اشاعتیں

جون, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

بازی بازی‘ با ریش بابا ہم بازی!

اُس عقلمند شخص کا قصہ کم و بیش سبھی نے سنا ہوا ہے جو درخت کی ٹہنی پر بیٹھا‘ اسی ٹہنی کو کاٹ رہا تھا۔ یکی بر سرِ شاخ و بن می برید اس کا متبادل محاورہ ہمارے ہاں یہ بھی ہے کہ جس تھالی میں کھانا‘ اسی میں چھید کرنا! سیاسی اختلاف کی بنیاد پر عساکر کے پورے ادارے کو جو اپنی بدزبانی کا ہدف بنا رہے ہیں ان پر افسوس اور رحم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اول تو کسی بھی پاکستانی کو زیب نہیں دیتا کہ افواجِ پاکستان کے خلاف یاوہ گوئی کرے۔ اور پھر وہ افراد اور کنبے جو اسی ادارے سے پنشنیں وصول کر رہے ہیں‘ انہیں تو بالکل ایسا نہیں کرنا چاہیے! کیا ہے جو اس ادارے نے آپ کو نہیں دیا؟ عزت‘ نام‘ ایک آرام دہ زندگی! پھر آپ کیوں اس کے درپے ہو رہے ہیں؟ پہلے یہ شکوہ تھا کہ ادارے اپنی حدود و قیود سے باہر نکل جاتے ہیں۔ اب جب حالات نے کروٹ بدلی ہے اور ادارے عوام کی خواہش کے مطابق‘ اپنی آئینی حدود کے اندر رہنے کا عزم کر چکے ہیں تو آپ دہائی دینے لگ پڑے ہیں! آرام دہ محلات میں رہ کر تنقید کرنا سہل ہے۔ زبانی جمع خرچ میں جاتا ہی کیا ہے! جان کو ہتھیلی پر رکھنا اور مورچوں میں زندگی گزارنا دوسری بات ہے! برفانی چوٹیوں پر‘ جہاں جسم کا...

کیا عمران خان کا دوسرا عہدِ حکومت پہلے سے مختلف ہو گا ؟؟

نوجوان پڑھا لکھا تھا۔ سنجیدہ‘ متین اور با ادب !�اسی نے وہ موضوع چھیڑا جس سے میں ہر ممکن گریز کرتا ہوں۔ یعنی سیاست! وہ جو اکبر الہ آبادی نے کہا تھا �مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں�فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں�تو ‘اس فارمولے کا اطلاق اب سیاسی بحث پر بھی ہوتا ہے۔ دونوں فریق پانی میں خوب مدھانی چلاتے ہیں۔ اگر نوجوان باادب اور متین نہ ہوتا تو میں طرح دے جاتا مگر اس کے سوال کا جواب دیا۔ یوں بات لمبی ہو گئی۔ ایک مقام پر میں نے مشورہ دیا کہ عمران خان صاحب کو فرح صاحبہ کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے اور اس خاتون کو ملک میں واپس آکر قانون کا سامنا کرناچاہیے۔ اس کا جواب اس نوجوان نے یہ دیا کہ آپ مقصود چپڑاسی اور ایان علی کی بات کیوں نہیں کرتے !�یہ ہے المیہ تحریک انصاف کا! وہ فوراً عمران خان کو خود ہی ان سیاست دانوں کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں جنہیں عمران خان رات دن صبح شام اٹھتے بیٹھتے چور کہتے ہیں ! بجائے اس کے کہ وہ فرح صاحبہ والی بات کا جواب دیں ‘ ایان علی اور مقصودچپڑاسی کو آگے کردیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس فرح صاحبہ ہیں تو کیا حرج ہے‘ آخر ان کے ہاں مقصود...

گروی قوم رکھی جارہی ہے‘ حکمران نہیں !!!

