میں آٹھ فروری کا دن کیسے گزاروں گا ؟
الیکشن کی گہما گہمی ہے! شور و غوغاہے۔ ہنگامہ ہے! سڑکیں‘ راستے‘ گلیاں‘ کوچے‘ بینروں سے اَٹ گئے ہیں! بینروں پر تصویریں ہیں! کچھ چہرے نئے ہیں! کچھ جانے پہچانے ہیں! چہروں کے ساتھ دعوے ہیں اور وعدے ! وہی دعوے اور وہی وعدے جو ہر بار سنائی دیتے ہیں! مگر مجھے 2018ء کا الیکشن یاد آرہا ہے جب میں نے اڑتالیس سال کے بعد پہلی بار ووٹ ڈالا تھا۔کتنا پُر جوش تھا میں! کتنا Excited تھا! میں اور بیگم دونوں مقررہ وقت سے بہت پہلے پولنگ سٹیشن پہنچ گئے تھے۔ لوگ باگ کھڑے تھے! جس سے بھی پوچھتے کہ کس کو ووٹ دینا ہے‘ وہ ہمارا ہی ہمنوا نکلتا ! چہروں پر چمک تھی! دلوں میں اطمینان تھا! جذبہ تھا۔ سامنے روشنی نظر آرہی تھی! ستّر برسوں کے بعد امید ہمارے سامنے جیتے جاگتے وجود میں کھڑی تھی! ہم عمران خان کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے پاس پروگرام تھا۔ پلاننگ تھی! ہمارے دل اس کی آواز کے ساتھ دھڑکتے تھے! اُس نے اُن سیاستدانوں‘ اُن حکمرانوں کو ہمارے سامنے بے نقاب کر دیا تھا جو کئی دہائیوں سے ہمیں اُلو بنا رہے تھے! یہ سب اپنے اپنے خاندان کے لیے کام کر رہے تھے۔ کوئی بیٹی کو جانشین بنانا چاہتا تھا۔ کوئی ...