اشاعتیں

نومبر, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ایک یونیورسٹی کا قتل

مبارک ہو۔ یہ فتح یابی بھی اپنے ہی ملک کے حصے میں آنی تھی! بقول فراق گورکھپوری ؎ ہر ایک سے کہاں بارِ نشاط اُٹھتا تھا بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی تاریخ میں پہلے ایسا ہوا نہ کبھی دوبارہ ہو گا۔ ایک جیتی جاگتی‘ زندہ‘ گوشت پوست سے بنی ہوئی ‘ بین الاقوامی رینکنگ رکھنے والی‘ یونیورسٹی کو زمین پر لٹایا جارہا ہے۔ پھر اس کے گلے پر تیز دھار خنجر رکھ کر‘ اس کے سینے پر سے ایک چھ لین شاہراہ گزاری جارہی ہے۔ یونیورسٹی کا جسم کٹ کر دو حصوں میں بٹ جا ئے گا۔ ایک حصہ شاہراہ کے ایک طرف‘ دوسرا حصہ شاہراہ کے دوسری طرف! سچ پوچھیں تو اس ملک کو یونیورسٹیوں کی ضرورت ہی نہیں ہے! بے شمار سکولوں کالجوں کی عمارتیں پہلے ہی وڈیروں کے مویشی خانوں اور گندم اور بھوسے کے گوداموں کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں! جو سرکاری سکول کام کر رہے ہیں ان کی حالت اُن بیواؤں جیسی ہے جن کے گھروں میں شام کو چراغ نہیں جلتے۔ ان سکولوں کی دیواریں ہیں تو چھت نہیں ہے۔ فرنیچر خال خال ہے۔ بچے اپنے گھروں سے سیمنٹ کی خالی بوریاں لاتے ہیں اور ان پر بیٹھتے ہیں۔ ماسٹرصاحبان ساتھ ساتھ‘ دن کے وقت ہی‘ اپنی دکانیں چلاتے ہیں اور کھیتی باڑی کرتے ہی...

زندگی کی پیمائش ! کافی کے چمچوں سے

یہ اطلاع میری بھتیجی فاطمہ گیلانی نے دی۔ پروفیسر معظم منہاس وہاں چلے گئے جہاں سب جاتے ہیں مگر وہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔�انسان اوپر سے سب ایک سے لگتے ہیں۔ سب کا ایک سر‘ دو آنکھیں اور دو کان! مگر اندر جہانوں اور زمانوں کا فرق ہوتا ہے۔ وحشی تاتاری کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کا قیدی کون ہے ؟ وہ اسے سینکڑوں ہزاروں دوسرے عام قیدیوں کی طرح سمجھ رہا تھا کیونکہ اوپر سے اس کا قیدی دوسرے قیدیوں ہی کی طرح تھا۔جب ایک خریدار نے چاندی کے ہزار سکے اس قیدی کے عوض پیش کیے تو قیدی نے تاتاری سے کہا: اس قیمت پر مجھے نہ بیچناکہ میری قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر کسی نے بھوسے کے گٹھے کی پیشکش کی تو قیدی نے کہا: قبول کر لو کہ یہی میری قیمت ہے۔ اس وحشی تاتاری کو کیا معلوم تھا کہ یہ قیدی تو عطار ہے۔ عالموں کا عالم اور صوفیوں کا صوفی ! فقیروں کا فقیر اور داناؤں کا دانا! اس نے بھنّا کر اسے قتل کر دیا! پروفیسر معظم منہاس بھی دیکھنے میں عام آدمیوں کی طرح لگتے تھے۔ طویل قامت! بھاری جسم! کھلی پیشانی ! اس خطۂ زمین میں ایسے لاکھوں افراد پائے جاتے ہیں مگر ان میں پروفیسر معظم منہاس جیسا کوئی نہیں! پروفیسر صاحب کی مو...

