اشاعتیں

ستمبر, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اس مٹی میں سونا ہے! خالص سونا!!

دو کمروں کا چھوٹا سا سرکاری کوارٹر تھا جس کے سامنے جہازی سائز کی کار رُکی!   کار میں سے دو افراد اُترے۔ ایک ادھیڑ عمر شخص اور دوسرا اٹھارہ بیس سال کا نوجوان! ادھیڑ عمر شخص نے دروازے پر دستک دی! کوارٹر سے ایک صاحب نکلے اور کہا: جی! فرمائیے! ادھیڑ عمر شخص نے بتایا کہ وہ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے۔ اس کوارٹر میں اس نے بچپن اور لڑکپن گزارا ہے۔ یہ سرکار کی طرف سے اس کے والد کو الاٹ ہوا تھا۔ ان کا کنبہ یہاں کئی سال رہا۔ آج وہ اپنے بیٹے کو یہ کوارٹر دکھانے آیا ہے۔ پھر اس نے کوارٹر میں رہنے والے ان صاحب سے کہا کہ اگر ان کے گھر والوں کو زحمت نہ ہو تو وہ بیٹے کو کوارٹر اندر سے دکھانا چاہتا ہے۔ اس نے اجازت دے دی۔ ادھیڑ عمر شخص بیٹے کو اندر لے گیا۔ اسے دکھایا کہ یہ دو کمرے تھے جن میں پانچ افراد رہتے تھے۔ چھوٹا سا باورچی خانہ اور ایک غسل خانہ تھا۔ گیزر قسم کی کوئی شے نہ تھی۔ نہانے اور وضو کرنے کے لیے پانی چولہے پر گرم کیا جاتا تھا اور بالٹی میں ڈال کر غسل خانے میں لے جایا جاتا تھا۔ بیٹا دم بخود ہو کر دیکھتا اور سنتا رہا۔ پھر ادھیڑ عمر شخص نے کوارٹر میں رہنے والے صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں باپ ...

ہمارے ملک کے شاہی خاندان

جاگیر دار دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو جاگیر کے مالک ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جن کے پاس جاگیر قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی مگر ماشاء اللہ ذہنیت جاگیرداروں جیسی ہوتی ہے۔ فرنگی زبان میں اسے '' فیوڈل مائنڈ سیٹ‘‘ کہتے ہیں! پست خاندانی پس منظر سے کوئی یکدم بڑے منصب پر پہنچ جائے تو اسی ذہنیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ پست خاندانی پس منظر سے مراد مفلسی نہیں‘ بلکہ تربیت کی کمی اور شرافت و نجابت کا فقدان ہے۔ بسا اوقات امیر زادوں کا خاندانی پس منظر پست ہوتا ہے کیونکہ ادب‘ آداب‘ تمیز‘ خوش اخلاقی اور انکسار سے عاری ہوتے ہیں۔ رویّے سے فرعونیت ٹپکتی ہے۔ بہت سی مثالیں ایسے افراد کی ہیں جو متوسط بلکہ زیریں طبقے سے ہیں مگر خاندانی پس منظر اتنا بڑا ہے کہ کمزوروں کے ساتھ انکسار سے پیش آتے ہیں اور طاقتوروں سے مرعوب نہیں ہوتے! اسی طرح‘ بالکل اسی طرح‘ کچھ افراد شاہی خاندانوں سے ہوتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کسی شاہی خاندان سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا لیکن احساسِ کمتری اتنا شدید ہوتا ہے کہ رویہ اور طرزِ زندگی شاہی خاندانوں جیسا اختیار کر لیتے ہیں! ویسے جو بادشاہ تھے وہ بھی کہاں بادشاہ تھے! قطب الدین ا...

