درد کا مہکتا باغ
پندرہ سال ہو گئے ! یہ تاریخ‘ یہ مہینہ‘ ہر سال آجاتا ہے۔ یاد نہیں‘ رفیق اللہ سے پہلی ملاقات کس طرح ہوئی! یونیورسٹی کے بہت سے ہوسٹل تھے جن میں سے ایک محسن ہال تھا۔ اس چھ منزلہ‘ عظیم الشان عمارت میں چار سو کمرے تھے۔ کچھ کمروں میں ایک‘ کچھ میں دو‘ دو اور کچھ میں چار‘ چار سٹوڈنٹس رہتے تھے۔ ہم جو ایم اے میں تھے‘ ہمیں سنگل کمرے ملے ہوئے تھے۔ میں اقتصادیات میں اور رفیق اللہ انگریزی ادب میں ایم اے کر رہا تھا۔ پہلی ملاقات میں اس نے انگریزی ادب پر جو گفتگو کی‘ کاش اسے ریکارڈ کیا جا سکتا۔ یوں لگتا تھا کلاسیکی انگریزی ادب اس کی مٹھی میں بند تھا۔ رات کے کھانے کے بعد طلبہ برآمدوں میں ٹولیوں کی صورت کھڑے ہو جاتے اور مختلف موضوعات پر بحث کرتے۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان تفاوت( disparity)پر سب سے زیادہ بحث ہوتی۔ ان بحثوں میں میں اور رفیق اللہ بھی شامل ہوتے۔ بسا اوقات کھڑے کھڑے‘ باتیں کرتے کرتے‘ صبح کی اذان سنائی دیتی۔ رفتہ رفتہ ہماری واقفیت دوستی میں بدل گئی۔ ہوتے ہوتے روٹین یہ بن گئی کہ کھانے اور بحث کے بعد رفیق اللہ میرے کمرے میں آجاتا۔ہم مطالعہ بھی کرتے‘ گفتگو بھی ! چائے کا دور چلتا...