کسی ایک شعبے میں تو ہم آگے ہوتے

افغانستان اور انگریزی ہندوستان کی باہمی کشمکش ایک طویل کہانی ہے جو تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا سبب جنوب کی طرف روسی پیش قدمی تھی۔ اسے ہی گریٹ گیم کہتے ہیں۔ کچھ تو روسی عزائم بھی تھے اور کچھ انگریزی ذہن کی مبالغہ آرائی بھی! انگریزوں اور روسیوں کے درمیان جو پِس رہا تھا وہ افغانستان تھا۔انگریزی ہند اور افغانستان کے درمیان تین جنگیں ہوئیں۔ پہلی جنگ 1839ء میں ہوئی۔ یہی سال رنجیت سنگھ کی وفات کا بھی ہے۔اس جنگ میں انگریزی فوج کو عبرتناک شکست ہوئی۔دوسری اینگلو افغان جنگ 1875ء میں اور تیسری1919ء میں ہوئی۔ لیکن ایک اور لڑائی بھی ہوئی جس کا ذکر کم ہی کیا جاتا ہے۔ یہ لڑائی انگریزی فوج کے سکھ سپاہیوں اور افغان قبائلیوں کے درمیان ہوئی۔ تاریخ کی یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ سکھ بہادر ہونے کے باوجود اکثر و بیشتر دوسروں کے ہاتھ میں کھلونا بنتے رہے۔ انگریزوں نے انہیں اپنا وفادار بنا کر ان کے خون اور ہڈیوں سے اپنی سلطنت کو مضبوط کیا۔ پھر تقسیم کے وقت سکھ ہندؤوں کے ہاتھ میں کھیلے جس کا تاوان وہ آج تک ادا کر رہے ہیں۔ یہ ستمبر1892ء کی بات ہے۔ انگیزوں نے قبائلیوں کو قابو کرنے کے لیے کوہاٹ کے علاقے ...

سرجری کا تازہ ترین معجزہ

''کنیز نے چاقو پکڑا اور اپنے گلے پر پھیر دیا۔ ہوا کی نالی کا ایک حصہ کٹ گیا۔ مجھے اس کے علاج کے لیے بلایا گیا۔ اس کے گلے سے ایسی آوازیں آرہی تھیں جیسی جانور ذبح ہونے کے فوراً بعد نکالتا ہے۔ میں نے زخم کا معائنہ کیا تو دیکھا کہ خون بہت کم مقدار میں نکلا ہے‘ کوئی شریان یا گردن کی ورید نہیں کٹی تھی؛ چنانچہ میں نے جلدی سے اس کا زخم سیا اور پھر اس کا علاج کرتا رہا یہاں تک کہ وہ تندرست ہو گئی۔ صرف یہ ہوا کہ اس کی آواز بھاری ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ بالکل نارمل ہو گئی۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ Laryngotomyکا عمل خطرناک نہیں ہے‘‘۔ یہ تحریر ابوالقاسم الزہراوی کی ہے جسے سرجری ( جراحی) کا بابا آدم سمجھا جاتا ہے۔ اندلس میں رہنے والے اس سرجن نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ''کتاب التصریف‘‘ 1000ء میں مکمل کی‘ جو تیس جلدوں میں تھی۔ یہ کتاب صدیوں تک یورپ کے تعلیمی اداروں میں نصاب کا حصہ رہی۔ سرجری وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ کچھ ہونے لگا جس کا تصور بھی محال تھا۔ موتیا کے علاج کے لیے آنکھوں کی سرجری میں اب گھنٹے سے بھی کم وقت لگتا ہے جب کہ ایک زمانے میں مریضوں کو کئی کئی ...

