اشاعتیں

جنوری, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

بل نے پاس ہونا ہی تھا!

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ اور جے یو آئی اپنے اُن سینیٹروں کے خلاف ایکشن لیں گی جو سٹیٹ بینک ترمیمی بل کے خلاف ووٹ دینے کے بجائے منظر ہی سے غائب ہو گئے تو آپ احمق ہیں! پارٹیوں کی یہ تقسیم مصنوعی ہے اور بے معنی! پارٹی تو ایک ہی ہے جو اصل پارٹی ہے! وہی جس کی بنیاد دو سو پینسٹھ سال پہلے پلاسی کے میدان میں رکھ دی گئی تھی۔ تاریخ کا یہ صفحہ الٹ کر ایک بار پھر پڑھیے۔ پڑھنے کے بعد غور کیجیے۔ پاکستانی سیاست کی حرکیات سمجھنے کے لیے زیادہ سوچ بچار کی ضرورت بھی نہیں۔ پلاسی کے میدان میں کچھ ایک طرف تھے، کچھ دوسری طرف چلے گئے تھے۔ وہ جو دوسری طرف چلے گئے تھے وہی اصل پارٹی ہیں۔ وہی پارٹی چلی آرہی ہے۔ فرق بس اتنا سا ہے کہ اس پارٹی نے آج کے زمانے میں باہمی سہولت کے لیے، اپنے آپ کو مصنوعی طور پر، مختلف جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے تاکہ مفادات کی بندر بانٹ میں آسانی ہو! پلاسی کے بیالیس سال بعد ایک اور میدان سجا۔ یہ سرنگا پٹم تھا۔ اصل پارٹی نے اپنے خدوخال یہاں کچھ اور واضح کر دیے۔ اپنی بنیاد مضبوط تر کر لی۔ کچھ وقت اور گزرا۔ پھر 1857 کے میدانوں میں یہ پارٹی پوری قوت اور پورے قد کے ساتھ...

برداشت؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟

یہ کورس کا پہلا دن تھا۔ اس گروپ میں ہم دس بارہ افراد تھے۔ پہلے دن ہمیں کہا گیا کہ ایک کاغذ پر اپنی شخصیت کا جائزہ لیں‘ اور یہ کہ ہم دس میں سے اپنے آپ کو کتنے نمبر دیں گے۔ ہم میں سے کسی نے اپنے آپ کو دس میں سے نو نمبر دیے، کسی نے آٹھ اور کسی نے دس میں سے دس! آٹھ سے کم نمبر دینے پر کوئی نہ تیار ہوا۔ اس کے بعد کورس شروع ہوا۔ سات دن اور سات راتیں ہمیں خوب رگڑا دیا گیا۔ سونے کے لیے بس چند گھنٹے ملتے۔ ایک مشق، اس کے بعد ایک اور، پھر ایک اور، کبھی ایک کتاب دی جاتی اور کہا جاتا اس کے اتنے صفحات پڑھ کر آؤ۔ پھر مزید مشقیں! ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اصل شخصیت کا روپ دکھایا گیا۔ ایک ایک فرد کو کئی کئی بار اپنے بارے میں اپنے گروپ کی آرا سنوائی گئیں۔ سات دن کی لگاتار بے پناہ مشقت کے بعد ہمیں دوبارہ وہی کہا گیا کہ اپنی شخصیت کا جائزہ لو اور یہ کہ دس میں سے اپنے آپ کو ہم کتنے نمبر دیں گے۔ یقین کیجیے ہم میں سے کسی نے اپنے آپ کو تین نمبر دیے کسی نے چار۔ اپنے آپ کو پانچ یا چھ سے زیادہ نمبر دینے پر کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ گروپ کے ہر ممبر نے اپنی شخصیت کے کمزور پہلو صبر کے ساتھ سنے۔ ایسے ...

