اشاعتیں

دسمبر, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

بولو! ہے تماشا کیسا؟

وہ ایک اور زمانہ تھا! ہمارے بھی ننھیال تھے۔ اور ددھیال بھی! ''نانکے‘‘ بھی! ''دادکے‘‘ بھی! ہم بھی شہزادے تھے! جیسے ہی گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان ہوتا ہم خوشی سے ہوا میں اُڑنے لگتے! اپنا اپنا سامان باندھتے۔ اس سامان میں کتابیں ضرور ہوتیں! شہر میں‘ جہاں والد صاحب کی ملازمت تھی‘ ہم اپنے آپ کو ہمیشہ مسافر سمجھتے تھے! ادھر پہلی چھٹی کا دن چڑھتا‘ اُدھر ہمارا چھوٹا سا قافلہ بس میں سوار ہو جاتا۔ ابا‘ اماں‘ میں‘ بڑی بہن‘ چھوٹے بھائی! یہ وہ زمانہ تھا جب بسیں دن میں تین چار سے زیادہ نہیں ملتی تھیں۔ ان بسوں کے ہارن غباروں کی شکل کے تھے جو ڈرائیور کے دائیں طرف والے دروازے کے باہر لگے ہوتے۔ ڈرائیور ان کو دبا دبا کر بجاتا اور عجیب سی آواز نکلتی جیسے گائے ڈَکرا رہی ہو۔ بس کے اندر‘ دیواروں پر ہدایات لکھی ہوئی ہوتیں جن میں سے دو اب بھی یاد ہیں۔ ایک یہ کہ ''ڈرائیور کو گاڑی تیز چلانے پر مجبور نہ کریں‘‘۔ دوسری یہ کہ ''چلتی گاڑی سے جسم کا کوئی حصہ باہر نہ نکالیں‘‘۔ طبیعت بچپن ہی سے شاعرانہ تھی۔ اس دوسری ہدایت کو میں نے مصرعے میں ڈھال کر اپنے ذہن میں یوں کر دیا تھا کہ '...

شبِ یلدا

شبِ یلدا آئی اور گزر گئی!!  سال کی سب سے لمبی رات جو اکیس دسمبر کو پڑتی ہے‘ فارسی بولنے والی دنیا میں شب یلدا کہلاتی ہے۔ صرف فارسی بولنے والی دنیا ہی میں نہیں‘ اُن ملکوں میں بھی جوایران‘ تاجکستان اور افغانستان کے ارد گرد ہیں اور جہاں فارسی بولنے والے بڑے بڑے علاقے ( پاکٹس ) ہیں جیسے ترکی‘ آزربائیجان اور باقی وسط ایشیائی ریاستیں! شب یلدا ایک دلچسپ‘ بھرپور اور دلآویز تہوار ہے۔ اس میں ثقافت بھی ہے‘ تاریخ بھی‘ روایت بھی‘ ادب بھی‘ رومان اور فخر بھی! فخر اس لیے کہ یہ صدیوں پرانا تہوار ہے اور تہوار منانے والے اپنے آبا ؤ اجداد کی اس روایت کو ایک شان کے ساتھ‘ ایک سٹائل کے ساتھ‘ برقرار رکھے ہوئے ہیں! انہیں احساس ہے کہ ان کا کلچر ثروت مند ہے‘ تہی دامن نہیں!! پرانے اور نئے فارسی شعرا نے شبِ یلدا پر شعر کہے ہیں! طویل رات کو معشوق کی جدائی سے تشبیہ دی ہے۔ اس طویل رات کے بعد جو دن چڑھتا ہے وہ لمبے دنوں کا آغاز ہوتا ہے! تاریکی بتدریج کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایرانی اسے زمستان کا یعنی سرما کا آغاز قرار دیتے ہیں! سال کی اس طویل ترین رات کو کنبے اور خاندان اکٹھے بیٹھتے ہیں! باتیں کرتے ہیں‘ جب ...