ایک خط جو تکیے کے نیچے پڑا ملا

طبیعت ان کی کئی دنوں سے عجیب سی ہو رہی تھی۔خراب بھی نہیں کہہ سکتے مگر ٹھیک بھی نہیں تھی! دفتر سے آتے تو بیزار دکھائی دیتے۔ کچھ ہفتوں سے نماز بھی مسجد کے بجائے گھر میں پڑھنے لگے تھے۔سوشل لائف ان کی تقریباً ختم ہو گئی تھی۔ خاندان کی تقاریب میں جانا چھوڑ دیا تھا۔دوستوں سے گریزاں رہنے لگے تھے۔کوئی ملنے گھر آجاتا تب بھی خاموش ہی رہتے حالانکہ زندگی بھر خوش مزاج اورہنس مکھ رہے۔ احباب اور اقارب کی دعوتیں بہت کرتے تھے۔ اب ان کی یہ حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ کھانا پینابالکل کم کر دیا تھا۔ سگریٹ زیادہ پینے لگے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ زندگی بھر‘ صبح اٹھنے کے بعد‘ بے تابی سے اخبار کاانتظار کرتے رہے مگر اب اخبارپڑھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ٹیلی ویژن پر خبریں سننے کا بہت شوق تھا۔گاڑی میں ہمیشہ ریڈیو پر خبریں سنا کرتے تھے۔ مگر اب ٹی وی‘ ریڈیو سب کچھ بھلا بیٹھے تھے۔ اکثر چائے کی فرمائش کرتے اور میں بنا کر دیتی مگر اب یہ حال ہو گیا تھا کہ خود کہنا تو دور کی بات‘ میں پوچھتی کہ چائے بنا لاؤں تو کہتے '' نہیں! جی نہیں چاہتا‘‘۔ میں اور بچے بہت پریشان تھے کہ انہیں کیا ہوا ہے۔ مگر کچھ سمجھ...

کوتاہ نظری کی بد ترین مثال

پندرہ سال سے کچن کی دیوار گری پڑی ہے۔ رات کو بلیاں کچن میں گھس جاتی ہیں۔وہ تو خدا کا شکر ہے کہ گھر کی چاردیواری قائم ہے ورنہ کتے بھی کچن میں رکھے برتنوں میں منہ مار رہے ہوتے۔ بیوی چلّا چلّا کر تھک گئی۔بیٹی نے کئی بار یاد دلایا۔ مگر چودھری صاحب سے دیوار دوبارہ نہ بنی۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ انہی چودھری صاحب کو شہر کی تعمیرِ نو کا ٹھیکہ دے دیا گیا! لطیفہ! اور اتنا دردناک! جو شخص پندرہ سال میں گھر کے کچن کی مرمت نہ کر سکا‘ وہ پورے شہر کی تعمیرِ نو کس طرح کرے گا؟ پندرہ سال پہلے وفاقی دار الحکومت میں ایک تنازع اٹھا۔ جو ہوا غلط ہوا۔ مگر جو ہونا تھا‘ ہو گیا۔سوال یہ ہے کہ آج‘ پندرہ سال کے بعد بھی‘ اس تنازع سے جُڑی شاہراہ‘ جو شہر کی مصروف ترین شاہراہ ہے‘ بند ہے! یہ شاہراہ میلوڈی مارکیٹ کو آب پارہ بازار سے ملاتی ہے۔ اس ڈبل شاہراہ کا ایک حصہ کئی سال سے ٹریفک کے لیے بند رہا۔ ڈبل روڈ‘ عملاً‘ سنگل روڈ بنی رہی۔ شہری‘ اور پورے ملک سے آنے والے مسافر‘ سالہا سال اذیت میں مبتلا رہے۔ خدا خدا کر کے گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے شاہراہ واگزار ہوئی۔ اور اب پھر بند کر دی گئی ہے! آپ انصاف کیجیے‘ ج...

