اشاعتیں

جولائی, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

دو ارب ڈالر ماہانہ کہاں جا رہے ہیں؟

اُس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو دو وقت کی روٹی کے لیے صدقہ خیرات لیتا ہے مگر اپنے بیوی بچوں کو بھوکا رکھ کر‘ ان کی ضروریات کو نظر انداز کر کے‘ وہی صدقہ خیرات کسی اور کو دے دیتا ہے! نہیں معلوم آپ اسے احمق کہیں گے یا ظالم! مگر شاید اس کی حماقت‘ اس کا ظلم‘ ان دو القابات سے بھی بڑھ کر ہے!�وہ احمق‘ وہ ظالم کون ہے؟ وہ ہم ہیں! ہماری حکومت ہے! ہمارے پالیسی ساز ہیں! سنگدلی کی انتہا دیکھیے! پٹرول کی قیمت قوم کے سوکھے‘ نحیف جسم کو چیر کر آسمان تک جا پہنچی ہے! ڈالر دو سوپینتیس سے اوپر جا چکا ہے اور پاکستان اپنے محدود اور انتہائی کم زر مبادلہ کو خرچ کرکے افغانستان کے لیے اشیا درآمد کر رہا ہے۔یہ دہائی پاکستان کرنسی ڈیلرز ایسوسی ایشن  کے چئیرمین  ملک بوستان نے دی ہے۔ ہو کیا رہا ہے؟ انہوں نے بتایا ہے کہ افغانستان کے درآمد کنندگان اپنی ضروریات پاکستان کو بتاتے ہیں۔ پاکستان کے امپورٹرز ان کی ضروریات ڈالر دے کر دوسرے ملکوں سے منگواتے ہیں۔ اس میں چائے سمیت بہت سی اشیا شامل ہیں۔ یہ اشیا افغانستان کو بھیجی جاتی ہیں۔ تو کیا افغانستان یہ اشیا پاکستان سے ڈالر دے کر خریدتا ہے؟ نہیں! پاکستان نے...

It is not the end of the world

کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں! شمالی علاقوں پر نظر دوڑائیے۔ سیاحوں کی جنت! کوہ پیماؤں کی پناہ گاہ! برفانی چوٹیاں شہزادیوں کی طرح کھڑی مسکرا رہی ہیں! دریا بہہ رہے ہیں! جھیلیں موتیوں کی طرح جگہ جگہ ٹانک دی گئی ہیں۔ پھلوں کی بہتات ہے! فطرت نے سارا حسن ان علاقوں میں انڈیل دیا ہے! ہمارے پاس ریگستان ہیں۔ شتربان‘ حدی خوانی کرتے ہوئے ان صحراؤں کو پامال کرتے ہیں۔ سمندر ہے۔ گرم پانیوں والا سمندر! جس کی آرزو میں کئی ملک تڑپ رہے ہیں! ہمارے پاس افرادی قوت ہے! بے پناہ ٹیلنٹ ہے! پاکستانی پوری دنیا میں کام کے لحاظ سے اعلیٰ ریٹنگ پاتے ہیں! ہمارے ڈاکٹر‘ ہمارے انجینئر‘ ہمارے سائنسدان‘ ہمارے پروفیسر‘ ہمارے مزدور‘ ہر ملک میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں! ہماری خواتین سول سروس میں‘ بینکاری میں‘ تعلیم کے شعبے میں‘ بزنس میں‘ مسلح افواج میں قابلِ رشک کارنامے سرانجام دے رہی ہیں! ہمارے کسان زمین سے سونا اگاتے ہیں! کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں! تو پھر یہ کون سی نحوست ہے جو ہم پر چھائی ہوئی ہے؟ کیا ہمارے ستارے گردش میں ہیں؟ کیا ہمیں کسی کی بد دعا ہے؟ کیا ہم پر بد روحوں کا سایہ ہے؟ کیا قدرت ہم سے ناراض ہے؟ بنی اسرائیل تو چال...

عمران خان کی مقبولیت کے کچھ اسباب …(2)

