اشاعتیں

جولائی, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

شٹر پاور

شبر زیدی کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ کبھی نہیں سنا کہ وہ مسلم لیگ نون یا قاف کا حصہ رہے۔ جے یو آئی کی قربت کا اعزاز بھی انہیں حاصل نہیں! جس عہدِ ہمایونی میں بڑے بڑے لوگ خاک کے فرش پر بیٹھ کر الطاف بھائی کے فنِ خطابت سے مسحور ہوتے تھے اور ناک پر بیٹھی مکھی اڑانے کا خطرہ بھی مول نہیں لیتے تھے‘ شبر زیدی کو وہاں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ عبوری دور میں سندھ کے وزیر خزانہ رہے۔ ٹیکس کے جملہ امور کے ماہر ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے اپنے دورِ اقتدار میں انہیں فیڈرل بورڈ آف ریونیو  (FBR)  کا سربراہ بنایا۔ نیت خان کی نیک تھی کہ ٹیکس کا دائرہ وسیع تر کیا جائے مگر شبر زیدی ناکام ہوئے۔ یا ناکام کر دیے گئے۔  اب شبر زیدی نے تحریک انصاف کی انقلابی حکومت کا اصل چہرہ دکھایا ہے۔ عمران خان نے‘ بقول عمران خان کے‘ امریکہ کے سامنے تو  Absolutely not  کا نعرہ لگایا مگر اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے سامنے جب یہ نعرہ لگانے کا وقت آیا تو خان صاحب کو ہنسی آگئی۔ شبر زیدی نے جو کچھ بتایا ہے اس سے اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت ہو گئی ہے کہ ت...

قلاش ملک کے شہنشاہ لوگ

نئے جوتے تو خرید لیے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ابا جی کو بتائے کون؟ چھوٹے بھا ئی سے کہا کہ تم اپنی طرف سے پیش کرو۔ اس نے صاف جواب دے دیا کہ آپ نے خریدے ہیں‘ آپ خود جا کر سامنا کریں۔ میں گیا اور عرض کیا: ابا جی! یہ آپ کے لیے نئے جوتے ہیں! ان کا سوال منطقی تھا۔ فرمایا: جب میرے جوتے ابھی بالکل ٹھیک ہیں تو نئے جوتوں کا کیا جواز ہے؟ کیوں پیسے ضائع کیے؟ اور پھر‘ میں ایک وقت میں ایک جوڑا ہی پہن سکتا ہوں! یہ میرے یا آپ کے ابا جی کی بات نہیں! یہ ایک پوری نسل تھی جو ہمارے آپ کے دیکھتے دیکھتے۱ بہشت کو سدھار گئی! یہ کیا لوگ تھے! انہیں معلوم تھا کہ کثرت کی خواہش سے بچنا ہے! ان کے دل مطمئن تھے! ذخیرہ اندوزی کا ان کے ہاں کوئی تصور نہیں تھا! ان کے پاس اگر چھوٹا سا مکان بھی تھا تو اس سے خوش تھے۔ جوتوں کا ایک جوڑا۔ لباس فقط چند! شاپنگ اور ''ونڈو شاپنگ‘‘ کی مصیبتوں سے بچے ہوئے تھے! ان کے پاس جو کچھ تھا اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ استغنا کی دولت سے مالا مال تھے۔ اس رویّے کے اور اس طرزِ زندگی کے بہت سے مثبت اثرات تھے اور سب سے بڑا مثبت اثر یہ تھا کہ یہ لوگ آئے دن کی ذہنی پریشانیوں (ٹینشنوں) سے ...

