اشاعتیں

جنوری, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

میں آٹھ فروری کا دن کیسے گزاروں گا ؟

الیکشن کی گہما گہمی ہے! شور و غوغاہے۔ ہنگامہ ہے! سڑکیں‘ راستے‘ گلیاں‘ کوچے‘ بینروں سے اَٹ گئے ہیں! بینروں پر تصویریں ہیں! کچھ چہرے نئے ہیں! کچھ جانے پہچانے ہیں! چہروں کے ساتھ دعوے ہیں اور وعدے ! وہی دعوے اور وہی وعدے جو ہر بار سنائی دیتے ہیں! مگر مجھے 2018ء کا الیکشن یاد آرہا ہے جب میں نے اڑتالیس سال کے بعد پہلی بار ووٹ ڈالا تھا۔کتنا پُر جوش تھا میں! کتنا  Excited  تھا! میں اور بیگم دونوں مقررہ وقت سے بہت پہلے پولنگ سٹیشن پہنچ گئے تھے۔ لوگ باگ کھڑے تھے! جس سے بھی پوچھتے کہ کس کو ووٹ دینا ہے‘ وہ ہمارا ہی ہمنوا نکلتا ! چہروں پر چمک تھی! دلوں میں اطمینان تھا! جذبہ تھا۔ سامنے روشنی نظر آرہی تھی! ستّر برسوں کے بعد امید ہمارے سامنے جیتے جاگتے وجود میں کھڑی تھی! ہم عمران خان کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے پاس پروگرام تھا۔ پلاننگ تھی! ہمارے دل اس کی آواز کے ساتھ دھڑکتے تھے!  اُس نے اُن سیاستدانوں‘ اُن حکمرانوں کو ہمارے سامنے بے نقاب کر دیا تھا جو کئی دہائیوں سے ہمیں اُلو بنا رہے تھے! یہ سب اپنے اپنے خاندان کے لیے کام کر رہے تھے۔ کوئی بیٹی کو جانشین بنانا چاہتا تھا۔ کوئی ...

سوچ سطحی ! احساس ِکمتری شدید !!

کتابیں ہر روز ہی موصول ہوتی ہیں۔ عام ڈاک سے بھی‘ کوریئر سے بھی! اس پیکٹ کو بھی میں کتاب ہی سمجھا۔ جِلد کافی مضبوط لگ رہی تھی۔ ہاں کتاب شاید پتلی سی تھی! کھولا تو یہ ایک شادی کا دعوتی کارڈ تھا!دو موٹے گتّوں کے اندر دعوت نامہ تھا۔یہ نہایت قیمتی ‘ کتاب نما‘ دعوت نامہ ایک لفافے میں بند تھا۔ لفافے کے منہ پر دو ڈوریاں لگی تھیں جن سے لفافہ ایک بیگ کی شکل اختیار کر گیا تھا جسے ڈوریوں کی مدد سے پکڑا یا لٹکایا جا سکتا تھا! مجھے اس سے ‘ فی الحال‘ غرض نہیں کہ اس دعوت نامے پر لاگت کتنی آئی! چلیے ‘ ہم یوں کہہ لیتے ہیں کہ شادی پر جہاں بہت سے دیگر‘ جائز‘ ناجا ئز ‘ اخراجات آئے اور خواتین کھل کھیلیں‘ وہاں ایک مہنگا آئٹم دعوتی کارڈ بھی سہی! عام طور پر ہماری خواتین ‘ مردوں کے اعتراض کا جواب یہ دیتی ہیں کہ خوشی کا موقع ہے ‘ اور خوشی کے مواقع روز روز کہاں آتے ہیں! مہنگے دعوتی کارڈ کا بھی یہی جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ اور بات کہ بہت سے لوگ اب کارڈ چھپواتے ہی نہیں! دیدہ زیب ڈیزائن بنواتے ہیں اور پھر اسے وٹس ایپ کے ذریعے بھیج دیتے ہیں! کبھی کبھی کچھ دوست یا عزیز فون کر کے گھر کا پتا پوچھتے ہیں کہ دعوت نامہ ب...
تلخ نوائی ………آپا زہرا تین دن قیام کرنے کے بعد‘ واپس آتے ہوئے‘ نوجوان ڈاکٹر سے الوداعی کلمات کہے تو ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ بھی رونے لگا اور میں بھی! اُس کی والدہ‘ اُسے چھوڑ کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گئی تھیں! میں نے اُسے کہا کہ اب اُسے محتاط اور ہوشیار رہنا ہو گا کیونکہ جو حفاظتی حصار اس کے ارد گرد تھا‘ وہ اُٹھ گیا ہے اور یہ کہ اب  He is on his own ۔ روایت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نہ رہیں تو انہیں وارننگ دی گئی کہ اب ذرا سنبھل کر کہ معاملات پہلے جیسے نہیں! اب پشت پر ماں کی دعائیں نہیں رہیں! ماں باپ کی قدر جیتے جی کم ہی ہوتی ہے! اس لیے کہ ہمارے پاس اُس زندگی کا تصور نہیں ہوتا جو اُن کے بغیر ہو سکتی ہے۔ وہ ہماری زندگی کا‘ ہماری ذات کا‘ ہمارے وجود کا ‘ یا ہم ان کے وجود کا حصہ ہوتے ہیں! ہم انہیں  Taken for granted  لیتے ہیں! بالکل اسی طرح جیسے ہم ہاتھوں یا آنکھوں کے بغیر اپنی زندگی کا تصور نہیں کر سکتے! ہاتھوں کی معذوری یا آنکھوں کی بے نوری کا احساس اسی کو ہوتا ہے جس سے یہ چیزیں چھِن جائیں! ہم آئے دن فقیروں کی صدا سنتے ہیں ''آنکھوں والو! آنکھیں بڑی نعمت ہیں‘‘ مگر...

