بولو! ہے تماشا کیسا؟
وہ ایک اور زمانہ تھا! ہمارے بھی ننھیال تھے۔ اور ددھیال بھی! ''نانکے‘‘ بھی! ''دادکے‘‘ بھی! ہم بھی شہزادے تھے! جیسے ہی گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان ہوتا ہم خوشی سے ہوا میں اُڑنے لگتے! اپنا اپنا سامان باندھتے۔ اس سامان میں کتابیں ضرور ہوتیں! شہر میں‘ جہاں والد صاحب کی ملازمت تھی‘ ہم اپنے آپ کو ہمیشہ مسافر سمجھتے تھے! ادھر پہلی چھٹی کا دن چڑھتا‘ اُدھر ہمارا چھوٹا سا قافلہ بس میں سوار ہو جاتا۔ ابا‘ اماں‘ میں‘ بڑی بہن‘ چھوٹے بھائی! یہ وہ زمانہ تھا جب بسیں دن میں تین چار سے زیادہ نہیں ملتی تھیں۔ ان بسوں کے ہارن غباروں کی شکل کے تھے جو ڈرائیور کے دائیں طرف والے دروازے کے باہر لگے ہوتے۔ ڈرائیور ان کو دبا دبا کر بجاتا اور عجیب سی آواز نکلتی جیسے گائے ڈَکرا رہی ہو۔ بس کے اندر‘ دیواروں پر ہدایات لکھی ہوئی ہوتیں جن میں سے دو اب بھی یاد ہیں۔ ایک یہ کہ ''ڈرائیور کو گاڑی تیز چلانے پر مجبور نہ کریں‘‘۔ دوسری یہ کہ ''چلتی گاڑی سے جسم کا کوئی حصہ باہر نہ نکالیں‘‘۔ طبیعت بچپن ہی سے شاعرانہ تھی۔ اس دوسری ہدایت کو میں نے مصرعے میں ڈھال کر اپنے ذہن میں یوں کر دیا تھا کہ '...