ملاحظہ کیجیے ؎ یہ فردوسیٔ نامور کی زبانی؍ سنو داستانِ جنون و جوانی عجب قصّۂ حسرت و درد ہے یہ؍ نرالی انوکھی ہے ساری کہانی سمجھ لو کہ سہراب وہ نوجواں تھا؍ کوئی جس کا مدِّم...

اس خزانے کو کون چھاپے گا؟؟

ایک خزانہ ہے جو دفن ہے۔ کچھ اس سے بے خبر ہیں۔کچھ کھودنے کے لیے تیار نہیں! جعفر طاہر 1917ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے۔ فوج میں نان کمیشنڈ افسر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔ 1977ء میں وفات پائی۔ رائٹرز گلڈ کب بنی‘ کیوں بنی‘ یہ ایک الگ قصہ ہے مگر اس کے ذریعے جعفر طاہر کا ایک ایسا شہکار ظہور پذیر ہوا جس کی اور کوئی مثال اُردو دنیا میں نہیں ملتی۔ یہ ان کی تصنیف ''ہفت کشور‘‘ ہے۔ اس پر انہیں 1962ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ اس کتاب کا جو نسخہ میرے پاس ہے وہ جولائی 1962ء کا شائع شدہ ہے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کراچی نے اسے شائع کیا۔ میں نے اسے کراچی سے 31 جنوری 1974ء کو خریدا۔ اب یہ کتاب نایاب ہے۔ ایک ویب سائٹ پر موجود ہے مگر ڈاؤن لوڈ نہیں کی سکتی‘ پڑھنا بھی مشکل ہے کیونکہ یہ ویب سائٹ  User-friendly  نہیں۔ جن لوگوں نے ''ہفت کشور‘‘ کو کینٹوز  (Canto)  کا مجموعہ کہا ہے‘ صریحاً غلط کہا ہے۔ اس میں شاعری کی تمام اقسام موجود ہیں۔ غزل ہے اور نظم کی ساری اصناف ہیں۔ مثنوی‘ آزاد نظم‘ نظمِ معرّیٰ‘ پابند نظم‘ کینٹو‘ منظوم ڈرامہ! مثلث‘ مخمّس‘ مسدّس‘ یہاں تک کہ ترکیب بند اور ترجیع ب...