اس قوم کی قسمت بھی عجیب ہے۔جب بھی گرتی ہے پہلے سے زیادہ اونچے آسمان سے گرتی ہے اور پہلے گاسے زیادہ مشکل کھجور میں اٹکتی ہے۔ مانیکا اور گجر خاندانوں سے جان چھوٹی تو نئے خاندان اس بھوکی ننگی‘ قلاش‘ بے بس‘ بے کس قوم پر حکمرانی کرنے کے لیے آگئے۔ ایک وفاقی وزیر کے ملازموں اور گارڈز نے جو کچھ کیا ہے ‘ اس کی وڈیو تا دم تحریر لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔ایک وزیر کا کھانا لینے کے لیے ایک نہیں کئی گاڑیاں ریستوران کے باہر کھڑی ہیں۔ ان گاڑیوں نے راستہ بلاک کر رکھا ہے۔ دوسرے گاہکوں اور ان کی فیملیوں کے لیے راستہ بند ہے۔ چونکہ یہ ون وے ہے اس لیے ان گاہکوں اور فیملیوں کو ‘ ون وے کی خلاف ور زی کر کے ‘ گھوم کر‘ دوسری طرف سے آنا پڑ رہا ہے۔ ان گاڑیوں سے بندوق بردار گارڈ اتر کر‘ بندوقیں تانے‘ ریستوران کے سامنے مختلف جگہوں پر کھڑے ہیں۔ ان میں وردیاں پہنے سرکاری سپاہی بھی ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ انہیں کچھ کہے۔ گاڑیاں بھی سرکاری ہیں۔ یہ سب بڑی گاڑیاں ہیں جیسے ڈبل کیبن! مبینہ طور پر آدھ گھنٹے سے ‘ یا جتنی دیر سے اندر کھانا تیار ہو رہا ہے‘ یہ گاڑیاں سٹارٹ ہیں یعنی انجن چل رہے ہیں۔ یہ سارا پروٹوکول‘ وزیر کا ...

گردن بھی ان شاء اللہ ٹوٹ جائے گی

بستی میں داخل ہوتے ہوئے جو گھر سب سے پہلے پڑتا تھا اس کا دروازہ تھا نہ بیرونی دیوار۔ سامنے صحن نظر آتا تھا۔ صحن کے درمیان میں دھریک کے درختوں کا جھنڈ تھا۔ اُن دھریکوں کے نیچے‘ چارپائی پر ایک بابا پڑا رہتا تھا۔ نیم دراز‘ سرہانے سے ٹیک لگائے ہوئے۔ عینک کی دونوں کمانیوں پر دھجیاں لپیٹی ہوئیں۔ اس کے ہاتھ میں ایک سرسبز شاخ ہوتی تھی جس سے وہ مکھیاں اڑاتا رہتا تھا۔ یاد نہیں کہ کبھی اس کے پاس گاؤں کا کوئی آدمی بیٹھا ہوا ہو۔ نہیں معلوم اس کی عیادت کے لیے کوئی آتا تھا یا نہیں۔ ہو سکتا ہے جو دائمی طور پر چارپائی کے ساتھ لگ جائے‘ اس کی عیادت کو لوگ نہ آتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے دو تین بار آتے ہوں پھر آنا چھوڑ دیتے ہوں! گاؤں کے ایک اور بابا جی یاد آ رہے ہیں۔ دراز قد۔ اونچا شملہ! اس زمانے میں یونین کونسل کا ممبر ہونا بڑی بات تھی۔ وہ اپنی یونین کونسل کے ممبر تھے یا شاید سربراہ! کئی کئی دن سفر میں رہتے۔ علاقے بھر میں نام تھا۔ قسمت کا پھیر کہ بیمار ہو گئے۔ بیماری بھی فالج کی! اٹھارہ سال بستر پر رہے۔ سوائے گھر والوں کے اتنا عرصہ کون عیادت کرتا! تیمارداری اور عیادت! یوں کہیے کہ باقاعدہ سائنس ہے! تی...

