اشاعتیں

اکتوبر, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ارشد شریف

یہ2017ء کی بات ہے۔میں‘ عزیزم خاور گھمن اور بزرگ صحافی عارف نظامی ایک ٹی وی چینل پر '' نیوزروم‘‘ کے عنوان سے ہفتے میں چھ دن‘ پروگرام کرتے تھے۔ عزیزم کرامت مغل ہمارے پروڈیوسر تھے۔ نظامی صاحب پروگرام میں لاہور سے شریک ہوتے تھے۔ میں‘ کرامت مغل اور خاور گھمن اسلام آباد میں تھے۔ کافی وقت اکٹھا گزرتا جس میں نشستن اور خوردن بھی شامل تھے۔�ایک دن خاور گھمن صاحب نے بتایا کہ ارشد شریف کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ راولپنڈی کے ایک معروف ہسپتال نے انہیں کہا تھا کہ دل میں دو سٹنٹ پڑیں گے۔ یہ کام دو تین دن کے بعد ہونا تھا۔ کچھ دوائیں دی گئی تھیں جو ان دو تین دنوں میں‘ ہسپتال والوں کے بقول‘ ارشد شریف کو سٹنٹ ڈالنے کے عمل کے لیے تیار کریں گی ! خاور صاحب کو معلوم تھا کہ میرے دو قریبی عزیز امراضِ قلب کے ماہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ان کی رائے لے دیجیے۔میں نے کہا :کیوں نہیں! بسر و چشم ! ارشد شریف نے وٹس ایپ پر اپنے دل کے ٹیسٹوں کی رپورٹیں بھیجیں۔ میں نے فوراً دونوں ڈاکٹروں کو ارسال کر دیں۔ایک لاہور میں تھے۔ دوسرے بیرونِ ملک۔ ایک دل کے سرجن تھے۔ دوسرے فزیشن اور سٹنٹ ڈالنے ہی کے ماہر جسےIntervention...

اور نہیں تو صرف یہ تین کام ہی کر کے دیکھیے

پہلی بار یورپ جانے اور کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق آج سے چوالیس سال پہلے ہوا۔ کچھ چیزیں دیکھ کر تعجب ہوا۔ شاید اس لیے کہ یہ سب کچھ پہلے دیکھا تھا نہ معلوم تھا۔ اتوار کے دن باہر نکلے تو تقریباً ہر گھر کے سامنے مختلف اشیا پڑی تھیں۔ کہیں بچوں کی کار سیٹ‘ کہیں میز‘ کہیں گدّا‘ کہیں ٹائپ رائٹر۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ اشیا گھر والوں کی ضرورت سے زائد ہیں۔ اس عمل کے دو پہلو تھے۔ ایک تو جو غریب لوگ تھے وہ ضرورت کی چیزیں لے جاتے تھے۔ دوسرے‘ لوگ اپنی اشیا سے تبادلہ کر لیتے تھے۔ ایک اور عمل جس نے متاثر کیا‘ آلودگی کم کرنے اور پٹرول بچانے کے لیے تھا۔ ہفتہ اور اتوار چھٹی ہو تی تھی۔ فرنگی زبان میں اسے '' ویک اینڈ‘‘ کہتے ہیں۔ اب یہ لفظ ہمارے ہاں بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ہمارا ویک اینڈ کا عمومی تصور یہ ہے کہ دن چڑھے تک سونا ہے۔ پھر انڈین فلم دیکھنی ہے۔ اور آخر میں رَج کے چکن کڑا ہی‘ نہاری یا حلیم کھانی ہے۔ سب کی نہیں مگر بہت سوں کی چھٹی اسی طرح گزرتی ہے۔ سفید چمڑی والوں کا ویک اینڈ کا تصور مختلف ہے۔ وہ گاڑی کے اوپر‘ یا پیچھے‘ سائیکلیں لادتے ہیں۔ کھانا ساتھ لیتے ہیں ا...

