اشاعتیں

نومبر, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ایک دلکش دنیا جو صرف آپ کی ہو گی!

اِدھر اُدھر دیکھیے۔ کتنے ہی افراد جو پرائمری اور ہائی سکول میں آپ کے ساتھ تھے‘ آج دنیا میں نہیں ہیں۔ جو کالج‘ یونیورسٹی میں ساتھ تھے‘ ان میں سے بھی کچھ جا چکے ہیں۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں تو غور کیجیے‘ کتنے ہی آپ کے ہم عمر تھے جو کنوارے اس جہان سے رخصت ہو گئے۔ اگر آپ پوتوں‘ نواسیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو آپ پر پروردگار کا خاص کرم ہے! اس نے آپ کو اتنی مہلت دی کہ آپ ان شیریں میووں سے حظ اٹھا سکیں! کتنے ہی آپ کے دوست آخرت کو سدھار چکے! آپ آج بھی موجود ہیں! اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی سانسوں میں اضافہ کیا اور وہ دعائیں بھی قبول ہوئیں جو آپ کے بزرگ آپ کو دیتے رہے۔ وہ دعائیں جو روٹین لگتی ہیں‘ اصل میں قیمتی نسخے ہیں! ''اللہ حیاتی دے‘ اللہ سلامت رکھے‘ جُگ جُگ جیو‘‘ اور بہت سی اور بھی!! بڑی بوڑھیاں یہ بھی کہتی تھیں ''اللہ کرے کھُنڈی پر چلو‘‘ یعنی اتنی طویل عمر ہو کہ عصا کے سہارے چلو!  آپ کی مصروفیت کا احساس ہے! ازراہِ کرم پانچ منٹ مزید عنایت فرمائیے! اپنے جسم پر غور کیجیے۔ آپ کے دل کی مشین برابر چل رہی ہے۔ گردوں کی چھلنیاں ڈیوٹی دے رہی ہیں۔ خون کی صفائی ہو رہی ہے۔...

پھل یا نقد رقم ؟؟

یونیورسٹی ہوسٹل میں میں بیمار پڑ گیا۔دوست عیادت کے لیے آتے تو پھل لاتے۔ان دوستوں میں ایک شیر خان بھی تھے۔بعد میں وہ انگریزی زبان و  ادب کے پروفیسر بنے۔ چند سال پہلے داغِ مفارقت دے گئے۔ان کا تعلق ضلع اٹک کے قصبے بسال سے تھا۔ وہ عیادت کے لیے آئے تو پھل نہ لائے۔  اس کے بجائے انہوں نے نقد رقم دی۔ اُس وقت یعنی 1969-70ء میں یہ خطیر رقم دس روپے تھی۔ یاد رہے کہ روزانہ ناشتے پر تب ایک روپیہ خرچ  ہوتا تھا۔پنڈی اسلام آباد میں انگور ڈیڑھ روپے سیر تھا۔ ڈھاکہ میں دس روپے سیر تھا یعنی قوتِ خرید سے باہر ! چنانچہ بنگالی بھائی اسلام آباد آتے تو انگور  اتنا زیادہ کھاتے کہ اسہال کا شکار ہو جاتے۔انڈے آٹھ آنے میں چار ملتے۔ ہوسٹل میں کمرے کاکرایہ‘ جس میں صرف میں رہتا تھا‘ ماہانہ سولہ روپے تھا ۔  میس میں دو وقت کے کھانے کا ماہانہ بل ستر روپے تھا۔تازہ نیوز ویک اور ٹائم دو دو روپے کے ملتے تھے اور ہم خرید کر پڑھتے تھے۔ شیر خان نے عیادت کے دس روپے تکیے کے نیچے رکھے۔کچھ دوست بھی اس وقت موجود تھے۔ وہ متعجب ہوئے۔ شیر خان نے انہیں بتایا کہ ہمارے ہاں‘ ضلع اٹک میں‘ رواج ہے کہ کسی کی عیادت...

ہم ازلی وفادار !!