فادرز ڈے

تو پھر ہم کیا کریں؟ کہاں جائیں ؟ فادرز ڈے آتا ہے تو اعتراض ہوتا ہے کہ یہ مغربی رسم ہے۔ ہمیں تو اپنے اپنے والد کو ہر روز یاد کرنا چاہیے! برسی مناتے ہیں تو کچھ حضرات بہت خلوص اور دلسوزی سے نصیحت کرتے ہیں کہ یہ جائز نہیں! ہم عقائد اور عقائد کی بنیاد پر اختلافات میں نہیں پڑتے نہ ہم اس کے اہل ہیں! بات صرف اتنی ہے کہ یہ سب یاد کرنے کے بہانے ہیں ! اور رفتگاں کو یاد کرنے کا جو بہانہ ہو ‘ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے! یہ درست ہے کہ ہر روز یاد کرنا چاہیے۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے ؟ زندگی کی مصروفیات نے ہر ایک کو باندھ رکھا ہے۔ ہر شخص جکڑا ہوا ہے۔ ہاں وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو ہر نماز کے بعد دعا کرتے ہیں: رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا۔''اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا تھا‘‘۔ اور نماز کے علاوہ بھی کثرت سے یہ دعا کرتے ہیں اور اس کا مطلب سمجھ کر کرتے ہیں ! اگر فادرز ڈے پر ایک بیٹا یا بیٹی اپنے باپ کو کوئی تحفہ دے دے ‘ ملبوس‘ یا کوئی کتاب یا اس کی کوئی پسندیدہ شے ‘ تو اس میں کیا حرج ہے ؟ چلیے! مان لیا کہ یہ رواج مغرب سے آیا ہے ! تو جو کیلنڈر ہم استعمال کر رہے ہیں وہ ...

اُس دن کیا ہوا تھا؟

تین دسمبر2019ء بظاہر ایک عام سا دن تھا۔ بہت سے دوسرے دنوں کی طرح! اس دن بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معمول کے کام ہوتے رہے۔ سرکاری دفاتر کھلے تھے۔ نجی شعبہ مصروفِ عمل تھا۔ سکولوں میں بچے پڑھ رہے تھے۔ کسان کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ مزدور کارخانوں میں مشقت کر رہے تھے۔ بظاہر یہ دن ہر گز غیرمعمولی نہیں تھا مگر اس دن ایک ایسا کام ہوا جس نے اس ملک کی قسمت پر مہر لگا دی! اُس دن یہ طے ہو گیا کہ سیاست دان کتنے قابلِ اعتماد ہیں! اُس دن یہ فیصلہ ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اور سب کچھ ہوگا‘ مگر جمہوریت نام کی کوئی چڑیا نہیں پائی جاتی۔ اُس دن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وفاقی کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ بڑے بڑے بارعب اراکین اس کابینہ کے ممبر تھے۔ ان کے جسموں پر لباسِ ہائے فاخرہ تھے۔ وہ جہازی سائز کی شاندار گاڑیوں سے اترے تھے۔ ان کی قیمتی کاروں پر قومی پرچم لہرا رہے تھے۔ ان گاڑیوں میں پٹرول سرکاری خزانے سے بھرا گیا تھا۔ باوردی ڈرائیور تھے۔ یہ معزز اراکین کابینہ میٹنگ کے دوران منرل واٹر پیتے تھے۔ وہی منرل واٹر جو ملک کی 95فیصد آبادی کی استطاعت سے باہر ہے۔ یہ وزیر کل نہیں پیدا ہوئے تھے‘ ان ...

تجھ کو پرائی کیا پڑی

تجھ کو پرائی کیا پڑی  عامر لیاقت چلے گئے۔ہماری روایت کے اعتبار سے کسی مرحوم کے عیوب اور ذاتی زندگی کے معاملات پر بات نہیں کی جاتی۔ کرنی بھی نہیں چاہیے۔مگر ایسے کام جو معاشرے کو منفی رخ دے دیں‘ زیر بحث لانے ہی پڑتے ہیں اور لانے چاہئیں تاکہ جو زندہ لوگ ایسے کام کر رہے ہیں‘ عبرت پکڑیں اور باز آجائیں۔ عامر لیاقت کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے رمضان ٹرانسمیشن متعارف کرائی۔ اس خراجِ تحسین پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ انا للہ و انا الیہ راجعون! یہ رمضان ٹرانسمیشن نہیں تھی‘ اللہ کے بندو! یہ ریٹنگ کے لیے مذہب کا استعمال تھا۔ وہ دعا جس کے بارے میں ہدایت کی گئی کہ ادعواربکم تضرعا وخفیۃ انہ لایحب المعتدین اپنے رب کو عاجزی اور چپکے سے پکارو‘ اسے حد سے بڑھنے والے پسند نہیں آتے۔ (7:55) اس دعا کو کیمرے کی نذر کر دیا گیا۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ دعا ختم کرتے ہی جب کیمرہ ہٹا تو موصوف نے‘ پروڈیوسر سے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ کیسی تھی پرفارمنس؟ اس کے بعد تو جیسے پھاٹک کھل گیا۔ ہر پرفارمر‘ ہر اینکر رمضان میں لبادہ پہن کر بازار میں آگیا۔ پاپی پیٹ بھی کیا کیا کراتا ہے! اور انسان کیسے کیسے ...