عمران خان کی مقبولیت کے جن اسباب پر ہم نے گزشتہ کالم میں بحث کی ہے‘ ان کا اطلاق ان کے تمام حمایتیوں پر نہیں ہوتا۔ ان کے بہت سے حمایتی ایسے ہیں جو ان کی غلطیوں‘ کمزوریوں اور وعدہ خلافیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں! یہ حمایتی فین کلب کے ممبر ہیں نہ اندھے پیرو کار‘ یہ مانتے ہیں کہ جو امیدیں عمران خان سے باندھی گئی تھیں‘ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ درست ہے کہ مجبوریاں اور Limitationsبہت تھیں مگر عمران خان کے بہت سے ایسے اقدامات ہیں جن کا یہ حمایتی ہر گز دفاع نہیں کرتے!بزدار کی تعیناتی‘ دوست نوازی‘ فنڈز جمع کر کے دینے والوں میں عہدوں کی تقسیم‘ چینی اور دواؤں کی قیمت میں اچانک اضافہ‘ انتقام کی آگ‘ نیب چیئر مین کی مبینہ بلیک میلنگ‘ لوٹوں کو جمع کرنے کے لیے جہانگیر ترین کے جہاز کا وسیع استعمال‘فرح صاحبہ کے مسائل ‘چالیس ارب روپے کی رقم کارخ ملک ریاض کی طرف موڑنا‘ طیبہ فاروق کو مبینہ طور پر محبوس رکھنا‘ اور بہت سے دوسرے اقدامات اور بہت سے وعدوں سے انحراف! ان سب اقدامات کو یہ حمایتی ناروا گردانتے ہیں۔خاص طور پر جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا اور جسے چپڑاسی بنانے کے قابل بھی نہ سمجھا‘ انہیں بلند اور قا...

عمران خان کی مقبولیت کے کچھ اسباب

زرداری صاحب کی خواہش ہے کہ وہ بلاول کو وزیراعظم بنتا دیکھیں۔ میاں نواز شریف یہی خواب مریم بی بی کے بارے میں دیکھ رہے ہیں۔ چھوٹے میاں صاحب ایسے ہی خواب کی تعبیر پا بھی چکے ہیں کیونکہ حمزہ شہباز کا نام تاریخ میں چیف منسٹر پنجاب کے طور پر آچکا ہے۔ رہے شریف برادران خود‘ تو دونوں کئی کئی بار وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ بڑا بھائی وفاق میں تو چھوٹا پنجاب میں حکمران رہا اور دونوں بیک وقت رہے۔ اب شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر بیٹھ کر تاریخ کا ایک دائرہ مکمل بھی کر لیا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے خاندان سے نکلنے کو تیار نہیں۔ دونوں پارٹیوں میں بڑے بڑے جہاندیدہ اور لائق سیاستدان موجود ہیں۔ رضا ربانی‘ کائرہ صاحب‘ ندیم افضل چن‘ شیری رحمن‘ سید خورشید شاہ‘ شہلا رضا۔ خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ احسن اقبال‘ شاہد خاقان عباسی‘ صدیق الفاروق‘ مفتاح اسماعیلُ‘ اقبال ظفر جھگڑا‘ مہتاب عباسی۔ ظاہر ہے یہ فہرست مکمل نہیں۔ تعجب ہے کہ ان میں سے کوئی اس قابل نہیں کہ بلاول‘ حمزہ اور مریم کی جگہ لے سکے! اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خلقِ خدا ان خاندانوں سے اور ان کی بادشاہت سے اُکتا چکی ہے۔ اس قدر اُکتا چکی ہے ...
تلخ نوائی ………یہ بھی پاکستان ہے! مارشل لا آئے اور گئے۔ جمہوری حکومتیں آئیں اور گزر گئیں۔ بے نظیر‘ شریف برادران‘ زرداری سب ایک ایک کرکے حکمرانی کر گئے۔ عمران خان بھی چار سال تخت پر بیٹھ کر چلے گئے۔ ہمارے گاؤں جیسے تھے‘ ویسے ہی رہے۔�آج ہی اپنی کئی بستیوں سے ہو کر آیا ہوں۔ وہی کچّی گلیاں! نالیوں کے بغیر! پانی سے بھری ہوئیں! وہی ٹوٹی ہوئی گرد اڑاتی سڑکیں! وہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ چلچلاتی دوپہریں! وہی سکول جن کی دیواریں ہیں تو چھتیں نہیں ہیں اور چھتیں ہیں تو استاد نہیں ہیں! ہر طرف کوڑے کرکٹ کے ڈھیر! پینے کے صاف پانی کی کمیابی! علاج معالجے کی سہولتوں کا مکمل فقدان! سینکڑوں سال سے یہ گاؤں اسی طرح ہیں۔ کیا عجب آئندہ کئی سو برس تک ایسے ہی رہیں! جہاں بجلی اور پانی نہیں‘ وہاں انٹرنیٹ کا کیا سوال! فتح جنگ تک تو سی پیک کی مغربی شاہراہ کام آجاتی ہے! اس کے بعد سڑک کے نام پر اذیت بچھی ہے! بے پناہ اذیت! ڈھرنال جانا ہے یا کھوڑ! مٹی‘ کنکر اور بجری کے ملغوبے سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ کہیں سڑک کھدی پڑی ہے کہیں کھڈوں سے بھر پور! مستقبل کا کوئی روڈ میپ بھی نہیں نظر آرہا۔ یہ مضافات کی شاہراہیں ہیں جن پر وزی...