ناموں کی فہرست

میں جب اُٹھا ہوں تو زور کا چکر آیا اور گر پڑا! اپنے آپ کو سنبھال کر دوبارہ اُٹھا۔ سب لوگ ایک طرف کو رواں تھے۔ میں نے بھی اسی جانب چلنا شروع کر دیا۔ گرمی تھی اور بلا کی گرمی! ناقابلِ بیان حد تک! دور دور تک سایہ کہیں نہیں تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ سورج کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ لوگ چلتے جا رہے تھے۔ گروہوں کے گروہ! جماعتوں کی جماعتیں! طائفوں کے طائفے! قطاروں کی قطاریں‘ ان میں سفید فام بھی تھے‘ سیاہ رنگی بھی!! زرد رنگ والے بھی! گندمی رنگت والے بھی! سانولے سلونے بھی! طویل قامت بھی! پستہ قد بھی! مرد بھی‘ عورتیں بھی! جوان بھی‘ بوڑھے بھی! ادھیڑ عمر بھی! سب چلتے جا رہے تھے! چلتے چلتے گر پڑتے تھے اور اُٹھ کر دوبارہ چلنے لگتے تھے۔  ہم چلتے رہے۔ وقت کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ صبح ہے یا شام یا دوپہر! رات کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ لگتا تھا یہ کوئی اور ہی نظام ہے۔ ہمارے والا نظامِ شمسی نہیں! یہ بھی اچنبھے کی بات تھی کہ اَن گنت انسان کیسے سمائے ہوئے تھے! اتنے میں ایک کڑک کی آواز سنائی دی۔ ایسی خوفناک کہ دل دہل گئے۔ یہ ویسی ہی کڑک تھی جس نے پہلے سوتوں کو اُٹھ...

افسوس ! صد افسوس! فور سٹار جنرل ‘ پرویز مشرف مرحوم کے دفاع کے لیے کوئی نہ آگے بڑھا!  وہ سب جن کے لیے جنرل صاحب نے عاقبت کو داؤ پر لگا دیا‘ غائب تھے! ایک صاحب راولپنڈی میں '' سیّد پرویز مشرف‘‘ کا نام بہت ہی عقیدت سے لیتے تھے‘ کہیں دکھائی نہ دیے! پرویز الٰہی صاحب ‘ جن کا دعویٰ تھا کہ جنرل صاحب کو دس بار وردی میں '' منتخب‘‘ کرائیں گے‘ جیل میں تھے مگر کسی کو مامور تو کر سکتے تھے! انہوں نے بھی ایسا نہ کیا! کیا طنطنہ تھا جنرل صاحب کا ! اکبر بگتی کو مروا دیا! کسی نے چوں تک نہ کی! کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی تو اسلام آباد میں اس پر فخر کیا اور اسے اپنی طاقت کے طور پر پیش کیا! کتنوں ہی کے حقوق تلف کیے اور دوسروں کو دے دیے!کسی جرنیل کو پوسٹل کے محکمے کا سربراہ بنا دیا کسی کو سول سروس کے تربیتی ادارے کا سربراہ! مکمل شہنشاہ تھے! کوئی نہ تھا جو اُن کے کسی حکم کی تعمیل میں ایک دو دن کی تاخیر بھی کر سکتا!  کم از کم شوکت عزیز کو ان کے دفاع میں ضرور عدالت میں آنا چاہیے تھا!مرحوم نے شوکت عزیز کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا ! عین ممکن ہے کہ شوکت عزیز بیرونی طاقتوں کا گماشتہ ہو مگر ...