کوئی ہے ؟؟

زخموں سے چور چور‘ اس خون تھوکتی قوم کو کر کٹ متحد کر دیتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی! جتنی دیر کھیل جاری رہا ‘ دعا اور خواہش میں‘ جوش اور بے تابی میں سب پاکستانی یک جان تھے۔ ہارنے پر مغموم ہونا فطری ہے۔ مگر سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ  شکست و فتح‘ میاں! اتفاق ہے لیکن مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا افسوس! جیسے ہی کھیل ختم ہوا‘ ہم پھر ریزہ ریزہ ‘ لخت لخت‘قاش قاش ہو گئے۔ پھر ایک دوسرے کو بے لباس کرنے لگے! دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے! مذاق اڑا رہی ہے۔ روزنامہ وال سٹریٹ جرنل کا حالیہ مضمون اس مذاق‘ اس تماشے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ ہم اسفل السافلین کے زمرے میں گنے جا رہے ہیں! ہماری عزت‘ ہماری حرمت‘ پارہ پارہ ہو رہی ہے۔ � بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے جتنے زیادہ ہو گئے‘ اتنے ہی کم ہوئے ہر کوئی دوسرے پر الزام لگا رہا ہے۔ کوئی نہیں جو اس منتشر قوم کو یکجا کر سکے۔ بہت ہو چکی‘ بہت کچھ کہا جا چکا عمران خان کے خلاف! بہت کچھ کہا جا چکا شریف فیملی اور زرداری خاندان کے خلاف! بہت مقدمے عدالتوں میں گئے۔ بہت فیصلے ہوئے۔ حاصل کچھ بھی نہیں ہوا! کسی نے ہار مانی نہ مانے گا! اے آپس میں دست و گریب...

مسافر بس میں قتل

نہیں معلوم اس بات میں کتنی صداقت ہے۔ تاہم مشہور یہی ہے کہ جب چنگیز خان کا پوتا ہلاکو خان بغداد پر حملہ کر رہا تھا تو بغداد کی مسجدوں‘ مدرسوں اور چوراہوں پر بحث یہ ہو رہی تھی کہ کوا حلال ہے یا حرام ! ہو سکتا ہے مغرب میں بھی تحریک ِاحیائے علوم سے پہلے ایسی بحثوں کا رواج ہو‘مسلمانوں میں تو آج تک ہے۔ اس کی ایک شکل مناظرہ بھی ہے۔ ہمارے مذہبی حلقوں میں مناظرہ ایک مقبول سرگرمی رہی ہے۔ اس کا انجام‘ اکثر و بیشتر مجادلوں کی صورت میں سامنے آتا رہا۔ مناظرہ ذہنی عیاشی کا بہت بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اب اس کا رواج نسبتاً کم ہو گیا ہے۔ وہ وقت بھی تھا جب ''مناظر‘‘ یا ''مناظر اسلام‘‘ باقاعدہ ایک لقب تھا۔ مذہبی بحث تو ہمارا طُرّۂ امتیاز تھی ہی‘ اب سیاسی بحث بھی پیش منظر پر چھائی ہوئی ہے۔ ہر گھر میں‘ ہر دفتر میں‘ ہر بازار میں‘ ہر ٹرین اور ہر بس میں‘ سیاسی بحث ہو رہی ہے۔ اس میں بڑے بھی شامل ہیں‘ چھوٹے بھی‘ مرد بھی عورتیں بھی۔ یہ جو اکبر الہ آبادی نے کہا تھا : مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں تو یہ بات سیاسی بحث پر زیادہ صادق آ رہی ہے۔ اس سیاسی بحث کے چند ایسے خواص ہی...

سر نہ مُنڈانے والا قلندر

علامہ اقبال کے 145 ویں یومِ پیدائش پر عام تعطیل کا اعلان ہوا۔ کیا یہ کافی ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ کیا علامہ کی عظمت اور خاص طور پر ان کی اہمیت کا احساس نئی نسل کو ہے؟ کیا نوجوان پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ اتنے قریب کے زمانے میں ایسے شخص کا وجود ایک نعمت ہی نہیں معجزہ بھی تھا؟ اگر یہ کہا جائے کہ رومی کے بعد ان کے پائے کا کوئی اور نابغہ نہیں پیدا ہوا تو مبالغہ نہ ہوگا۔ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایسی ہستی چوراسی برس پہلے ہم میں موجود تھی! صرف چوراسی برس پہلے! اس میں کیا شک ہے کہ اس سارے عرصے میں بڑے بڑے لوگ آئے۔ مذہب کے شعبے میں‘ فلسفہ و حکمت کے میدان میں‘ تحریر اور تقریر میں یکتا! مگر تاثیر کا جو کرم خزانۂ خاص سے علامہ کو بخشا گیا‘ کسی اور کو نہیں ملا۔ علم تو بہت سوں کے پاس ہوتا ہے‘ تاثیر ایک اور ہی شے ہے۔ اب تو محققین نے ان کی زندگی کے ایک ایک سال‘ ایک ایک مہینے کی مصروفیات پر مشتمل کتابیں لکھ دی ہیں۔ پڑھ کر تعجب ہوتا ہے۔ عملی زندگی میں وہ ایک انتہائی مصروف اور سرگرم انسان تھے۔ پنجاب کی سیاست میں ان کی شرکت بھر پور رہی۔ یونیورسٹیوں کے نصاب مرتب کیے۔ ممتحن کے فرائض سرانجام دیے۔ قومی سطح ک...

