اشاعتیں

مئی, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

چار کسوٹیاں

وہ تین تھے۔ ناصر اور اس کے دو دوست! یہ بذریعہ ریل کراچی سے راولپنڈی جا رہے تھے۔ ٹرین کا نام عوامی تھا۔ جو کراچی سے پشاور تک اور پشاور سے کراچی تک چلتی ہے۔ ناصر کا مزاج ذرا فیاضانہ تھا۔راستے میں اس کی کوشش رہی کہ چائے پانی کے اخراجات وہی برداشت کرے۔ ٹرین سندھ سے جنوبی پنجاب میں داخل ہوئی اور پھر مستقل مزاجی سے شمال کی طرف بڑھنے لگی۔ ایک سٹیشن پر گاڑی رکی تو اس کے دونوں ساتھی اسے کہنے لگے: تم سامان کا خیال رکھو۔ہم ذرا پلیٹ فارم کا چکر لگا کر آتے ہیں۔وہ اتر گئے۔ کافی دیر تک واپس نہ آئے تو ناصر کو فکر لاحق ہوئی کہ ٹرین چل پڑی تو کیا ہو گا۔گو مگو کی کیفیت میں وہ پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ذرا آگے گیا تو ایک منظر دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔دونوں صاحبان ایک کھوکھے پر کھڑے کھانا کھا رہے تھے اور اس رفتار اور اس سراسیمگی سے کھا رہے تھے جیسے کھانا نہ ہو‘ کوئی سزا ہو! ناصر چپ چاپ واپس ٹرین میں آگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں بھی آگئے۔ اس نے تذکرہ کیا نہ انہوں نے کوئی بات کی۔ تاہم رہ رہ کر اسے وہ بات یاد آرہی تھی جو بچپن میں بزرگوں سے سنی تھی کہ انسان کے خاندانی ہونے‘ یا نہ ہونے کی‘ پرکھ جن کسوٹیوں پر ہوتی ہے ...

اب بھی توبہ کا وقت ہے

کوئی اسے توہم پرستی سمجھتا ہے یا مذہبی رویہ تو سمجھتا رہے! مگر یوں لگتا ہے کہ اس طائفے کی بربادی کا فیصلہ اُسی دن ہو گیا تھا جس دن اس طائفے کے سٹیج سے سرکارِ دو عالمﷺ کے مقدس والدین کی توہین کی گئی تھی! اس طائفے کی خوش قسمتی تھی یا اس کا خوف کہ بے ادبی کے کئی واقعات کے باوجود کسی نے نوٹس لیا نہ گرفت کی!'' صادق اور امین‘‘ ایک اصطلاح ہے۔ایک ٹائٹل ہے۔ ایک لقب ہے جو آپؐ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب اس مقدس لقب کو ایسے لوگوں پر تھوپا جاتا ہے جن کا ماضی سب پر عیاں ہے تو اس پر کہیں سے مذمت کی صدا نہیں اٹھتی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ دینی فہم رکھنے والے حلقے بھی‘ کم و بیش‘ اس پر خاموش رہتے ہیں۔اس جماعت کے سربراہ نے عمرہ پر جانے والوں کی سرزنش کی‘ اس پر بھی کسی نے گرفت نہ کی۔پھر اسی سٹیج سے کہا گیا کہ قبر میں پوچھا جائے گا کہ اس کا ساتھ دیا تھا یا نہیں۔( الفاظ ہو سکتا ہے مختلف ہوں‘ مفہوم یہی تھا) تب بھی کسی نے گرفت نہ کی۔ پھر پارٹی کے سربراہ نے جہاد کی اصطلاح کوبارہا استعمال کیا۔ تب بھی مذہبی طبقات نے عوام کی رہنمائی نہ کی اور اس دعوے کی تائید یا تردید نہ کی۔اس سے حوصلے بڑھے۔ یہاں تک کہ اس ...

سیاسی کالموں کی کڑی دھوپ میں

'' ملتان کے دور دراز علاقے موضع پیر تنوں میں چاہ کوڑے والا کے مقام پر میری پیدائش ہوئی جہاں صرف دو گھر تھے‘ ایک ہمارا دوسرا کسی اور کا تھا۔باقی دور دور تک صحرا تھا۔ایک کنارے پر ہماری کچھ زمین تھی۔میرے والد خود ہی کھیتی باڑی کرتے تھے۔ جب میں ساڑھے تین سال کا تھا تو ایک شام جب اندھیرا پھیل چکا تھا‘ میں اور میرے والد گھر کی طرف آ رہے تھے تو انہیں میرے سامنے قتل کر دیا گیا۔ میں کماد کے اس کھیت میں چھپ گیا جہاں وہ لوگ چھپے ہوئے تھے۔وہ انہیں مارنے کے بعد اٹھا کر لے گئے اور آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا اور ساری زندگی ڈھونڈنے کے باوجود میں اپنے والد کی قبر بھی تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔اور نہ ہی والد کی شبیہ میرے ذہن میں محفوظ رہ سکی‘‘۔ یہ الفاظ طارق نعیم کے ہیں۔ تقریباً نصف صدی پیشتر جب میں طالب علم تھا اور اسلام آباد میں وارد ہوا تو '' گوشۂ ادب نامی تنظیم کے زیر اہتمام مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ بعد میں یہ تنظیم ایک تاریخی ادارہ بن گئی اور آج بھی زندہ اور سرگرم ہے۔ جس اولین دور کی بات کی جا رہی ہے اس میں وفا چشتی‘ شیدا چشتی مرحوم‘اختر شیخ مرحوم‘ ناصر عقیل‘ رفیق سند...

