اشاعتیں

فروری, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کچھ ہوتا ہے جب خلقِ خدا کچھ کہتی ہے

مشکل میں کام آنے والے حافظ شیرازی نے کہا تھا غمِ غریبی و غربت چو بر نمی تابم بشہر خود روَم و شہریارِ خود باشم کہ جب بے وطنی اور مسافرت کا غم برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو (سوچتا ہوں ) اپنے شہر چلا چلا جاؤں اور اپنا مالک خود بنوں،مگر مسافرت کی کئی قسمیں ہیں۔ اپنے ملک میں ، اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے بھی کبھی کبھی بے چارگی کا احساس ہوتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے کوئی جائے پناہ نہیں۔ اچانک جسٹس وجیہ الدین کی طرف خیال چلا گیا۔ چند ہفتے ہوئے انہوں نے ایک بیان دیا۔ اس بیان پر ایک معروف ٹی وی چینل نے اپنے تجزیہ کاروں سے رائے مانگی۔ان صاحبانِ علم و دانش نے جو تبصرے کیے اور جس طرح کی باتیں جسٹس صاحب کے بارے میں کیں ، وہ سب یاد آنے لگیں۔ ان کا ذکر یہاں مطلوب نہیں کہ اپنا ڈپریشن پھیلانا کوئی اچھا کاروبار نہیں۔ غم غلط کرنے کے لیے ناصر کاظمی کا دیوان اٹھا لیا کہ خیالات کی رَو اپنا رُخ بدل لے۔ ناصر کاظمی( اور مجید امجد ) غم غلط کرنے میں دستگیری کرتے ہیں۔ کبھی غم میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔سیاسی صورتِ حال جس دل گرفتگی کی طرف لے جارہی ہے اور سچ بولنے والوں کے ساتھ یہ معاشرہ جو خیالات رکھتا ہے انہیں بھولنے ک...

یہی تو نشانیاں ہیں جو قدرت دکھاتی ہے

اقتصادیات کے پروفیسر نے سبق دیا تھا کہ ایک تو ماں بننے والی خاتون خوشخبری کو زیادہ دیر نہیں چھپا سکتی دوسرے، افراط زر نہیں چھپ سکتا‘ مگر تیسری بات بتانا پروفیسر صاحب بھول گئے۔ مالِ حرام نہیں چھپ سکتا۔ قدرت اس طرح اسے سامنے لاتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ہر تدبیر ناکام ہو جاتی ہے۔ ہر پردہ اُٹھ جاتا ہے۔ جو طاقت زمین کے نیچے، بیج کو پھاڑ کر پودے کی صورت باہر نکال سکتی ہے اور ایک بیج کے بدلے اس پر سینکڑوں پھل لگا سکتی ہے وہ طاقت مالِ حرام کے اوپر پڑے ہوئے پردے کیوں نہیں تار تار کر سکتی؟ کیسے کیسے لوگ ہم پر مسلط کیے گئے! پھر ان کے جانے کے بعد ان کی ذریت!! کیسے کیسے خطاب دیے گئے۔ کیسے کیسے افراد کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا! ایک پوری نسل بھینٹ چڑھا دی گئی۔ سادہ لوح لوگوں کے جذباتی بچوں کو قربان کیا جاتا رہا۔ دوسری طرف اپنے بچوں کو سونے میں تولا جاتا رہا۔ کوئی بزنس میں پھلتا پھولتا رہا۔ کوئی بحر اوقیانوس کے اُس پار ڈگریاں لیتا رہا۔ ڈگریاں جن کا عام شہری کا بچہ خواب ہی دیکھ سکتا ہے! سرکاری ملازم تو بہت تھے‘ مگر چند تھے جو ملازمت ملازمت کھیلتے، خزانوں کے مالک بن گئے۔ پھر ملازمت کے بیج سے حکمر...

