اشاعتیں

مارچ, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

مایوسی مت پھیلائیے!

پاکستانی سیاست کے حوالے سے جو بیانیے اِس وقت چل رہے ہیں ان میں ایک بیانیہ عجیب و غریب ہے۔ یہ بیانیہ، جو تین اجزا پر مشتمل ہے، کچھ اس قبیل کا ہے: 1۔ پاکستان میں جسے جمہوریت کہا جاتا ہے، یہ محض ڈھکوسلا ہے۔ یہ پتلی تماشا ہے۔ یہاں منڈی لگتی ہے۔ بازار سجتا ہے۔ بھاؤ تاؤ ہوتا ہے۔ خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ جمہوریت نہیں، گند ہے‘ غلاظت ہے۔ یہاں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ ہزار سال بعد بھی یہی صورت حال ہو گی۔ 2۔ سب سیاستدان مارشل لا کی پیداوار ہیں۔ مارشل لا کی گود میں پل کر جوان ہوئے۔ بھٹو صاحب ایوب خان کے ساتھ تھے۔ نواز شریف کو جنرل جیلانی نے دریافت کیا اور ضیاالحق نے پروان چڑھایا۔ عمران خان نے جنرل مشرف کا ساتھ دیا تھا۔ 3۔ سیاسی پارٹیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان میں خاندانی اجارہ داریاں ہیں۔ ایک ایک پارٹی پر ایک ایک خاندان قابض ہے۔ موروثی گدیاں ہیں۔ ان پارٹیوں کے اندر الیکشن نہیں ہوتے، محض نامزدگیاں ہوتی ہیں۔ مجموعی طور پر یہ بیانیہ، کم و بیش، حقیقت پر مبنی ہے۔ تھوڑا بہت مبالغہ یا لفاظی اس سے منہا کر دیں تو جو باقی بچتا ہے، وہ درست ہے۔ مگر یہ بیانیہ پیش کرنے والے حضرات یہ نہیں بتاتے ک...

اُڑنا فقیر کا ہوا میں

اس نے اعلان کیا کہ وہ فلاں تاریخ کو فلاں وقت پر ہوا میں اُڑ کر دکھائے گا۔ جس دن سے وہ بستی میں آیا تھا اس نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ نوجوان اور خواتین خاص طور پر اس کے حلقۂ ارادت میں کثیر تعداد میں شامل ہونے لگیں۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک تو وہ گفتگو اچھی کرتا تھا۔ لچھے دار اور دلچسپ۔ دوسرے‘ وعدے اور دعوے بہت کرتا تھا۔ اس نے لوگوں کو یقین دلایا کہ بستی کی حالت بدل دے گا۔ اس نے کہاکہ اس کی زنبیل میں کئی عجائبات ہیں۔ دعویٰ کیا کہ جب چاہے گدڑی میں سے حیران کُن چیزیں نکال کر دکھا سکتا ہے۔ بستی میں ایک درجن کے قریب دکانیں تھیں۔اس نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی آمدنی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ دُگنی تو ضرور ہو جائے گی۔گلیاں پکی ہو جائیں گی۔ چوراہوں پر سگنل لگائے جائیں گے۔ تعلیمی ادارے مفت کام کریں گے۔ برقی روشنی عام ہو گی۔ وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ایک پُر اسرار فضا بھی اس کے ارد گرد موجود تھی۔ اس نے اپنا ڈیرہ بستی سے ہٹ کر کھیتوں کے درمیان بنایا۔ باہر سے یہ ایک جھونپڑی لگتی تھی۔ کسی کو اس کے اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ جب وہ بستی میں نکلتا ہے تو اس دوران جس ن...

