بازی بازی‘ با ریش بابا ہم بازی!
اُس عقلمند شخص کا قصہ کم و بیش سبھی نے سنا ہوا ہے جو درخت کی ٹہنی پر بیٹھا‘ اسی ٹہنی کو کاٹ رہا تھا۔ یکی بر سرِ شاخ و بن می برید اس کا متبادل محاورہ ہمارے ہاں یہ بھی ہے کہ جس تھالی میں کھانا‘ اسی میں چھید کرنا! سیاسی اختلاف کی بنیاد پر عساکر کے پورے ادارے کو جو اپنی بدزبانی کا ہدف بنا رہے ہیں ان پر افسوس اور رحم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اول تو کسی بھی پاکستانی کو زیب نہیں دیتا کہ افواجِ پاکستان کے خلاف یاوہ گوئی کرے۔ اور پھر وہ افراد اور کنبے جو اسی ادارے سے پنشنیں وصول کر رہے ہیں‘ انہیں تو بالکل ایسا نہیں کرنا چاہیے! کیا ہے جو اس ادارے نے آپ کو نہیں دیا؟ عزت‘ نام‘ ایک آرام دہ زندگی! پھر آپ کیوں اس کے درپے ہو رہے ہیں؟ پہلے یہ شکوہ تھا کہ ادارے اپنی حدود و قیود سے باہر نکل جاتے ہیں۔ اب جب حالات نے کروٹ بدلی ہے اور ادارے عوام کی خواہش کے مطابق‘ اپنی آئینی حدود کے اندر رہنے کا عزم کر چکے ہیں تو آپ دہائی دینے لگ پڑے ہیں! آرام دہ محلات میں رہ کر تنقید کرنا سہل ہے۔ زبانی جمع خرچ میں جاتا ہی کیا ہے! جان کو ہتھیلی پر رکھنا اور مورچوں میں زندگی گزارنا دوسری بات ہے! برفانی چوٹیوں پر‘ جہاں جسم کا...