موسم بدل گیا ہے۔ رُت نئی ہے! مسافر پرندے آرہے ہیں۔ غول کے غول! پروں کو پھڑ پھڑاتے ہوئے !! (ن) لیگ کی جھیل پر اُتر رہے ہیں!   کچھ سادہ لوح اس تازہ ہجرت پر جز بز ہورہے ہیں! کچھ حیرت میں مبتلا ہیں! کچھ نفرین بھیج رہے ہیں اور طعنہ زن ہیں! یہ سب غلط ہیں! یہ اپنی تاریخ سے  نابلد ہیں!یہ ہجرتیں تو صدیوں سے ہورہی ہیں! بر صغیر کی مسلم آبادیاں انہی ہجرتوں میں پروان چڑھیں! یہ مسافرت تو ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ یہ ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے! ہم جب وفاداری بدلنے پر آتے ہیں تو بدل کر رہتے ہیں۔ پھر ہم اپنا قبیلہ‘ اپنا خون‘ اپنا محسن‘ اپنا وعدہ‘ اپنا حلف ‘ اپنا دین‘ اپنا ایمان ‘ اپنی آخرت کچھ بھی نہیں دیکھتے! ہم صرف مفاد دیکھتے ہیں۔ ہم ہمیشہ سے چڑھتے سورج کے پجاری رہے ہیں!ہم ہمیشہ ایک جھیل سے دوسری جھیل کو اور ایک چراگاہ سے دوسری چراگاہ کو نقل مکانی کرتے رہے ہیں! مفادات کی اس دوڑ میں کوئی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ بنگال تھا یا یوپی‘ کراچی تھا یا پشاور‘ پشتون تھا یا پنجابی‘ سندھی تھا یا بلوچی‘ کشمیر سے تھا یا دکن سے‘ کابل سے تھا یا جونپور سے ‘ سب میں دو صفات مشترک تھیں۔ مسلمان ...

بلدیاتی ادارے‘ اسلام آباد اور میئر

''اس وقت سب شہروں کے بلدیاتی ادارے ڈی ایم جی افسران کے پاس ہیں۔ آپ کسی شہر میں چلے جائیں وہاں گندگی کی حالت دیکھ لیں‘‘ یہ ماتمی مگر مبنی بر صداقت فقرہ دوستِ عزیز جناب رؤف کلاسرا کا ہے!   دو تین ہفتے پہلے جب خبر چلی کہ اسلام آباد کے دو سرکاری ہسپتالوں کے سربراہ فوج سے لیے جائیں گے تو مجھے یہ خبر بالکل نہ بھائی۔ سول محکمے سول افراد ہی کے چارج میں رہنے چاہئیں۔ یہ ایشو کچھ صحافی دوستوں اور کچھ دیگر اصحاب سے شیئر کیا۔ ان میں سے کچھ دوست ثقہ ہیں اور سچ بولنے کے لیے مشہور! امید یہ تھی کہ میرے نقطۂ نظر کی تائید ہو گی اور وہ اس فیصلے کی مخالفت کریں گے‘ مگر تعجب ہوا کہ زیادہ تر کی رائے اس فیصلے کے حق میں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ان دونوں شفا خانوں میں مریض رُل رہے ہیں‘ انتظارگاہوں میں بیٹھ بیٹھ کر گل سڑ رہے ہیں اور بدنظمی نے ان ہسپتالوں کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ اس کے پیش نظر فوجی افسر ہی آکر کچھ کریں تو کریں۔ اس پر اپنا ذاتی تجربہ یاد آگیا۔ چند سال پہلے ایک نیفرالوجسٹ سے ملنا تھا جو بظاہر اسلام آباد کے بڑے سرکاری ہسپتال سے وابستہ تھا۔ کئی دن جاتا رہا۔ مالیات کا س...