ہمیں آج بھی اُس کوّے کی ضرورت ہے…

تین سطروں پر مشتمل منیر نیازی کی ایک نظم کئی کتابوں پر بھاری ہے: بندے نئیں سن، جانور سن روٹیاں کھائی جاندے سن تے رَولا پائی جاندے سن پنجابی کی اس نظم کا ترجمہ یوں ہے: انسان نہیں، یہ جانور تھے روٹیاں کھائے جا رہے تھے اور شور مچائے جا رہے تھے جہاں تک یاد پڑتا ہے، اس نظم کا عنوان ریستوران ہے‘ مگر اس کا عنوان ہونا چاہیے شادی ہال۔ ہمارے شادی ہال مویشیوں کے باڑے سے بدتر منظر پیش کرتے ہیں۔ پہلے تو بیٹھتے وقت باقاعدہ جنگی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے کہ ایسی جگہ بیٹھا جائے جہاں سے کھانا کُھلنے کے بعد حملہ کرنے میں پہل ہو سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ کھانا نہیں کُھلتا، مویشی کُھلتے ہیں۔ پورے ہال میں ایک افراتفری کا سماں ہوتا ہے۔ سات ماہ پہلے کچھ وڈیو کلپ وائرل ہوئے جو آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہیں۔ ایک بڑے شہر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ، جو ایک ٹاپ کے پروفیشن سے تعلق رکھتے تھے، کھانے پر ٹوٹ پڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ ایک مارکی تھی جہاں اس پروفیشن کے الیکشن منعقد ہوئے تھے۔ خدا کی پناہ! چمچے پڑے ہوئے تھے مگر ہر شخص پلیٹ ڈونگے سے براہ راست بھر رہا تھا۔ بے پناہ شور تھا۔ اس کالم نگار نے اس تنظیم کے سربراہ سے بات...

ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں!

اس موضوع پر لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس لیے کہ میں اس خیالِ خام میں تھا کہ یہ مسئلہ نا خواندہ اور نیم تعلیم یافتہ لوگوں کا ہے اور نا خواندہ اور نیم تعلیم یافتہ لوگ وہ دیوار ہیں جن سے سر ٹکرانے کا کوئی فائدہ نہیں‘ مگر دو دن پہلے جو دھچکا لگا‘ اس کے بعد غلط فہمی دور ہو گئی۔ اس دھچکے کی جو تفصیل نیچے درج ہے اس میں کوئی مبالغہ ہے نہ تخیلاتی افسانہ طرازی! ریحان میرے بیٹوں کی طرح ہے۔ اس کی اہلیہ میری بیٹی کی کلاس فیلو رہی ہے اور اس کی گہری دوست ہے۔ ان کی پہلی بیٹی پانچ سال کی ہے۔ چند ماہ پیشتر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسری بیٹی سے نوازا۔ بیٹی کی پیدائش وفاقی دارالحکومت کے ایک نجی، جدید قسم کے ہسپتال میں ہوئی۔ ریحان کو پہلا دھچکہ اُس وقت لگا جب ہسپتال کی نرس اس کے پاس آئی اور بہت آہستہ، مری ہوئی آواز میں بتایا کہ بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ ڈر رہی ہے۔ ریحان نے مسکراتے ہوئے الحمدللہ کہا تو نرس کی جان میں جان آئی۔ پھر جب ریحان نے مٹھائی منگوا کر پورے ہسپتال میں بانٹی تو وہی نرس اس کے پاس دوبارہ آئی اور مبارک دی۔ پھر اس نے خود ہی بتایا کہ جب وہ بیٹی کی پیدائش کی خبر دینے آئی تھی تو...

الاٹمنٹ کا انوکھا کاروبار

اس سرکاری قبرستان میں کئی بار جانا ہوا۔ کچھ قریبی اعزہ وہاں میرے بھی مدفون ہیں۔ سرکاری کارندے قبرستان میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ پرائیویٹ مزدور ہاتھوں میں درانتیاں لیے گھومتے رہتے ہیں۔ آپ جس قبر پر رکیں گے فوراً دو تین افراد وہاں پہنچ جائیں گے۔ قبر کی دیکھ بھال کا ماہانہ معاوضہ طے کرینگے۔ یہ وفاقی دارالحکومت کا قبرستان ہے۔ قبروں کی دیکھ بھال سرکاری افراد کیوں نہیں کرتے؟ نہیں معلوم! ہو سکتا ہے وہ بااثر لوگوں کے گھروں میں ڈیوٹی دے رہے ہوں۔ اُس دن میں وہاں شام کے بعد پہنچا۔ آسمان پر گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ اندھیرا معمول سے زیادہ تھا۔ خال خال کوئی انسان نظر آتا تھا جو کسی قبر کی پائنتی پر کھڑا، ہاتھ اٹھائے، دعا مانگ رہا تھا۔ قبرستان کے ایک سرے پر ایک عزیز کی قبر تھی۔ فاتحہ پڑھ کر دوسرے عزیز کی قبر کا رخ کیا جو دوسرے کنارے پر تھی۔ پورا قبرستان عبور کرنا تھا۔ قبروں کے درمیان کچی پکی روشوں پر چلتا ایک موڑ مڑا تو سامنے، کچھ دور، دو سائے نظر آئے۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے دو آدمی کھڑے ہوں۔ نزدیک پہنچا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ٹانگیں کانپنے لگیں۔ دل کی دھڑکن پہلے تیز ہوئی پھر جیسے د...