سول ایوی ایشن اتھارٹی… ایک جھلک

آپ کسی عزیز یا مہمان کو رخصت کرنے اسلام آباد ایئر پورٹ جائیں تو مسافروں اور انہیں رخصت کرنے والوں کے ہجوم میں ایک شخص نظر آئے گا جو اپنے سامنے میز رکھے کرسی پر بیٹھا ہو گا۔اس کی میز کے آگے لکھا ہے کہ چار سو یا پانچ سو روپے فیس ادا کر کے آپ پورٹر ( قلی) لے سکتے ہیں۔ اگر سامان زیادہ ہو تو مسافر‘ خاص طور پر خواتین مسافروں کو مشکل پیش آتی ہے۔ پورٹر کی مدد سے مراحل ذرا سہولت سے طے ہو جاتے ہیں! گزشتہ اڑھائی تین ماہ کے دوران‘ مہمانوں اور اعزہ کو رخصت کرنے کے لیے مجھے تقریباً دس بار ایئر پورٹ جانا پڑا۔ میز کرسی لگا کر بیٹھنے والے اہلکار سے ہر بار پورٹر کا تقاضا کیا۔ ہر بار اس کا ایک ہی جواب تھا کہ پورٹر دستیاب نہیں ہے۔ایک دو بار یہ بھی بتایا گیا کہ پورٹر ٹرالیوں کی قطار کو اندر لے جانے میں مصروف ہیں! یہ اور بات کہ ڈیپارچر والی سائڈ پر خالی ٹرالی حاصل کرنا بھی جوئے شِیر لانے کے برابر ہے۔ یہ سارے معاملات جس ادارے کے سپرد ہیں اس کا نام '' سول ایوی ایشن اتھارٹی‘‘ ہے !  گزشتہ ہفتے ایک بار پھر یہی تجربہ ہوا تو سوچا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی والوں سے بات کر کے پتہ چلا یا جائے کہ اس تکلیف...

محض اتفاقات؟

یہ واقعات ایک دوست نے سنائے اور میں حیران ہوں کہ کتنا عجیب و غریب نظام ہے جو موجود ہے مگر نظر نہیں آتا۔ اس دوست نے بتایا کہ وہ ایک ایسے محکمے میں ملازمت کر رہا تھا جہاں طِبّی سہولتوں کا معقول بند و بست تھا۔ وہ ان سہولتوں کی بدولت اپنے والد کی طِبّی دیکھ بھال اچھی طرح کر لیتا تھا۔انہیں کئی تکالیف تھیں۔ آنکھوں کا معائنہ کرانا ہوتا تھا۔ پروسٹیٹ کی پیچیدگیاں۔ دل کے بھی مسائل تھے۔ خون وغیرہ کے ٹیسٹ بھی کرانے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی لیبارٹری سے ٹیکنیشن کو گھر بھی بلایا جا سکتا تھا کہ خون کے نمونے لے جائے۔ غرض دیکھ بھال کا اطمینان بخش انتظام تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کے والد اپنے دوسرے بیٹے کے پاس بیرونِ ملک چلے گئے۔ اُن کے جانے کے کچھ ماہ بعد اس کا تبادلہ ایک ایسے محکمے میں ہو گیا جہاں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس کے بیوی بچوں کو ہسپتال کی طویل قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا یا کسی پرائیویٹ کلینک کا رُخ کرنا پڑتا۔ اس نے کوشش شروع کر دی کہ اس کا تبادلہ کہیں اور ہو جائے۔مگر معلوم ہوا کہ یہاں سے نکلنا انتہائی مشکل کام ہے۔تگڑی‘ اونچی نسل کی سفارش درکار تھی جو اُس کے پاس نہیں تھی۔ بہت کوشش کی مگر ...