استغاثہ

مردان کے مقام پر تحریک انصاف کے جلسے میں جو واقعہ پیش آیا وہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جو بویا گیا‘ وہ کاٹنے کا وقت آگیا ہے۔ سروں کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے۔ درانتیاں سنبھال لی گئی ہیں! خچر ہانکے جا رہے ہیں۔ بیج بونے اور فصل پکنے کے درمیان چند دنوں اور چند راتوں کا فاصلہ نہیں! بیج بہت عرصہ پہلے بو دیا گیا۔ پھر اس فصل کی خوب آبیاری کی گئی۔ کھاد ڈالی گئی۔ باڑ لگائی گئی۔ نگہداشت کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا۔ لاہور کی ریلی میں ایک بچے نے جو کچھ کہا‘ یا اس سے جو کچھ کہلوایا گیا‘ اس پر‘ وہاں سٹیج پر کھڑے چار معزز و معتبر‘ ذمہ دار افراد نے تالیاں بجائیں‘ مسکرا کر بچے کو داد دی۔ یہ منظر ساری دنیا نے دیکھا مگر یہ منظر صرف ساری دنیا نے نہیں‘ اُن فرشتوں نے بھی دیکھا جو آسمان اور زمین کے درمیان ہر وقت موجود رہتے ہیں! اور آسمانوں سے اوپر بھی حاضر رہتے ہیں اور جن کے پر ایک اُفق سے دوسرے اُفق تک چھائے ہوئے ہوتے ہیں! ان فرشتوں نے بھی‘ اور ان کے درمیان دمکتے چمکتے ستاروں نے بھی‘ اور گردش کرتے سیاروں نے بھی اور دودھیا رنگ کی کہکشاؤں نے بھی اور ہر لمحہ‘ ہر لحظہ‘ ہر ثانیہ‘ پھیلتی کائنات...

انتقام

میں نے ہمیشہ اس کام سے اسے منع کیا۔ افسوس! ماننا تو دور کی بات ہے‘ اس نے میری بات پر کبھی سنجیدگی سے غور تک نہ کیا!  شاید اس کے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ جس میں سچ اور جھوٹ‘ ایمانداری اور بے ایمانی‘ اخلاص اور خود غرضی میں کسی قسم کے فرق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جن گھرانوں میں اخلاقی اور دینی قدروں کا خیال رکھا جاتا ہے ان گھرانوں کے بچے بڑے ہو جائیں تو جتنے بھی غلط نکلیں‘ ان قدروں کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور باقی رہتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا گھرانہ کسی اور ہی قسم کا تھا۔ جب بھی بات کرتا‘ اس میں کچھ نہ کچھ گنجلک‘ کچھ نہ کچھ پیچ ضرور رکھتا۔ ایک بات کہہ کر‘ دوسرے دن‘ اس سے الٹ بات کہہ دینا اس کا روزمرہ کا معمول تھا۔ کبھی کبھی ہم‘ اس کے رفقائے کار‘ اس کی حرکتیں دیکھ کر ششدر رہ جاتے! ایک بار اس نے ہم سب کو کھانے کی دعوت دی۔ ہم ریستوران میں پہنچ گئے۔ کھانا کھا چکے تو اس نے سب کو مخاطب کرکے کہا کہ اپنے اپنے حصے کے پیسے دو۔ ہم بہت حیران ہوئے۔ دھچکا بھی لگا۔ یقین نہیں آرہا تھا۔ جب وہ اپنے حصے کی رقم رکھ کر ریستوران سے باہر نکل گیا تب ہم نے حیرت ...