دھمکیاں یا نرم گفتاری؟

1‘عجلت سے کسی حال میں کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر حکمران کوئی خبر سنے یا اسے کوئی دشواری پیش آئے تو تدبر اور نرمی اور سوجھ بوجھ سے کام لینا ضروری ہے۔ حکمران کو ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ کسی فریق کو یہ معلوم نہ ہونے پائے کہ بادشاہ کا میلان اور رجحان کدھر کا ہے یعنی کس فریق کی طرف ہے۔ بُرا حکمران وہ ہوتا ہے جو معاملات میں عجلت برتتا ہے اور معاملات کی کوئی خاص پروا نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شکایت لے کر آئے تو جب تک تمہیں اصل حقیقت کا علم نہ ہو جائے، کچھ مت کہو یعنی کسی نتیجے پر نہ پہنچو۔ مشورہ ہمیشہ ایسے اشخاص سے کرنا چاہیے جو مدبّر، ذی عقل، دور اندیش ہوں۔ دانا لوگوں میں مراتب کا فرق ہوتا ہے۔ بعض زیادہ جانتے ہیں بعض کم۔ تدبیر اور مشورہ کے لیے عقلمند اور دانا اور جہاندیدہ اشخاص کو منتخب کرنا چاہیے۔ عقلا کا قول ہے کہ ایک آدمی کی قوت اس کی عقل ہے۔ تمام دنیا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بنی نوع انسان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر عاقل اور خرد مند کوئی نہ تھا۔ آپ وہ تھے کہ اپنی دانشِ نورانی کے فیض سے ابد اور ازل کے رازوں سے باخبر تھے لیکن کیا اس مرتبے‘ عظمت اور جلا...

…………کوئی مار ہے یا بد دعا!

آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ آپ اس لیے ہنس رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ووٹ ڈالنے کے بجائے حزب اقتدار ڈی چوک پر دس لاکھ افراد اکٹھے کرنا چاہتی ہے۔ آپ اس لیے ہنس رہے ہیں کہ ایک وفاقی وزیر صاحب نے چیلنج کیا ہے کہ کس مائی کے لعل میں کلیجہ ہے کہ 10 لاکھ کے مجمع سے گزر کر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالے۔ آپ کا موقف یہ ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد پیش کی جا رہی ہے تو یہ ایک جمہوری عمل ہے۔ آپ اس لیے ہنس رہے ہیں کہ مغرب میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے وزیر اعظم جب مغرب کو دوسرے ملکوں سے زیادہ جانتے ہیں تو مسئلہ پارلیمنٹ کے اندر حل کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے باہر کیوں حل کرنا چاہتے ہیں؟ مجھے آپ کے ہنسنے پر اعتراض ہے! اس لیے کہ آپ امریکہ یا فرانس یا سوئٹزرلینڈ میں نہیں پیدا ہوئے۔ آپ اسی پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہیں کے جم پل ہیں۔ یہیں بڑے ہوئے ہیں۔ آپ عمران خان اور ان کی پارٹی سے کیوں توقع کر رہے ہیں کہ وہ امریکیوں والا یا انگریزوں والا یا فرانسیسیوں یا جرمنوں والا رویہ اپنائیں؟ کیا وہ پاکستانی نہیں؟ کیا پاکستان میں ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا آیا؟ کیا یہاں کسی نے کبھی ہار مانی ہے؟ سرحد...

