اشاعتیں

دسمبر, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

درد کا مہکتا باغ

پندرہ سال ہو گئے ! یہ تاریخ‘ یہ مہینہ‘ ہر سال آجاتا ہے۔ یاد نہیں‘ رفیق اللہ سے پہلی ملاقات کس طرح ہوئی! یونیورسٹی کے بہت سے ہوسٹل تھے جن میں سے ایک محسن ہال تھا۔ اس چھ منزلہ‘ عظیم الشان عمارت میں چار سو کمرے تھے۔ کچھ کمروں میں ایک‘ کچھ میں دو‘ دو اور کچھ میں چار‘ چار سٹوڈنٹس رہتے تھے۔ ہم جو ایم اے میں تھے‘ ہمیں سنگل کمرے ملے ہوئے تھے۔ میں اقتصادیات میں اور رفیق اللہ انگریزی ادب میں ایم اے کر رہا تھا۔ پہلی ملاقات میں اس نے انگریزی ادب پر جو گفتگو کی‘ کاش اسے ریکارڈ کیا جا سکتا۔ یوں لگتا تھا کلاسیکی انگریزی ادب اس کی مٹھی میں بند تھا۔ رات کے کھانے کے بعد طلبہ برآمدوں میں ٹولیوں کی صورت کھڑے ہو جاتے اور مختلف موضوعات پر بحث کرتے۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان تفاوت( disparity)پر سب سے زیادہ بحث ہوتی۔ ان بحثوں میں میں اور رفیق اللہ بھی شامل ہوتے۔ بسا اوقات کھڑے کھڑے‘ باتیں کرتے کرتے‘ صبح کی اذان سنائی دیتی۔ رفتہ رفتہ ہماری واقفیت دوستی میں بدل گئی۔ ہوتے ہوتے روٹین یہ بن گئی کہ کھانے اور بحث کے بعد رفیق اللہ میرے کمرے میں آجاتا۔ہم مطالعہ بھی کرتے‘ گفتگو بھی ! چائے کا دور چلتا...

صادق اور امین —————- واپس آجاؤ

اگر آسمان  سے پتھر نہیں برسے، اگر زمین دھنس نہیں گئی،  اگر  بجلی کا کڑکا سنائی نہیں  دیا، تو اطمینان کی کوئی بات نہیں! نہ ہی  اس کا مطلب یہ ہے کہ خدائے واحد و قہّار اپنے حبیب  کی  عزت  کا ذمہ دار  نہیں رہا! انتظار کرو اور دیکھو کہ ہوتا کیا ہے۔ جو اصطلاح، جو ٹائیٹل، جو خطاب،  جو لقب ، اللہ کے حبیب کے لیے مختص ہو چکا ، وہ اصطلاح، وہ ٹائیٹل، وہ خطاب،  وہ لقب،کوئی اور کیسے  استعمال کر سکتا ہے ؟ جس طرح کالی کملی والا اس دنیا میں ایک ہی ہے، جس طرح سبز گنبد والا اس آسمان کے نیچے ایک ہی ہے، جس طرح مزّمّل اور کوئی نہیں ، جس طرح مدّثّر اور کوئی نہیں ، اسی طرح، بالکل اسی طرح ، صادق اور امین بھی اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک اصطلاح ہے اور آپ کے لیے، صرف آپ کے لیے ، مخصوص ہے!  صادق اور امین تو وہ تھے جن کا شباب پورے چاند کی چاندنی کی طرح شفاف تھا۔جن کی عفت کی قسم فرشتے کھاتے تھے۔  جن کے پاؤں کی خاک بادشاہوں کی آنکھوں کا سرمہ تھی مگر برہنہ چٹائی پر استراحت فرماتے  تو مقدس بدن پر نشان پڑ جاتے۔  جن کے دن فاقوں میں گذرتے اور...

