لکھنؤ سے سیالکوٹ اور فتح جنگ تک
قمر ہم جماعت تھا۔ مدت بعد ملا تو بینکار بن چکا تھا۔ میرا دفتر اسی سڑک پر تھا۔ دوپہر کا کھانا ہم اکٹھا کھاتے۔ پھر وہ ہجرت کرکے امریکہ چلا گیا۔ وہیں آسودۂ خاک ہے۔ یاد اُس کی یوں آئی کہ گھر‘ دوپہر کے کھانے میں‘ دال چاول پکے تھے۔ دفعتاً قمر کا چہرا آنکھوں کے سامنے آگیا۔ تھا وہ پنڈی گھیب کا! پتا نہیں‘ یہ رشتہ کیسے ہوا‘ کسی نے کرایا یا اُس کی اپنی پسند تھی۔ بہر طور شادی اس کی سمبڑیال میں ہوئی۔ جن کو نہیں معلوم‘ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سمبڑیال ایک قصبہ ہے‘ خاصا بڑا! وزیرآباد اور سیالکوٹ کے درمیان! شادی ہو گئی۔ کچھ دنوں بعد وہ امریکہ گیا تو بیگم کو پنڈی گھیب‘ اپنے آبائی گھر میں چھوڑ گیا۔ فیملی کو امریکہ بلانے کے مراحل طویل تھے اور صبر آزما! سمبڑیال کی لڑکی پنڈی گھیب میں آگئی۔ گھر میں قمر کے والد بھی تھے یعنی دلہن کے سسر۔ دلہن شام کو ابلے ہوئے چاول سسر کی خدمت میں پیش کرتی‘ ساتھ کبھی دال ہوتی‘ کبھی شلجم کا شوربہ‘ کبھی آلو گوشت‘ کبھی آلو کی بھُجیا۔ بڑے میاں نے تین چار دن تو یہ ''عجیب و غریب‘‘ عشائیہ زہر مار کیا مگر پانچواں دن تھا کہ چھٹا‘ صبر جواب دے گیا۔ انہوں نے ابلے ہو...