مگر یہ معاملات کس کے سامنے رکھے جائیں ؟؟

پرسوں کے جلسۂ عام میں وزیر اعظم صاحب نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ مغرب کو اپوزیشن سے زیادہ جانتے ہیں۔ اور یہ کہ وہاں رکن پارلیمنٹ کا ضمیر خریدنے کی کسی میں ہمت نہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ماضی اور حال کے تمام مشاہیر میں پہلے شخص ہیں جو مغرب کو دوسروں سے زیادہ جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ دعویٰ کسی نے نہیں کیا۔گاندھی اور نہرو‘ دونوں نے تعلیم انگلستان میں حاصل کی۔ مولانا محمد علی جوہر آکسفورڈ میں پڑھتے رہے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ اتنی شستہ اور رواں انگریزی کہاں سے سیکھی؟کہنے لگے: ایک چھوٹے سے گاؤں سے! پوچھنے والے نے حیران ہو کر گاؤں کا نام پوچھا تو کہا :آکسفورڈ! قابلیت ایسی تھی کہ دی ٹائمز‘دی آبزرور اور دی مانچسٹر گارڈین میں ان کے مضامین چھپتے تھے۔ پھر انگریزی ہفت روزہ ''کامریڈ‘‘ نکالا۔ پہلی عالمی جنگ چھڑ چکی تھی۔ انگریز ترکوں کے خلاف تھے۔ مولانا نے کامریڈ میں وہ مضمون لکھا جو آج بھی شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ اس کا عنوان''The Choice of the Turks‘‘تھا۔چالیس گھنٹے لکھتے رہے۔ کمرے سے نہیں نکلے۔ سگریٹ اور قہوے کے علاوہ کچھ نہ کھایا‘ پیا۔ مضمون چ...

کاغذ سے کشتی بنائی یا سمندر؟؟

آسٹریلیا سے بھارت جانا ہو تو بھارتی ایئر لائن کا ہوائی جہاز، براہ راست، کہیں رُکے بغیر، آسٹریلیا سے بھارت جاتا ہے۔ یہ بارہ تیرہ گھنٹے کی مسافت ہے۔ اگر آسٹریلیا سے پاکستان جانا ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔ آپ ہوائی اڈے پر جا کر، اطلاعات والوں سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان ایئر لائن کا جہاز پاکستان کے لیے کس وقت اُڑتا ہے؟ اطلاعات والا آپ کو غور سے دیکھتا ہے‘ پھر مسکراتا ہے‘ پھر اچانک اس کے چہرے پر کرب کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے‘ وہ رو پڑے گا۔ پھر وہ اپنے آپ کو مجتمع کرتا ہے‘ اور جوابی سوال داغتا ہے کہ کیا پاکستان کی کوئی ایئر لائن ہے؟ آپ فخر سے بتاتے ہیں کہ ہے! بالکل ہے! یہ پاکستانی ایئر لائن ہی تو تھی جس نے فلاں‘ فلاں اور فلاں ایئر لائنوں کو اُڑنا سکھایا۔ یہ ایئر لائنیں آج دنیا کی چوٹی کی ایئر لائنوں میں شمار ہوتی ہیں۔ اب کے اطلاعات والے کے چہرے پر آپ کے لیے رحم کے جذبات ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ کہتا ہے: یہ بات مجھے ہر پاکستانی بتاتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ پاکستان کی ایئر لائن، ان بڑی بڑی ایئر لائنوں کو اُڑنا سکھانے کے بعد خود اُڑنا کیوں بھول گئی ہے؟ غیرتِ ملّی کی یہ مناسب خوراک کھانے کے بعد اب...

آخری دن تھا کئی دن کی ملاقاتوں کا

سفر ملک کے اندر کا ہو یا سمندر پار کا، وطن سے روانگی ہو یا واپسی، سفر سے پہلے ایک عجیب دل گرفتگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک ڈپریشن سا، ایک اضطراب سا! جیسے اُس شخص کی کیفیت ہوتی ہے جسے معلوم ہو کہ اب سانپ کے کاٹنے کا موسم آ گیا ہے! یہ عجیب بات ہے کہ ساری زندگی سفر میں گزری مگر اس اضطراب سے چھٹکارا نہ ملا۔ ایسا بھی نہیں کہ سفر سے بچنے کی خواہش ہو جیسا کہ منیر نیازی کی خواہش تھی: بہت قیام کی خواہش سفر میں آتی ہے طلسمِ شامِ غریباں رہائی دیتا نہیں یہ بھی معلوم ہے کہ سفر زندگی کی علامت ہے۔ جس دن پوٹلی ہاتھ نے چھوڑ دی اور گٹھڑی سر سے اتر گئی، زندگی سے یہ اورنگِ ہمہ رنگ اور نغمہ و آہنگ رخصت ہو جائے گا۔ سفر پوست ہے اور جو باقی بچتا ہے استخواں ہے۔ سفر باہر کا ہو یا ذات کے اندر کا، ضروری ہے۔ ہجر اور ہجرتیں انسانی زندگی کا وہ حصہ ہیں جس سے گریز ممکن نہیں۔ جس نے گریز کیا، وہ زندگی ہی میں زرد، پژمردہ گھاس کی صورت بیٹھ گیا۔ سفر سے پہلے کی یہ اضطرابی کیفیت کیا کم ہے کہ اس پر مستزاد وہ کرب ہے جو فراق کا پیش خیمہ ہے۔ جیسے جیسے روانگی کا دن قریب آتا ہے، تیمور کے آنسو زیادہ گرنے لگتے ہیں۔ 'میں آپ ک...