عمران خان اور امورِ خارجہ

پہلے یہ خبر پڑھ لیجیے: ''  سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اب بھی اپنے اس بیان پر قائم ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کشمیر کا معاملہ اچھے طریقے سے حل کرسکتے ہیں‘ بھارت کے حوالے سے جنرل باجوہ نرم پالیسی کے خواہاں تھے۔ لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر بھارتی میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اب بھی اس بات کا یقین ہے کہ بھارت میں صرف رائٹ ونگ پارٹی ہی کشمیر کا معاملہ حل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو اس وقت نریندر مودی کا تعلق بھی رائٹ ونگ پارٹی سے تھا اس لئے وہ چاہتے تھے کہ بھارت میں مودی انتخابات میں کامیابی حاصل کریں۔ جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا بیان بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں تھی اور کیا وزیراعظم کی حیثیت سے ان کو بھارتی معاملات کے حوالے سے ایسا بیان دینا چاہیے تھا۔ اس کا جواب دینے سے وہاں پر موجود سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نے عمران خان کو روک دیا اور اس سوال کو دوسرے پیرائے میں عمران خان کے سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019ء کو جب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اہم ...

پلک جھپکنے کی دیر ہے

صائمہ خان ایک نیک دل خاتون تھیں۔ انہوں نے اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں ایک چھوٹے سے گھر میں‘‘ اولڈ ہوم‘‘ بنایا ہوا تھا۔اس میں وہ چار یا پانچ بے گھر بزرگ مردوں اور بزرگ عورتوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ گھر چھوٹا تھا۔ پھر یہ سارا کام وہ تن تنہا ہی سر انجام دیتی تھیں۔ گنتی کے چند افراد اس کام میں مالیاتی شرکت کر لیتے تھے‘ وہ بھی کبھی کبھی‘ مگر انتظام سارا صائمہ خان کے کندھوں پر تھا۔ یہ کام وہ ملازمت کے ساتھ ساتھ کر رہی تھیں۔ میں ایک بار اس اولڈ ہوم میں گیا اور ان کی بے لوث خدمت سے بے حد متاثر ہوا۔ سال بھر پہلے صائمہ خان گاڑی کے حادثے میں جاں بحق ہو گئیں۔اولڈ ہوم بند ہو گیا۔صائمہ خان اولڈ ہوم میں لائے جانے اور رکھے جانے والے بزرگوں کے حالات کبھی کبھی اپنی وال پر لکھتی تھیں۔ یہ حالات درد ناک بھی ہوتے تھے اور عبرتناک بھی ! ایک بار انہوں نے ایک بزرگ خاتون کو فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ساتھ سامان کی پوٹلی پڑی تھی۔پوچھا تو معلوم ہوا بہو نے گھر سے نکال دیا ہے۔ صائمہ خان انہیں اولڈ ہوم لے آئیں۔ ان کے بیٹے نے انہیں واپس لے جانا چاہا مگر بزرگ خاتون نے انکار کر دیا۔ جس دن میں اولڈ ہوم گیا‘ صائ...

ایک آئینہ جسے وقت پر دیکھ لینا چاہیے

بارہ سالہ پوتے‘ حمزہ‘ کے بال کٹوانے کے لیے میں حجام کی دکان پر بیٹھا تھا۔یہ حجام ایرانی تھا۔ بیس بائیس برس کا بچہ! میرے ہر سوال کا‘ جو فارسی میں تھا‘ اس نے انگریزی میں جواب دیا۔ تارکینِ وطن کی اکثریت اپنی پہلی نسل ہی کو اپنی زبان سے جس طرح محروم کر دیتی ہے‘ یہ بچہ اس کی ایک مثال تھا۔ کچھ نے ایسا نہ کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے۔ اس کی کئی پرتیں ہیں۔یہ قلمکار اس مسئلے پر ایک پوری کتاب لکھ سکتا ہے۔مگر اس وقت ایک اور بات کرنی ہے۔ وہ دکان میں داخل ہوا تو میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ ماڈرن لاٹھی ! جسے یہ لوگ'' واکنگ سٹک‘‘ کہتے ہیں۔ بال بے حد سفید۔بقول سعدی : سرو مویش از برفِ پِیری سفید! بڑھاپے کی برف بالوں پر بُری طرح گری تھی! بال الجھے ہوئے تھے۔پتا چل رہا تھا کہ کئی دنوں سے کنگھی نہیں کی۔ خشخشی داڑھی اور آنکھوں کے درمیان جو جگہ تھی اس پر بھی بال تھے۔ داڑھی سے نیچے والے بال گلے کو جیسے کراس ہی کرنے والے تھے۔وہ کچھ دیر دکان کے درمیان کھڑا رہا پھر جیسے اپنے آپ سے پوچھا ''یہ باربر کہاں ہے ؟‘‘۔اتنے میں ایک ادھیڑ عمر شخص اندر داخل ہوا۔ بہت ...