ایک سنجیدہ تجویز

شملہ میں پہلا پکّا گھر ایک انگریز سول سرونٹ نے 1822ء میں بنوایا۔ اس سے تین برس پہلے ایک انگریز افسر نے لکڑی کی کاٹیج بنوائی تھی۔ باقی شملہ صرف جنگلات اور پہاڑیوں پر مشتمل تھا۔ بات آہستہ آہستہ پھیلتی ہے۔ شملہ کی سرد آب و ہوا کی شہرت انگریزوں میں پھیلنے لگی۔ ہندوستان کی بے پناہ گرمی سے انگریز گھبراتے تھے۔ یہ اور بات کہ موسم سے شکست کھا کر کوئی انگریز واپس نہیں گیا۔ہندوستان میں ان کا پہلا پڑاؤ ‘ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ بنگال تھا جو دریاؤں ‘ جھیلوں اور جوہڑوں کی بہتات کی وجہ سے ملیریا کا گڑھ تھا۔ اوسط ایک انگریز روزانہ مر جاتا تھا مگر کوئی واپس گیا نہ کسی نے ہندوستان آنے سے انکار کیا۔ شملہ کی شہرت سن کر انگریز تعطیلات یہاں گزارنے لگے۔ان میں بنگال کا گورنر جنرل اور انگریز کمانڈر انچیف بھی شامل تھا۔ گھروں کی تعداد زیادہ ہونے لگی۔ 1832 ء میں گورنر جنرل اور رنجیت سنگھ کے ایلچیوں کی ملاقات شملہ ہی میں ہوئی۔ لدھیانہ چھاؤنی سے شملہ تک چار دن کی مسافت تھی۔ چند سالوں میں شملہ ایک بہت بڑے کلب کی شکل اختیار کر گیا جہاں انگریز چھٹیاں بھی گزارتے تھے اور تفریح بھی کرتے تھے۔انگریز دوشیزائیں شوہروں کی تل...

گھر کا دروازہ اندر سے بند کر لیجیے

آپ کا کیا خیال ہے پاکستان میں کن دو چیزوں کی افراط ہے ؟ یہ ملک زرعی ملک ہے! یہی پڑھایا اور بتایا جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ آٹے سے لے کر دودھ تک اور مکھن سے لے کر شہد تک کچھ بھی اطمینان بخش نہیں!دودھ گوالے کا ہے یا ڈبے کا‘ دونوں پریشان کُن ہیں۔ کبھی بازار میں پیاز کی قلت ہو جاتی ہے کبھی ٹماٹرناپید ہو جاتے ہیں۔ لیموں پانچ سو روپے کلو تک گئے ہیں! صنعتی پیداوار بھی وافر نہیں ! بجٹ کے موقع پر تازہ ترین اکنامک سروے میں بتایا گیا کہ صنعتی سیکٹر پہلے کی نسبت سکڑ گیا ہے۔ تعلیم بھی عام نہیں! غرض آپ جتنا سوچیں‘ آپ کو کوئی چیز وافر مقدارمیں نہیں ملے گی سوائے دو چیزوں کے۔ ایک آبادی ‘ دوسرا وقت!  جن دنوں میں اسلام آباد کے گنجان حصے ‘ بارہ کہو‘ میں مقیم تھا‘ گھر میں پانی کیلئے بور کرانا پڑا! اس آبادی میں پانی کے بور کی ''صنعت‘‘ یا '' انڈسٹری‘‘ ‘ تقریباً ساری کی ساری‘ غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ غیر ملکی کس ملک کے ہیں! چنانچہ ایسے ہی ایک غیر ملکی سے معاہدہ ہو گیا۔ دوسرے دن اس نے کام شروع کیا تو ایک لڑکا بھی مددگار کے طور پرساتھ تھا۔ اس کے بعد ہر روز اس کے ساتھ...