کی جس سے بات ‘ اس نے شکایت ضرور کی

ملک اکرم اور چوہدری نصیر کی تیس سالہ دوستی ختم ہو چکی ہے ! کوئی جائداد کا جھگڑا نہیں تھا۔ کھیتوں کے درمیان کوئی مشترکہ پگڈنڈی نہیں تھی۔ ایک کے صحن میں دوسرے کی چھت کا پرنالہ پانی نہیں گراتا تھا۔ کوئی رشتہ مانگنے یا انکار کرنے کا مسئلہ نہیں تھا۔ کوئی افسر ماتحت یا کرایہ دار اور مالک مکان کا قصہ نہیں تھا۔ پلاٹ پر راتوں رات قبضہ کرنے کا ایشو بھی نہیں تھا۔ ہوا یہ تھا کہ تیس سالہ پرانے دوست آپس میں سیاسی بحث کر رہے تھے‘ایک مسلم لیگ نون کا حامی تھا‘ دوسرا تحریک انصاف کا ! بحث بڑھتے بڑھتے جھگڑے میں تبدیل ہونے لگی۔ ایک للکارا کہ تم نے میاں صاحب کے بارے میں اس طرح کی بات کیوں کی؟ دوسرا چیخا کہ خان صاحب کے متعلق ایسی ویسی غلط بات کی تو چھوڑوں گا نہیں۔ مناظرہ مجادلے کی صورت اختیار کر گیا۔ معاملہ گالی گلوچ تک پہنچ گیا۔ قریب تھا کہ دونوں ایک دوسرے کا گریبان پکڑتے ‘ محفل میں موجود ایک صاحب نے دونوں کو بٹھا یا مگر ملک اکرم اٹھ کر چلا گیا۔ جاتے ہوئے کہہ گیا کہ اس شخص سے کبھی بات نہیں کرے گا۔ وہ دن اور آج کا دن ‘ دونوں میں قطع کلامی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھگڑے کا علم میاں صاحب کو ہے نہ خان صاحب ...

فلیش بیک

یہ ایک اور ہی دنیا تھی۔ بالکل الگ۔بالکل مختلف! سرِشام سرگرمیاں شروع ہو جاتیں۔ادھر ہانڈی کے لیے مسالا الگ کُوٹا جا رہا ہوتا۔پیکٹوں میں بند مسالے بازار سے لانے کا تب کوئی تصور تھانہ بازار میں ہوتے تھے۔آج تو اچاری چکن سے لے کر نہاری تک ہر سالن کے مسالے الگ الگ بِک رہے ہیں۔ تب ہلدی‘ سرخ مرچ‘ نمک‘کا ملغوبہ روز کا روز تیار کیا جاتا۔ نمک اُن دنوں چٹانوں کی صورت گھر وں میں لایا جاتا تھا۔توڑ کر‘ پیسا جاتا۔ دوسری طرف‘ صحن میں‘ لالٹینوں کے شیشے صاف ہو رہے ہوتے۔ ہر لالٹین میں تیل چیک کیا جاتا۔ صحن میں پانی چھڑکا جاتا۔ کمروں کے اندر سے چارپائیاں لاکر رکھی جاتیں۔ ان پر دریاں یا چادریں بچھائی جاتیں۔ تکیے رکھے جاتے۔ چھت پر سونا ہوتا تو وہاں چارپائیاں بچھتیں۔ ان پر مچھر دانیاں تانی جاتیں۔ مچھروں کو بھگانے کے لیے صحن کے ایک کونے میں گوبر سلگایا جاتا جس کا دھواں آنکھوں میں بھی پڑتا۔ رات کو آسمان پر تارے نظر آتے۔ کہکشاں دکھائی دیتی۔ دُبِّ اکبر ( سات ستاروں کے جھرمٹ ) کا نظارہ کیا جاتا۔ ٹھنڈی ہوا چل پڑتی تو وارے نیارے ہو جاتے۔ آج کے بچوں کی قسمت دیکھیے۔ آسمان‘ رات کو تو کیا‘ دن کو بھی کبھی نہیں دیکھا...

