اشاعتیں

جنوری, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہماری ہنڈیا خالی ہی رہی

کاش ! عمران خان اپوزیشن کو کرش کرنے کے بجائے‘ اور ریموٹ کنٹرول سے پنجاب چلانے کے بجائے‘ اقتدار سنبھالنے کے بعد‘ خاموشی سے جنوبی کوریا کا دورہ کرتے اور وہ کام کرتے جو مہاتیر نے جاپان جا کر کیا تھا!�مہاتیر نے کیا کیا تھا ؟ اس نے اسّی کی دہائی کے آغاز میں حکومت سنبھالی اور ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس پالیسی کا نام تھا '' مشرق کی طرف دیکھو‘‘(Look East policy )اس کا مطلب تھا برطانیہ اور امریکہ کے بجائے جاپان پر توجہ دی جائے۔ مہاتیر نے جاپانی حکومت سے اور جاپان کے نجی شعبے سے معاہدے کیے اور جاپانیوں سے کہا کہ آؤ ملائیشیا میں کارخانے لگاؤ! ملائیشیا تمہیں زمین بھی دے گا‘ تمہاری حفاظت بھی کرے گا‘ ٹیکس میں بھی رعایت کرے گا۔ ظاہر ہے لیبر ملائیشیا میں جاپان کی نسبت سستی تھی! چنانچہ بڑی بڑی جاپانی کمپنیاں ‘ جیسے ہٹاچی‘ سونی‘ اس پیشکش پر جھپٹ پڑیں۔ انہوں نے ملائیشیا میں کار خانے لگائے۔ ریفریجریٹر سے لے کر ٹی وی اور ایئر کنڈیشنر تک‘ مصنوعات ملائیشیا میں بننے لگیں۔ ملائیشیا کے بھاگ جاگ اُٹھے۔ دیکھتے دیکھتے ملائیشیا صنعتی ملک بن گیا۔ اس سے پہلے ملائیشیا کیا برآمد کرتا تھا؟ صرف خام مال ! یعن...

جسٹس وجیہ الدین احمد اور ذوالفقار احمد چیمہ کے نام

اپیل تو پاکستان کے مشہور اور غیر مشہور امرا سے کرنا تھی جیسے زرداری صاحب‘ شریف برادران‘ گجرات کے چودھری صاحبان‘ جہانگیر ترین‘ علیم خان‘ اسحاق ڈار‘ میاں منشا‘ ہمایوں اختر خان‘ ان کے بھائی‘ اور سینکڑوں دوسرے کھرب پتی! کے پی کی نگران کابینہ کے حوالے سے خبر ہے کہ ارب پتی منظور آفریدی کے مختلف کاروبار ہیں جبکہ ان کی کئی قیمتی پراپرٹیز بھی ہیں‘ ضلع خیبر سے ہی تاج محمد آفریدی کو بھی نگران وزیر بنایا گیا ہے‘ تاج محمد آفریدی بھی ارب پتی ہیں۔اس کے علاوہ قومی وطن پارٹی کے حاجی غفران سابق گورنر خیبرپختو نخوا سردار مہتاب احمد خان کے سمدھی اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے قریبی ساتھی ہیں‘ وہ پیشے کے لحاظ سے صنعتکار ہیں اور ان کے بھی اربوں روپے کے اثاثے ہیں۔ بلاول اور مونس الٰہی‘ دونوں‘ اسمبلی کے ریکارڈ کی رُو سے ارب پتی ہیں۔ حنا ربانی کھر بھارت کا دورہ کرتی ہیں تو ان کے انتہائی قیمتی ہینڈ بیگ اور دھوپ کے چشمے کی دھوم مچ جاتی ہے۔مریم نواز کے صاحبزادے کی شادی خانہ آبادی کے اخراجات ہم آپ جیسے عامیوں کے تصور سے بھی ماورا ہیں۔ عام پاکستانی کراچی سے حیدر آباد‘ یا پنڈی سے لاہور جانے سے پہلے سو بار سوچت...