کھیل یا جنگ ؟

سب سے پہلے یہ کرسی جنرل محمود اختر صاحب کے کلینک میں دیکھی اور یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ جنرل محمود اختر صاحب کا تعارف ایک کالم کے ایک حصے میں نہیں ہو سکتا۔ میڈیکل سپیشلسٹ! کئی نسلوں کے استاد! آرمی میڈیکل کالج کے پرنسپل! مسلح افواج کے سرجن جنرل! ساری زندگی مہنگی ادویات کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ قدرت نے ہاتھ میں شفا رکھی۔ یوں کہ جس مریض نے ایک بار دکھایا‘ زندگی بھر کے لیے نرم گفتاری‘ شفقت اور طریقِ علاج کا اسیر ہو گیا۔ ریٹائر ہوئے تو ایک نجی میڈیکل کالج نے بھاری مشاہرے پر سربراہی پیش کی۔ جنرل صاحب نے قبول کر لی۔ مگر چند ہفتوں کے اندر جب دیکھا کہ دیانت عنقا ہے اور نیت خراب تو بیگ اٹھایا اور گھر آگئے۔کلینک جنرل صاحب کا گھر کی بیسمنٹ میں تھا۔سیڑھیاں اندر سے تھیں۔ یہیں وہ کرسی پہلی بار دیکھی۔ جنرل صاحب کرسی پر بیٹھے تھے۔ کرسی سیڑھیوں سے نیچے آرہی تھی۔ اوپر بھی لے کر جاتی تھی۔ کچھ عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ ایسی کرسی کی ضرورت ‘ جلد یا بدیر‘ ہر گھر میں پڑ سکتی ہے۔ عمرِ رواں جس رفتار سے اُڑی جا رہی ہے کسی بھی وقت‘ کسی کو بھی ‘ اس کرسی پر بٹھا سکتی ہے۔ پاکستان میں ایک دو ڈیلرز سے بات کی مگر اطمینا...

Fragile

آپ نے جہاز‘ ٹرین یا بس پرچڑھتے اور اترتے سامان میں دیکھا ہو گا کہ کچھ چیزوں پر Fragile لکھا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے یہ شے بہت نازک ہے۔ جیسے چینی کے برتن‘ جیسے کوئی پینٹنگ!اسے احتیاط سے اتارنا اور چڑھانا ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔ یہ کوئی چوبیس پچیس برس پہلے کی بات ہے۔ کسی کام سے پشاور جانا تھا۔ اپنے دوست پروفیسر اظہر وحید سے کہا کہ ساتھ چلیں۔ پروفیسر صاحب کی معیت مزیدار ہوتی ہے اور مفید بھی۔ گفتگو کا فن انہیں آتا ہے۔ ایسی گفتگو جس میں سننے والے کو دلچسپی ہوتی ہے اور اس کے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔کینٹ کے ایک خوبصورت مَیس میں ہمارا قیام تھا۔ رات کا کھانا کھا چکے تو چہل قدمی کے لیے نکل آئے۔ چلتے چلتے ذرا دور ہی نکل گئے۔ اچانک دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ تیز۔پھر اور زیادہ تیز۔ دھک دھک کی آواز یوں آنے لگی جیسے ڈرم یا ڈھول پر ضرب پڑ رہی ہو۔ بیٹھنے کی جگہ کوئی نہیں تھی۔ کوئی بنچ یا پتھر‘ چبوترہ یا منڈیر کچھ بھی نہ تھا۔ کوئی چارہ نہ تھا سوائے چلتے رہنے کے۔ سو چلتا رہا۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ پروفیسر صاحب سے ذکر بھی نہ کیا۔بات چیت بھی چلتی رہی۔ پسینے سے شرابور بھی ہو تا رہا۔کافی دیر ...

خراسانی اور عراقی

آپ نے کس کو ووٹ دیا ہے ؟ عمران خان کو کس وجہ سے ؟ وہ دیانت دار ہے اور باقی سب چور ! آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ باقی سب چور ہیں؟ عمران خان نے بتایا ہے۔ کیا عمران خان خود دیانت دار ہے ؟ جی ہاں ! سو فیصد! کیا بزدار کی تعیناتی‘ بطور چیف منسٹر‘ دیانت داری تھی! جی بالکل! کیا آپ کو معلوم ہے تعیناتی سے پہلے عمران خان بزدار کو جانتے ہی نہیں تھے ؟ جی نہیں کیا آپ جانتے ہیں بزدار کو بنی گالہ کون لایا تھا اور کس کی گاڑی میں لایا گیا تھا؟ نہیں معلوم آپ کا کیا خیال ہے بزدار کی پوسٹنگ میرٹ پر تھی ؟ جی! سو فیصد میرٹ پر۔ باقی تو چور ہیں تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے جسے عمران خان نے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا تھا ؟ خان صاحب جب کسی کو ڈاکو کہیں گے تو ہم بھی اسے ڈاکو کہیں گے۔ اگر وہ اسے کوئی عہدہ دیتے ہیں تو اس پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ! کیا یہ حقیقت نہیں کہ بزدار کے زمانے میں سول سروس کی پوسٹیں بکتی رہیں ؟ مجھے نہیں معلوم نہ پروا ہے۔ وہ جو خاتون ہیں‘ جن کا نام ان پوسٹوں کی خرید و فروخت میں آتا ہے‘ یہ سپیشل جہاز پر ملک سے باہر کیوں چلی گئیں ؟ نہیں معلوم! حساس منصب پر فائز ایک اعلیٰ عہدیدار نے خان ...