غزالی صاحب

پرسوں منگل کا دن تھا جب علی الصبح چھوٹے بھائی انتصار الحق نے میسج بھیجا کہ جسٹس پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی دنیا نامی سرائے سے رخصت ہو کر اپنے پروردگار کے ہاں حاضر ہو گئے! غزالی صاحب اور ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم سے تعلق 54‘ 55برس سے تھا۔ یہ تعلق اس وقت قائم ہوا جب 1970ء کے اوائل میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر اسلام آباد واپس آیا۔ فراغت کے زمانے تھے۔ بیروزگار ہو کر بھی رنجِ روزگار لاحق نہ تھا۔ بلکہ یہ بیروزگاری خود اختیاری تھی۔ بینک میں ملازمت ملی۔ ایک ہفتے بعد چھوڑ دی۔ لیکچرر کے طور پر گورنمنٹ کالج تلہ گنگ میں تعیناتی ہوئی۔ انکار کر دیا۔ پی سی ایس (پراونشل سول سروس) کا امتحان دیا۔ تحریری امتحان میں اچھی پوزیشن آئی۔ انٹرویو کال ملی تو جواب ہی نہ دیا۔ اس وقت کا اسلام آباد بہت مختصر تھا۔ بس زیرو پوائنٹ کے مشرقی حصے میں سمایا ہوا!! بلیو ایریا کی جگہ چٹیل میدان تھا۔ اس کی تعمیر 1985ء میں شروع ہوئی۔ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی تب میلوڈی سینما کے سامنے والے بلاک کی دوسری منزل پر واقع تھا اور ہمارے گھر کے نزدیک تھا۔ ڈھاکہ جانے سے پہلے بھی میں ادارے کی لائبریری میں ج...

ایک اور سولہ دسمبر… (2)

میجر جنرل خادم حسین راجہ 1969ء سے لے کر1971ء تک مشرقی پاکستان میں جی او سی ( جنرل آفیسر کمانڈنگ) تھے۔ان کی تصنیف :A stranger in my own country EAST PAKISTAN 1969-71 صورتحال کی مستند شہادتوں میں سے ہے۔ جنرل یحییٰ صدرِ پاکستان نے تین مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا ہوا تھا۔ یکم مارچ کو اس نے یہ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔ اس وقت مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن تھے۔ جنرل خادم حسین راجہ کہتے ہیں کہ ایڈ مرل احسن نے پوری کوشش کی کہ جنرل یحییٰ اجلاس کے التوا کا اعلان نہ کریں مگر وہ ناکام ٹھہرے۔ اُلٹا یحییٰ۸ خان نے ایڈمرل احسن کو گورنری سے ہٹا دیا۔ ان کی جگہ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان گورنر بنے جو پہلے سے مشرقی پاکستان میں ایسٹرن فرنٹ کے کمانڈر کی حیثیت سے موجود تھے۔ صاحبزادہ یعقوب آرمی ایکشن کے خلاف تھے۔ یکم مارچ کو جب قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کیا گیا تو حالات خراب ہو گئے۔ پورا مشرقی پاکستان سڑکوں پر نکل آیا۔ نوشتۂ دیوار صاف نظر آرہا تھا۔ صاحبزادہ یعقوب خان تین دن اور تین راتیں کوشش کرتے رہے کہ صدر بذاتِ خود مشرقی پاکستان آکر صورتح...

ایک اور سولہ دسمبر

یہ سطور سولہ دسمبر کے دن لکھی جا رہی ہیں! آج شام ڈھلے ایک اور سولہ دسمبر گزر جائے گا۔ایک اور دن ! ایک اور شام ! کتنے ہی دن گزر گئے! کتنی ہی شامیں ڈھل کر راتوں کا روپ دھار چکیں! مگر افسوس! وقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا! ہم وہیں ہیں جہاں کھڑے تھے! ہم آج بھی ‘ اہلِ قلم کی ایک اقلیت کو چھو ڑ کر‘ یہی راگ الاپے جا رہے ہیں کہ بنگالیوں نے غداری کی!یہ کہ شیخ مجیب الرحمان غدار تھا! یہ کہ زبان کے حوالے سے ان کا مطالبہ غلط تھا۔ یہ کہ غیر بنگالیوں پر ظلم ہوئے!! اس کور چشمی کا‘ اس بد دماغی کا‘ اس تعصب کا ‘ اس ہٹ دھرمی کا اور اس تکبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم آج بھی قومی سطح پر ‘ بھِک منگے ہیں ! بنگلہ دیش کوسوں آگے پہنچ چکا ہے! ہمارے موجودہ ریزرو بارہ بلین ڈالر ہیں۔ بنگلہ دیش کے اس سے دو گنا زیادہ! باقی اشاریے بھی اسی سے قیاس کر لیجیے! ہمیں آج بھی دنیا میں کوئی دہشت گرد قرار دیتا ہے ‘ کوئی سکیورٹی سٹیٹ ! کوئی ہمیں کیلے کی ریاست کہتا ہے! اس لیے کہ ہم مستقل انکار کی حالت  (State of denial )  میں ہیں۔ ہم سچ کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں! ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ مشرقی پاکستان پر اردو...