میں نے تیرا ساتھ دیا ؍ میرے منہ پر کالک مل

ہر سال تین ملین ‘ یعنی تیس لاکھ‘ ٹن گندم پاکستان سے افغانستان کو سمگل ہو تی ہے!یہ بات قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خوراک کے اجلاس میں ایک انتہائی قابلِ اعتبار ذریعہ نے بتائی ہے! مگر کیا افغانستان کو صرف گندم سمگل ہوتی ہے ؟ یہ وہ مقام ہے جس پر ہنسی بھی آتی ہے اور گریہ بھی !! تو کیا باقی اشیائے ضرورت ‘ باقی لوازمات‘ افغانستان خود پیدا کرتا ہے؟ افغان ‘ افغانی پلاؤ میں چاول استعمال کرتے ہیں۔یہ ان کا من بھاتا کھاجا ہے؟ کیا چاول وہاں اُگتا ہے؟ کیا وہاں سیمنٹ ‘ چینی اور گھی کے کارخانے قائم ہیں؟ یقیناً میرے پڑھنے والوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مجھ سے زیادہ دنیا دیکھی ہو گی۔ کیا ان کو کسی ملک میں افغانستان کی بنی ہوئی کوئی شے دکھائی دی؟ کوئی جراب‘ کوئی بنیان‘ کوئی تولیہ‘ کوئی جوتا کوئی پنسل؟ کوئی کاپی؟ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں ‘ جو نہیں جانتے‘ وہ جان لیں اور اچھی طرح جان لیں کہ افغانستان کی تمام اشیائے ضرورت ‘ الف سے لے کریے تک پاکستان مہیا کرتا ہے۔ اور ان اشیائے ضرورت کی اکثریت‘ افغانستان کو قانونی طور پر بر آمد نہیں ہوتی بلکہ غیرقانونی طور پر سمگل ہوتی ہے۔ میرے سامنے اس وقت زر...

چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سیالکوٹ کی خدمت میں

سیالکوٹ کے امیر صنعتکاروں کو معلوم ہی نہیں کہ سیالکوٹ شہر میں اس گلی کا بھی وجود ہے۔ حکومتوں کو اس گلی کے بارے میں معلوم ہے مگر یہ اُن کی ترجیحات میں شامل نہیں! اصلاً ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے لیکن اُسے فرصت ہی نہیں کہ صوبے کی توقیر بڑھانے والے کام کرے۔ رہی وفاقی حکومت تو اُس کے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ مسئلے کو صوبائی حکومت کی ذمہ داری قرار دے ڈالے۔ منڈی میں عقل ملتی ہے نہ احساس‘ ورنہ پاکستانی عوام چندہ جمع کرتے اور ان حکومتوں کو یہ دونوں آئٹم خرید دیتے! سیالکوٹ کی یہ گلی اندرونِ شہر واقع ہے۔ اس گلی میں جانے سے پہلے بازار کھٹیکاں عبور کرنا ہوتا ہے۔ عبور کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ بازار کھٹیکاں میں ایک سمندر عبور کرنا پڑتا ہے۔ یہ سمندر پانی پر نہیں‘ موٹر سائیکلوں پر مشتمل ہے۔ اقبال منزل‘ جہاں علامہ اقبال پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے‘ ایف اے تک تعلیم حاصل کی‘ شادی ہوئی‘ جاوید اقبال اور دوسرے بچے پیدا ہوئے‘ اس قبال منزل کے ارد گرد تین محلے ہیں۔ بازار کھٹیکاں‘ کشمیری محلہ اور محلہ چُوڑی گراں! یہ ساری جگہ تنگ گلیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں رہنے والے لوگ گاڑیاں نہیں رکھتے کیونکہ گاڑیاں ان تن...