کیا تم لوگ گھاس کے اوپر سے ہٹو گے ؟

جب سے ہوش سنبھالا ہے ‘ ہم اور آپ سن رہے ہیں‘ سنا رہے ہیں‘ پڑھ رہے ہیں پڑھا رہے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو حاضرین میں سے ایک نے اعتراض کیا کہ پہلے یہ بتائیے ایک چادر سے آپ کا کُرتا کیسے بن گیاکیونکہ حکومت کی طرف سے سب کو ایک ایک چادر ملی تھی اور ایک چادر میں تو آپ جیسے طویل القامت شخص کا کُرتا بن ہی نہیں سکتا! اس پر امیر المومنین کے بیٹے نے وضاحت پیش کی کہ انہوں نے والد گرامی کو اپنے حصے کی چادر دے دی تھی تا کہ ان کا کرتا بن جائے۔ اس وضاحت کے بعد ہی آپ خطبہ دے سکے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ‘ ہم اور آپ سن رہے ہیں‘ سنا رہے ہیں‘ پڑھ رہے ہیں پڑھا رہے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی زرہ کھو گئی۔ آپ اُس وقت خلیفۂ وقت تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ نے دیکھا کہ آپ کی زرہ ایک یہودی پہنے ہوئے تھا۔ آپؓ نے اسے بتایا کہ یہ زرہ آپ کی ہے۔ اس نے اصرار کیا کہ اس کی اپنی ہے۔ معاملہ عدالت میں لے جایا گیا۔ آپؓ مسلمانوں کے حکمران تھے مگر ایک عام مدعی کی طرح عدالت میںپیش ہوئے۔ عدالت نے قانون کے مطابق دو گواہ طلب کئے۔ آپؓ نے اپنے غلام اور صاحبزادوں حسنی...

…ہم کہاں پہنچ گئے ! ہمارا کیا ہو گا !!

سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ میں  شہر بھر میں جھاڑو دیتا پھرتا ہوں مگر  اپنا گھر  کوڑے کرکٹ سے بھرا ہے۔ وجہ ظاہر ہے۔ شہر بھر میں جھاڑو دوں گا تو ہیرو بن جاؤں گا۔ اخبارات میں تصویریں چھپیں گی۔ ٹیلیویژن چینلوں پر ستائش ہو گی۔ جدھر سے گذروں گا  لوگ سلام کریں گے۔ نئی نسل آٹو گراف لے گی۔ کوئی ایوارڈ وغیرہ بھی مل جائے گا۔ اگر اپنے گھراور  اپنی گلی  کو صاف کرتا رہوں گا تو پنجابی محاورے  کی رُو سے موئے یعنی مُردے پوچھیں گے ؟  میں معلّم  بنا تو ساری دنیا میں علم کی روشنی پھیلاتا رہا ۔ملک ملک سے تشنگان علم کو اکٹھا کیا اور انہیں فیض سے سیراب کیا مگر اپنا  گھر ، اپنا محلہ، اپنا قریہ علم سے بے بہرہ ہی رہا۔ زرعی انقلاب کا پرچم لے کر نکلا تو ملک بھر میں ٹریکٹر پھیلا دئے۔ تھریشر تقسیم کئے۔ بیج بانٹے۔اپنی بستی کے کسان اسی طرح ہل چلاتے رہے جیسے سینکڑوں سال سے چلاتے آئے ہیں۔ اسی طرح چلچلاتی دھوپ میں درانتی سے گندم کاٹتے رہے جیسے ان کے اجداد کاٹتے تھے۔ ان کے لیے میرے پاس وقت ہی کہاں تھا۔  میں  تو قومی سطح کا ہیرو بن رہا تھا۔ صنعتکار بنا تو بنگلہ د...

ترازو جو ابھی تک نہیں بنایا جا سکا

چالیس سال سے تین سال اوپر ہو گئے، سب سے پہلے جس ملک میں جانا ہوا وہ اٹلی تھا۔ پہلے اتوار کو قیام گاہ سے نکلے تو ایسا منظر دیکھا کہ حیرت ہوئی۔ گھروں کے دروازوں سے باہر، مختلف چیزیں رکھی تھیں۔ زیادہ تر گھر کے استعمال کی۔ جیسے کچن کے برتن، کمبل، کرسی، صوفہ، بچوں کی سائیکل وغیرہ۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ ایک مقامی شخص سے پوچھا تو مزید حیرت ہوئی کہ کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟ بتایا گیا کہ جو اشیا ضرورت سے زائد ہوں، یا ان کا نعم البدل آ جائے تو باہر رکھ دیتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ، جنہیں یہ آئٹمز چاہئیں، لے جا سکیں اور چاہیں تو اس کی جگہ اپنے گھر کا کوئی آئٹم، جو ان کے لیے بیکار ہو، رکھ دیں۔ یہ بیک وقت چیریٹی بھی تھی اور ایکس چینج پروگرام بھی۔ ضروری نہیں کہ لینے والا غریب ہی ہو۔ وہ اسے اپنے گھر کی کسی چیز سے بدل بھی سکتا ہے۔ اس کے بعد کئی ملکوں میں جانا ہوا جنہیں ہم ترقی یافتہ یا مغربی ملک کہتے ہیں۔ ان میں بھی یہ رواج عام ہے۔ پلنگ اور گدوں سے لے کر کرسیوں، کھلونوں، برتنوں اور ملبوسات تک باہر رکھے ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے مدتوں پہلے بتایا تھا کہ امریکہ میں انہیں ایک گھر کے باہر سے ٹائپ رائ...