کیا رخصت کرنے والے بھی آبدیدہ ہوئے؟؟

جس دن میڈیا میں غلغلہ برپا تھا کہ نئے چیف جسٹس نے حلف اٹھاتے وقت اپنی رفیقِ حیات کو اپنے ساتھ کھڑا کیا‘ ٹھیک اسی دن ایک چھوٹی سی خبر یہ بھی چھپی کہ ایک باپ نے غیرت کے نام پر بیٹی کو قتل کر دیا! غور کیجیے! کیسا سلسلہ در سلسلہ معاملہ ہے! عدالت کا سب سے بڑا قاضی عورت کو عزت دیتا ہے! عزت! جو عورت کا حق ہے! اسی عدالت کے دائرۂ اقتدار میں ٹھیک اسی دن ایک عورت باپ کی گولی کا نشانہ بنتی ہے۔ اگر وہ مجرم تھی تو اسے سزا دینا صرف اور صرف قاضی کا اختیار تھا۔ اگر وہ بے گناہ تھی تو اس کے قاتل کو سزا دینا بھی قاضی کا فرض ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر رفیقِ حیات کو ساتھ کھڑا کرنا ایک خاموش جدو جہد کا آغاز ہے تو یہ جدو جہد بہت طویل ہو گی! اس جنگ کے بہت سے میدان ہیں! اور ہر میدان بہادری مانگتا ہے۔ بچی پیدا کرنے پر عورت مجرم! وراثت میں حق مانگنے پر عورت مجرم! آبرو ریزی پر عورت مجرم! تعلیم حاصل کرنا چاہے تو عورت مجرم! شادی کرنا چاہے تو تب مجرم! انکار کرے تو تب مجرم! جرم باپ یا بھائی نے کیا ہے تو سزا عورت کو ملتی ہے! گاؤں گاؤں‘ بستی بستی پنچایتوں کے نام پر متوازی عدالتیں قائم ہیں جن کے فیصلے کسی عدا...

پاکستانی تارکینِ وطن بھارتیوں سے پیچھے رہ گئے! کیوں ؟

  آج سے کئی برس پہلے ایک رات مانچسٹر میں ٹھہرنا ہوا تھا۔ اپنے پاکستانی میزبان سے پوچھا کہ پاکستانی تارکینِ وطن کی اگلی نسل کس حال میں ہے؟ کیونکہ ان نوجوانوں کے ماں باپ تو پاکستان سے خالی ہاتھ آئے تھے۔ محنت کی‘ مشقت برداشت کی‘ کبھی چٹنی کے ساتھ روٹی کھائی کبھی چائے کے ساتھ! یہاں تک کہ اللہ نے ان پر کرم کیا۔ آسودگی در آئی۔ خوشحال ہوئے۔ اب ان کے بیٹے بیٹیاں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے‘ وکیل ہوں گے‘ صحافت میں نام کما رہے ہوں گے‘ کئی پی ایچ ڈی کر کے یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے ہوں گے‘ کئی ڈاکٹر اور سپیشلسٹ بن گئے ہوں گے! لیکن میرے میزبان کا جواب قطعاًحوصلہ افزا نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بھارتی نژاد نوجوان بہت آگے نکل چکے ہیں۔ایک بات جو انہوں نے کہی آج تک ذہن پر کَندہ ہے کہ بہت سے پاکستانی نوجوان اتوار بازاروں میں ٹھیلے ( یعنی ریڑھیاں ) لگاتے ہیں!  پھر ایک اور چیز نوٹ کی۔ برطانیہ‘ ہسپانیہ اور دوسرے ملکوں کے پاکستانی تارکین ِوطن کیلئے خصوصی ٹی وی چینل چل رہے تھے۔ ان چینلوں پر تعویذ گنڈوں کا کاروبار عام تھا۔ جادو ٹونے کے پروگرام چلائے جاتے تھے۔ ایک بار یہ بھی دیکھا کہ دوپٹے کو ما...

بچے کو محض بچہ نہ سمجھیے

ڈیڑھ سالہ بچے نے مجھے تین دن اضطراب میں رکھا!  یہ '' جوان‘‘ میری چھوٹی بیٹی کا لختِ جگر ہے! چھت کے نیچے رہنا اسے قطعاً پسند نہیں! صحن اس کی پسندیدہ جگہ ہے! صبح بیدار ہونے کے بعد پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ اسے باہر لے جایا جائے۔شاید روح کی گہرائی میں نانا کا دیہاتی پن چھپا ہے! کہاں گرما کی شامیں اور راتیں جو کھلے صحنوں میں گزرتی تھیں اور سرما کی دوپہریں ‘جب سنہری دھوپ زمین پر قالین کی طرح بچھی ہوتی تھی اور اس حرارت کے عوض کوئی بِل آتا تھا نہ کنکشن کاٹے جانے کا نوٹس! عربی مقولے کے مطابق ہر شے اپنے اصل کو لوٹتی ہے! شاید اسی لیے وہ ڈربے میں چلتی پھرتی‘ پانی پیتی‘ مرغیوں اور بطخوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ پودوں اور درختوں کے پتوں کو دلچسپی سے دیکھتا ہے۔ پھول توڑ کر دیں تو پہلے خود سونگھتا ہے پھر اسے میری ناک کے پاس لاتا ہے۔ جس دن کی بات کر رہا ہوں اس دن صبح کا وقت تھا۔ مجھے جانا تھا۔ میں گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس کی ماں ‘ اسے اٹھائے‘ گاڑی کے باہر کھڑی تھی۔ اس نے جب دیکھا کہ نانا گاڑی میں بیٹھ کر جا رہے ہیں تو دونوں بازو میری طرف پھیلائے۔ میں نے اسے گود میں بٹھا لیا۔میں اسے ہر روز گاڑی میں ...

