اشاعتیں

ستمبر, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

لکھنؤ سے سیالکوٹ اور فتح جنگ تک

قمر ہم جماعت تھا۔ مدت بعد ملا تو بینکار بن چکا تھا۔ میرا دفتر اسی سڑک پر تھا۔ دوپہر کا کھانا ہم اکٹھا کھاتے۔ پھر وہ ہجرت کرکے امریکہ چلا گیا۔ وہیں آسودۂ خاک ہے۔ یاد اُس کی یوں آئی کہ گھر‘ دوپہر کے کھانے میں‘ دال چاول پکے تھے۔ دفعتاً قمر کا چہرا آنکھوں کے سامنے آگیا۔ تھا وہ پنڈی گھیب کا! پتا نہیں‘ یہ رشتہ کیسے ہوا‘ کسی نے کرایا یا اُس کی اپنی پسند تھی۔ بہر طور شادی اس کی سمبڑیال میں ہوئی۔ جن کو نہیں معلوم‘ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سمبڑیال ایک قصبہ ہے‘ خاصا بڑا! وزیرآباد اور سیالکوٹ کے درمیان! شادی ہو گئی۔ کچھ دنوں بعد وہ امریکہ گیا تو بیگم کو پنڈی گھیب‘ اپنے آبائی گھر میں چھوڑ گیا۔ فیملی کو امریکہ بلانے کے مراحل طویل تھے اور صبر آزما! سمبڑیال کی لڑکی پنڈی گھیب میں آگئی۔ گھر میں قمر کے والد بھی تھے یعنی دلہن کے سسر۔ دلہن شام کو ابلے ہوئے چاول سسر کی خدمت میں پیش کرتی‘ ساتھ کبھی دال ہوتی‘ کبھی شلجم کا شوربہ‘ کبھی آلو گوشت‘ کبھی آلو کی بھُجیا۔ بڑے میاں نے تین چار دن تو یہ ''عجیب و غریب‘‘ عشائیہ زہر مار کیا مگر پانچواں دن تھا کہ چھٹا‘ صبر جواب دے گیا۔ انہوں نے ابلے ہو...

لڑکیاں! جو دو انتہاؤں کے بیچ پِس رہی ہیں

لڑکی پڑھی لکھی تھی اور ماڈرن! اس نے گھر کو دیکھا اور اپنے رہنے کے لیے پسند کر لیا۔ گھر دکھانے والے نے کہا کہ وہ جھوٹ بالکل نہیں بولے گا اور سب کچھ صاف صاف بتائے گا۔ پھر اس نے تفصیل سے بتایا کہ یہ گھر بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے‘ خاص طور پر اُس کے لیے! اس لیے کہ گھر کی بنیادیں کمزور ہیں۔ تیز ہوا چلے تو چھت لرزنے لگتی ہے۔ دیواروں میں بڑے بڑے شگاف ہیں۔ پہلی نظر ہی میں لوگ جانچ لیتے ہیں کہ گھر رہائش کے قابل نہیں۔ اس نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اپنے کسی بڑے کو گھر دکھا کر اس کی بھی رائے لے لے۔ لڑکی نے ایک ہی جواب دیا کہ گھر جیسا بھی ہے‘ بس اُسے پسند ہے۔ وہ اسے خریدے گی اور اسی میں رہے گی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ماڈرن لڑکی نے گھر خرید لیا۔ چند ماہ ہی گزرے تھے کہ بارشیں شروع ہو گئیں‘ ایک دن چھت گر پڑی۔ لڑکی اس کے نیچے آکر دب گئی۔ ملبہ ہٹایا گیا تو اس کی لاش بر آمد ہوئی۔ شوہر عورت کا گھر ہی ہوتا ہے۔ ایک ماڈرن‘ پڑھی لکھی لڑکی جب ایک ایسے مرد کو اپنے شریکِ حیات کے طور پر پسند کرتی ہے جس کی حیثیت ایک ایسے مکان سے زیادہ نہیں جو گرنے والا ہے‘ تو ایک لحاظ سے وہ خودکشی کی مرتکب ہوتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں دو ماڈ...