نہیں ! جناب تسلیم نورانی ! نہیں !

یہ دلدوز واقعہ آپ نے کئی بار سنا ہو گا۔چوہے نے ہاتھی کے بچے کو دیکھا تو اس کی جسامت دیکھ کر سوچا یہ ضرور پندرہ بیس سال کا ہو گا۔ اس سے پوچھا تمہاری عمر کیا ہے؟ چھوٹے ہاتھی نے کہا: دو سال! چوہے نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا:ہوں تو میں بھی دو سال کا مگر ذرا بیمار شیمار رہا ہوں! بھارت میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں ‘ کانگرس اور بی جے پی ‘ کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر ایک تیسری قوت میدان میں اُتری۔ اروند کجریوال ایک بیورو کریٹ تھے۔ مقابلے کا امتحان پاس کر کے انڈین ریونیو سروس میں جوائنٹ کمشنر انکم ٹیکس کے طور پر کام کر رہے تھے۔ معروف سوشل ورکر انّا ہزارے نے جب کرپشن کے خلاف عوامی تحریک چلائی تو اروند کجریوال اس کے ساتھ تھے۔ انّا ہزارے ایک مندر سے ملحقہ چھوٹے سے کمرے میں رہتا تھا۔ شادی کا جھنجٹ پالا ہی نہیں تھا۔ اس پر آر ایس ایس کا ساتھ دینے اور مسلم دشمنی کے الزامات بھی تھے۔ کجریوال نے جب سیاست میں آنے کا ارادہ کیا تو انّا ہزارے نے اس کی مخالفت کی۔ انّا ہزارے کا موقف یہ تھا کہ سیاست میں آئے بغیر ‘ دھرنوں اور بھوک ہڑتالوں سے مطالبات منوائے جائیں۔ اروند کجریوال نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیا...

ہماری ناک اونچی ہے

 ہندوستان میں انگریز حکمرانِ اعلیٰ  پہلے  گورنر جنرل کہلاتا تھا۔  18 57  کی جنگ آزادی  کو کچلنے کے بعد وائسرائے کہلانے لگا۔ وائسرائے کا لفظی مطلب”  نائب السلطنت” ہے۔ یعنی بادشاہ کا نمائندہ۔جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی سے اقتدار ملکہ برطانیہ نے  لے لیا۔اوراپنی بادشاہت کی نشانی کے طور پر وائسرائے لگایا جو پورے ہندوستان کا حاکم تھا۔  اس کی مراعات خاصی تھیں۔ مگر وہ آڈیٹر جنرل کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کر سکتا تھا۔ جیسے ہی  وائسرائے  لگا، ساتھ ہی کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل بھی لگا دیا گیا۔ سر اَیڈورڈ، ڈرمنڈ  Sir Edward Drummond  پہلا شخص تھا جو اس منصب پر فائز ہؤا۔اس کے  پاس برطانوی ہند کے اکاؤنٹس بھی تھے اور آڈٹ کا فریضہ بھی سر انجام دیتا تھا۔  وائسرائے کی مجال نہ تھی کہ اس کی اجازت کے بغیر ایک پیسہ بھی خرچ کرے۔  آڈٹ کے ایک ایک اعتراض کا وائسرائے کو اور وائسرائے کی حکومت کو جواب دینا ہوتا تھا۔  آج کے  پاکستان  میں صورت حال مختلف ہے۔ملک پر عملا” آئی ایم ایف کا اختیار ہے۔ بجٹ کیسے بننا ...