خیمہ اور اونٹ …( 2)

مشرق وسطیٰ کے کھرب پتی ممالک جو مسلمان بھی ہیں کسی بھی غیر ملکی مسلمان کو شہریت نہیں دیتے خواہ وہ وہاں پیدا ہوا ہو یا پچاس سال سے رہ رہا ہو !! مگر پاکستان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ جو بھی سرحد پار کر کے آئے اسے شہریت دے دی جائے! اعزاز صاحب کا کہنا ہے کہ '' جو افغان یہاں پر موجود ہیں ہمارا بازو ہو سکتے ہیں ہماری طاقت ہو سکتے ہیں‘‘! افغان تاریخ سے واجبی واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ افغانوں کی وفاداریاں خود افغانستان کے اندر کبھی مستحکم اور قابلِ اعتماد نہیں رہیں۔ افغان آزاد روحیں ہیں۔  Maverick  ‘موڈی اور کسی بھی نظم و ضبط سے آزاد !! ولیم ڈالرمپل کی تصنیف  '' ریٹرن آف اے کنگ‘‘ افغانوں کی نفسیات سمجھنے کیلئے تازہ سورس ہے۔ دنیا کا پیچیدہ ترین قبائلی نظام! جو کسی اصول کا پابند نہیں! خونی رشتوں کے اندر بھی ہولناک دشمنیاں! شاہ شجاع کے عمائدین میں سے ایک نے اپنے ساٹھ رشتہ داروں کی دعوت کی۔ مہمانوں کے کمرے کے نیچے پہلے ہی بارود بھری بوریاں رکھ دی گئیں۔کھانے کے دوران میزبان کسی بہانے باہر چلا گیا۔ ساٹھ کے ساٹھ رشتہ دار بھک سے اُڑا دیے گئے۔ یہ مہاجرین چالیس سال سے یہاں رہ رہ...

خیمہ اور اونٹ

''یہ بڑی غلط پالیسی ہے۔ غلط وقت پر ہے۔غلط انداز میں ہے۔ ان افغان مہاجرین کو پاکستانی تصور کیاجانا چاہیے۔جو افغان یہاں پیدا ہوئے ہیں انہیں سٹیزن شپ دینی چاہیے۔ جو پڑھے لکھے لوگ ہیں انہیں سٹیزن شپ دینی چاہیے۔ جن کے پاس کوئی سکل ہے‘ کوئی ڈاکٹر ہے‘ کوئی انجینئر ہے اُسے بھی پرییارٹی پر پاکستان کی سٹیزن شپ دیں۔ پاکستان کو اپنی ویزا پالیسی کو بہتر کرنا چاہیے۔ جو افغان یہاں انویسٹ منٹ کر سکتے ہیں‘ انویسٹ منٹ کی رقم متعین کر دیں‘ چار لاکھ ڈالر‘ پانچ لاکھ ڈالر تو اُن کو فیملی سمیت ویزا دیں۔اُن کو اس سسٹم میں انٹی گریٹ کریں اور پاکستان کی پاور بنائیں۔اگر آپ کو اپنی نیشنل سکیورٹی کے بارے میں زیادہ پریشانی ہے تو ان سے افغانستان کی جو سٹیزن شپ ہے اس کی  Renounce  کروالیں یا کوئی پیپر سائن کروالیں۔پھر جو دوسری آرگومنٹ دی جاتی ہے کہ چودہ یا پندرہ دہشت گرد سال یا دو سال یا چھ مہینے میں خود کْش حملہ آور جو افغان تھے یہ زیادہ تر وہ افغان تھے جو سرحد پار سے آئے ہیں۔ یہاں رہنے والے جو افغان ہیں وہ عام طور پر کسی قسم کی برائی میں یا قانون کی وائلیشن میں ملوث نہیں ہوتے۔غریب لوگ ہیں۔ زیادہ تر پڑھ...

