ایک یونیورسٹی کا قتل
مبارک ہو۔ یہ فتح یابی بھی اپنے ہی ملک کے حصے میں آنی تھی! بقول فراق گورکھپوری ؎ ہر ایک سے کہاں بارِ نشاط اُٹھتا تھا بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی تاریخ میں پہلے ایسا ہوا نہ کبھی دوبارہ ہو گا۔ ایک جیتی جاگتی‘ زندہ‘ گوشت پوست سے بنی ہوئی ‘ بین الاقوامی رینکنگ رکھنے والی‘ یونیورسٹی کو زمین پر لٹایا جارہا ہے۔ پھر اس کے گلے پر تیز دھار خنجر رکھ کر‘ اس کے سینے پر سے ایک چھ لین شاہراہ گزاری جارہی ہے۔ یونیورسٹی کا جسم کٹ کر دو حصوں میں بٹ جا ئے گا۔ ایک حصہ شاہراہ کے ایک طرف‘ دوسرا حصہ شاہراہ کے دوسری طرف! سچ پوچھیں تو اس ملک کو یونیورسٹیوں کی ضرورت ہی نہیں ہے! بے شمار سکولوں کالجوں کی عمارتیں پہلے ہی وڈیروں کے مویشی خانوں اور گندم اور بھوسے کے گوداموں کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں! جو سرکاری سکول کام کر رہے ہیں ان کی حالت اُن بیواؤں جیسی ہے جن کے گھروں میں شام کو چراغ نہیں جلتے۔ ان سکولوں کی دیواریں ہیں تو چھت نہیں ہے۔ فرنیچر خال خال ہے۔ بچے اپنے گھروں سے سیمنٹ کی خالی بوریاں لاتے ہیں اور ان پر بیٹھتے ہیں۔ ماسٹرصاحبان ساتھ ساتھ‘ دن کے وقت ہی‘ اپنی دکانیں چلاتے ہیں اور کھیتی باڑی کرتے ہی...