حکومت کا ایک خیراتی اقدام

جو دے اس کا بھلا ‘ جو نہ دے اس کا بھی بھلا  ‘اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا‘ اللہ آپ کو حج کرائے  ‘یہ اور اس قسم کے جملے ثابت کرتے ہیں کہ مانگنے کے فن کو ہم نے باقاعدہ ایک سائنس بنا لیا ہے‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ صدقہ دینے میں اور خیرات کرنے میں اہلِ پاکستان کا کردار ہمیشہ قابلِ رشک رہا ہے۔ یہ جو ہر چوک اور ہر شاہراہ پر گداگروں کا ہجوم ہے‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں مانگنے والوں کی کثرت ہے وہاں‘ ماشاء اللہ‘ دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ہر مسجد‘ ہر مزار‘ ہر دربار میں صندوقڑیاں رکھی ہیں اور بھرتی جاتی ہیں۔انفرادی سطح سے ہٹ کر ‘ اجتماعی طور پر بھی خیراتی سرگرمیوں میں پاکستان کا نام مشہور ہے۔ بہت سے فلاحی ادارے رات دن کام کر رہے ہیں۔مذہبی اور غیر مذہبی تنظیمیں مصیبت کے ہر موقع پر لوگوں کے کام آتی ہیں۔ حالیہ سیلاب میں بھی ان فلاحی تنظیموں نے بے شمار افراد کی مدد کی ہے۔ مگر یہ تو نجی شعبے کی بات تھی۔ الحمد للہ اب سرکاری شعبہ بھی صدقہ خیرات میں اپنا کردار ادا کرنے لگ گیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال وہ حکم ہے جس کی رُوسے پارلیمنٹ کے ارکان کے لیے ہر موٹر وے اور ہر ہائی وے پر ٹول ٹیکس معاف ک...

جب کندھا دینے والا کندھا مانگ بیٹھے

! بھانجے تو پروردگار نے اور بھی عطا کیے ہیں‘ ماشاء اللہ سب لائق فائق‘ مگر عبید کا اپنا ہی مقام تھا۔ کل جب وہ باون سال کی عمر میں مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گیا تو یوں لگا جیسے جاتے وقت کہہ رہا ہو ''ماما جی اپنا خیال رکھیں!‘‘ ساری زندگی اپنی نہیں دوسروں کی فکر کی! جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا تو سب سے پہلے اس سے مشورہ ہوتا۔ مامی بھی اسی سے پوچھتی۔ اس کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا۔ مکان کی تعمیر سے لے کر‘ موبائل فون کی مشکلات تک‘ اسے ہر ماہر شخص کا علم تھا۔�پیدائش سے لے کر کل کی تدفین تک‘ ایک ایک منظر نگاہوں کے سامنے پھر رہا ہے۔ بہت چھوٹا سا تھا تو بیمار پڑ گیا۔ تب اس کے والد صاحب کی‘ جو فوج میں ملازم تھے‘ اٹک شہر میں تعیناتی تھی۔ میں اسے دیکھنے سی ایم ایچ اٹک گیا۔ یاد نہیں کیا مرض تھا مگر ڈاکٹروں نے اس کے ننھے سے گلے میں سوراخ کیا ہوا تھا۔ تیسری سے چوتھی جماعت میں آیا تو اس کی پریشانی آج تک نہیں بھولتی اور وہ کمال کا فقرہ بھی جو اس نے کہا کہ ''میرا کچھ کریں کیونکہ نئی جماعت میں حساب کی اتنی بڑی بڑی رقمیں ہیں!‘‘ دیکھتے دیکھتے بڑا ہو گیا۔ ملازمت مل گئی۔ شادی ہو گئی۔ کچھ عرصہ پہلے جب...

اس خبر کو ’’ مطالعہ پاکستان ‘‘ کے مضمون کا حصہ بنائیے

فارسی کا ایک مشہور مصرع ہے : قیاس کن ز گلستان من بہارِ مرا یعنی‘ میرا باغ دیکھ کر اندازہ لگا لو کہ میری بہار کیسی ہو گی ! خبر ایک ہے مگر ایسی ہشت پا خبر ہے کہ آکٹوپس بھی شرما جائے۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ کسی نے پاکستان کی حقیقت دیکھنی اور جاننی ہو تو وزیر آباد سیالکوٹ سڑک پر سفر کرے۔ مگر یہ خبر‘ اُس سڑک کی بھی ماں ہے! اس خبر سے بھی کسی تشریح کے بغیر پاکستان کی حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا مناسب ہو گا کہ اب ہمارا ملک اس اعلیٰ درجے پر فائز ہو چکا ہے کہ اس کی حقیقت سمجھانے کے لیے لفظ ناکافی ہیں اور بے بس ! اب تقریر یا تحریر سے کام نہیں چلتا۔ کتنا بولیں گے ؟ گھنٹوں ؟ پہروں ؟ کتنا لکھیں گے ؟ دفتر کے دفتر بھر دیں گے ؟پھر بھی ما فی الضمیر واضح نہیں کر سکیں گے! مگر ایک سڑک‘ یا ایک خبر‘ میں بسا اوقات اتنا ابلاغ ہوتا ہے کہ نہ صرف بات سمجھ میں آجاتی ہے بلکہ چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں! اب دل تھام کر خبر کا سامنا کیجیے۔ خبر بھی کسی دور افتادہ ضلع یا کسی قصبے یا کسی گاؤں کی نہیں‘ عین وفاقی دارالحکومت کی ہے! یہ بائیس برس پہلے کا واقعہ ہے۔ سال2000ء تھا۔اسلام آباد کے ایک شہری ...

