اشاعتیں

اگست, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

آئیے! میرے گھر پر قبضہ کیجیے!

ایک ایڈووکیٹ صاحب نے لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کے خلاف ایک درخواست دائر کی ہے۔ مدعی کی فریاد یہ ہے کہ حکومت‘ پی آئی اے کے اکاون فیصد حصص‘ اسلام آباد ایئر پورٹ کا کنٹرول اور پی آئی اے کا نیویارک والا ہوٹل‘ قطر کے حوالے کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ وزیراعظم صاحب نے دورۂ قطر کے دوران خود ہی طے کر لیا ہے۔ مدعی نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ اس سارے سودے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور یہ کہ اس سودے کو روکا جائے۔�جہاں تک پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا تعلق ہے‘ اس کی روایت ہی کہاں ہے؟ وزیراعظم صاحب کے برادرِ بزرگ اپنے تین ادوارِ حکومت میں کتنی بار پارلیمنٹ میں تشریف لائے اور کتنے اہم معاملات میں پارلیمنٹ کو شریک کیا؟ عمران خان صاحب کے دورِ حکومت میں پارلیمنٹ کی کیا اہمیت تھی؟ سارا کاروبارِ مملکت تو غیر منتخب مشیروں کا طائفہ چلارہا تھا۔ ویسے‘ پارلیمنٹ میں کسی کی ہمت ہے کہ اس قطر والے سودے کے بارے میں سوال ہی پوچھ لے؟ چیلنج کرنا تو دور کی بات ہے!�رہی یہ بات کہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے کا کنٹرول ایک دوسرے ملک کو دیا جا رہا ہے تو اگر حکومت ہوائی اڈہ نہیں چلا سکتی تو کیا کرے؟ ایئر لائن کا ح...

فرشتے بھی حیران ہوتے ہوں گے

آندھرا پردیش میں چوالیس‘بہار میں چوبیس‘ گوا میں پانچ‘ گجرات میں دس‘ہریانہ میں آٹھ‘ ہماچل پردیش میں نو‘ جموں اور کشمیر( مقبوضہ) میں آٹھ‘ کیرالہ میں بیالیس‘ مہاراشٹر میں دو سو چھہتر‘ تامل ناڈو میں انیس‘ تلنگانہ میں پچھتر۔ یہ ڈیم ہیں اور یہ صرف چند بھارتی ریاستوں کی فہرست ہے۔ ان میں سے نوّے فیصد سے زیادہ ڈیم وہ ہیں جو تقسیم کے بعد تعمیر ہوئے۔ کُل ڈیم پانچ ہزار سے زیادہ ہیں۔ اس ضمن میں چین اور امریکہ کے بعد بھارت کا دنیا میں تیسرا نمبر ہے۔ پاکستان میں کُل ڈیم ایک سو پچاس سے زیادہ نہیں!�ظاہر ہے یہ لازم نہیں کہ ایک ملک میں زیادہ ڈیم ہیں تو دوسرے ملک میں بھی اتنی ہی تعداد میں ہوں! بہت سے عوامل ہیں اور وجوہات‘ جو ڈیموں کی تعداد کا فیصلہ کرتی ہیں۔ بارشیں کتنی ہوتی ہیں؟ دریا کتنے ہیں؟ پہاڑوں سے پگھلی ہوئی برف اور گلیشیروں کا کتنا پانی نیچے اترتا ہے؟ زرعی ضرورت کتنی ہے ؟ یہ طے ہے اور اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں جتنے ڈیموں کی ضرورت تھی اور ہے‘ اتنے ڈیم بالکل نہیں تعمیر کیے گئے۔ بھارت کے ساتھ سندھ طاس کا جو معاہدہ ایوب خان کے عہد میں ہوا تھا اس کی رُو سے مشرقی دریا ( بیاس‘ ستلج...

اپنے اپنے تیمور

اپنے   اپنے   تیمور ایئر   پورٹ   سے   واپسی   پر   سب   سے   پہلے   نظر   اُس   بڑے   سے   شاپنگ   بیگ   پر   پڑی   جس   میں   وہ   اپنا  '' سامان ‘‘  ٹھونستا   رہا   تھا۔ اپنے   خیال   میں   وہ   اپنی   پیکنگ   کر   رہا   تھا۔   کانپتے   ہاتھوں   سے   شاپنگ   بیگ   کو   پکڑا۔   اندر   جھانکا۔   کھلونے،   ریموٹ   کنٹرول۔   رنگین   پنسلیں، ہائی   لائٹر،   خالی   ڈبّے،   بیٹریوں   کے   سیل،   پرفیوم   کی   ایک   خالی   شیشی،   مختلف   قسم   کی   چابیاں !  یہ   تھا   سامان   اُس   چھ   سالہ   مسافر   کا !  چھ   سالہ   تارکِ   وطن   کا !  وہ   مصر   تھا   کہ   اسے   ساتھ   لے   کر ...