اشاعتیں

اگست, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کب تک ؟ آخر کب تک ؟

فرعون کیا کرتا تھا؟ یہی کہ اس کے سامنے کوئی بات نہیں کر سکتا تھا۔ یہی کہ اس سے کوئی سوال نہیں پوچھا جا سکتا تھا۔ یہی کہ اس کے کہے کو چیلنج کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ یہی کہ وہ نوزائیدہ بچے مروا دیتا تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ آج کا فرعون کون ہے؟ کون ہے جس کے سامنے کوئی بات نہیں کر سکتا؟ کون ہے جس سے کچھ پوچھا نہیں جا سکتا؟ کون ہے جو بچے تو بچے‘ بڑوں کو بھی مروا رہا ہے؟ یہ فرعون‘ آج کا فرعون‘ کوئی انسان نہیں‘ یہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جو فرعون بنا ہوا ہے! اس کاغذ کے ٹکڑے کے کہے کو بدلا جا سکتا ہے نہ چیلنج کیا جا سکتا ہے! یہ بجلی کا بل ہے! کتنے ہی اس کی وجہ سے خود کُشی کر چکے! کتنے ہی خانماں برباد ہو گئے۔ اس فرعون سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ نام نہاد سرکاری ٹیلی ویژن کے نام پر بجلی کے بل میں ہر ماہ‘ ہر گھر سے‘ 35روپے کیوں وصول کیے جا رہے ہیں؟ اس فرعون سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ بجلی کا سرکاری ٹی وی سے کون سا جائز یا ناجائز تعلق ہے؟ سرکاری ٹی وی تو دیکھتا ہی کوئی نہیں۔ عمران خان واحد اپوزیشن رہنما تھا جس نے اس جگا ٹیکس کو چیلنج کیا تھا اور سرکاری ٹی وی کو للکارا تھا۔ جسے شک ہو اُس زمانے کی وڈیو دیک...
مہنگائی کا ہولناک طوفان ہے۔ بجلی کے بلوں نے لوگوں کو سول نافرمانی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ دہشت گردی گردن پر سوار ہے۔ دوسرے ملکوں کو ہجرتیں زوروں پر ہیں۔ بھارت چاند پر اُتر چکا! مگر ان میں سے کوئی مسئلہ بھی اہم نہیں!  اہم مسئلہ‘ نازک ترین مسئلہ‘ جو اس وقت درپیش ہے‘ میاں نواز شریف صاحب کی واپسی ہے۔ میاں صاحب ستمبر میں واپس آئیں گے۔ میاں صاحب اکتوبر میں واپس آئیں گے۔ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں میاں صاحب کی واپسی کا جاوید لطیف سے پوچھ لیں۔ عطا تارڑ فرماتے ہیں نواز شریف کی واپسی کی حتمی تاریخ کا اعلان قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا! شہباز شریف اسی دن فرماتے ہیں میاں صاحب اکتوبر میں آئیں گے۔ کیا جدید جمہوری تاریخ میں اس نزاکت کی‘ اس نخرے کی‘ اس مذاق کی کوئی مثال ہے؟ چلئے‘ عمران خان کے عہدِ اقتدار میں تو دشمنی کا خطرہ تھا۔ جب آپ کا سگا بھائی حکمرانِ اعلیٰ تھا تو تب کیا مسئلہ تھا؟ اب نگران حکومت کی آپ سے کیا دشمنی ہے؟ کوئی مانے یا نہ مانے‘ بے شک کسی کو بُرا لگے: بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم  پہلے بھی کہا ہے‘ میاں صاحب لندن کی طربناک زندگی نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ دعویٰ ...