آپ اور آپ کا مہمان

آپ وفاقی دارالحکومت میں رہتے ہیں۔ فرض کیجیے آپ کا ایک غیرملکی دوست آپ کے پاس آکر ٹھہرتا ہے۔ وہ پاکستان کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتا ہے۔ پاکستان کے سیاست دانوں کے بارے میں‘ پاکستان کی بیورو کریسی کے بارے میں‘ پاکستان کے عوام کے بارے میں! وہ پوچھتا ہے یہاں کی ایڈمنسٹریشن کیسی ہے؟ یہاں کی حکومت کیسے چل رہی ہے؟ اداروں کی کیا صورتِ حال ہے؟تو آپ کیا کریں گے؟�یہ تو ایسی حکایت ہے جسے بیان کرنے کے لیے مہینوں درکار ہیں۔ اپنے ملک کے سیاست دانوں کے بارے میں آپ بتانے لگیں تو دن راتوں میں اور راتیں دنوں میں بدلنے لگیں گی۔ اور پھر بیوروکریسی! اور پھر عوام! عمرِ نوح چاہیے یہ سب کچھ بتانے اور سمجھانے کے لیے۔ اس کا حل میں بتاتا ہوں۔ آپ کچھ بھی نہ کیجیے۔ ایک لفظ منہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں۔ آپ اسے سیالکوٹ لے جائیے۔ اب تو کھرب پتی اہلِ سیالکوٹ نے اپنی ایئر لائن بھی بنا لی ہے۔ جہاز اڑ رہے ہیں مگر آپ نے مہمان کو جہاز پر نہیں لے کر جانا۔ پاکستان فضا میں اڑتا جزیرہ نہیں‘ زمین پر قائم ہے۔ ہاں‘ ایک احتیاط آپ کو کرنا ہو گی۔ روانہ ہونے سے پہلے اسے یہ نہیں بتانا کہ سیالکوٹ ملک کے امیر ترین شہروں میں شمار ہوتا ہ...

مٹی میں چھپے لعل و جواہر

یہ شباب تھا جب اٹلی اور ہسپانیہ میں زیتون کے باغات دیکھے تھے۔ میلوں تک‘ فرسنگ در فرسنگ‘ زیتون کے سبز پیڑ دیکھ کر لگتا تھا ایک اور ہی دنیا ہے۔ کئی سال بعد مراکش میں بھی یہی مناظر دیکھے۔ رباط سے فاس (Fez) جاتے ہوئے مسحور کن نظارے ملے۔ ٹیلے اور اُن پر زیتون کے باغات۔ حدِ نگاہ تک‘ سواری کے ساتھ دوڑتے باغات! آنکھوں میں ٹھنڈک انڈیلتے باغات! ایک ٹیس دل میں اٹھی! کیا زیتون کے باغات پاکستان میں نہیں لگ سکتے؟ پاکستان میں بھی تو یہی زمین ہے! یہی آسمان ہے! پاکستان کی فضا میں بھی تو یہی بادل ہیں۔ یہی بارش ہے۔ ٹیس حسرت میں بدلی! حسرت خواہش میں! اور خواہش شعر میں ڈھل گئی؛ یہی مٹی سونا چاندی ہے جیسی بھی ہے یہی مٹی اپنی مٹی ہے جیسی بھی ہے اسی مٹی سے زیتون کے باغ اگائیں گے یہی غرناطہ، یہی سسلی ہے جیسی بھی ہے وقت گزرتا رہا۔ اس شعر کو کہے دس سال گزر گئے۔ پھر‘ بیس سال ہو گئے۔ پھر بائیس برس ہو گئے۔ ایک چھوٹے سے شاعر کا خواب! مگر بڑا خواب! تین دن پہلے عجیب واقعہ پیش آیا۔ پورے بائیس سال بعد شاعر زیتون کے ایک بہت بڑے باغ میں کھڑا تھا! حدِ نظر تک پھیلا ہوا باغ! ٹیلوں پر زیتون کے درخت! ہموار زمین پر زیتون کے ...