……کون کسے بے وقوف بنا رہا ہے ؟؟

خواب چکنا چور ہوگئے۔ امیدیں سراب نکلیں۔ بقول شہزاد احمد: چوم لیں دیدۂ حیراں کو کہ آنکھیں پھوڑیں چاند سمجھے تھے جسے، ابر کا ٹکڑا نکلا پاکستان کشکول اٹھائے پوری دنیا سے بھیک مانگ رہا ہے؟ اپنے لیے؟ نہیں! افغانستان کے لیے! حالانکہ خود پاکستانی عوام مہنگائی اور بھوک تلے پِس رہے ہیں۔ کراہ رہے ہیں۔ کون سا افغانستان؟ وہی جہاں اب پاکستان کے دوست حکمران ہیں؟ ہاں وہی! جہاں سے پاکستان کی سرزمین پر اب بھی حملے ہورہے ہیں اور برابر ہورہے ہیں۔ مشیر قومی سلامتی نے قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سامنے 27 جنوری کو بیان دیا کہ افغان سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ اسی روز وزیر داخلہ نے کہا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ کارروائیوں سے باز رہیں اور یہ کہ ان کی ہمارے ساتھ کمٹمنٹ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی‘ مگر چھ فروری کو پھر افغانستان سے حملہ ہوا۔ کرم کے علاقے میں پاک فوج کے پانچ جوان شہید ہوگئے۔ پاکستان نے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر شدید احتجاج کیا۔ اصل حقیقت (Bottom Line) کیا ہے؟ بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان ا...

وفاقی وزیر کا سچ

کوئی ہے جو عدالت میں جائے؟ نالش کرے! دہائی دے!اور انصاف مانگے مؤقر انگریزی معاصر نے اپنی چار فروری کی اشاعت میں وفاقی وزیر کا یہ بیان نقل کیاہے کہ...'' کوئی بھی شخص‘ بیک وقت‘ دو ملکوں کا وفادارنہیں ہو سکتا...‘‘ کیا ہی سنہری اصول ہے جو وفاقی وزیر نے قوم کے ساتھ شیئر کیا ہے! اور یہ بات انہوں نے روا روی میں نہیں کہی۔ نہ کسی تقریر میں جوشِ خطابت کی وجہ سے یہ بات ان کے منہ سے نکل گئی۔ نہ کسی نجی محفل میں احباب کے ساتھ گپ شپ کے دوران کہی۔یہ بات انہوں نے ملک کے سنجیدہ ترین‘ ادارے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے رو برو ارشاد کی۔ سینیٹ کی یہ قائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ کے امور کی انچارج ہے! اہم ترین پہلو یہ ہے کہ یہ بات کسی اپوزیشن رہنما نے نہیں کی۔ کسی کالم نگار یا صحافی نے کی ہوتی تو اسے آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ یوں بھی اس عہد میں کسی صحافی یا کالم نگار کی کیا اوقات ہے! کچھ عرصہ پہلے یہی میڈیا والے آنکھوں کے تارے تھے۔ آج کل معتوب ہیں اور ہدف ! آئینوں پر گرد جمی ہے اور کیا شتابی سے جمی ہے۔ حکیم مومن خان مومن یاد آگئے ؎ جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے باوفا میں وہی ہوں...

خوشیاں مناؤ

کیا ہی برکت والا دن تھا! ایک سعید دن! ایک خوشیوں بھرا دن! قوموں کی تاریخ میں ایسے دن صدیوں بعد آتے ہیں! پھر وہ ایسا نقش چھوڑ جاتے ہیں جو ان مٹ ہوتا ہے۔ روشنی بکھیرتا ہے۔ اس روشنی میں قومیں مستقبل کے فاصلے طے کرتی ہیں! منزلیں سر کرتی ہیں! کامیابیاں سمیٹتی ہیں۔ خود ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ میں ایسے دو دن آئے ہیں۔ چار جولائی کا دن! جب دو سو چھیالیس سال پہلے، چار جولائی 1776ء کو امریکہ کی تیرہ ریاستوں نے تاجِ برطانیہ سے چھٹکارا حاصل کیا اور ایک آزاد امریکہ وجود میں آیا۔ پھر جب 1865ء میں امریکی خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا تو یہ دن بھی امریکہ کی تاریخ میں ایک عظیم دن ہے۔ جنوبی ریاستیں غلامی کے حق میں تھیں جب کہ مرکز (یونین) غلامی کا خاتمہ چاہتا تھا۔ فریقین میں جنگ ہوئی۔ مرکز جیت گیا۔ ابراہام لنکن اس جنگ کا ہیرو تھا۔ اس دن نے امریکہ کو عظیم سے عظیم تر بنا دیا۔ آسٹریلیا میں چھبیس جنوری کا دن آسٹریلیا ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اُس دن، 1788ء کو سڈنی کے ساحل پر برطانوی جھنڈا لہرا کر نئی کالونی کا آغاز کیا گیا تھا۔ یہی نئی کالونی آسٹریلیا کی شکل میں ایک الگ ملک بنی۔ یکم جنوری بھی آسٹریلیا کی ...