اُن سردیوں کا نوحہ جو اَب کبھی نہیں آئیں گی

یہ سرما کیسا ہے! مجھے کوئی نہیں کہتا سر پر ٹوپی پہنو! میرے ہاتھ میں کھیس کوئی نہیں پکڑاتا کہ باہر جاتے ہوئے اسے اوڑھو! میرے لیے چولہے پر دیگچی رکھ کر پانی کوئی نہیں گرم کرتا کہ میں اس سے وضو کروں یا نہاؤں! نہانے کے بعد مجھے رضائی میں کوئی نہیں لپیٹتا!   وہ سردیاں کہاں چلی گئیں جو دلکش تھیں! مشینی نہیں تھیں! جن میں گیس کے ہیٹر تھے نہ اِنورٹر! جیسے ہی دھوپ نکلتی تھی ہم چارپائیاں باہر بچھا لیتے تھے۔ سب اکٹھے بیٹھتے تھے۔ وہ مامے‘ چاچے اور بابے کہاں چلے گئے جو نئے کھیس اوڑھے ہوئے‘ انہی کھیسوں کے کنارے لٹکتے ہوئے دھاگوں کو رسیوں کی طرح بُنتے رہتے تھے۔ حُقہ بھی چلتا تھا اور لسی بھی! اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ سردیوں میں لسی گاڑھی ہو اور گرمیوں میں پتلی! پھر جیسے ہی دھوپ ذرا زور پکڑتی‘ ہم تین چار ہمجولی‘ کھیس لپیٹے‘ سروں پر گرم ٹوپیاں پہنے‘ گاؤں کے جنوب میں اس میدان کا رُخ کرتے جو پہاڑی کی چوٹی پر واقع تھا۔ ہم وہاں اس وقت تک گُلّی ڈنڈا کھیلتے جب تک دھوپ زرد نہ پڑ جاتی! اس سارے کھیل کے دوران جھگڑے بھی ہوتے اور قہقہے بھی! جسے گُلّی کے پیچھے زیادہ بھاگنا پڑتا‘ وہ زیادہ جھگڑتا۔ ہمارے سا...

یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں

یہ جن ملکوں میں انصاف کا دور دورہ ہے‘ میرٹ کی حکومت ہے‘ عدلیہ رینکنگ میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے‘ حکمرانوں کا احتساب ہوتا ہے‘ ان کی قیام گاہیں سادہ ہیں‘ پولیس ضرورت مندوں کے دروازے پر آتی ہے‘ ضرورت مندوں کو تھانوں میں نہیں آنا پڑتا‘ مسلمان ملکوں سے کروڑوں افراد ان ملکوں میں جا بسے ہیں‘ ان ملکوں میں کوئی قراردادِ مقاصد ہے نہ کوئی اسلامی نظریاتی کونسل‘ نہ کوئی شریعہ کورٹ‘ نہ ان ملکوں کے ناموں میں مذہبی ٹچ ہے‘ نہ ان ملکوں میں قسمیں کھانے کا رواج ہے‘ تو پھر ان ملکوں میں ایسا بہت کچھ کیوں موجود ہے جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے؟ ان ملکوں میں نیب جیسے اداروں کا وجود بھی نہیں! پھر بھی کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ پچھلے سال شفافیت کے لحاظ سے ڈنمارک کا پہلا نمبر تھا۔ دوسرے نمبر پر نیوزی لینڈ تھا۔ اس کے بعد بالترتیب فن لینڈ‘ ناروے‘ سنگا پور‘ سویڈن‘ سوئٹزر لینڈ‘ نیدر لینڈ‘ جرمنی‘ لگزمبرگ ‘ آئرلینڈ‘ ہانگ کانگ‘ آسٹریلیا‘آئس لینڈ ‘ایسٹونیا‘ یورا گوئے‘کینیڈا‘ جاپان‘ برطانیہ‘ بلجیم‘ فرانس‘آسٹریا‘ امریکہ‘ تائیوان‘ بھوٹان‘ اور چلی کے نام آتے ہیں۔ اس کے بعد پہلا مسلمان ملک یو اے ای ستائیسویں نمبر پر ہے! چال...