سلہٹ سے شنکیاری تک

پروفیسر اظہر وحید کے ہاں کھانا مزے کا ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے تک یہ حال تھا کہ اچھا بھلا باعزت کھانا کھاکر چائے سیاہ رنگ کی پیالیوں میں پینا پڑتی تھی۔ پروفیسر اپنے اصولوں کا سخت پابند ہے۔ ہفتے میں سات دن سیر کرتا ہے۔ چھ دن ورزش! ہر کام مقررہ وقت پر۔ مشکل ہی سے کسی دعوت میں جاتا ہے۔ خوشحالی اور مالی آسودگی کے باوجود‘ اپنا لباس خود استری کرتا ہے۔ اپنے کمرے کی صفائی خود کرتا ہے۔ اسےAbnormalityہی کہیے‘ کہ تیس سال سے زائد تعلیمی کیریئر میں شاید ہی کوئی پیریڈ اس نے چھوڑا ہو۔ہمارے ہاں شرفا ایسا نہیں کرتے۔ ایک پروفیسر صاحب تو شاگردوں کو مہینوں شکل نہیں دکھاتے تھے۔ پروفیسر اظہر اس لحا ظ سے انگریز واقع ہوا ہے۔ یہ اور بات کہ یہ انگریز‘ انگریزوں کے جانے کے بعد‘ چونیاں میں پیدا ہوا۔ ایک روایت کی رُو سے راجہ ٹوڈرمل بھی چونیاں ہی سے تھا۔ ایک بہت اچھے ظہرانے کے بعد‘ کالے رنگ کی پیالی میں چائے پینا ناقابلِ برداشت تھا۔ ایک دن میں نے اپنے گھر سے دو سفید رنگ کی پیالیاں اٹھائیں اور اس کے پاس لے گیا۔ شکریہ تو وہ خیر کیا ادا کرتا‘ اس نے عجیب نکتہ نکالا کہ دو پیالیوں کے بجائے پورا سَیٹ ہی لے آتے۔ اس نکتے ک...

آپ ہنساتے بہت ہیں !

شام کے کھانے میں کھچڑی اور دہی دیا گیا مگر قے ہو گئی۔ مریض کی حالت یہ تھی کہ سادہ سے سادہ خوراک بھی ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ تیماردار خوراک بدل بدل کر دے رہے تھے۔ ناشتے میں کبھی دلیا کبھی ٹوسٹ۔ دوپہر کے کھانے میں چپاتی اور شوربہ۔ یہ بھی ہضم نہ ہوتا تو اُبلے ہوئے چاول اور دال کھلائی جاتی۔ مگر مریض کچھ بھی نہ ہضم کر سکتا۔ تیماردار احمق تھے یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم! سارا زور خوراک بدلنے پر تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مسئلہ کھانے پینے کا ہے۔ ضرور کوئی ایسی غذا ہے جو ہم آزما نہیں رہے! جیسے ہی وہ غذا دریافت ہو گئی‘ مریض تندرست ہو جائے گا۔ دوسرے ملکوں کے کھانے بھی آزمائے گئے۔ کبھی چینی‘ کبھی اطالوی‘ کبھی لبنانی‘ کبھی مراکشی‘ کبھی جنوبی ہند کا دوسہ اور چٹنیاں! مگر بات نہ بنی۔ پھر ایک سیانا آیا! اس نے کہا بے وقوفو! عقل کے اندھو! خوراک کا مسئلہ نہیں! مسئلہ مریض کے معدے میں ہے۔ معدے کا علاج کرو! معدہ ٹھیک ہو گیا تو جو غذا بھی دو گے‘ راس آجائے گی! یہ جو بحث چل رہی ہے کہ صدارتی نظامِ حکومت بہتر ہے یا پارلیمانی تو یہ بالکل وہی بات ہے کہ خرابی معدے میں ہے اورمعدے کا علاج کرانے کے بجائے خوراک بدل بدل...

ریاست مدینہ میں کیا ہوتا تھا؟

تزک و احتشام اس قدر تھا اور شان و شوکت اتنی تھی کہ اہلِ مدینہ کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں! بنو غسّان کا بادشاہ جبلہ بن ایہم مدینہ میں داخل ہوا تو اس کے ہمراہ پانچ سو سوار تھے۔ لباس ان کے ریشمی تھے۔ گَلوں میں سونے کے ہار تھے۔ جبلہ کے سر پر شاہانہ تاج تھا۔ گھوڑے بہترین نسل کے تھے۔ ایسا طمطراق شہر میں کبھی کسی نے دیکھا نہیں تھا! مسلمانوں نے دمشق کے گرد و نواح پر قبضہ کیا تو جبلہ کے محلات اور جاگیریں اسے داغ مفارقت دے گئیں۔ وہ اس علاقے میں ہرقل کا دست راست تھا مگر وقت اپنا رنگ بدل رہا تھا۔ تاریخ نیا صفحہ الٹ رہی تھی۔ جبلہ کی دُور رس نگاہوں نے دیکھ لیا کہ رومن ایمپائر مسلمانوں کے سامنے ٹھہر نہیں پائے گی؛ چنانچہ اس نے اپنے قبیلے کے ہمراہ اسلام قبول کر لیا۔ پھر اس کے بعد دربارِ خلافت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی اور یوں مدینہ منورہ میں وارد ہوا۔ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ اس سے شفقت سے پیش آئے۔ کچھ دن کے بعد امیرالمومنین اور مسلمانوں کی حج کے لیے روانگی تھی۔ جبلہ بھی ساتھ تھا۔ طواف کے دوران اس کے تہمد پر ایک بَدّو کا پاؤں آ گیا۔ جبلہ غصے سے پاگل ہو گیا۔ اس نے پلٹ کر بدو کو مُکا ما...