باغ بغیچہ ہے سامنے

دو شہروں کے درمیان معلّق ہوں! چکی کے دو پاٹوں کے درمیان! مگر یہ دو پاٹ پتھر کے نہیں، پھولوں کی پتیوں سے بنے ہیں! میلبورن میں حمزہ، زہرا اور سمیر ہیں۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی ڈرائیو پر جیلانگ کا شہر ہے جہاں تیمور اور سالار رہتے ہیں۔ میرا آسٹریلیا انہی میں ہے اور انہی تک ہے! سارے شہر دیکھ لیے۔ سارے ساحل ماپ چکے! دنیا کی سیر کر لی! اقلیمیں اور ولایتیں چھان لیں! طارق نعیم نے کیا کمال کا شعر کہا ہے یونہی تو کُنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں خسروی، شاہجہانی مری دیکھی ہوئی ہیں یہ جو پوتوں پوتیوں اور نواسیوں نواسوں کی دنیا ہے یہ ایک الگ ہی اقلیم ہے! ایک انوکھی ہی ولایت ہے! زمین کے اوپر ہے مگر بہشت کا یہ ٹکڑا زمین سے الگ ہے۔ یہ بچے نہیں، اُڑتے ہوئے رنگین ابر پارے ہیں۔ تتلیاں ہیں! جگنو ہیں! خوشبو کے پیکر ہیں! ان کے جسم، چاندنی کو سورج کی کرنوں اور ستاروں کی ٹھنڈک میں گوندھ کر بنائے گئے ہیں! ان کی روحیں مقدس ہیں۔ اگر یہ عمر بھر کی محنت مشقت کا بڑھاپے میں صلہ ہے تو کیا ہی اچھا صلہ ہے۔ یہ جو سفر کا آخری حصہ ہے سامنے دلکش بہت ہے، باغ بغیچہ ہے سامنے یہ باغ باغیچہ بہت بڑا انعام ہے! دنیا کی کسی لغت میں ایسے الفا...

ہم اُس کے ‘ وہ اور کسی کا…

ہم پاکستانی اس خبر کو شاید ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کر سکیں۔ اسرائیل کے صدر نے یو اے ای کاپہلا سرکاری دورہ کیا ہے۔ اس موقع پر اسرائیلی صدر نے متحدہ عرب امارات کی '' سکیورٹی‘‘ کی اہمیت پر زور دیا اور اس سلسلے میں اسرائیلی تائید کا بھی ذکر کیا۔ یاد رہے کہ چند دن پہلے ہی یمن کے حوثی قبائل نے ابو ظہبی پر ڈرون حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ایک پاکستانی سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ ایک گنجلک مسئلہ ہے۔ یمن‘ فی الحال‘ اس مسئلے کا گرم ترین نقطہ ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای ایک طرف اور ایران دوسری طرف ہے۔ اگر حوثی قبائل کے حملے یو اے ای پر جاری رہے تو یو اے ای کے مستقبل کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یو اے ای کا سب سے بڑا مثبت پہلو اس کا امن و امان ہی تو ہے۔ جبھی دنیا بھر کے ذہین اور محنتی لوگ یو اے ای کا رُخ کرتے ہیں۔ دبئی کی بے مثال ترقی کا راز ہی یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کی افرادی قوت یہاں آکر اس کی ترقی میں کردار ادا کر تی ہے۔ فرض کیجیے خدا نخواستہ ایسے حملے تواتر سے ہوتے ہیں اور زور پکڑتے ہیں‘ دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے ورکر چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ یو اے ای کے لیے بہت بڑا المیہ ہ...