ماتم کا ایک اور زاویہ

یہ قصہ بھارتی شہر احمد آباد کا ہے۔ ایک عام سے محلے کے ایک عام سے گھر میں ایک بوڑھا رہتا تھا۔ یہ کرائے کا گھر تھا۔ ایک کمرے کے اس گھر میں بوڑھے کا کُل سامان ایک چارپائی‘ پلاسٹک کی ایک بالٹی اور ایلومینیم کے کچھ برتنوں پر مشتمل تھا۔ پانچ سو روپے ماہانہ اس کی پنشن تھی۔ بوڑھا برتن خود دھوتا تھا۔ گھر کی صفائی بھی خود کرتا تھا۔ اڑوس پڑوس کے لوگ اسے اپنے جیسا عام آدمی سمجھتے تھے جو انہی کی طرح اس غریب محلے میں رہتا تھا۔ایک بار مالک مکان کرایہ مانگنے آیا تو بوڑھے کے پاس کرایہ ادا کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔ مالک مکان کو غصہ آیا۔اس نے بوڑھے کا سامان اٹھایا اور باہر پھینک دیا۔ اب بوڑھا فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا بے یار و مددگار! محلے کے لوگوں نے مالک مکان کی منت کی اور اس نے اجازت دے دی۔ بوڑھا سامان اندر لے جا رہا تھا تو وہاں سے کسی اخبار کے نامہ نگار کا گزر ہوا۔ اسے یہ واقعہ دردناک لگا۔ اس نے اس کی خبر بنائی اور بوڑھے کی تصویر ساتھ لگا دی۔ جب اس کے ایڈیٹر نے تصویر دیکھی تو اس کے ہوش اُڑ گئے۔ اس نے نامہ نگار سے پوچھا کہ کیا وہ اس بوڑھے شخص کو جانتا ہے؟ نامہ نگار ہنسا۔ ایک غریب بوڑھے کو جان کر وہ کیا ک...

غلطیاں اور ان کے انڈے بچّے

عبد اللہ بن زبیر نے غلطی کی اور ایسی کہ حکومت بھی گئی اور جان بھی !یزید کی وفات کے بعد امویوں کے لیے حالات ناسازگار تھے۔اُس وقت نرمی کی ضرورت تھی مگر عبد اللہ بن زبیر شامیوں سے انتقام لینے پر تُلے ہوئے تھے۔ مروان بن حکم مدینہ میں تھا۔اسے انہوں نے شام کی طرف دھکیل دیا۔ '' کُبّے نوں لت لگ گئی‘‘ یعنی کبڑے کو لات لگی تو کُبڑا پن دور ہو گیا۔ مروان نے شام پہنچ کر بکھرے ہوؤں کو مجتمع کیا اور خود حکمران بن گیا۔ ابنِ زبیر غلطی نہ کرتے تو آج تاریخ کے صفحات مختلف ہوتے۔ حجاج نے ان کی میت کو کئی دن سولی پر لٹکائے رکھا۔ والدہ وہاں سے گزریں تو جو جملہ کہا اسے شبلی نعمانی نے نظم کیا ہے۔ اب بھی منبر سے نہ اُترا یہ خطیب  اب بھی گھوڑے سے نہ اُترا یہ سوار  شاہ جہاں نے غلطی کی۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود سالہا سال تک قید کا ٹی اور دارا کو اور اُس کے بیٹے کو اورنگ زیب نے مروا دیا۔ دارا کا شعبہ علم و دانش تھا اور اورنگ زیب مردِ میدان تھا۔ کیسا باپ تھا کہ بیٹوں کی طبیعتوں اور مزاج سے نابلد تھا اور کیسا حکمران تھا کہ جانتا نہیں تھا کہ کس کے پاس کون سا ہنر ہے! نتیجہ کیا نکلا ؟ ہزاروں لوگ مارے گئ...

انفرا سٹرکچر ضروری ہے! مگر کون سا؟

ہمارے دوست خلیل کا بیٹا امریکہ سے بہت بڑی ڈگری لے کر آیا۔ قابلیت تو اس کی مسلّمہ ہے مگر اضافی کریڈٹ اسے یہ بھی جاتا ہے کہ باپ سے ایک پیسہ نہیں لیا‘ سوائے جاتے ہوئے یک طرفہ کرائے کے۔ پڑھائی بھی کرتا رہا اور ساتھ کام بھی! اگرچہ اکثر طلبہ اسی طرح کرتے ہیں لیکن پاکستان سے ناجائز آمدنی رکھنے والوں کے بچے وہاں کام نہیں کرتے اور پڑھائی اور دیگر تمام اخراجات والدِ محترم کے لامحدود وسائل ہی سے پورے ہوتے ہیں! فرزند کی کامیابی کی خوشی میں خلیل نے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ میں بھی مدعو تھا۔ بہت یادگار فنکشن تھا۔ پورا ہال بُک کرایا گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے شادی خانہ آبادی کی تقریب ہے۔ تقریب کے دوسرے دن میں اور خلیل کلب میں چائے پی رہے تھے۔ یہ ہم چند دوستوں کا معمول ہے کہ کوئی خاص مصروفیت نہ ہو تو شام کو مل بیٹھتے ہیں۔ باتوں باتوں میں خلیل نے تقریب کے حوالے سے بتایا کہ اسے حیرت بھی ہوئی اور دُکھ بھی! سوشل میڈیا کے اس زمانے میں جب رابطہ کرنا انتہائی سہل ہو چکا ہے‘ بہت سے لوگوں نے جو مدعو تھے‘ دعوتی پیغام کا جواب نہیں دیا۔ آج کل نرم یاد دہانی  (Soft reminder)  کا رواج چل پڑا ہے۔ خلیل کے ...