دل جو سینے میں ، بائیں طرف ، دھڑک رہا ہے

بابا جی کھانا کھا کر گدھے پر خربوزوں سے بھری بوریاں لادتے اور چل پڑتے۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا! نام اس کا عجیب و غریب تھا! علی محمد! وجہِ تسمیہ اس کی نہ جانے کیا ہے۔ یہ کالا چِٹا پہاڑ سے کچھ دور جنوب کی طرف واقع ہے! کھَیری مورت پہاڑ کے مغرب میں! دریائے سندھ یہاں سے تقریباً اسّی کلو میٹر دور ہے۔ مغرب کی طرف بالکل سیدھا چلتے جائیں تو دریائے سندھ آجاتا ہے۔ اس مقام پر دریا کو عبور کرنے کیلئے انگریز سرکار نے 1907ء میں پُل بنایا تھا۔ یہاں پنجاب کی حدود ختم ہوتی ہیں۔ دریا کے دوسری طرف خیبر پختونخوا ہے۔ جیسے ہی دریا کو پار کرتے ہیں‘ خوشحال گڑھ کا قصبہ آجاتا ہے۔ اس قصبے کے نام پر ہی اس پُل کا نام ہے۔ یہ پُل‘ یعنی خوشحال گڑھ پُل‘ ایک سو سات سال تک خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اور پنجاب کو آپس میں ملاتا رہا۔ اس پر سڑک تھی اور ریلوے لائن بھی! 2014ء میں پاکستانی حکومت نے نیا پُل بنایا۔  علی محمد نامی گاؤں کا یہ باشندہ‘ یہ بابا جی‘ زمیندار تھے۔ اس علاقے میں زمیندار‘ جاگیردار یا فیوڈل کو نہیں کہتے۔ بس جو کسان مالی طور پر ذرا آسودہ ہو اسے زمیندار کہا جاتا ہے۔ یوں بھی ''زمیندار‘‘ کی اصطلاح ...

ادب ہی کی نہیں‘ ادیبوں کی تاریخ بھی پڑھنی چاہیے

کشور ناہید سے پہلا تعلق یکطرفہ تھا۔ ہمارا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ کتابیں خریدنے کی استطاعت کم تھی! چنانچہ لائبریریوں میں بیٹھ کر پسندیدہ شاعری کے نوٹس اسی طرح بناتے تھے جس طرح درسی کتابوں کے بناتے تھے۔ جوش اور عدم کے نوٹس بنائے۔ احمد فراز کی ''درد آشوب‘‘ کے بھی !! میرا جی کے بھی ! وہی زمانہ تھا جب کشور ناہید کی غزلیات کا مجموعہ '' لبِ گویا‘‘ آیا۔ ہم نے پڑھا۔ چکرائے۔ بالکل نئی قسم کی شاعری تھی۔ اب تو ہر شاعرہ نسائی لہجے کا لاکٹ اپنے گلے میں ڈال لیتی ہے اور نقاد حضرات کا تو کیا ہی کہنا! نسائی لہجے کی بانی شاعرات کے ڈھیر ہی لگا دیے۔ مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ نسائی لہجے کی ابتدا اِ س عہد میں کشور ناہید نے کی!ذرا ساٹھ کی دہائی کو ذہن میں لائیے اور یہ اشعار دیکھیے ؛ کچھ یوں بھی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی  کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھِلتا ہوا نہ تھا  سر کو جس کے سامنے ڈھکنا بہت  دیکھ کر اُس شخص کو ہنسنا بہت شام ہوتے ہی سنورتا ہے مری آنکھوں میں  یہ نظارہ ہی مجھے آگ بنا دیتا ہے  آپا سے براہ راست رابطہ اسّی کی دہائی میں ہوا! تب وہ''ماہِ نو ‘‘ کی ایڈیٹر تھیں! ہم سب جانتے ہی...

آسمان کی طرف دیکھیے اور مسکرائیے !

بادشاہ بیمار ہوا اور ایسا بیمار کہ جان کے لالے پڑ گئے۔کوئی علاج کار گر نہیں ہو رہا تھا۔ساری مملکت سے حکما منگوائے گئے۔آخر کار بیماری کی تشخیص ہوئی۔ جتنی عجیب اور پُراسرار بیماری تھی اتنا ہی مختلف اور مشکل نسخہ تجویز ہوا۔ نسخہ یہ تھا کہ ایک نوجوان کے پِتّے سے دوا بنے گی اور نوجوان بھی وہ جس میں فلاں فلاں خصوصیات ہوں! ان خصوصیات کو سامنے رکھ کر پورے ملک میں تلاش شروع ہوئی۔ بالآخر ایک غریب کسان کا بیٹا ملا جس میں وہ خصوصیات موجود تھیں جن کا مطالبہ حکما نے کیا تھا۔ اْس زمانے میں میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی تو کی نہیں تھی کہ سرجری کر کے پتّہ نکال لیں اور جان بھی ضائع نہ ہو۔ پتّہ نکالنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ سر قلم کر دیا جائے اور لاش سے پتّہ نکال کر حکما کے حوالے کر دیا جائے۔ نوجوان کے ماں باپ کو بادشاہ کی زندگی کی اہمیت بتائی گئی۔ مملکت کے سربراہ کی زندگی کے مقابلے میں رعایا کے ایک معمولی فرد کی اہمیت ہی کیا تھی۔اوپر سے نوجوان کے ماں باپ کو '' معاوضہ‘‘ کی شکل میں اتنا مال منال دیا گیا کہ ان کی کئی نسلوں کیلئے کافی تھا۔ وہ راضی ہو گئے! اس کے بعد قاضی سے فتویٰ لیا گیا کہ ملک کے سربراہ...