ایک چھوٹا سا پاکستان

میں جب اپنے اُن احباب سے اُکتاتا ہوں جو گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں‘ کوٹ پتلون پہنتے ہیں یا کلف زدہ کھڑ کھڑاتے شلوار قمیض! بڑے بڑے مناصب پر رہے ہیں اور اپنے کارنامے فخریہ سناتے ہیں! زرعی پیداوار سے حاصل شدہ‘ حیران کن آمدنی کا ذکر کرتے ہیں‘ بلغراد‘ ویانا اور سکینڈے نیویا کے سفر کے حالات سناتے ہیں اور پلاٹوں کی خرید اور ان پر تعمیر کردہ محلات کا ذکر کرتے ہیں تو میں ایسے مقامات کا رُخ کرتا ہوں جہاں ان گردن بلندوں کا گزر نہیں ہوتا! حافظ شیرازی نے کہا تھا ؎ غمِ غریبی و غربت چو بر نمی تابم  بشہرِ خود روَم و شہر یارِ خود باشم کہ مسافرت کے غم جب برداشت سے باہر ہوجاتے ہیں تو اپنے شہر کو جاتا ہوں اور اپنا مالک و مختار خود بنتا ہوں!  سبزی منڈی میں جیسے ہی داخل ہوا تو نوٹ کیا کہ چودہ پندرہ سال کے ایک لڑکے نے میری گاڑی کو اور مجھے غور سے دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں چھوٹی ریڑھی تھی جس میں سودا رکھا جاتا ہے اور ڈھویا جاتا ہے۔ اس ریڑھی کا ایک ہی پہیہ ہوتا ہے۔ فرنگی زبان میں اسے  wheelbarrow کہتے ہیں! منڈی میں بے تحاشا رش تھا۔ مزدور سروں پر ٹوکرے رکھے ادھر اُدھر تیزی سے آجا رہے تھے۔ سڑک پر سو...

پا بہ زنجیر پولیس

گزشتہ ہفتے ایک نوجوان افسر کے دائرۂ اختیار میں تین مجرم پکڑے گئے جن کے خلاف ٹھوس الزامات تھے۔تاہم سیاسی دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ حکام بالا کی طرف سے انہیں چھوڑ نے کا حکم ملا اور وہ چھوڑ دیے گئے!! یہ ہے اصل حقیقت ہمارے بڑے بڑے دعووں کی! قیمتی کوٹ اور پتلون کے نیچے ہم نے چیتھڑے پہنے ہوئے ہیں اور دھجیاں لپیٹی ہو ئی ہیں!غلام عباس نے اپنا مشہور افسانہ '' اوور کوٹ‘‘ شاید ہماری اصلیت کے بارے میں ہی لکھا تھا۔ جھنڈا اپنا ہم نے وائٹ ہاؤس پر بھی لہرانا ہے اور لال قلعے پر بھی! آزادی ہم نے کشمیر کے علاوہ فلسطین اور چیچنیا کو بھی دلوانی ہے! جنگجو ہم نے ساری دنیا سے سمیٹ کر اپنے گھر میں ڈال لیے! کہلواتے ہم اسلام کا قلعہ ہیں! مگر اصلیت ہماری اتنی مکروہ ہے کہ کسی مجرم کو سزا نہیں ملتی! پولیس زنجیروں سے بندھی ہے۔ اعلیٰ افسران اپنے ماتحتوں کی تعیناتیوں اور تبادلوں کے معاملات میں بے بس ہیں! جو مدافعت کرتا ہے اسے منظر ہی سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ کیا پورے ملک میں ایک کچہری بھی ایسی ہے جہاں دہانوں میں ہڈیاں ڈالے بغیر کام ہو سکے؟ کل ہی ایک دوست بتا رہے تھے کہ ان کی زرعی زمین کی گرداوری کے لیے چار لاکھ کا...