بیت المال کی سواریاں

سیاست کے لیے مذہب کا استعمال شروع تو قائد اعظم کی وفات کے فوراً بعد ہو گیا تھا مگر جس طرح مذہب کو عمران خان اور ان کی جماعت نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اس کی مثال شاید ہی حالیہ تاریخ میں ملتی ہو۔ عمران خان کے ایک قریبی ساتھی نے جس طرح ان کی تقریر کے عین درمیان‘ مداخلت کر کے‘ اسلامی ٹچ دینے کی ہدایت دی ‘ اس کے بعد ان حضرات کا خلوصِ نیت اس ضمن میں عیاں ہو گیا مگر شاید کاتبِ تقدیر نے مکمل برہنگی کی ساعت ابھی نہیں لکھی اور مقلّب القلوب نے دلوں کو پھیرنے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا۔خان صاحب اپنی تقریروں میں شرک سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دوسری طرف غیر اللہ کی چوکھٹ پر سجدہ کناں بھی ہوتے ہیں۔�سب سے زیادہ جو نعرہ لگا وہ ریاستِ مدینہ کا ہے۔اور اس بے دردی سے لگا اور اس کثرت اور تواتر سے لگا کہ الامان و الحفیظ! رسالت مآبﷺ اور ان کے بعد خلفاء راشدین نے جس طرح کی زندگیاں گزاریں اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ بیت المال سے کچھ لیا بھی تو قُوت لا یموت کے برابر! یعنی اس قدر کہ بس گزارہ تنگی سے ہوتا رہے۔ اس سلسلے میں بہت سی مثالیں ہیں جو ‘ کم و بیش‘ ہر مسلمان کے علم میں ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے زمانۂ قحط...

……………ورنہ ہماری تو فائل ہی نہ ملتی

وہ ایک بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشن کا اعلیٰ عہدیدار تھا۔ بڑا ایگزیکٹو!�کمپنی نے دو گاڑیاں‘ مع دو ڈرائیور‘ دی ہوئی تھیں۔ بہت بڑا گھر ملا ہوا تھا۔ آج کل گھر کی تفصیل بتاتے ہوئے صرف اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ تین بیڈ رومز کا گھر ہے یا چار بیڈ رومز کا۔ مگر گھر کی یہ تعریف یا وضاحت درست نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کمرے کتنے ہیں جہاں بیٹھا جا سکتا ہے؟ تین یا چار تو خواب گاہیں ہو گئیں! اس کے بعد ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے۔ ایک لاؤنج ہوتا ہے جہاں موجودہ زمانے کا جامِ جمشید یعنی ٹی وی رکھتے ہیں۔ پھر طعام گاہ ہوتی ہے یعنی ڈائننگ روم! بہت سے گھروں میں راہداری ہوتی ہے جس سے گزر کر گھر کے اندر جاتے ہیں۔ فرنگی زبان میں اسے Passage کہتے ہیں۔ یہ بھی ایک لحاظ سے کمرہ ہی ہوتا ہے۔ پرانی طرز کے گھروں میں ڈِیوڑھی ہوتی تھی جس سے گزر کر گھر کے اندرونی حصے میں جاتے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تین یا چار بیڈ رومز نہیں‘ گھر میں کم از کم چھ یا سات کمرے ہوتے ہیں۔ آج کل پانچ یا آٹھ یا دس مرلے کے گھروں میں بھی اتنے ہی کمرے ہوتے ہیں‘ سائز ان کمروں کا بے شک چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ فرنگی طرزِ تعمیر کی نقالی کا اثر یہ ہوا کہ رقبہ گھر کا...

کامیاب لیڈری کے چھ اصول

زندگی میں کچھ بننے کی کوشش کی مگر کامیابی اس کے مقدر میں نہ تھی!�بزنس شروع کیا۔ لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ دکانیں ڈالیں۔ ملازم رکھے۔ اشتہار دیے۔ مگر کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ تدریس میں منہ مارا مگر علم کا فقدان تھااس لیے پڑھانا ممکن نہ تھا۔ بینکاری میں بھی فیل ہو گیا۔ فوج میں جانے کا سوچا مگر ڈر کے مارے گھگی بندھ گئی۔ زراعت کا رُخ کیا مگر محنت کا عادی نہ تھا‘ سو ‘ منہ کی کھائی۔ویلڈنگ سیکھنے کی کوشش کی۔استاد نے دو دن کے بعد ہی نکال دیا۔صوفہ سازی کی طرف گیا مگر کچھ نہ سیکھ سکا۔ تنگ آکر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔حضرت صاحب اس کے خاندانی بزرگ تھے۔ہر مشکل وقت میں کام آتے۔ تعویذ دیتے۔ پڑھنے کے لیے کچھ بتاتے کبھی چلہ کٹواتے۔ زمین پر سلاتے۔ دنیا داروں کے ساتھ حضرت صاحب کا رات دن کا میل جول تھا۔ دنیا کی اونچ نیچ سے واقف تھے۔اس لیے مشورہ بھی صائب دیتے۔�دو زانو ہو کر اس نے روداد بیان کی کہ کہیں بھی کامیابی نصیب نہیں ہو رہی تھی۔ سب پیشے آزمائے۔ ہر کام کرنے کی کوشش کی۔ مگر بندش ایسی تھی کہ کسی جگہ کام بننے ہی نہیں دے رہی تھی۔ عرضِ مدعا کے بعد اس نے نذرانہ پیش کیا جسے حضرت صاحب نے کمال شفقت ...