یا اللہ! آفات و بلیّات سے محفوظ رکھ

جس ماں کے سارے بچے نالائق اور غیر سعادت مند ہوں وہ بچوں کو نہیں کوستی‘ وہ صرف اور صرف اپنی قسمت کو روتی ہے۔ قوم رو رہی تھی کہ عمران خان نے وعدہ سترہ رکنی کابینہ کا کیا تھا اور وزیروں مشیروں کی تعداد پچاس پچپن ہو گئی تھی۔ اب پی ڈی ایم کی حکومت میں کابینہ پھُول کر پچھتر تک پہنچ گئی ہے۔ ہر کوئی چھری پکڑے اپنے لیے گوشت کاٹ رہا ہے۔اونٹ بے شک زخموں سے چور ہو کر گر پڑے! پی ڈی ایم والے اگر عمران خان کے مقابلے میں اتنے ہی مخلص تھے تو قربانی دیتے اور وزارتیں نہ لیتے! پندرہ یا بیس رکنی کابینہ بناتے اور اپنے آپ کو بر تر ثابت کرتے! مگر یہاں تو جو بھی آتا ہے اپنے پیشرو سے زیادہ ''نیک‘‘ ثابت ہوتا ہے۔ کسی ایک پارٹی نے بھی نہیں کہا کہ ہم وزارت نہیں لیں گے۔ اس لیے کہ ؎ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس سینوں میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں بلٹ پروف گاڑیوں کی تقسیم کی جو تفصیل بتائی گئی ہے‘ ہوشربا ہے۔ عمران خان‘ شاہد خاقان عباسی‘ مولانا اسعد محمود‘ بلاول بھٹو زرداری‘ عطا تارڑ‘ اور رانا ثنا اللہ بلٹ پروف گاڑیوں سے متمتع ہو رہے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی‘ ڈپٹی سپیکر‘ چیئرمین سینیٹ‘ چیف الیک...

جہالت کی سب سے زیادہ خطرناک قسم

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے کچھ ملکوں کو بہترین ممالک کیوں قرار دیاجاتا ہے؟ یہ وہ ممالک ہیں جن میں امن و امان حد درجہ اطمینان بخش ہے۔ باشندے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں اعلیٰ درجے کی ہیں! اوسط عمر طویل ہے۔ ملازمت حاصل کرنے کے اور بزنس کرنے کے مواقع سب کے لیے برابر ہیں۔ مزدوروں اور کارکنوں کو ڈیوٹی کے دوران بہترین ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔ عوام کو پولیس پر اعتماد حاصل ہے۔ حکمران اپنا سودا سلف خود خریدتے ہیں اور عام شہریوں کی طرح رہتے ہیں! ان ملکوں میں ناروے‘ سویڈن‘ ڈنمارک‘ آئر لینڈ‘ فِن لینڈ‘ آئس لینڈ‘ نیدرلینڈز‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ ان میں سے چار ملکوں کی وزرائے اعظم‘ آج کل‘ خواتین ہیں۔ آئس لینڈ کی خاتون وزیر اعظم گزشتہ پانچ سال سے حکومت کر رہی ہیں۔ ڈنمارک اور فن لینڈ کی خواتین وزرائے اعظم کو تین تین سال ہو گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم پانچ سال سے اقتدار پر فائز ہیں۔ ماضی قریب میں وہاں جب ایک دہشت گرد نے مسلمانوں کا قتل عام کیا تو خاتون وزیراعظم نے بہترین رویّے کامظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنی مسلم آبادی کے ...

ایک لمحہ ! صرف ایک لمحہ!!