نہیں ! جنابِ وزیر اعلیٰ ! نہیں

اگر یہ قتلِ عام نہیں تو کیا ہے ؟   یہ قتلِ عام ایک چودہ سالہ بچے نے کیا جو ڈیفنس لاہور فیز سات میں کار چلاتے ہوئے کرتب دکھا رہا تھا۔ انتہائی تیز رفتاری سے وہ زگ زیگ کھیل رہا تھا۔ جو قارئین زگ زیگ کے مطلب سے نا آشنا ہیں ان کی اطلاع کے یے عرض ہے کہ زگ زیگ کامطلب گاڑی کو سڑک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور پھر دوسرے کنارے سے پہلے کنارے لانا ہے اور اسی طرح کرتے جانا ہے‘ یعنی پہلے سڑک کے دائیں طرف کرنا پھر برق رفتاری سے بائیں طرف کرنا ! اس کھیل کے دوران اس کی گاڑی دوسری گاڑیوں سے ٹکرائی۔ ایک بدقسمت خاندان کے چھ افراد اس بچے کے کھیل کی بھینٹ چڑھ گئے۔ان مقتولوں میں ایک چار سالہ بچی اور ایک چار ماہ کا بچہ بھی شامل ہیں۔ تین شدید زخمی ہوئے۔ پورے کا پورا خاندان اُجڑ گیا۔ یہ وحشت ناک قتلِ عام کسی دور افتادہ بستی یا گاؤں میں نہیں کیا گیا۔ یہ لاہور شہر کے سب سے زیاد ماڈرن اور مہنگے علاقے میں رونما ہوا۔  جیسا کہ ہر حادثے کے بعد ہوتا ہے‘ صوبے کے گورنر اور وزیر اعلیٰ کی طرف سے بیانات جاری ہوئے۔ دونوں نے واقعہ پر گہرے دکھ اور افسوس کااظہار کیا۔ رپورٹ طلب کی اورغفلت کے ذمہ دار ڈرائیور کے خلاف ...

عامل اور معمول

جسے تم گوشت پوست کا بنا ہوا آزاد نوجوان سمجھ رہے ہو‘ وہ گوشت پوست کا بنا ہوا تو ہے مگر آزاد نہیں! اس کے دیدہ زیب لباس پر نہ جاؤ۔ اس کے چمکدار جوتوں سے بھی دھوکا نہ کھاؤ۔ اس نے سر پر قیمتی برانڈ کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے‘ اسے بھی نظر انداز کرو! یہ خوش پوش‘ وجیہ نوجوان اصل میں بچہ جمورا ہے! اس کی اپنی مرضی کوئی نہیں! یہ اپنے استاد کا مطیع و فرمانبردار ہے۔ یہ معمول ہے اور اپنے عامل کا غلام ہے! اسے اس کا عامل بیٹھنے کا حکم دیتا ہے تو بیٹھ جاتا ہے۔ کھڑا ہونے کا کہتا ہے تو کھڑا ہو جاتا ہے۔ سو جانے کا حکم دیتا ہے تو لیٹ کر خراٹے لینے لگتا ہے۔ یوں سمجھو انسانی شکل میں یہ روبوٹ ہے۔ آج کی دنیا میں روبوٹ انسانی شکل ہی کے بنائے جا رہے ہیں مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسان نہیں‘ روبوٹ ہیں اور انہیں انسانی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ کوشش سو فیصد کامیاب نہیں ہوئی! اس کے برعکس بچہ جمورا ایک ایسا روبوٹ ہے جو ایک سو ایک فیصد انسان ہے!  بچے جمورے کے بارے میں جو بات لازماً یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا عامل بدلتا رہتا ہے۔ ہر نیا عامل اسے اپنے خیالات کے حساب سے تربیت دیتا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہ...

ہم انسان بھی کیا چیز ہیں

آج گھر میں بہت رونق تھی۔ ڈرائنگ روم مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔   گائے‘ بکری‘ گدھا اور کتا ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔ بات گائے نے شروع کی۔کہنے لگی :پیدائش سے انسان کی خدمت شروع کرتی ہوں۔ ماں کا دودھ مجھے بہت کم ملتا ہے اور مالک زیادہ لے جاتا ہے۔ پھر بڑی ہوتی ہوں تو بچھڑے کو جنم دیتی ہوں۔ میرے دودھ پر اصل حق اس کا ہے۔ مگر میرے لخت جگر کو میرے سامنے کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے اور دودھ کا غالب حصہ انسان اپنے استعمال میں لاتا ہے۔ لسی‘ گھی‘ مکھن بناتا ہے۔ کھاتا بھی ہے۔ بیچتا بھی ہے۔ ساری زندگی اپنے خون کو دودھ میں بدل کر انسان کی سیوا کرتی ہوں۔ مر جاؤں تو گوشت کھاتا ہے۔ پائے اور زبان تک نہیں چھوڑتا۔ اور زندگی بھر کی غلامی کا صلہ کیا ملتا ہے ؟ جو انسان بھی ہونّق‘ گاؤدی‘ بودا‘ گھامڑ اور بدھو ہو اسے اللہ میاں کی گائے کا خطاب دیتے ہو! یا کہتے ہو فلاں تو نری گائے ہے۔ حیران ہوتی ہوں کہ تم انسان کتنے احسان فراموش ہو۔ گائے چپ ہوئی تو بکری بولنے لگی! اس کا بیان بھی یہی تھا کہ ساری زندگی انسان کی خدمت میں گزار دیتی ہے۔ اس کے ننھے ننھے‘ خوبصورت میمنے دودھ سے اپنا پورا حصہ نہیں لے سکتے۔...