……وعدہ خلافی کی تربیت

ساڑھے چار سالہ‘ سالار‘ کنارِ بحر الکاہل سے پاکستان آیا ہوا ہے۔ آنے کا یا لائے جانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس کی اردو شفاف تر ہو جائے۔�تارکینِ وطن کے مسائل پیچ در پیچ اور تہہ در تہہ ہیں۔ جو افراد پاکستان میں پیدا ہو کر‘ لڑکپن یا شباب میں ہجرت کر جاتے ہیں وہ آخری سانس تک وطن کی محبت میں تڑپتے رہتے ہیں۔ جسم نئے ملک میں مگر جان پاکستان میں! دماغ وہاں مگر دل وطن میں! سیاسی بحث میں پوائنٹ سکور کرنے کے لیے ہم کہہ تو دیتے ہیں کہ جہاں گئے ہو وہاں کی سیاست کی فکر کرو مگر سچ یہ ہے کہ ہجرت کے بعد وطن کی محبت میں تارکینِ وطن کی بھاری اکثریت سلگتی رہتی ہے‘ جلتی رہتی ہے اور کُڑھتی رہتی ہے۔ پاکستان میں رہنے والوں کے لیے اُس ناآسودگی کا تصور کرنا بہت مشکل ہے جس سے تارکین وطن کی پہلی نسل گزرتی ہے۔ ہم غریب اسے سمجھتے ہیں جس کے پاس مال و دولت نہ ہو‘ مگر غریب کااصل معنی یہ نہیں ہے۔ لغت میں غریب اُسے کہتے ہیں جو اپنے وطن سے دور ہو۔ دور افتادہ از وطن! ناآشنا‘اجنبی‘ خارجی! مزید تشریح کے لیے غریب الوطن کہتے ہیں! اس پہلی نسل کے کچھ لوگ‘ بہت کم‘ اس حسرت میں رہتے ہیں کہ ان کے بچے اپنی زبان‘ اپنی ثقافت اور اپنی ...

……تم بھی انتظار کرو! ہم بھی انتظار کرتے ہیں

2018ء کا الیکشن اڑتالیس سال میں پہلا الیکشن تھا جس میں مَیں گھر سے نکلا۔ پولنگ سٹیشن پہنچا۔ قطار میں کھڑا ہوا اور تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا۔ ہمارے حلقے سے اسد عمر صاحب امیدوار تھے۔ وہ جیتے اور ہمارے ایم این اے بنے۔ خیر رومانس بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ پہلا دھچکا بزدار صاحب کے انتخاب کا تھا۔ دوسرا بڑا دھچکا اُس دن لگا جب ایک سینئر پولیس افسر کو وزیراعلیٰ کے دفتر (یا گھر) طلب کیا گیا اور بزدار صاحب کی غیرمحسوس موجودگی میں سینئر پولیس افسر سے ''سوال و جواب‘‘ گجر صاحب نے کیے۔ میرے جیسے کم عقل انسان کے لیے یہ صورتِ حال ناقابلِ برداشت تھی اور ناقابلِ معافی بھی! کہاں عمران خان صاحب کے وعدے‘ دعوے اور مغربی ملکوں کی مثالیں اور کہاں ریاست کے ایک افسر پر گجر صاحب کی حکمرانی! آپ کا کیا خیال ہے برطانیہ امریکہ یا فرانس یا سنگاپور میں ایسا ہونا ممکن ہے؟�خیر‘ رومانس ریزہ ریزہ ہوتا گیا۔ اور بھی عوامل تھے۔ اکثر عوامل سے پڑھنے والے باخبر ہیں؛ تاہم تحریکِ انصاف کے کچھ لیڈر ایسے تھے جن کے حوالے سے دلِ خوش فہم کو‘ رومانس ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد بھی‘ کچھ خوش گمانیاں تھیں! اسد عمر صاحب بھی اُن میں س...