پولیس کے شہدا اور اُن کے خاندان

کیا کبھی آپ نے‘ یا میں نے‘ یا کسی اور نے سوچا ہے کہ مظلوم ترین اداروں میں ایک بہت زیادہ مظلوم ادارہ پولیس کا ہے؟�بے تحاشا گالیاں اس ادارے کو پڑتی ہیں! بیریئر پر کھڑے پولیس کے سپاہی کو ہر گزرنے والا ڈرائیور دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے! حالانکہ یہ بیریئر اس سپاہی نے لگایا نہ ہی یہاں وہ اپنی مرضی سے کھڑا ہے! اور سوچئے‘ کب سے وہ یہاں کھڑا ہے؟ کب تک کھڑا رہے گا؟ کیا اس دوران اس کی خوراک کا بند و بست کیا جا رہا ہے؟ کیا ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد گھر جانے کے لیے اسے سواری مہیا کی جائے گی؟�جب رسوائے زمانہ رُوٹ لگتا ہے اور ٹریفک روک لی جاتی ہے تو سب اُن پولیس والوں کو برا بھلا کہتے ہیں جو ٹریفک روکتے ہیں۔ کیوں؟ انہیں برا بھلا کہیے جن کے نخرے اٹھانے کے لیے رُوٹ لگایا گیا ہے! بقول شاعر؎ �حاکم یہاں سے گزرے گا اظہارؔ کس گھڑی�بدبخت کے لیے ہے جنازہ رُکا ہوا�اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دہشت گردی کی جنگ میں پولیس فورس نے بھی قربانیاں دی ہیں اور بہت قربانیاں دی ہیں۔ گلگت سے لے کر کراچی تک اور سیالکوٹ سے لے کر کوئٹہ تک پولیس کے ہزاروں اہلکار اور افسر شہید ہوئے ہیں۔ اُن کی مائیں روئی ہیں۔ اُن کے بچے ی...

ہوشیار !! خبردار

سب سے پہلے گھر کی نوکرانی پر شک ہوا۔ اس کے پاس موبائل فون بھی اچھی نسل کا تھا۔ یہ جوطبقہ ہے‘ ڈرائیور‘ مالی‘ باورچی‘ گھر میں کام کرنے والی ملازمہ‘ ان لوگوں کا لباس بوسیدہ ہو سکتا ہے مگر موبائل فون ٹپ ٹاپ قسم کا ہو گا۔ موٹرسائیکل کی طرح موبائل فون بھی شاید اب قسطوں پر ملنے لگے ہیں! بہر حال بیگم صاحبہ کا خیال تھا کہ یہ کام نوکرانی ہی نے کیا ہے۔ جس دن بیگم صاحبہ کی امی جان آئی ہوئی تھیں‘اُس دن نوکرانی تقریباً سارا وقت ہی ان کے ارد گرد رہی۔ کھانا میز پر چُنا‘ پھر کئی بار چائے بنا کر لائی۔ پھر بڑی بیگم صاحبہ کے پاؤں دباتی رہی۔ یقینا ریکارڈنگ اسی نے کی ہو گی! حکومت اور اپوزیشن کے بعد آڈیو اور وڈیو ریکارڈ اور پھر لیک کرنے کا کاروبار گھروں تک آپہنچا تھا اور یہ بہت ہی خطرناک کھیل تھا۔ جس نے بھی یہ وڈیو بنائی تھی‘ کمال کر دیا تھا اور غضب بھی ڈھا دیا تھا۔ بیگم صاحبہ امی سے اپنی ساس کی برائیاں کر رہی تھیں اور نندوں کو کوسنے دے رہی تھیں۔ساس کے خلاف مقدمہ یہ تھا کہ ہر مسئلے میں ٹانگ اڑاتی ہیں۔ بیٹے کو غلط سبق پڑھاتی ہیں۔بیٹے کی کمائی سے اپنی شادی شدہ بیٹیوں پر بے تحاشا خرچ کرتی ہیں۔ بیگم صاحبہ نے اپن...