ہم ابھی جوتے ڈھونڈ رہے ہیں

میرے دوست نے جاپان کی مثال دی ہے۔ کئی افراد نے کوریا کی ترقی کا ذکر کیا ہے جس نے پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ پاکستان ہی سے لیا تھا۔میں نے خود بارہا سنگاپور کو ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے۔ چار چار بالشت کے تھائی جس طرح صرف ایئر پورٹ سے روزانہ کروڑوں کمارہے ہیں‘ حیرت ہوتی ہے! یو اے ای اس وقت پورے کرۂ ارض پر سیاحت اور کاروبار کا مرکز اور مالیات کا محور ہے۔ کیا تھا یو اے ای؟ ریگستان! جس میں خاردار جھاڑیوں‘ ریت کے ٹیلوں‘ اونٹوں اور بکریوں کے سوا کچھ نہ تھا! پاکستان جہاں تھا‘ وہاں بھی اب نہیں! رجعتِ قہقری کا عبرتناک نمونہ ہے! ہم جاپان کیوں نہیں بنے؟ سنگا پور‘ کوریا‘ تھائی لینڈ‘ یو اے ای‘ سب ہمارے لیے خوابوں کی دنیا کیوں ہیں ؟ کیا اس لیے کہ کوریا‘ تھائی لینڈ‘ سنگا پور اور یو اے ای کی بغل میں کوئی افغانستان نہیں؟ مگر پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں یہی افغانستان ہمارا پڑوسی تھا! ہماری صنعتی ترقی رواں دواں تھی۔ ہماری ایئر لائن کا شُہرہ تھا۔ ہم نے ڈیم بنائے تھے۔ دنیا میں ہماری عزت تھی ! تو کیا اس لیے کہ کوریا‘ سنگاپور اور یو اے ای میں کوئی مردِ مومن مردِ حق نہیں آیا؟ جس نے افغانستان کی منشیات اور اسلح...

نوجوان افسر کی خود کُشی

اعلی  عہدے پر فائز ایک نوجوان افسر نے خود کشی کر لی۔سوشل میڈیا پر یہ خبر ٹاپ ٹرینڈ بنی رہی۔ بہت تجزیے ہوئے۔ جتنے منہ اتنی باتیں! اس خاص واقعہ کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ر ہے ؟ اس میں ازدواجی معاملات نے کیا اور کتنا کردار ادا کیا؟ اس ضمن میں کوئی کارآمد اور ٹھوس تجزیہ تاحال سامنے نہیں آیا۔ ہاں! افسر کی اہلیہ کے حوالے سے '' سابق اہلیہ ‘‘ کا لفظ پڑھنے میں ضرور آیا جو مبینہ طور پر اچھے منصب پر فائز ہیں۔   ماضی قریب میں اعلیٰ افسروں کی جس تعداد نے خود کشی کی ہے وہ تعداد تشویشناک ہے۔ اس حوالے سے کوئی سٹڈی تاحال نہیں ہوئی کہ عوامل کیا ہیں۔ کسی سنجیدہ سٹڈی کا امکان بھی نہیں۔ ہمارے ہاں اس کا رواج ہی نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس افسر کا خاندانی اور معاشرتی حدوداربعہ کیا تھا۔ اور ازدواج کے پہلو کا اس سانحہ میں کتنا عمل دخل ہے۔ بہر طور میں اپنے ایک قریبی دوست کا ‘ جو کلاس فیلو بھی تھا‘ احوال قارئین کے ساتھ شیئر کرتا ہو ں۔اس نے بھی اعلیٰ منصب پر پہنچ کر اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کی۔ یہ بتانا مناسب نہیں کہ وہ کس شہر یا کس سکول یا کالج یا یونیورسٹی میں میرا ہم جماعت تھا یا کس سروس میں...