علامہ اقبال پر ہمارے احسانات

علامہ اقبال پر جو ہمارے احسانات ہیں ‘ ان میں ہم نے ایک اور کا اضافہ کر دیا! آج یومِ اقبال کی عام تعطیل ہے۔تعطیل کی برکت سے اکثریت لطف اندوز ہو گی! لوگ دیر تک سو سکیں گے! اُٹھ کر پیزا‘ یا برگر‘ یا بالٹی گوشت یا چکن کڑاہی یا چرغہ کھائیں گے۔ زیادہ خوشحال اور ماڈرن کنبے چینی ریستورانوں یا دیگر مہنگے ریستورانوں کا رُخ کریں گے۔ ایک زمانے میں چھٹی کے دن گوشت خوری کے بعد پاکستانی انڈین فلم دیکھتے تھے۔ اب چونکہ سنیما ہاؤس عمارتوں سے جیبوں میں منتقل ہو چکے ہیں اس لیے فلم بینی چھٹی کی محتاج نہیں رہی! اقبال پر ہمارے اور بھی احسانات ہیں۔ اس کے نام سے ادارے قائم ہیں! ان اداروں پر قومی خزانے سے بجٹ اترتا ہے۔ خاندان پرورش پاتے ہیں۔ کچھ افراد نے تو ان مناصب پر فائز ہو کر اپنی کتابیں چھاپیں اور خوب تشہیر کی۔ کچھ صوفی مشہور ہونے میں کامیاب ٹھہرے! ایک زمانہ تھا کہ یوم اقبال پر جو محفل منعقد ہوتی تھی اس سے ڈاکٹر جاوید اقبال‘ شورش کاشمیری‘ حمید نظامی اور مولانا عبد الستار خان نیازی جیسے زعما خطاب کرتے تھے۔ یہ بڑے لوگ رخصت ہو گئے۔ ان کی جگہ پستہ قد لوگ پیش منظر پر آگئے۔ گویا گلاب اور نرگس و سوسن کے پودے غائب...

ایک احمقانہ کارروائی

جنات کا وجود ہے یا نہیں؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ نہیں ہے تو یہ جواب سائنسی نہیں! وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے کسی جِن کو دیکھا نہیں! اس کے وجود سے کیسے انکار کر سکتا ہے! اس کائنات میں لاکھوں کروڑوں مخلوقات ایسی ہیں جنہیں دیکھنے سے ہم قاصر ہیں۔ مگر ہم ان کے وجود سے انکار نہیں کر سکتے! ایک شخص تھوکتا ہے۔ اسے اپنی تھوک میں کچھ نہیں دکھائی دیتا! مگر لیبارٹری میں بیٹھے ہوئے سائنسدان کو اسی تھوک میں سینکڑوں جراثیم‘ بیکٹیریا اور دیگر کئی اقسام کی مخلوقات نظر آتی ہیں! تو اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ قبرستان میں مردے ایک دوسرے کیساتھ رابطہ کر سکتے ہیں یا اکٹھے ہو کر گپ شپ لگا تے ہیں یا پارٹیاں اور کانفرنسیں منعقد کرتے رہتے ہیں تو ہم اس کا انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمارے پاس ایسا نہ ہونے کا یا ایسا نہ کیا جا سکنے کا کوئی ثبوت نہیں! ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ہوتے ہم نے دیکھا نہیں! یا ہم اس ضمن میں اپنی بے علمی کا اعتراف کر سکتے ہیں! باہمی رابطوں کے ذرائع‘ یہ ٹیلیفون‘ یہ وٹس ایپ‘ یہ ای میل‘ یہ واکی ٹاکی‘ یہ خط و کتابت‘ یہ دوڑتے بھاگتے قاصد‘ یہ سب ذرائع تو روئے زمین کے اوپر ہیں!...