یہ بات مگر کون سنے ؟ لاکھ پکارو

کہنے کو یہ صرف فلُو تھا یا پرانی زبان میں زکام! کہنے کو صرف ناک بند تھی۔ صرف گلے میں خراش تھی۔صرف کھانسی تھی۔ صرف چھینکیں مسلسل آرہی تھیں۔ صرف آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ صرف اُٹھا نہیں جا رہا تھا۔ کہنے کو یہ کوئی خاص بیماری نہیں تھی۔ مگر یوں لگتا تھا کہ اذیت کا ایک کارخانہ چل رہا ہے جس میں جسم پھینک دیا گیا ہے! یہی تلوّن ہے انسان کا جس کا ذکر کیا گیا گیا ہے کہ تکلیف پہنچتی ہے تو چلااٹھتا ہے۔ جب تندرست ہوتا ہے اور نَین پران نروئے ہوتے ہیں تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔سوچتا بھی نہیں کہ صرف فلو جیسی بظاہر معمولی تکلیف سے جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔لباسِ فاخرہ اتار دے گا۔ سواری اور کوچوان کو بھول جائے گا۔وہ سارے کام جو سر پر سوار کیے ہوئے تھے‘ ترجیحات سے نکل جائیں گے۔اور پھر کمزور دل‘ جذباتی اور شاعرانہ مزاج والا تو بستر پر لیٹ کر کیا کیا سوچتا ہے۔ مینڈا جی دلیلاں دے وات وے! اور ایسی ایسی باتیں کرتا ہے کہ گھر والے تو بہ توبہ کرتے ہیں۔سب کچھ ہیچ نظر آتا ہے۔ اگر قدرت انسان کو کبھی کبھی بیمار نہ کرے تو پتا نہیں یہ بے وقوف مخلوق اپنے آپ کو کیا سمجھنے لگے۔ حالت اس کی یہ ہے کہ چلتے چلتے پاؤں...

………جو بویا ہے‘ وہی کاٹ رہے ہیں

یہ کئی سال پہلے کی بات ہے! ایک ٹیلیفون آیا: '' میں جہلم سے خبیب مرزا بول رہا ہوں!‘‘ �اس کے بعد خبیب مرزا نے میرے کالموں کے بارے میں گفتگو کی اور ایسی گفتگو جیسے کوئی ماہر نقاد یا تجزیہ کار کرتا ہے۔ صرف میری ہی نہیں‘ اسے بہت سے کالم نگاروں کی تحریریں پڑھنے کی عادت تھی! عادت یا خبط! �اس کے بعد دن گزرتے رہے۔ وہ کرم فرمائی کرتا اور کبھی کبھی فون کر لیتا۔ ان دنوں مجھے ایک کتاب کی تلاش تھی۔ محمد حسین ہیکل کی مشہور کتاب ''عمر فاروق اعظمؓ‘‘ جس کا ترجمہ حکیم حبیب اشعر دہلوی نے کیا تھا‘ “ مکتبہ   میری لائبریری لاہور “نے 1987ء میں چھاپی تھی۔ اب یہ مکمل طور پر نایاب تھی۔ کسی پبلشر نے اس کے بعد اسے شائع نہیں کیا تھا۔ ایک دن کسی نے ذکر کیا کہ یہ کتاب جہلم سے ایک بار پھر چھپی ہے۔ سن کر تعجب ہوا۔ کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد سے نہیں‘ بلکہ جہلم سے! کبھی سنا ہی نہیں تھا کہ جہلم میں بھی کتابیں چھپتی ہیں۔ اور وہ بھی ایسی کتابیں! محمد حسین ہیکل اور حبیب اشعر جیسی شخصیات کی! ایک نابغہ! دوسرا عبقری! خبیب مرزا سے پوچھا کہ جہلم میں کس نے چھاپی ہے یہ؟ اس نے اس سوال کا تو جواب نہیں دیا‘ کہنے لگا: آپ ...