کیوں‘‘کا استعمال سیکھئے

ذرا مارکیٹ جائیے اور پالک اور سبز دھنیا لا دیجیے۔ میں نے بیگم کو نہایت معقول تجویز پیش کی کہ ڈرائیور کے ساتھ جا کر خود لے آئیں اور پھر مجھے اچھی اور خراب پالک کی پہچان بھی تو نہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ ڈرائیور کو خود میں نے ہی چھٹی دی ہے کہ اس کے والد کی آج برسی ہے۔ میں اُس وقت اپنے آئی پیڈ پر ریسلنگ دیکھ رہا تھا۔ ( ہاں یہ شوق بھی پالا ہوا ہے) جندر محل اور اے جے سٹائل کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ جنوبی ایشیا کی عزت کا سوال تھا۔ جندر محل کا اصل نام یوراج سنگھ ہے۔ پیدائش کینیڈا کی ہے مگر ہے تو برصغیر نژاد ! جبکہ اے جے سٹائل خالص امریکی ہے۔ پالک کی ایک گڈی اسّی روپے کی تھی۔ سبزی فروش نے سبز دھنیا دیا تو میں نے کہا کہ یار! دھنیاتو ساتھ مفت ملتا تھا۔ کہنے لگا: سر! کس زمانے کی بات کر رہے ہیں؟ یہ چالیس روپے کا ہے! بالکل ذرا سا دھنیا تھا! دل میں ایک ہُوک سی اٹھی! لڑکپن یاد آگیا۔ پنڈی گھیب میں ایک بڑا سا احاطہ تھا جو سبزی منڈی کا کام کرتا تھا۔ مقامی زبان میں اُسے '' ملیاریاں نی کھاریاں‘‘ کہتے تھے۔ ملیار ( اس کی مؤنث ملیارن) ہمارے علاقے میں سبزی اگانے والے اور سبزی بیچنے والے کو کہتے ہیں!ک...

مگر مجرم کہاں ہیں؟ کون ہیں؟

اسے کہتے ہیں آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ پہلے تو جڑانوالہ کی مسیحی برادری پر یہ مصیبت آئی کہ ان کے گھر جلائے گئے‘ ان کی عبادت گاہوں کو برباد کیا گیا‘ انہیں دہشت زدہ اور ہراساں کیا گیا‘ ایک بے کراں ہجوم ان پر چڑھ دوڑا۔ بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں نے رات اور نہ جانے کتنی راتیں‘ کھیتوں میں کھلے آسمان تلے گزاریں! ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ جلانے کے علاوہ لوٹ مار بھی کی گئی۔ میڈیا کے ایک نمائندے کو ایک غمزدہ باپ اپنی بیٹی کی جلی ہوئی کتاب دکھا رہا تھا۔ جہیز جلا دیے گئے‘ کچھ لوٹ لیے گئے۔ دوسری مصیبت یہ اُتری کہ ہر روز انہیں اکٹھا کرکے اُن بڑی‘ معزز اور مقتدر شخصیات کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو فوٹو گرافروں کے ہمراہ جڑانوالہ کا دورہ کرنے آتی ہیں۔ جیسے گئے زمانوں میں گھوڑوں کے خریدار آتے تھے اور گھوڑوں کو نمائش کے لیے ان کے سامنے پیش کیا جاتا تھا! جڑانوالہ کے مصیبت زدگان دل میں کیا کہتے ہوں گے! غرض دو گونہ عذاب است جانِ مجنوں را  بلائے صحبتِ لیلیٰ و فرقتِ لیلیٰ مجنوں کی جان پر دہری مصیبت ہے۔ لیلیٰ کے وصال کی مصیبت الگ اور لیلیٰ کے فراق کا عذاب الگ!  ہر روز کوئی نہ کوئی بڑی شخصیت ان دل ز...