بحر الکاہل کے کنارے بیٹھا ہوں اور سہیل احمد خان مرحوم یاد آرہے ہیں!! یہ دنیا ظالم ہے! بہت ظالم! میرؔ نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا گھُٹ گھُٹ کے رہے میرؔ سے جب مرتے جہاں میں تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم یہاں نااہل کو مسند پر بٹھا دیا جاتا ہے اور علم اور عقل والے کونوں کھدروں میں چھپ کر وقت گزارتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں جو کام درباروں میں ہوتا تھا اب وہ نام نہاد اردو کانفرنسوں‘ ادبی میلوں اور ٹیلی وژن کے مذاکروں اور مشاعروں میں ہوتا ہے۔حال ہی میں جنوب کے ساحلی شہر میں ایک اُردو کانفرنس کا انعقاد ہوا! حیرت ہوئی کہ وحید احمد اور معین نظامی جیسے نظم کے صفِ اول کے ممتاز شعرا اس میں مدعو نہیں تھے۔ پروفیسر احسان اکبر اُن بزرگ اہلِ دانش میں سے ہیں جو تقریر اور تحریر دونوں میں مسحور کر کے رکھ دیتے ہیں۔کمال کی غزل اور غضب کی نظم کہتے ہیں۔ پروفیسر آفتاب اقبال شمیم نظم گوئی میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ وجاہت مسعود وہ ممتاز صحافی ہیں جن کی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ پر گہری نظر ہے۔ نام نہاد اردو کانفرنسوں میں ہر بار چند مخصوص چہرے ہی دکھائے جاتے ہیں۔اب تو زوال اس حد تک آچکا ہے کہ فلمی گانوں کی طرز پر گا...

بُدھ بھکشو اور جوان عورت

دو بُدھ بھکشو سفر میں تھے۔ چلتے چلتے راستے میں ندی آگئی۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک جوان عورت وہاں پہلے سے بیٹھی ہوئی تھی۔وہ انتظار کر رہی تھی کہ کوئی آئے اور اسے ندی پار کرا دے! دونوں میں سے ایک بھکشو نے اسے اٹھایا اور اٹھا کر دوسرے کنارے لے گیا۔ دونوں بھکشو پھر چل پڑے۔دو دن گزر گئے تو دوسرا بھکشو‘ پہلے بھکشو سے کہنے لگا '' تمہیں اُس جوان عورت کو نہیں اُٹھانا چاہیے تھا‘‘۔ پہلے بھکشو نے اُسے جواب دیا کہ ارے بھائی! تم ابھی تک ندی کے کنارے ہی کھڑے ہو !! ہم میں سے اکثر لوگ‘ کئی کئی دن‘ کئی کئی ہفتے‘ بلکہ کئی کئی سال‘ ندی کے کنارے کھڑے رہتے ہیں! ایک چھوٹی سی بات دل میں لے کر بیٹھے رہتے ہیں۔ مہینوں‘ برسوں‘ اسے پالتے ہیں یہاں تک کہ وہ بغض کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دوسرے شخص کو‘ اکثر اوقات معلوم ہی نہیں ہوتا کہ فلاں اپنے دل میں یہ بات لیے بیٹھا ہے اور یہاں اس بات کی وجہ سے صحت پر منفی اثرات پڑنے لگتے ہیں۔ ذرا سوچئے! ایک عورت یا مرد‘ جو ہر وقت کڑھتا رہتا ہے‘ منفی خیالات کی پرورش کرتا رہتا ہے‘ صحتمند کیسے رہ سکتا ہے۔ وہ نفسیاتی کیس بن جاتا ہے اور جسمانی عارضوں میں مبتلا ہونے لگتا ہے! رذائل...

کیا یہ شکست سیاسی تھی؟

شام تھی۔ کھڑکی کے باہر املی اور لیچی کے پیڑ تیز ہوا میں جھوم رہے تھے۔ ان کے ناچتے پتوں کا عکس کھڑکی کے شیشوں پر پڑ رہا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری 24گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ میں اور میرا بنگالی دوست‘ جو ایم اے اکنامکس کی کلاس میں میرے ساتھ تھا‘ لائبریری میں بیٹھے پڑھ رہے تھے اورNotesبنا رہے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہم نے ساری رات بیٹھنا ہے۔ کئی گھنٹے گزر گئے تو وہ کہنے لگا چلو‘ چائے پی آئیں! ہم اٹھے اور انٹرنیشنل ہوسٹل کے سامنے سے گزرتے ہوئے آرٹس بلڈنگ کی بغل میں واقع مادھو کی کینٹین میں جا بیٹھے۔ یہ وہی کینٹین ہے جس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جس نے مادھو کی کینٹین سے اتنی پیالیاں چائے کی نہیں پیں اور اتنے سموسے نہیں کھائے‘ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نہیں ہو سکتا۔ 1921ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو نوجوان مادھو نے اپنے باپ کے ساتھ یونیورسٹی میں اشیائے خورو نوش بیچنا شروع کیں۔ وقت کے ساتھ مادھو کی کینٹین یونیورسٹی کی ثقافتی زندگی کا جُزوِ لا ینفک ہو گئی۔ 26مارچ 1971ء کی صبح کو مادھو‘ اس کی بیوی‘ بیٹے اور بہو‘ سب کو مار دیا گیا۔ ہم نے چائے منگوائی اور ایک ایک ...