لیبر ڈے

آج گھر کی چھت پڑنی تھی۔ چند اعزّہ اور احباب کو بلایا ہوا تھا۔ کھانے کا بھی بند و بست تھا۔ صبح نو بجے تک مستری اور مزدوروں نے پہنچ جانا تھا مگر کوئی بھی نہ آیا۔ جب سے مکان کی تعمیر شروع ہوئی‘ لیبر کا یہی رویہ رہا۔ عید آئی تو ہر ایک نے عیدی وصول کی اور پھر کئی ہفتے غائب رہے۔ کبھی کسی کا چچا انتقال کر جاتا کبھی پھوپھی کا میاں! کبھی فصل کاٹنے کی وجہ سے غیر حاضری ہوتی کبھی کسی کے والد کی برسی آجاتی۔ جو مکان آٹھ دس مہینوں میں بن سکتا تھا اس کی تکمیل میں ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ یہ تجربہ چند افراد کا نہیں‘ بے شمار لوگوں کا ہے۔ لیبر ڈے ہر سال منایا جاتا ہے مگر جو لوگ اس لیبر کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں‘ ان کا کوئی ڈے نہیں منایا جاتا۔ ایک دوست کا مکان زیرِ تعمیر تھا۔ ان کے شٹرنگ والے بندے نے کہا کہ اسے گاؤں جانا ہے کیونکہ اس کی ماں کو کینسر ہے۔ ہمارے دوست نے اسے گاؤں آنے جانے کا کرایہ دیا‘ اب تک جو رقم مزدوری اور معاوضے کی بن رہی تھی‘ وہ بھی ادا کی اور اس کے علاوہ کچھ ایڈوانس بھی دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کینسر اور گاؤں جانے کی کہانی جھوٹی تھی۔ وہ ساتھ والے محلے میں کسی اور ...

بڑے شہر

ڈاکٹر آفتاب احمد 1923ء میں پیدا ہوئے۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس میں آ گئے۔ اُس وقت پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس سی ایس ایس کی ایک الگ سروس تھی۔ 1973ء میں بھٹو صاحب نے پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس اور پاکستان ریلوے اکاؤنٹس سروس کو پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس میں ضم کر دیا۔ بھارت میں یہ تینوں سروسز اب بھی الگ الگ ہیں۔ جمہوری تسلسل کی وجہ سے یہ سروسز بھارت میں طاقتور سروسز ہیں اور ان کےClientsانہیں آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ بھٹو صاحب نے سیاسی بنیادوں پر بیورو کریسی میں اپنی پسند کے افراد داخل کیے۔ یہ افراد کسی مقابلے کے امتحان کے ذریعے تو آئے نہیں تھے‘ اس لیے یہ اپنے نام کے ساتھ کسی سروس کا نام نہیں لکھ سکتے تھے۔ اس کا علاج بھٹو صاحب کی حکومت نے یہ کیا کہ جو مقابلے کا امتحان دے کر آئے تھے انہیں بھی اپنے نام کے ساتھ سروس کا نام لکھنے سے منع کر دیا۔ یعنی کھیلیں گے‘ نہ کھیلنے دیں گے۔ بھارت میں اب بھی اپنی اپنی سروس کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد بنیادی طور پر ادیب تھے۔ اُس زمانے کی جو ادبی کہکشاں تھی‘ صوفی تبسم‘ ن م راشد‘ فیض صاحب‘ تا...

نعمان کا دردناک انجام

خبر سنتے ہی میں سناٹے میں آگیا۔ کل ہی گلی کے نکر والے ریستوران میں ہم سب دوست بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ سیاسی صورتحال پردھواں دار بحث ہو رہی تھی۔ نعمان بھی موجود تھا۔ ہم نے گفتگو تو اپنے پوتوں‘ نواسوں‘ پوتیوں اور نواسیوں سے شروع کی۔ کون کس کلاس میں ہے۔ کون پاکستان میں ہے‘ کون ملک سے باہر ہے۔ مگر ہوتے ہوتے‘ جیسا کہ ہر روز‘ ہر جگہ‘ پاکستان میں ہوتا ہے‘ گفتگو کا رُخ سیاست کی طرف مُڑگیا۔نعمان نے بھی اس بحث میں پورا حصہ لیا۔اس کی گفتگو سے یہ تو مترشح ہو رہا تھا کہ وہ سیاسی صورتحال سے مایوس ہے مگر ہمارے خواب و خیال میں بھی یہ نہ تھا کہ وہ ایسا انتہا پسندانہ اقدام کرے گا۔ ہم تین دوست اس کے گھر پہنچے۔وہی منظر تھا جو ایسے مواقع پر ہوتا ہے۔سا ئبان تنے ہوئے تھے۔ کرائے پر لی ہوئی کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ لوگ آرہے تھے اور جو پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے‘ گم سم تھے۔ ہم بھی پہلے تو جا کر دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے مگر ہم مسلسل اضطراب اور بے چینی کا شکار تھے اور جاننا چاہتے تھے کہ اصل واقعہ کیا ہوا ہے۔ ہم نے اندر پیغام بھیجا کہ بھابی سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں تھوری دیر بعد بیگم نع...