استاد امام دین اور مرزا غالب

سٹینلے وولپرٹ (Stanley Wolpert) 1927ء میں نیویارک میں پیدا ہوا۔ ماں باپ روس سے تعلق رکھنے والے یہودی تھے۔ ایک بحری جہاز میں بطور انجینئر ملازمت ملی۔ 1948ء میں اسے بمبئی جانے کا اتفاق ہوا۔ بر صغیر اسے بہت اچھا لگا۔ اتنا اچھا کہ وہ اس کے سحر میں گرفتار ہو گیا۔ واپس جا کر اس نے انجینئر نگ کے پیشے کو خیرباد کہا اور برصغیر کی تاریخ پڑھنے لگ گیا۔ اسی حوالے سے اس نے بی اے کیا۔ پھر ایم اے اور پی ایچ ڈی! پھر اس نے برصغیر کی تاریخ پر کتابیں لکھنا شروع کیں اور یہی اس کی دنیا بھر میں وجۂ شہرت بنیں! (یہاں ہمارے لیے ایک سبق بھی ہے۔ ہم ایک بار جو کیریئر اپنا لیتے ہیں‘ اس کے بعد‘ خواہ وہ کتنا ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو‘ اس سے بندھ جاتے ہیں جیسے اس سے نکاح ہو گیا)۔ یونیورسٹی میں کئی سال وولپرٹ تاریخ پڑھاتا رہا۔ اس کی متعدد تصانیف میں سے مشہور ترین قائداعظم کی سوانح حیات ہے۔ اس نے قائداعظم کے بارے میں لکھا کہ ''بہت کم افراد تاریخ کا رُخ‘ پُرمعنی انداز میں تبدیل کر تے ہیں۔ اس سے بھی کم افراد دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں اور مشکل ہی سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو قومی ریاست ( نیشن سٹیٹ) کو وجود میں لائے۔ محمد علی...

ایک اور ربیع الاوّل

ا ایک اور بارہ ربیع الاوّل آیا اور گزر گیا۔ ایک بار پھر ہم نے محبتِ رسولؐ کے تقاضے پورے کر دیے۔ اس مبارک دن کو عام تعطیل قرار دیا۔ نجی اور سرکاری عمارتوں پر چراغاں کیا۔ قیدیوں کو رہائی ملی۔ کچھ کی سزاؤں میں تخفیف ہوئی۔ جلوس نکالے۔ تقریریں کیں۔ اخبارات میں سیرتِ نبویؐ پر مضامین چھپے۔ الیکٹرانک میڈیا پر نعت خوانیاں ہوئیں! عالم فاضل افراد نے سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ایک دوسرے کو میلاد مبارک کے پیغامات بھیجے۔ ہم سے جو ہو سکا ہم نے کیا۔ تاہم‘ اس جشن میں‘ اس سارے عمل میں‘ ہم نے اپنی ذات کو شامل نہیں کیا۔ ہمارا ذہن اس میں شریک نہیں تھا۔ اس بارش میں ہم نے کوئی قطرہ اپنے اوپر نہیں پڑنے دیا۔ ہماری روزمرہ زندگی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ میلاد کا جشن ہمارے وجود کو چھوئے بغیر گزر گیا۔ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ہم جیسے تھے ویسے ہی رہے۔ ہم جیسے گیارہ ربیع الاوّل کو تھے‘ بالکل ویسے ہی تیرہ ربیع الاوّل کو برآمد ہوئے۔ بارہ ربیع الاوّل ایک گھٹا تھی جو ہم پر برسے بغیر گزر گئی۔ ہم نے اس کا سایہ بھی اپنے اوپر نہیں پڑنے دیا۔ یوں لگتا ہے ہم اس شخصیت ہی سے ناواقف ہیں جس کی ولادت کا جشن منا رہے...