دوسرے پاکستان کی باری کب آئے گی ؟

نوجوان نے اشعار سنائے اور چونکا دیا۔ اب تو کم ہی ایسے نوجوان ہیں جن کے اشعار چونکا دیں۔ اکثر کے اشعار تو اُونگھ لانے میں مدد دیتے ہیں۔ شاعری کے دشمن ہمیشہ سے بہت تھے جیسے بدذوق لوگ اور ناشاعر جو خود کو شاعر کہتے تھے۔ مگر جو دشمنی سوشل میڈیا نے شاعری کے ساتھ کر کے دکھائی ہے اس کی مثال ادب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پبلشر سر پیٹ رہے ہیں کہ جو تھوڑی بہت شاعری کی کتابیں فروخت ہوتی تھیں‘ وہ بھی سوشل میڈیا کے طفیل نہیں بِک رہیں! پہلے ایک طویل پروسیس ہوتا تھا۔ شاعر ایک مدت تک ادبی جرائد میں چھپتا تھا۔ کڑی تنقیدی آرا کا سامنا کرتا تھا۔ برسوں اپنی اصلاح اور تہذیب پر توجہ دیتا تھا۔۔ تب جا کر اپنا مجموعہ کلام شائع کرنے کی جرأت کرتا تھا۔ سوشل میڈیا شاعری کو شیور کی مرغی کی سطح پر لے آیا ہے۔ مصنوعی خوراک‘ مصنوعی وزن اور مصنوعی پکوان! پہلے مرغ مہینوں اور برسوں میں تیار ہوتا تھا اب دنوں میں!! شاعر فیس بک پر اپنے اشعار لکھتا ہے۔ یوٹیوب پر سناتا ہے۔ فارورڈ کیا جاتا ہے۔ شاعری ٹیگ ہوتی ہے۔ لائکس ملتے ہیں۔ کمنٹس وصول ہوتے ہیں۔ لیجیے! ثقاہت حاصل ہو گئی۔سند مل گئی! اور اگر معاملہ شاعر کا نہیں ‘ شاعرہ کا ہے ...

سنار کی ضرب اور لوہار کی ضرب

نیو یارک ٹائمز کا اداریہ تھا یا شاید لندن ٹائمز کا ! آج تک نہیں بھولا۔ ستر کے عشرے میں جب شاہ فیصل کی قیادت میں تیل کی فروخت پر پابندی (Oil Embargo)لگی تو اس اداریے میں لکھا گیا کہ ساتویں صدی عیسوی میں عرب صحرا سے نکلے اور بر اعظموں پر چھا گئے۔ اس کے بعد پہلی مرتبہ انہوں نے ایک اور ضرب لگائی ہے جس کا درد پورا مغرب محسوس کر رہا ہے۔ الفاظ یاد نہیں! مفہوم یہی تھا! شاہ فیصل نے اس ضمن میں جان کی قربانی دے دی مگر مغرب کو احساس ہو گیا کہ وہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہے! افشائے رازِ عشق میں گو مشکلیں پڑیں لیکن اسے جتا تو دیا‘ جان تو گیا آپ کا کیا خیال ہے اُس وقت اگر شاہ فیصل تیل کا ہتھیار استعمال نہ کرتے اور اس کے بجائے پوری دنیا کے مسلمانوں سے کہتے کہ جلسے کرو‘ احتجاجی جلوس کرو‘ نعرے لگاؤ ‘مغربی ملکوں کے سفارت خانوں کے سامنے دھرنے دو تو مغربی ملکوں پر‘ بالخصوص امریکہ پر کیا اثر پڑتا؟ یہ تیل کی پابندی تھی جس کی وجہ سے کسنجر کو شرقِ اوسط کے‘ بالخصوص سعودی عرب کے ‘ کئی چکر لگانا پڑے! سویڈن میں جو اسلام کی توہین ہوئی وہ ناقابلِ برداشت ہے اور ناقابلِ معافی! مگر اس کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ رد عمل دو قسم...