2) یوکرین … اصل کہانی

آج یوکرین میں ماتم کی ایک نہیں، دو صفیں بچھی ہیں۔ ایک صف موجودہ جنگ اور اس کی لائی ہوئی تباہی کی اور دوسری اُس پچھتاوے کی جو ایٹمی ہتھیار روس کو دے دینے کے نتیجے میں اس ملک کے ہر باشندے کو اندر سے کھائے جا رہا ہے۔ یوکرین کفِ افسوس مل رہا ہے۔ اس لیے کہ اس نے امریکہ اور برطانیہ کی گارنٹی پر یقین کیا اور ایٹمی ہتھیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یوکرین کے سابق وزیر دفاع، اینڈری ظہورُد نیوک نے جو کچھ کہا، بہت سے ملکوں کے لیے عبرت کا سبق ہے۔ ہم نے اپنی قابلیت خود ضائع کر دی‘ اب جب بھی ہمیں کوئی کہے گا کہ اس کاغذ پر دستخط کرو، ہم کہیں گے بہت شکریہ! ہم بھگت چکے ہیں۔ چھوٹے ملکوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایٹمی حملے کی روک تھام (Detterrent) سے محروم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی موت کے پروانے پر خود دستخط کر دیے جائیں۔ لیبیا ایک اور مثال ہے کہ مغربی ممالک کس طرح جھوٹ بولتے ہیں اور کس بے حیائی اور بے شرمی سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ 2003 میں معمر قذافی نے یک طرفہ اعلان کیا کہ لیبیا اپنا ایٹمی پروگرام اور کیمیائی ہتھیاروں کا سلسلہ ختم کر رہا ہے تاکہ مغرب سے تعلقات نارمل ہو جائیں۔ مغرب نے بظاہر اسے خوش آمدید کہا او...

یوکرین… اصل کہانی

اپنی حفاظت کا ان سب کو بہت خیال ہے! یہ اپنے گرد ایک حصار کھینچ لیتے ہیں۔ پھر چاہے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے، خون کے دریا ہی کیوں نہ بہانے پڑیں، ایٹمی دستوں کو الرٹ ہی کیوں نہ کرنا پڑے، اِس حصار کے اندر کسی مخالف کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ کیوبا میں یہی کچھ تو ہوا تھا۔ یہ 1962 کی بات ہے۔ سوویت یونین اور مغرب کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی۔ امریکہ نے اٹلی اور ترکی میں میزائل نصب کر دیے۔ یہ ایک لحاظ سے سوویت یونین کے گرد کھینچے گئے حصار کے اندر گھسنے والی بات تھی۔ ترکی کی سرحد مشرق میں آمینیا اور جارجیا سے ملتی تھی جو سوویت یونین کا حصہ تھے۔ شمال میں بحر اسود تھا جس کے پار سوویت یونین تھا۔ جواب میں خروشچیف نے کیوبا میں میزائل لگانے کا فیصلہ کیا اور انفرا سٹرکچر تعمیر کرانے کا آغاز بھی کردیا۔ یاد رہے کہ کیوبا اور امریکی ریاست فلوریڈا کے درمیان صرف سو میل کا فاصلہ ہے۔ جان ایف کینیڈی امریکی صدر تھا۔ اس کی سکیورٹی کمیٹی نے مشورہ دیا کہ کیوبا پر حملہ کر دیا جائے تاہم کینیڈی نے سمندری محاصرہ کرنے کا حکم دیا تا کہ کوئی بحری جہاز تنصیبات لے کر کیوبا میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ ساتھ ہی امریکہ نے دھم...