اگر گھوڑا ہی مُک گیا تو؟

گھر کے بڑے جب مسلسل جھگڑوں اور لڑائیوں میں لگے ہوں اور سارا وقت کچہریوں اور تھانوں کے چکر لگاتے رہیں تو سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے۔ بڑوں کے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ بڑوں کی ترجیحات میں ان کا کوئی وجود ہی نہیں رہتا۔ ان کی تعلیمی ترقی رک جاتی ہے۔ ان کی صحت کی دیکھ بھال نہیں ہوتی۔ وہ کہاں جاتے ہیں؟ کس کے ساتھ کھیلتے ہیں؟ سکرین پر کیا دیکھتے ہیں؟ کسی کے پاس ان سب پہلوؤں پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ اسی پر عوام اور سیاستدانوں کو قیاس کیجیے۔ ہم عوام گویا بچے ہیں۔ سیاستدان ہمارے بڑے ہیں۔ سیاستدان حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں‘ ان کا اولین فریضہ عوام کی نگہداشت ہے۔ عوام کی تعلیم‘ عوام کی صحت‘ عوام کی تربیت‘ عوام کی حفاظت‘ یہ سارے کام ایک جمہوری سیٹ اپ میں سیاست دانوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے اہلِ سیاست جس طرح باہمی جنگ و جدل میں مصروف ہیں‘ جس طرح آپس میں گتھم گتھا ہیں اور جس طرح سر پھٹول ہو رہی ہے‘ اس میں عوام مکمل طور پر نظر انداز ہورہے ہیں۔ حکومتوں کے عدم استحکام نے سوشل سیکٹرز کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ سرکاری سکولوں کا برا حال ہے۔ سرکاری ہسپتالوں پر ت...

معظم گوندل اور اشتیاق

عمران خان پر حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسا حملہ کسی عام آدمی پر بھی نہیں ہونا چاہیے چہ جائیکہ عمران خان جیسے مقبول لیڈر پر ! جب نوبت بندوق کی گولی تک جا پہنچے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اس نوبت تک پہنچنے کے لیے بہت سا کام کیا گیا ہے ! اس سے پہلے بہت سے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے الزام کا مرحلہ آتا ہے ! الزام کے بعد اگلا منطقی مرحلہ قانونی کارروائی کا ہونا چاہیے۔ مگر جب قانونی کارروائی کے بجائے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے تو اگلا مرحلہ دھمکی کا ہو تا ہے۔ پھر گالی دی جاتی ہے۔اور آخر میں بندوق کی گولی چلتی ہے! اس ملک میں سیاست کچھ سالوں سے الزام‘ دھمکی اور گالی کے گرد طواف کر رہی ہے۔ قانون کی کوئی اہمیت نہیں ! عدالت حق میں فیصلہ کرے تو اچھی ہے۔ خلاف فیصلہ کرے تو بری ! ادارے ساتھ دیں تو قابلِ قبول ہیں۔ چوں چرا کریں تو قابلِ نفرت! جب خود پر لگے کسی الزام کو درخور اعتنا نہ گردانا جائے اور دوسروں پر الزامات کی بارش کر دی جائے‘ جب دوسرے کی بات نہ سنی جائے اور اپنی بات مسلسل سنائی جائے‘ جب دلیل کے بجائے گالی لڑھکائی جائے تو بندوق کی گولی کو کوئی نہیں روک سکتا ! ایک سیاسی ل...