خدا کے لیے اس ملک پر رحم کیجئے

سامنے اس وقت ایک رسالہ پڑا ہے! ''ماہنامہ اخبارِ اردو‘‘۔ اسے ''ادارۂ فروغِ اردو‘‘ نکالتا ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جسے پہلے ''مقتدرہ قومی زبان‘‘ کہتے تھے! کیا آپ نے کبھی کسی ریستوران میں ماہیٔ مسلّم یعنی سالم پکی ہوئی مچھلی کا آرڈر دیا ہے؟ یا گھر میں پکائی ہے؟ یاد کیجیے! جب ہم اسے کھا چکتے ہیں تو اس کی کیا شکل نکل آتی ہے؟ کانٹوں پر مشتمل ایک لمبا پنجر! جس کا ماس ہمارے معدوں میں پہنچ چکا ہوتا ہے! یہی حالت آج کے پاکستان کی ہے۔ ہمارے سامنے ایک پنجر پڑا ہے۔ درمیان میں ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ارد گرد کانٹے ہیں۔ گوشت معدوں میں پہنچ چکا ہے۔ مگر ہماری بھوک ہے کہ مٹ نہیں رہی۔ بھنبھوڑنے کا عمل مسلسل جاری ہے! سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر صاحب نے ان 620معززین کے اسمائے گرامی پاکستانی عوام کو بتانے سے معذرت کر لی ہے جنہیں کورونا کی افتاد کے دوران ''قرض‘‘ دیا گیا تھا۔ قرض کا لفظ واوین میں اس لیے لکھا ہے کہ اب تک کی ہسٹری کی رُو سے کسی بڑے نے کبھی قرض واپس نہیں کیا اور کسی چھوٹے کا قرض کبھی معاف نہیں کیا گیا۔ یہ قرض تین ارب ڈالر کا تھا جو بقول سٹیٹ بینک کے‘ انڈسٹری کو بچانے کے...

ریٹائرمنٹ … ذاتی تجربہ

ریٹائرمنٹ کے حوالے سے دو مضامین لکھے تو احبّا کا کہنا ہے کہ پند و نصائح کو چھوڑوں اور ذاتی تجربہ بیان کروں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیسے گزر رہی ہے! یہ موضوع ‘ جو زیر تعمیر خود نوشت کیلئے رکھا ہوا تھا‘ احباب کی بے حد تحکمانہ فرمائش پر نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے!  2008 ء میں ریٹائر ہوا تو سرکاری مکان میں رہائش پذیر تھا‘ اکثر رفقائے کار کو ریٹائرمنٹ کے بعد پُر کشش ملازمتیں مل رہی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ صدر زرداری کے دست ِراست ‘ ایک معزز صاحب‘ کالم نگاری کے سبب بہت عزت و محبت سے پیش آتے تھے۔ ان سے ملنے ایوانِ صدر گیا۔بہت تکریم سے پیش آئے۔ پُر تکلف چائے سے نوازا۔ جب عرض کیا کہ سرکار نے گریڈ بائیس میں ریٹائر ہونے والے فلاں فلاں افسروں کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور دوسرے اداروں میں پارک کیا ہے‘ میں اگر ان سے زیادہ نہیں تو کم لائق بھی نہیں ! ان کا جواب بہت منطقی تھا کہ '' تمہارے  Credentials  پیپلز پارٹی کے حوالے سے کمزور ہیں!‘‘ یعنی‘ دوسرے الفاظ میں پارٹی کیلئے میری خدمات صفر ہیں۔ یہ اور بات کہ ان کے انتہائی قریبی عزیز ریٹائرمنٹ کے بعد ایک زبردست ملازمت پر فائز تھے۔ ایک دو ...