کہیے سر گھوما کہ نہیں

سر گھوم رہا ہے! جوش ملیح آبادی کی رباعی یاد آرہی ہے: سر گھوم رہا ہے ناؤ کھیتے کھیتے اپنے کو فریبِ عیش دیتے دیتے اف جُہدِ حیات! تھک گیا ہوں معبود دم ٹوٹ چکا ہے سانس لیتے لیتے سر اس لیے نہیں گھوم رہا کہ ضعفِ دماغ ہے یا کوئی اور عارضہ! یہ ملکی خبریں ہیں جنہیں پڑھ کر‘ اور سُن کر‘ سر گھوم جاتا ہے! کاش! کوئی ایسی صورت ہوتی کہ اخبار‘ ٹی وی‘ سوشل میڈیا کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا اور زندگی خوشگوار ہو جاتی!ویرانہ ہی کیوں نہ ہوتا! غالب کی زندگی بھی اسی حسرت میں کٹ گئی : رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو بے درو دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو ایسا بھی نہیں کہ ایک دن میں بجلی گرانے والی خبر ایک ہی ہو۔ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب اضطراب اور تشویش پیدا کرنے والی خبریں نصف درجن سے کم ہوں! مشرق وسطیٰ کی طاقتور ترین شخصیت نے بھارتی حکومت کے ساتھ پچاس معاہدے کیے ہیں۔ بھارت میں سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اس کے لیے ٹاسک فورس بنا دی گئی ہے۔ ت...

تو کیا یہ بھاری پتھر بھی آرمی چیف نے اٹھانا ہے؟

اُس دن شوہر کا دل پسیجا ہوا تھا۔ اس نے ہر وقت گھر کے کاموں میں مصروف بیوی کو پیشکش کی کہ آج اُس کے لیے چائے وہ بنائے گا۔ تھکی ہوئی بیوی پہلے حیران ہوئی۔ پھر اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور ٹی وی لگا کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے رسوئی سے میاں کی آواز آئی۔ ذرا آنا مجھے چولہا جلا دینا۔ معلوم نہیں ہو رہا کون سے چولہے کی کون سی ناب ہے۔ بیوی اُٹھی۔ چولہا جلا کر دیا پھر آکر صوفے پر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر کے بعد پھر آواز آئی۔ ذرا آکر پتی والا ڈبہ ڈھونڈ دو‘ مجھے مل نہیں رہا۔ بیوی نے آکر پتی والا ڈبہ دیا جو بالکل سامنے پڑا تھا۔ وہ پھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی۔ ایک بار پھر میاں نے مدد کے لیے پکارا۔ چھلنی کہاں پڑی ہے۔ اب کے بیوی نے چھلنی ڈھونڈ کر دینے کے بجائے‘ بہت نرمی سے کہا کہ آپ جا کر ٹی وی دیکھیے‘ میں چائے بنا لیتی ہوں! یہ مثال صادق آتی ہے اس بات پر کہ حکومت سے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ بجلی کی چوری پکڑنے والے محکمے حکومت کی تحویل میں ہیں مگر یہ کام آرمی چیف کروا رہے ہیں۔ ڈالر کے پر کاٹنے والی ساری قینچیاں حکومت کے پاس ہیں مگر یہ کام بھی فوجی سربراہ کے ذمے ہے۔ تاجروں ا...

سو سنار کی یا ایک لوہار کی؟؟

آپ کا کیا خیال ہے بجلی کا موجودہ ہولناک بحران طالبان کی حکومت کو پیش آتا تو طالبان کیا کرتے ؟  یقیناآپ اس سوال پر چونک پڑے ہیں کہ طالبان ہی کا ذکر کیوں؟ یہ لکھنے والا کبھی بھی طالبان کا فَین‘ یا عقیدت مند نہیں رہا۔ ہمیشہ تنقید ہی کی! خواتین کے حوالے سے ان کا جو رویہ ہے اس کا اسلامی احکام سے کوئی تعلق نہیں! اس لحاظ سے طالبان کی پالیسی میں تضاد ہے۔ اپنی خواتین کا علاج وہ مرد ڈاکٹروں سے کبھی نہیں کرائیں گے۔دوسری طرف لڑکیوں کو پرائمری سے آگے پڑھنے نہیں دے رہے۔ چلیے! یہ تو ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کو ان سے جو شکوہ ہے اس کا اظہار ہمارے حکمران کئی بار کر چکے ہیں۔ افغانستان کی زمین پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے! اور مسلسل ہو رہی ہے! ہم مسلسل نقصان اٹھا رہے ہیں!  تو پھر بجلی کے دہشت انگیز بحران کے سلسلے میں طالبان کا ذکر کیوں کر دیا؟ اس کی وجہ ایک خبر ہے۔ طالبان حکومت نے افغانستان میں ڈاکٹروں کی فیسوں کی حد مقرر کر دی ہے۔ سپیشلسٹ ڈاکٹر‘ پروفیسر ڈاکٹر‘ عام ایم بی بی ایس ڈاکٹر‘ ہر ایک کی فیس کا تعین کر دیا گ...