سَر جی ! گَل ای کوئی نئیں

سیموئل کی پہلی ناکامی کا احوال قارئین میرے پندرہ اگست کے کالم میں پڑھ چکے ہیں۔ جن احباب کی نظر سے یہ تحریر نہیں گزری ان کی اطلاع کے لیے مختصراً عرض ہے کہ سیموئل میرا ذاتی معاون ہے اور حیران کن صلاحیتوں کا مالک ہے۔ گھر کی مرمت سے لے کر‘ کپڑے استری کرنے تک اور جنات سے نمٹنے سے لے کر قسمت کا حال بتانے تک ہر کام کر سکتا ہے۔ ایک برخوردار جو کچھ عرصہ میری گاڑی کا کوچوان رہا‘ اچانک پریشان دکھائی دینے لگا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس کی بیوی پر کسی جن کا قبضہ ہے۔ اس جن کی وجہ سے وہ اپنے میاں سے بدسلوکی کرتی ہے‘ میاں کی ماں کو گھر سے نکالنا چاہتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا تو جن بچوں کو نقصان پہنچائے گا۔ یہ کیس سیموئل کو دیا گیا۔ اس نے عملیات اور مراقبے کے بعد یہ تشخیص کی کہ اصل میں جنات کا سایہ کوچوان کی ساس پر ہے۔ وہاں سے یہ سایہ سفر کرتے کرتے اس کی بیٹی‘ یعنی کوچوان کی بیوی پر پڑ گیا۔ علاج سیموئل نے یہ تجویز کیا کہ کوچوان کی ساس کو سات راتیں اندھیرے قبرستان میں گزارنا پڑیں گی اور سات دن صرف مسور کی دال اور ایک چپاتی پر گزارہ کرنا ہوگا۔ چائے اس اثنا میں منع ہو گی۔ جیسے ہی کوچوان کی بیوی ...

جڑانوالہ… جڑیں گہری ہیں

یہ قول فیض صاحب سے منسوب ہے۔ وہ اپنے کچھ احباب کے ساتھ بیٹھے تھے۔گفتگو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ہو رہی تھی۔ کسی نے پیشگوئی کی کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ کسی نے کہا کہ بدتر ہو جائیں گے۔ کسی نے کہاکہ ملک خدا نخواستہ کئی ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔کسی نے افغانستان کی متوقع جارحیت کے خدشے کا اظہار کیا۔ فیض صاحب نے کہا کہ مجھے جو اندیشہ ہے‘ وہ ان سب پیشگوئیوں سے زیادہ ہولناک ہے اور وہ یہ کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا! ( واقعے کا مفہوم یہی ہے۔ الفاظ کالم نگار کے ہیں )۔ فیض صاحب کا یہ قول اس لیے یاد آیا کہ جب بھی جڑانوالہ جیسا سانحہ پیش آتا ہے‘ مذہبی عمائدین مذمت کرتے ہیں اور حکومتی عمائدین یقین دلاتے ہیں کہ مجرموں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔ لیکن ماضی اور حال بتاتے ہیں کہ مستقبل بھی اس ضمن میں ایسا ہی ہو گا۔  مسئلہ یہ ہے کہ علما اور سول سوسائٹی تو مذمت کرتے ہیں۔ مولانا تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے مذمت کی ہے۔ اور بجا طور پر کہا ہے کہ اسلام اس بد سلوکی کی اجازت ہر گز نہیں دیتا۔ مگر علما کے پاس‘ نہ ہی سول سوسائٹی کے پاس‘ ایگزیکٹو اتھارٹی ہے۔ اتھارٹی اور عملدرآمد کے اختیارات تو ریاست...

ایک نئی خود نوشت ! جو پرانی ہے !

—“ رات کے دس بجے ایک ملازم نے دروازہ کھٹکھٹایا   اور بتایا کہ   کچھ جرنیل ملنا چاہتے ہیں۔میں نے فورا ” ڈریسنگ گاؤن پہنا اور کمرے سے باہر نکلا۔میں یہ دیکھ کر حیران ہؤا کہ باغ اور برآمدوں میں بہت سے فوجی سٹین گنیں اور ریوالور لیے گھوم رہے ہیں۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ   یہ سب کیا ہے۔میں گراؤنڈ فلور پر گیا تو وہاں تین جرنیل کھڑے تھے۔ شیخ، اعظم خان اور برکی۔میجر جنرل شیر بہادر بھی موجود تھا۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ایک نازک مسئلے پر بات کرنے آئے ہیں اور یہ کہ   مجھے پاکستان چھوڑنا ہو گا۔میں نے پوچھا “ کیوں ” ؟   ان کا جواب تھا کہ یہی ملک کے مفاد میں ہے۔دل تو   چاہا کہ انہیں کہوں جہنم میں جاؤ لیکن میرے پاس کوئی پرائیویٹ آرمی تو تھی نہیں۔میں اپنی اہلیہ کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ان کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔   دوسرے دن کے اخبارات میں دو خبریں چھپیں۔ ایک یہ کہ نئی کابینہ می...