ریٹائرمنٹ… اعزاز… یا سزا؟… (2)

اگر آپ نے اولاد کو اچھی تربیت دے کر اچھی ملازمت یا اچھا کاروبار‘ اپنی زندگی میں دلوا دیا ہے تو یہ آپ کے چھوڑے ہوئے ترکے کے محتاج ہی نہیں! اور اگر آپ کی کوشش کے باوصف اولاد اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکی تو آپ کا ترکہ بھی انہیں کامیاب نہیں کر پائے گا۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ جو یہاں بُرے ہیں‘ وہ لاہور جا کر بھی بُرے ہی رہیں گے! کوشش کیجئے کہ پیغامِ اجل آنے سے پہلے اپنی غیر منقولہ جائیداد کو جہاں تک ممکن ہو  Liquidate  کیجئے۔ آپ عمر کے جس حصے میں ہیں‘ آپ کو پلاٹ اور مکان نہیں درکار! اب آپ کو جتنا ہو سکے کیش درکار ہے تاکہ آپ اپنی ضروریات پوری کر سکیں! آپ کو اگر کوئی چیز بھاتی ہے‘ آپ کے دل پر حملہ کرتی ہے‘ کوئی شرٹ‘ سوٹ‘ شب خوابی کا کوئی لباس‘ کوئی جوتا‘ کوئی ٹیبل لیمپ‘ کوئی صوفہ جس پر استراحت سے آپ بیٹھ سکیں‘ مساج کی کوئی چیئر‘ ورزش والی سائیکل یا ٹریڈملِ‘ اور آپ کی استطاعت بھی ہے تو آپ فوراً خرید لیجئے۔ اسی طرح بیگم صاحبہ کیلئے کوئی شے آپ کا دامنِ دل کھینچتی ہے اور جیب میں وسائل بھی ہیں تو فوراً خرید کر بیگم صاحبہ کو پیش کیجئے۔ اس سے آپ کی زندگی میں روشنی پھیلے گی...

ریٹائرمنٹ…اعزاز…یا سزا؟

میں ملازمت کی پہلی سیڑھی پر تھا اور مغل صاحب ملازمت کی آخری سیڑھی پر۔ دفتر میں ہمارے کمرے ساتھ ساتھ تھے۔ مغل صاحب خوش اطوار تھے۔ خوش گفتار تھے اور خوش لباس! انسٹھ ساٹھ کے پیٹے میں تھے مگر لباس اتنا عمدہ اور تازہ ترین فیشن کا زیب تن کرتے تھے کہ چالیس کے لگتے تھے۔ ان کے پاس بیٹھ کر ہمیشہ شگفتگی کا احساس ہوتا۔ باتوں میں ایک لطیف سا مزاح تھا۔ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ۔پھر یوں ہوا کہ مغل صاحب ریٹائر ہو گئے۔ ادارے نے انہیں بھاری دل کے ساتھ رخصت کیا۔ دعوتیں ہوئیں۔ تحائف پیش کئے گئے۔ چند ماہ گزرے تھے کہ میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک بابا جی اندر داخل ہوئے۔ سر پر کپڑے کی سوراخوں والی ہوا دار ٹوپی۔ کھلے گلے کا ملگجا کرتا جو گھٹنوں سے کافی نیچے تھا۔ شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر تو تھے ہی‘ گھٹنوں سے اوپر بھی جانا چاہتے تھے مگر کسی نامعلوم وجہ سے پنڈلیوں کے درمیان رک گئے تھے۔ شلوار کا ایک پائنچہ جنوبی ایشیا کا رخ کر رہا تھا تو دوسرا شرقِ اوسط کا۔ اگر بابا جی السلام علیکم نہ کہتے تو میں پہچان نہ پاتا کہ یہ تو اپنے مغل صاحب ہیں۔ خواہش اور کوشش کے باوجود میں ان سے پوچھ نہ سکا کہ یہ کایا کلپ کیس...