ہم خوش و خرم رہنے والے لوگ

ہم خوش و خرم رہنے والے لوگ !! بھارت چاند پر پہنچ گیا۔ ہم پیچھے رہ گئے۔ ہو سکتا ہے کچھ احباب کو تعجب ہوا ہو۔ یقین کیجیے مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا! رمق بھر بھی نہیں ہوا!  اس لیے کہ کرکٹ کے علاوہ ہم نے ‘ کبھی ‘ کسی بھی میدان میں‘ ہارنے پر شرم محسوس نہیں کی۔بھارت کو ہم نے ہمیشہ کرکٹ کی عینک سے دیکھا۔ ہماری عزت ‘ بے عزتی کا مسئلہ ہمیشہ کرکٹ تک محدود رہا۔ کرکٹ میں بھارت سے ہارنے پر ہمیں دل کے دورے پڑتے ہیں۔ ہم اپنے ٹی وی سیٹ توڑ دیتے ہیں۔ صفِ ماتم بچھ جاتی ہے۔ جیت جائیں تو چھلانگیں آسمان تک مارتے ہیں۔ مگر دیگر معاملات میں ہم بے حس ہیں! بھارت نے تقسیم ِ ہند کے چار سال بعد‘ جی ہاں ! صرف چار سال بعد‘ زرعی اصلاحات لا کر ملکیت ِزمین کا ڈھانچہ  (Land ownership pattern) ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ جاگیرداری اور سرداری نظام کی صف لپیٹ دی۔ راجوں‘ مہاراجوں‘ نوابوں کے القابات ختم کر دیے اور کچھ عرصہ بعد ان کی پنشنز اور مراعات بھی ! یہاں تک کہ کچھ کو تو اپنے محلات ہوٹلوں میں تبدیل کرنے پڑے۔ بھارت نے ملکیتِ زمین کی حد مقرر کر دی۔ یہ بہت بڑی مہم تھی جو بھارت نے سر کی۔ ہماری عزتِ نفس تو خیر کیا جاگ...

اوپر کی منزل والے

جہاز کے پیندے میں سوراخ ہو چکا ہے۔ نچلی منزل والے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ جہاز تا حال لہروں پر رواں دواں ہے۔ اوپر کی منزل والے سوراخ کی خبر سُن چکے ہیں مگر ان میں سے کچھ کو یقین ہے کہ صرف نچلی منزل والے ڈوبیں گے اور کچھ نے ہیلی کاپٹروں کا بندو بست کر رکھا ہے جو انہیں محفوظ ٹھکانوں کی طرف اڑا لے جائیں گے!  اوپر کی منزل والوں کی بے فکری کے کیا ہی کہنے!! بڑے میاں صاحب لندن میں مقیم ہیں! صاحبزادگان وہیں کے شہری ہیں۔ لندن بھی کیا زبردست ٹھکانہ ہے! سنا ہے کہ جناب مونس الٰہی بھی سپین سے لندن کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ہمارے اخبار کی خبر کے مطابق زرداری صاحب اور چیئر مین بلاول صاحب دبئی چلے گئے ہیں جہاں انہوں نے پارٹی رہنماؤں کو مشاورت کے لیے طلب کیا ہے۔ لندن کی طرح دبئی بھی کیا زبردست ٹھکانہ ہے! لندن اور دبئی! کیا عالی شان  Combination ہے! فرنگیوں نے ایک اور لفظ یا اصطلاح تراشی ہوئی ہے Lethal Combination یعنی مہلک مرکب! جو مخالفین کو مار ہی دے ! میاں صاحب لندن میں ہیں! زرداری صاحب اور بلاول صاحب دبئی چلے جاتے ہیں! مخالف دیکھتے رہ جاتے ہیں! ان صاحبان کے لیے لندن اور دبئی جانا اسی طرح ہے ج...