اپنی بیٹیوں کو بوڑھا مت کیجئے

میں بک شاپ میں کتابیں دیکھ رہا تھا! شہر کی اس سب سے بڑی بک شاپ کے مالک یوسف صاحب میرے دوست تھے۔ جب تک وہ زندہ رہے‘ ان کے کارندے مجھے نئی کتابوں کی اطلاع دے دیا کرتے تھے۔ کبھی ایس ایم ایس کے ذریعے کبھی وٹس ایپ پر! اب ہفتے‘ دس دن بعد خود چکر لگاتا ہوں! اس دن بھی کتابیں دیکھ رہا تھا! اچانک ایک طرف سے نسوانی آواز آئی۔ انکل! السلام علیکم! دیکھا تو خاتون کو پہچان نہ پایا۔ اس نے بتایا کہ میری بڑی بیٹی کی دوست ہے۔ تب یاد آیا کہ سکول میں اکٹھی تھیں۔ دوسری بچیوں کی طرح یہ بھی ہماری بیٹی کے ساتھ ہمارے گھر آیا کرتی تھی۔ رسمی دعا سلام کے بعد وہ دکان کے کاؤنٹر کی طرف چلی گئی اور میں کتابوں کی ورق گردانی میں دوبارہ مصروف ہو گیا۔ شام کو بیٹی کا معمول کا فون آگیا۔ گفتگو کے درمیان ذکر کیا کہ اس کی فلاں دوست اور ہم جماعت ملی تھی۔ پھر یوں ہی پوچھ ڈالا کہ اس کی دوست کے ماشاء اللہ کتنے بچے ہیں اور اس کا میاں کیا کام کرتا ہے۔ بیٹی نے ایک لمبی آہ بھری''ابو! اس کی تو ابھی تک شادی ہی نہیں ہوئی!‘‘ وجہ پوچھی تو بیٹی نے تفصیل بتائی کہ یہ لوگ اپنی ذات کے باہر شادی نہیں کرتے۔ لڑکی کے لیے کئی اچھے اچھے...

چھجو کا چوبارہ چھوڑنے سے پہلے کی کیفیت

Sicknessکئی قسم کی ہوتی ہے۔ سمندری سفر کے دوران طبیعت خراب ہو جائے تو اسے ''سی سک نیس‘‘ کہتے ہیں۔ بحری جہاز لہروں کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہچکولے کھاتا ہے تو بہت سے مسافر امتلا میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ قے کرنے لگ جاتے ہیں۔ بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگ ہوائی جہاز میں بے چین ہوتے ہیں۔ اسے ایئر سک نیس کہتے ہیں۔ کچھ افراد کو کار یا بس میں سفر کرنے کے دوران متلی ہوتی ہے۔ ایک شے ''ہوم سِک نیس‘‘ بھی ہے۔ غریب الوطنی یا مسافرت میں گھر کی یاد! ہوم سک نیس میں تو بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ یہ جو بھائی سکندر اعظم ہندوستان کی مکمل تسخیر کے بغیر واپس چلے گئے تو ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے یونانی سپاہی‘ وطن سے‘ ہزاروں میل دور‘ ہوم سِک ہو رہے تھے اور واپس جانا چاہتے تھے۔ بغاوت کے واضح آثار دیکھ کر سکندر واپس چلا گیا۔ عبد الرحمن اول نے اندلس میں کھجور کا پہلا درخت لگایا۔ پھر اس نے اس درخت کو مخاطب کرکے وطن کی یاد میں پُر سوز شعر کہے۔ اقبال نے ان کا ترجمہ کیا ہے۔ غور کیجیے! بادشاہت کے باوجود ہوم سِک نیس کا عالم! میری آنکھوں کا نُور ہے تُو میرے دل کا سُرور ہے تُو اپنی وادی سے دُور...

ایک قابلِ تقلید مثال

ایاز امیر صاحب سے یک طرفہ‘ غائبانہ‘ شناسائی تو اُس وقت سے ہے جب ان کے انگریزی کالم کا انتظار رہتا تھا۔ انگریزی کالم نگار چند ہی ایسے تھے‘ اور ہیں‘ جو دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں جب شمالی پاکستان میں انگریزی روزنامے '' پاکستان ٹائمز‘‘ کی اجارہ داری تھی تو خالد احمد کا کالم  Of this and that  بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں گئے تو پاکستان ٹائمز (لاہور) دوسرے دن ملتا تھا۔ وہاں رہتے ہوئے ''پاکستان آبزرور‘‘پڑھنے کا چسکا بھی پڑ گیا جو مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا انگریزی روزنامہ تھا۔1949ء میں شروع ہونے والا یہ اخبار اندھیری رات میں چراغ کی طرح تھا۔1952ء میں جب بنگلہ زبان کی تحریک چلی تو اخبار کے مالک حمید الحق چوہدری اور مدیر عبدالسلام‘ دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں ایوب خان حکومت نے اخبار کو بلیک لسٹ کر کے اشتہارات سے محروم کر دیا۔ بنگلہ دیش وجود میں آیا تو یہ اخبار'' پاکستان آبزرور‘‘ سے'' بنگلہ دیش آبزرور‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔2010ء میں‘ زندگی کی اکسٹھ بہاریں دیکھنے کے بعد‘ یہ اخبار وفات پا گیا۔ انگریزی...