آئیے! میرے گھر پر قبضہ کیجیے!
ایک ایڈووکیٹ صاحب نے لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کے خلاف ایک درخواست دائر کی ہے۔ مدعی کی فریاد یہ ہے کہ حکومت‘ پی آئی اے کے اکاون فیصد حصص‘ اسلام آباد ایئر پورٹ کا کنٹرول اور پی آئی اے کا نیویارک والا ہوٹل‘ قطر کے حوالے کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ وزیراعظم صاحب نے دورۂ قطر کے دوران خود ہی طے کر لیا ہے۔ مدعی نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ اس سارے سودے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور یہ کہ اس سودے کو روکا جائے۔�جہاں تک پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا تعلق ہے‘ اس کی روایت ہی کہاں ہے؟ وزیراعظم صاحب کے برادرِ بزرگ اپنے تین ادوارِ حکومت میں کتنی بار پارلیمنٹ میں تشریف لائے اور کتنے اہم معاملات میں پارلیمنٹ کو شریک کیا؟ عمران خان صاحب کے دورِ حکومت میں پارلیمنٹ کی کیا اہمیت تھی؟ سارا کاروبارِ مملکت تو غیر منتخب مشیروں کا طائفہ چلارہا تھا۔ ویسے‘ پارلیمنٹ میں کسی کی ہمت ہے کہ اس قطر والے سودے کے بارے میں سوال ہی پوچھ لے؟ چیلنج کرنا تو دور کی بات ہے!�رہی یہ بات کہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے کا کنٹرول ایک دوسرے ملک کو دیا جا رہا ہے تو اگر حکومت ہوائی اڈہ نہیں چلا سکتی تو کیا کرے؟ ایئر لائن کا ح...