ہم باعزت ملک کب بنیں گے ؟

نوواک جوکو وِچ‘ شہرِ سفید بلغراد میں 1987 ء میں پیدا ہوا۔باپ سربیا کا اور ماں کروشیا کی تھی۔ سربیا اور کروشیا‘ دونوں یوگو سلاویہ مرحوم کے حصے تھے۔ یوگو سلاویہ کیسے ٹوٹا اور کیسے نصف درجن سے زیادہ ریاستوں میں بٹا‘ یہ ایک الگ کہانی ہے‘ دلچسپ بھی اور خونچکاں بھی۔ جوکووچ نے چار سال کی عمر میں ٹینس کھیلنا شروع کر دیا۔بارہ سال کاہوا تو جرمنی کی ایک معروف ٹینس اکادمی میں بھیج دیا گیا جہاں چار سال تک اسے ٹینس کھیلنے کی تربیت دی گئی۔چودہ سال کی عمر میں بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور یورپ کے سنگل‘ ڈبل اور ٹیم مقابلے جیتنے لگا۔ اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔آج وہ ٹینس کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ہے اور نمبر ون کھلاڑی۔ کوئی ایسا مقابلہ نہیں جو اس نے جیتا نہ ہو۔ جن لوگوں کو اس کھیل میں دلچسپی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ فرینچ اوپن‘ آسٹریلیا اوپن اور یو ایس اے اوپن کتنے عالی شان مقابلے ہیں جو جوکو وچ مسلسل جیتتا چلا آیا ہے۔ اب ہم اصل قصے کی طرف آتے ہیں۔ جنوری 2022 ء میں‘ یعنی ماہِ رواں میں‘ آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ٹینس کے عالمی مقابلے '' آسٹریلیا اوپن‘‘ ہو رہے ہیں۔ دنیا ...

ہم پالکی سے اُتر ہی نہیں رہے

یہ اشتہار امریکی حکومت کی طرف سے ایک کثیر الاشاعت امریکی اخبار میں دیا گیا  '' امریکہ کے ایک سرکاری ادارے کو خاکروبوں کی ضرورت ہے۔صرف مسلمان یا غیر مسیحی درخواست دیں‘‘۔ ایسا نہیں ہوا۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر فی الواقع ایسا ہو جائے تو آپ پسند کریں گے ؟ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کا کیا ردِ عمل ہو گا؟جو امریکی غیر مسلم ہیں‘ کیا وہ اس پر خاموش رہیں گے ؟  ہمارے ہاں تو ایسا ہو رہا ہے۔ جانے کب سے ہو رہا ہے۔ ہماری وزارتیں اور سرکاری محکمے خاکروبوں کی خالی اسامیاں مشتہر کرتے ہیں تو اشتہار میں صراحت اور التزام کے ساتھ بتاتے ہیں کہ درخواست دینے والے غیر مسلم ہونے چاہئیں یا مسیحی! بھلا ہو کہ آخر کار اسلام آباد کی عدالتِ عظمیٰ نے مختلف وزارتوں کو اس ضمن میں نوٹس جاری کئے ہیں اور دو ہفتوں میں جواب طلب کئے ہیں۔ یہ ازخود نوٹس نہیں تھا۔ پاکستان یونائٹڈ کرسچین موومنٹ اور ایک اور تنظیم ''سنٹر فار رُول آف لا‘‘ نے عدالت میں درخواست دائر کی اور فریاد کی کہ اس طرزِعمل سے مذہبی تعصب کی فضا پیدا ہوتی ہے اور مسیحی اور غیر مسلم پاکستانیوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے۔ یہ وزارتیں اور یہ محکمے عدالت...