سوالات جو ذہن میں اُٹھتے ہیں

کسان کھیت میں ہل چلا رہا تھا۔ ساتھ والی پگڈنڈی سے اس کے ایک جاننے والے کا گزر ہوا۔اس نے کسان کو سلام کیا۔ السلام علیکم ! کسان نے جواب دیا '' تو پھر تم نے اپنے بیٹے کی شادی پر مجھے تو نہیں بلایا تھا‘‘۔ سلام کرنے والے نے حیران ہو کر کہا کہ میں نے تمہیں سلام کیا ہے‘ تم آگے سے کیا بات لے بیٹھے ہو ! کسان نے جوجواب دیا‘ وہ بہترین جوابوں میں سے ہے اور ایسا جواب ہے جو ہر جگہ‘ ہر موقع پر‘ہر صورت حال میں کام آتا ہے۔سلام کرنے والے نے کہا '' تم آگے سے کیا بات لے بیٹھے ہو؟‘‘ کسان نے جواب دیا '' پھر بات سے بات تو نکلتی ہے‘‘ ! تو پھر بات سے بات تو نکلتی ہے ! جب بات سے بات نکلتی ہے تو سوالات پیدا ہوتے ہیں۔سوالات طالب علم کے ذہن میں اٹھتے ہیں! اکثرو بیشتر ان سوالوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے کہ مصلحت کا تقاضا یہی ہوتا ہے۔ مگر گلا گھونٹنے کے باوجود سوال مرتے نہیں ! زندہ رہتے ہیں !سوال یہ ہے کہ کوئی تو ان سوالوں کے جواب دے ! مثلاً چند سوالات ملاحظہ فرمائیے : چین اور بھارت ایک دوسرے کے دشمن ہیں! دشمنی معمولی نہیں‘ شدید ہے۔ آئے دن سرحدوں پر ان کی ٹھَیں پٹاس رہتی ہے۔اس کے باوجود تج...

حد سے زیادہ مضبوط اعصاب

! ایک بات‘ بہر طور تسلیم کرنا پڑے گی‘ وہ یہ کہ عمران خان صاحب کے اعصاب مضبوط ہیں! حد سے زیادہ مضبوط! جب وہ سامنے پڑے ہوئے گلاس کو درخت کہتے ہیں تو ان کے اعصاب کی مضبوطی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ پلک تک نہیں جھپکتے! اس اعتماد سے درخت کہتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو شک ہو جاتا ہے کہ یہ واقعی درخت نہ ہو!  برطانوی وزیراعظم نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی تھی۔ ان پر جرمانہ ہوا۔ اس پر خان صاحب نے کمال کا کمنٹ دیا ''یہی قانون کی حکمرانی ہے جہاں کوئی اس سے بالاتر نہیں‘‘۔ یہ بات وہ عمران خان کہہ رہے ہیں جن کا قانون کی حکمرانی سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا شیر کا بکری کے ساتھ ہے! �پاک پتن کے سینئر پولیس افسر کو جب وزیراعلیٰ کے پاس حاضر ہونے کا حکم ملا اور اس سے پوچھ گچھ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں احسن جمیل گجر نے کی تو کیا یہ قانون کی حکمرانی تھی؟ پھر جب اس افسر کو کئی سال تعیناتی کے بغیر رکھا گیا تو کیا یہ قانون کے مطابق تھا؟  جون 2018ء میں جب عمران خان ایک چارٹرڈ فلائٹ پر سعودی عرب جا رہے تھے تو زلفی بخاری کو‘ جن کا نام ای سی ایل پر تھا‘ خان صا حب کے ساتھ جانے کے لیے ''صرف ایک بار‘‘ کی خصوصی اج...

دھوتی‘ شلوار قمیض اور کلب

ملکہ   کی   نزاکت   کا   یہ   عالم   تھا   کہ   تکیے   کے   نیچے   جو   گدّا   تھا ‘  اُس   گدّے   کے   نیچے   کاغذ   کا   ایک   ٹکڑا   تھا۔   ملکہ   کو   رات   بھر   نیند   نہ   آئی کہ   بستر   نا   ہموار   ہو   گیا   تھا ! بالکل   یہی   حالت   ہمارے   مراعات   یافتہ   طبقے   کی   ہے۔گدے   کے   نیچے   کاغذ   کا   ٹکڑا   پڑا   ہو   تو   خوابِ   استراحت   میں   خلل   پڑتا   ہے۔   استحقاق مجروح   ہو   جاتا   ہے۔   پھر   کسی   نہ   کسی   کی   شامت   آتی   ہے۔   گزشتہ   ہفتے   اسلام   آباد   کلب   کو   لائن   حاضر   کیا   گیا۔   الزام   یہ   تھا   کہ  '' انگریز چلا   گیا...