بس کردو ! خدا کیلئے بس کر دو

بس کردو! خدا کے بندو! بس کردو! خدا کیلئے بس کردو! کب تک بیٹیوں کو مارتے رہو گے! کب تک ان کے گلے گھونٹتے رہو گے! تم تو مشرکینِ مکہ کو بھی مات کر رہے ہو! وہ پیدا ہوتے ہی مار دیتے تھے۔ تم پال پوس کر‘ جوان کر کے مارتے ہو! اپنی جوانی یورپ اور امریکہ میں اپنی مرضی سے گزارتے ہو! سارے کام کرتے ہو! عیاشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہو اور جی بھر کر ہوتے ہو! پاکستان یاد آتا ہے نہ اپنی تہذیب نہ روایت! غیرت بھی سوئی رہتی ہے اور شرم بھی! جوانی ڈھلنے لگتی ہے تو بیٹی جوان ہو جاتی ہے۔ اب تم 180ڈگری کے زاویے پر گھوم جاتے ہو! غیرت‘ جو کنڈلی مار کر سوئی ہوئی تھی‘ جاگ اٹھتی ہے اور پھنکارنے لگتی ہے۔ پاکستان یاد آنے لگتا ہے۔ اب یہ خیال سوہانِ روح بن جاتا ہے کہ تمہارا تو اپنا کلچر ہے۔ تمہاری روایت کی رُو سے بیٹی اپنی پسند کی شادی نہیں کر سکتی۔ کر لے گی تو خاندان کی ناک کٹ جائے گی! کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے! یہ سوچتے ہوئے تمہیں موت پڑتی ہے کہ کل خدا کو کیا جواب دو گے۔ اب بیٹی کا لباس بھی کَھلنے لگتا ہے۔ اس کی وہ آزادی بُری لگنے لگتی ہے جس میں ڈوب کر تم نے اپنی جوانی گزاری! اب تم پیچھے پاکستان میں ایک ا...

ایک اور نیا سال!!!

ایک اور نیا سال ! دائرے کے اندر ایک اور سفر!   حیرت ہوتی ہے جب نئے سال کیلئے نئے تخمینے لگائے جاتے ہیں۔نئی امیدیں باندھی جاتی ہیں!مگر کیوں؟ اکتیس دسمبر اور یکم جنوری کے درمیان آخر ایسی کون سی تبدیلی رونما ہوتی ہے کہ ہم پہلے سے بہتر ہو جائیں؟ ہمارے علاقے میں ایک محاورہ بولا جاتا ہے کہ '' جیڑھے اِتھے بھَیڑے ‘ او لاہور بھی بھیڑے‘‘ کہ جو یہاں برے ہیں وہ لاہور جیسے خوبصورت شہر جا کر بھی بُرے ہی رہیں گے۔ لاہور سے ایک اور دلچسپ بات یاد آئی۔ گاؤں میں ہماری ایک بزرگ تھیں۔ وہ اظہارِ افسوس کیا کرتی تھیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ گویا پیدا ہی نہیں ہوا۔ مگر جو لاہور دیکھے بغیر مر گئے ان کا کیا بنے گا؟  پرانا سال اور نیا سال! یہ سب ہماری تقویم کا حصہ ہے! خدا کی تقویم میں ایک دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ایک تقویم عشق کی بھی ہے کہ بقول اقبال : عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا  اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام  رہی ہماری تقویم! تو ہم کیا اور ہماری تقویم کیا! بُڈھی کھوسٹ تقویم ٹوٹی ہوئی کھاٹ پر لیٹی ہے۔ کھانستی ہے اور بلغم تھوکتی ہے! کونے میں سال ‘ مہینے‘ ہفتے اور دن...