ادھوری تشخیص! ناقص علاج !!

کس دیدہ دلیری سے کہہ رہے ہیں کہ فلاں کا فون آیا تھا فلاں کی طرف ہو جاؤ! ایک سیاستدان نے یہ بات کر کے دریا کو کوزے میں بند کر دیاہے! یہ ایک سیاست دان کا یا ایک سیاسی خانوادے کا یا ایک پارٹی کا حال نہیں‘ سبھی روبوٹ ہیں۔ سبھی معمول ہیں اور اپنے عامل کے کہنے پر چلتے ہیں!کٹھ پتلیاں ہیں جن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور اب تو یہ وقت آگیا ہے کہ انہیں یہ بتاتے ہوئے کہ ہم نے فلاں کا ساتھ اس لیے دیا کہ ہمیں فون آگیا تھا‘ شرم تک نہیں آتی! مقتدرہ کو بے گناہ قرار نہیں دیا جا سکتا! مگر کیا وہ سیاستدانوں کی مدد کے بغیر کچھ کر سکتی تھی ؟تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ سیاستدانوں کے ایک بھاری گروہ نے ہمیشہ مقتدرہ کے نیچے ستون بن کر اسے سہارا دیے رکھا۔ مشرقی پاکستان سے شروع کیجیے۔ مولوی فرید‘ مولانا بھاشانی اور نور الامین جیسے سیاست دان آمریت سے لڑتے رہے۔ مقابلہ کرتے رہے۔ جیلوں میں جاتے رہے۔ دوسری طرف عبد الصبور خان اور عبد المنعم خان جیسے لوگ اس کے اشاروں پر ناچتے رہے! وہ بھی ایک سیاست دان ہی تھا جس نے ایوب خان کو امیر المومنین بننے کی تجویز دی تھی۔ کون سا آمر تھا جس کے آگے پیچھے سیاستدان نہیں رہے؟...

کیا ہم میں مینوفیکچرنگ نقص ہے ؟؟

'' کوشش کرو کہ کسی سے ادھار نہ لینا پڑے۔ جب بھی کسی سے قرض لو تو تعیّن کروکہ واپس کب کرو گے۔ پھر اس تاریخ کا دھیان رکھو۔ اگر خدا نخواستہ معیّنہ وقت پر واپس کرنے کے قابل نہیں ہو‘ تو اُس تاریخ کو یا اُس سے پہلے‘ خود جا کر وضاحت کرو اور نئی تاریخ کا تعین کر کے آؤ۔ اب تیسری بار توسیع کے لیے گزارش کرنا ذلت کا کام ہو گا۔ اسی طرح جو شخص تم سے قرض لیتا ہے اور مقررہ مدت کے اندر واپس نہیں کرتا اور خود حاضر ہو کر وضاحت بھی نہیں کرتا‘ اسے آئندہ ہر گز ہر گز قرض نہ دو۔ یہ تو روپے پیسے کا معاملہ ہوا! جہاں تک چیزوں کا تعلق ہے‘ جیسے گاڑی‘ استری‘ سیڑھی‘ چارجر‘ تویہ زیادہ حسّاس معاملہ ہے۔ ایسی چیزیں مانگ کر واپس نہ کرنا اُن لوگوں کا وتیرہ ہے جو ارذل الخلائق ہیں۔ اگر تم کسی سے کوئی شے لو اور واپس لینے کے لیے اُسے خود کہنا پڑے تو یہ تمہارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے!!‘‘ یہ نصیحت ایک جہاندیدہ بزرگ نے اپنی اولاد کو کی تھی۔ اس سماج میں بہت کم لوگ ہیں جو اپنی آئندہ نسل کو معاشرت کا یہ بنیادی سبق پڑھائیں۔ پڑھائیں بھی تو کیسے؟ ان کا اپنا عمل ہی قابلِ رشک نہیں! اس میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ خاندا...