چھلنیوں کے سوراخ تنگ تر ہو رہے ہیں

! چالیس فیصد کٹوتی؟ نہیں جناب وزیراعظم! نہیں! ایسا نہ کیجیے! اللہ سے ڈریے! چالیس فیصد نہیں‘ سو فیصد کٹوتی کیجیے! چالیس فیصد کٹوتی کا مطلب ہے کہ جسے تین سو لٹر پٹرول سرکار کی طرف سے مفت مل رہا تھا‘ اب اسے ایک سو اسی لٹر ملے گا جس کی قیمت 37800 روپے بنتی ہے جو صرف ایک مہینے کا خرچ ہے۔ سال کا خرچ ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ ہوگا۔ بہت سوں کو ماہانہ پانچ سو لٹر مفت پٹرول ملتا ہے۔ چالیس فیصد کٹوتی کا مطلب ہے کہ انہیں اب تین سو لٹر مفت ملے گا جس کی سالانہ قیمت ساڑھے سات لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ ہزاروں افراد کو حکومت کی طرف سے پٹرول اعزازی مل رہا ہے۔ وفاق کے افسر‘ صوبوں کے افسر‘ وفاق کے وزیر‘ صوبوں کے وزیر‘ وزرائے اعلیٰ‘ گورنر‘ ان کے سینکڑوں سٹاف افسر‘ جج حضرات‘ عساکرکے افسران‘ سفارت خانوں کے پٹرول کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں! یہ سارا بوجھ عوام اٹھا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام بار برداری کے جانور ہیں جن پر مراعات یافتہ طبقہ سواری کر رہا ہے۔ سابق وزیراعظم چار سال سرکاری ہیلی کاپٹر کو تبدیلی کے نام پر رکشے کی طرح استعمال کرتے رہے۔ انہیں اس کا بِل دیا جائے جس کی وہ ادائیگی کریں۔ موجودہ وزیراعظم پٹرول ک...

اس نے خط بھیجا جو مجھ کو‘ ڈاک پر ڈاکا پڑا

غالب نے بہت کچھ لکھا۔ فارسی میں بھی اُردو میں بھی! مگر شہرت کے آسمان پر ان کے صرف دو کام جگمگائے۔ اُردو کا دیوان اور اُردو میں لکھے ہوئے خطوط! غالب کے خطوط نے اُردو نثر کی جہات ہی بدل ڈالیں! خطوط ادب کی باقاعدہ صنف ہے ! جاں نثار اختر کے نام صفیہ کے خطوط‘ جو ''زیر لب‘‘ کے نام سے شائع ہوئے‘ ادب کا حصہ ہیں۔ ابوالکلام آزاد کی تصنیف ''غبارِ خاطر‘‘ جو خطوط ہی کا مجموعہ ہے‘معرکہ آرا کتاب ہے اور کلاسکس میں شمار ہوتی ہے! اقبال کے خطوط چار ضخیم جلدوں میں مرتب ہوئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اقبال کی زندگی‘ اقبال کے پیغام اور اقبال کی تصانیف کو سمجھنے کے لیے ان خطوط کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔ انگریزی ادب میں خطوط کے حوالے سے بہت کام ہوا ہے۔مشہور ناول نگار شیرلٹ برونٹی کے چھ خطوط‘ جو اس نے اپنے محبوب‘ ہیگر‘ کو لکھے‘ ادب اور رومان کا ایسا سنگم ہیں جو دردناک ہے اور دلکش بھی ! ہیگر کی بیوی نے پھاڑے گئے ان خطوط کو سی کر کس طرح انہیں نئی زندگی دی‘ یہ ایک الگ داستان ہے۔ سترہویں صدی کے ڈراما نگار اور شاعر تھامس اَوٹ وے کے غم انگیز عاشقانہ خطوط بھی انگریزی ادب کا حصہ ہیں۔ مقصد اس تمہید کا خطوط کی ت...