اُف !! یہ کفّار !!

یہ ایک کچھوا نما شے تھی جو لان میں آہستہ آہستہ چل رہی تھی مگر کچھوا بھی نہ تھی۔کافی دیر غور سے دیکھنے کے باوجود کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا شے ہے! پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ روبوٹ ہے! لان میں گھاس کاٹنے والا۔ چنانچہ اپنا کام کر رہا ہے! خدا کی پناہ! یہ کفار بھی کتنے عجیب ہیں! حیرت سے انسان گُنگ ہو جاتا ہے! ہر مسئلے کا حل نکال لاتے ہیں! اور حل کے پیچھے‘ اکثر و بیشتر‘ فلسفہ ایک ہی ہے کہ انسان کا دوسرے انسان پر انحصار کم ہو جائے! اب گھاس کاٹنے والے روبوٹ کی ایجاد کے بعد اُس بندے کی ضرورت نہیں رہی جو آکر مشین سے گھاس کاٹتا تھا۔سامان اٹھانے والے قُلی سے نجات پانا تھی تو صندق کے نیچے پہیے لگا لیے۔اٹھائے بغیر اسے ایک ہاتھ سے چلاتے جائیے۔ شہر بڑے ہو گئے۔ راستے یاد رکھنے مشکل ہو گئے۔ کس کس سے پتا پوچھتے پھریں۔ کفار نے ہر گاڑی میں‘ ہر موبائل فون میں ایک بی بی بٹھا دی ہے جو آپ کو نقشہ دکھاتی جاتی ہے اور بتاتی جاتی ہے کہ کہاں مُڑنا ہے اور کہاں سیدھا چلتے جانا ہے۔ کسی کی مدد کے بغیر آپ ٹھیک اُس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں آپ کو جانا ہے! چیک لکھ کر بینک کے کیشیئر کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت نہیں۔ کارڈ...

گوجرانوالہ سے برطانیہ کی وزارتِ عظمیٰ تک

چلیے! 1757ء ہی سے بات شروع کرتے ہیں!�اگرچہ اس سے پہلے ہی انگریزی عمل دخل قائم ہو چکا تھا اور مغلیہ سلطنت کے دست و بازو ٹوٹنا شروع ہو چکے تھے؛ تاہم پہلی فیصلہ کن جنگ1757ء ہی میں لڑی گئی۔ پلاسی کے میدان میں انگریز غالب آ گئے۔ تاریخ ہی نہیں‘ اہلِ ہند کی تقدیر بھی بدل گئی۔ پلاسی کی فتح لارڈ کلائیو کی ٹوپی میں سرخاب کاپَر تھا۔ اسے یہ فخر سجتا بھی تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے آئر لینڈ میں جو جائیداد خریدی اس کا نام پلاسی رکھا! 1757ء سے لے کر1947ء تک تقریباً دو صدیاں بنتی ہیں۔ ان دو صدیوں میں کوئی ظلم‘ کوئی تشدد‘ کوئی ناانصافی ایسی نہیں جو انگریزوں نے اہلِ ہند پر نہ کی ہو۔ تفصیل سے کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔بہت سی کتابیں خود انگریزوں نے لکھی ہیں۔ کچھ حالات ان کے روزنامچوں میں درج ہیں۔ ایک ایک انگریز افسر کے پاس پچاس پچاس مقامی نوکر ہوتے تھے جن کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ ہر ممکن طریقے سے مقامی لوگوں کو ذلیل کیا جاتا تھا۔ نکلسن‘ جس کی یادگار آج بھی ٹیکسلا کے قریب پہاڑ پر بنی نظر آتی ہے‘ ایک درندے سے کم نہ تھا۔ سرحد میں اس نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ ایک مقامی عزت دار شخص نے اس...