جب تفریح موت بن جائے

مری کے   اندوہناک  معاملے  میں بظاہر تین فریق ہیں۔ سیاح، اہلِ مری اور حکومت۔ مگر ذرا غور کیجیے تو سیاح اور اہلِ مری ایک ہی کیٹیگری سے تعلق  رکھتے ہیں۔ دونوں عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ہر دو  کا تعلق مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے ہے۔  یہ بات ماننا پڑے گی کہ  ہر جگہ اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔مقامی لوگوں نے مدد بھی کی۔مگر انسان کی فطرت اور میڈیا کی فطرت میں جو خاصیت مشترک ہے وہ یہ ہے کہ منفی پہلو کو زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے ۔ اس کی تشہیر خوب ہوتی ہے۔ سن کر اور پڑھ کر  جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے اور متاثرین کی حالت زار کا سن کر ذہن پر غم کے بادل چھا جاتے ہیں۔  مری کے کچھ کاروباری حضرات کا رویہ یقینا”  ناقابل رشک رہا۔ کمروں کے کرائے اور اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں   ظلم کی حد تک  بڑھا دیں۔  مجبور مسافروں کا استحصال کیا۔لڑکے بالے گاڑیوں کو دھکا لگانے کے بھی دام لیتے رہے۔ ایک خاندان کو اپنی خاتون  کے زیور دے کر کمرہ حاصل کرنا پڑا۔  ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔تاہم ایک سوال  پیدا ہوتا ہے کہ کیا ...

خود وفاتیے

''تھوڑی دیر بعد مردہ گاڑی میرے دروازے تک آپہنچی۔ایک بھورے رنگ کا گھوڑا جُتا ہوا تھا۔ گھوڑے اور اس کے مالک کو موقع کی سنجیدگی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ کوچوان پان چباتا ہوا آرام سے بیٹھا تھا اور بھیڑ کو دیکھ رہا تھا۔ اندازہ لگا رہا تھا کہ ان میں سے کسی سے بخشش وغیرہ ملنے کی امید ہے کہ نہیں ؟لوگوں کو زیادہ دیر تک رکنا نہیں پڑا۔میری لاش کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر نیچے لایا گیا اور مردہ گاڑی میں رکھ دیا گیا۔کچھ تھوڑے سے پھول بھی ارتھی کے اوپر ڈال دیے گئے۔ اب جلوس کو چ کے لیے تیار تھا‘‘۔ یہ اقتباس خوشونت سنگھ کے اُس مضمون سے ہے جو اس نے اپنی وفات سے پہلے اپنی وفات پر لکھا تھا۔ ایسے مضمون کو '' خود وفاتیہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ عقیل عباس جعفری نے ایسے مضامین‘ یعنی '' خود وفاتیے‘‘ جمع کیے ہیں اور کتاب کی شکل میں شائع کر دیے ہیں۔ کتاب کا عنوان ہے ''اپنی یاد میں‘‘ غالباً اس موضوع پر اردو میں یہ پہلی کتاب ہے۔ عطا الحق قاسمی نے درست کہا ہے کہ عقیل عباس جعفری خاموش طبع ہیں اور زیادہ باتیں نہیں کرتے۔ رئیس امروہی نے شاید ایسے لوگوں کے بارے ہی میں کہا تھا ؎ خاموش زندگی جو ب...

حکومتیں کاروبار کر سکتیں تو ………

یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے۔ کچھ مہمان ایبٹ آباد سے آرہے تھے۔ آمد میں تاخیر ہوئی تو فون کر کے پوچھا کہ کہاں پہنچے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی صدر میں ہیں۔ پوچھا کہ سری نگر ہائی وے سے کیوں نہیں آرہے؟ یہ سری نگر ہائی وے وہی ہے جو پہلے کشمیر ہائی وے کہلاتی تھی۔ موجودہ حکومت مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں آئینی طور پر ضم ہونے سے تو نہ روک سکی، ہاں وہاں کے لوگوں پر احسان کرتے ہوئے اس شاہراہ کا نام سری نگر ہائی وے رکھ دیا۔ بہرطور، مہمانوں نے بتایا کہ سری نگر ہائی وے بند ہے کیونکہ ایک یونیورسٹی کے طلبہ آپس میں برسر پیکار ہیں اور علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ میڈیا نے اس جنگ کی جو تفصیل بتائی اس کے مطابق یہ لڑائی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ کے دو گروہوں میں ہوئی جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ یونیورسٹی کے ریکٹر نے اس لڑائی کی وجہ ایک اور لڑائی کو قرار دیا۔ یہ ''ایک اور‘‘ لڑائی قائد اعظم یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے قائد اعظم یونیورسٹی کا سربراہ اپنے ہاں ہونے والی لڑائی کو پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والی ''ایک اور‘‘ لڑائی کا نتیجہ قرار دیتا! اس سے اُس اعرابی ک...