سو سال بعد

وہ جو1922ء میں پیدا ہوئے‘ ان میں سے آج کتنے موجود ہیں؟ �1932ء میں جو پیدا ہوئے ان میں سے کچھ افراد اس وقت زندہ ہوں گے۔ اس حکمت پر غور کیجیے کہ ایک وقت میں پیدا ہونے والے سب لوگ ایک وقت میں ختم نہیں ہوتے۔ یہ آہستہ آہستہ رخصت ہوتے ہیں۔ کچھ ساٹھ سال کی عمر میں! کچھ ستر یا اس سے زیادہ کی عمر میں! کچھ بچپن‘ لڑکپن اور شباب کے دوران گزر جاتے ہیں۔ یوں زمانے کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ نئی نسل کو‘ گزشتہ حالات سے روشناس کرانے والے موجود رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ سب ایک ایک کر کے‘ آہستہ آہستہ جاتے ہیں۔ اس طرح بہت کچھ نئی نسل کو منتقل ہو جاتا ہے۔ لباس اور خوراک کا تسلسل بھی جاری رہتا ہے۔ آج جو ساٹھ یا ستر سالہ شخص دنیا سے گیا ہے‘ اس کے لباس اور اس کے بیٹے یا پوتے کے لباس میں کچھ خاص فرق نہیں۔ مگر جب بیٹا دنیا سے رخصت ہوگا اس وقت کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور رو نما ہو چکی ہو گی۔ بیٹے کا پوتا اپنے پردادا کے لباس سے مختلف لباس پہنے گا۔ میرے دادا جان ہمیشہ تہمد باندھتے تھے۔ سفر میں بھی اور گھر میں بھی! نانا جان شلوار پہنتے تھے مگر بہت کم! آج دو نسلوں کے بعد تہمد تقریباً معدوم ہو چکا! میں اس لیے بنگالی لُنگی استعمال...

و ما علینا الا البلاغ

ہم لاکھ اختلاف کریں مگر عمران خان کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ شریف خاندان کا سب کچھ ملک سے باہر ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بڑے میاں صاحب اصلاً لندن کے ہیں۔ پاکستان محض ان کا کیمپ آفس ہے یا دیہی قیام گاہ ! لندن کی زندگی کے وہ اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اب‘ بظاہر‘ ان کا پاکستان میں رہنا مشکل لگتا ہے۔ جب وہ وزیر اعظم تھے تب بھی ان کے لندن کے دورے بہت زیادہ ہوتے تھے۔ نہ صرف بر صغیر پاک و ہند میں‘ بلکہ سارے عالم اسلام میں یہ رواج ہے کہ عید اپنے آبائی وطن میں منانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لندن میاں صاحب کا آبائی وطن تو نہیںنیا وطن ضرور ہے‘ اگر حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد‘ واحد عید جو انہوں نے پاکستان میں کی‘ جیل میں کرنا پڑی! ورنہ ہر عید پر وہ لندن میں ہوتے تھے۔ جب وہ پرویز مشرف کے عہد میں جدہ گئے تو اس وقت جانے کا ایک جواز تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح جیل سے نکلنا چاہتے تھے۔ مگر جب نومبر2007ء میں وہ پاکستان واپس آئے تو اس کے بعد ان کا لندن یاترا کا جو رجحان رہا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لندن ان کے دل میں گھر کر چکا تھا۔ 2013ء میں حکومت میں آنے کے بعد اس رجحان میں تیزی آ...

Insult

میرا مسئلہ نواز شریف ہیں نہ زرداری ! مولانا ہیں نہ شہباز شریف! ان سے تو میں کبھی کا بر گشتہ خاطر تھا۔کبھی الیکشن میں انہیں ووٹ نہیں دیا۔ہمیشہ مخالفت کی۔ میں ایک عام آدمی ہوں۔میری کیا اہمیت ہے! میں کسی کھیت کی مولی نہیں! میرے ووٹ دینے یا نہ دینے سے پیپلز پارٹی کو یا (ن) لیگ کو یا جے یو آئی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ مگر میں اپنی پوزیشن واضح کر رہا ہوں اور بقائمی ہوش و حواس ‘ خدا کو حاضر ناظر جان کر کہہ رہا ہوں کہ ان میں سے کسی کو کبھی ووٹ نہیں دیا۔ (ن) لیگ کی تو ڈٹ کر مخالفت کی۔ یہاں تک کہ ان کے ایک وزیر نے اُس زمانے میں ( یعنی اگست2018ء سے پہلے) ایک ٹی وی ٹاک شو والوں کو میرے بارے میں کہا کہ اس جیسے ہارڈ لائنر کو بلا لیتے ہیں۔ جب بڑے میاں صاحب وزیر اعظم تھے اور کارِِ سرکار میں ان کی دختر نیک اختر کا عمل دخل بہت زیادہ تھا ‘ تو اس مداخلت کی بھی مخالفت کی۔ جب چھوٹے میاں صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور ان کے صاحبزادے صوبے کی حکومت چلانے میں دخیل تھے تو اس پہلو کے خلاف بھی لکھا اور بولا۔ ان سیاسی جماعتوں پر مخصو ص خاندانوں کی موروثی گرفت کے خلاف بھی بہت کہا اور بہت لکھا۔ جب ان جماعتوں سے کوئی ا...