پچپن بھیڑیں

جس دن امریکی صدر جو بائیڈن نے‘ بغیر کوئی لفظ چبائے‘ صاف اور واشگاف الفاظ میں اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور حماس کے خلاف زہر اگلا تھا‘ اس سے ٹھیک اگلے دن‘ پچپن مسلمان ملکوں کو چاہیے تھا کہ اپنے اپنے سفیر واشنگٹن ڈی سی سے واپس بلا لیتے اور امریکی سفیروں کو رخصت کر دیتے!   مگر یہ کیسے ہو سکتا تھا! یہ ناممکن تھا! اس لیے کہ یہ پچپن مسلمان ملک راکھ کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں! ان کی اس کرۂ ارض پر وہی حیثیت ہے جو محل کے باہر باڑے کی ہوتی ہے۔ باڑے میں جو مخلوقات رکھی جاتی ہیں یا باندھی جاتی ہیں انہیں ان فیصلوں میں نہیں شریک کیا جاتا جو محل کے اندر کیے جاتے ہیں۔ باڑے میں بند‘ بندھی ہوئی ان مخلوقات پر جتنا بھی ظلم ہو‘ یہ کبھی آپس میں اتحاد نہیں کرتیں! یہ ہمیشہ محل کی اور محل والوں کی دست نگر رہتی ہیں! یہ امریکہ کی اسرائیل پرستی کا کیا جواب دیں گے ! یہ تو وہ ہیں جنہیں فرنگی زبان میں  Vegetables  کہتے ہیں ! اپنی کوئی سوچ نہیں! کوئی منصوبہ بندی نہیں! کوئی دماغ نہیں! یہ ایک ریوڑ ہے جس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے! ریوڑ کی تعداد جتنی بھی بڑھے‘ وہ ریوڑ ہی رہتا ہے! وہ کبھی مالک کے سامنے...

یہ طالب علم انعام کا مستحق ہے

  یہ ماتم بہت پرانا ہے۔ نوحہ خوانی اور سینہ کوبی اس پر بہت ہو چکی۔ بہت ہاتھ جوڑے گئے۔ بہت منت سماجت کی گئی۔ بقول بہادر شاہ ظفر '' کیے لاکھ فریب ‘ کروڑ فسوں‘‘ مگر کسی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہی لچھن ہیں جو تھے۔ اس ناسور کو لاہور کے ایک معروف تعلیمی ادارے نے تازہ کر دیا ہے۔ یہ دو دن پہلے کی بات ہے۔ نگران وزیر اعظم اُس ادارے میں تشریف لے گئے تا کہ طلبہ و طالبات سے ملاقات کر یں! یہ خواہش وزیر اعظم کی تھی یا تعلیمی ادارے کی ‘ اس ضمن میں راوی خاموش ہے! وزیر اعظم ‘ مبینہ طور پر‘ وقتِ مقررہ سے پچاس منٹ تاخیر سے پہنچے! ایک طالب علم نے ‘ بھری بزم میں ‘ وزیر اعظم سے دیر سے آنے کا شکوہ کر ڈالا کہ سٹوڈنٹس اور اساتذہ انتظار کرتے رہے اور یہ کہ یہ علم کی اور ادارے کی ناقدری ہے! یہاں‘ ضمناً‘ وزیر اعظم کو یہ کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ انہوں نے اپنے پروگرام میں سوال و جواب کا سیشن رکھا! اس کالم نگار کو یاد نہیں کہ اس سے پہلے کسی حکمران نے یہ جرأت اور یہ خوش اخلاقی دکھائی ہو! حکمران یونیورسٹیوں میں یا دوسرے تعلیمی اداروں میں جاتے ہی کہاں ہیں! غلطی سے چلے جائیں تو تقریر کر کے یہ جا وہ جا۔ ہم عصر تاریخ...