مرا ہاتھ دیکھ برہمنا!

پہلی بات تو یہ ہے اگر نئے سال میں سب کچھ بدل جاتا ہے تو دنیا میں کئی نئے سال شروع ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے شروع ہونے کی تاریخ مختلف ہے۔ پنجابی سال وساکھ سے شروع ہوتا ہے۔ قمری سال محرم سے آغاز ہوتا ہے۔ ایرانی سال کی ابتدا فروردین سے ہوتی ہے۔ ہمارا مالی سال جولائی سے جون تک ہے۔ اسی طرح دنیا میں رائج کئی کیلنڈر اور بھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھے دن سال میں کئی بار، کسی بھی ماہ شروع ہو سکتے ہیں۔ یہ جو ہم امیدیں لگا بیٹھتے ہیں کہ نئے سال کا سورج مسرتیں لائے گا تو یہ ایک عجیب سا غیر منطقی عمل ہے۔ آخر راتوں رات اتنی بڑی تبدیلی کیسے رونما ہو سکتی ہے؟ کون سا ایسا سم سم نئے سال میں کھل جائے گا جو جانے والے سال کے دوران بند تھا؟ ہم، بطور قوم ایسے نہیں ہیں جو راتوں رات سدھر جائیں۔ ارے بھائی! ہم تو صدیوں کا معاملہ ہیں! کیا نئے سال میں ہمارے صوبے کے وزیر اعلیٰ اس منصب کے اہل ہو جائیں گے؟ تحریک انصاف کی حکومت جو سالہا سال آزمائے ہوئے پرانے، زنگ آلود، چہرے لے کر آئی ہے، کیا نئے سال میں ہمیں اُن چہروں سے نجات مل جائے گی؟ ایک اتھارٹی کا سربراہ لگانے میں جو چھ سو درخواست دہندگان اور اٹھارہ شارٹ لسٹڈ امیدوا...

ایک سو بتیس برسوں پر پھیلی ہوئی کہانی

جہلم کا دریا پار کیا تو سامنے سرائے عالمگیر کا قصبہ تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں کھاریاں آگیا۔ یہاں سے ہم دائیں طرف مُڑ گئے۔ یہ وہ سڑک ہے جو ڈنگہ کو جاتی ہے۔ معروف مورخ ڈاکٹر صفدر محمود، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، اصلاً ڈنگہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر ہماری منزل ڈنگہ نہیں تھا۔ ہم نے ڈنگہ سے پہلے ایک گاؤں میں جانا تھا۔ پرانے دوست منظور صاحب ساتھ تھے۔ منظور صاحب دینہ کے ہیں۔ وہ ہماری رہبری کر رہے تھے۔ میجر طارق جاوید ملک بھی ہمراہ تھے۔ ہم کھاریاں ڈنگہ روڈ پر واقع اس بستی میں کیوں جا رہے تھے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایک سو بتیس سال پیچھے جانا پڑے گا۔ یہ 1890 کا زمانہ تھا جب اکیس سالہ فتح دین ایک بحری جہاز سے اترا۔ سامنے پرتھ تھا۔ جنوب مغربی آسٹریلیا کا سب سے بڑا شہر! تب برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جنوبی افریقہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک اور آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک ملکہ کی حکمرانی تھی۔ سونے کی چڑیا، ہندوستان پر بھی انہی کا قبضہ تھا۔ آج کا ملائیشیا بھی انہی کے پاس تھا۔ ہانگ کانگ، زنجیبار اور مالٹا پر بھی انہی کا اختیار تھا۔ اس وسیع و عریض انگریزی سلطنت کا حصہ ہونے ...